ساواک کا آیت اللہ سید مصطفی خمینی کو گرفتار کرنے کا مقصد کیا تھا؟

فاطمہ دفتری
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-21


امام خمینی (رہ) کی ترکی جلاوطنی اور ۲جنوری کو اُن کے فرزند آیت اللہ مصطفی خمینی کی گرفتاری  سن ۱۹۶۵ء کے اہم اور  خبرساز  واقعات تھے جو  ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۴ء  کو امریکیوں کو قانون سے استثنیٰ قرار دینے والے بل کی منظوری کے خلاف امام تقریر کی وجہ سے عمل میں آئے۔

اس تقریر کے بعد، ۲ جنوری  والے دن صبح سویرے  فوجی کمانڈوز  نے امام کے گھر میں داخل ہوکر اُنہیں گرفتار کرلیا اور پھر انہیں تہران اور وہاں سے انقرہ منتقل کردیا۔ اُسی دن صبح دس بجے جناب مصطفی کو بھی جو  آیت اللہ مرعشی نجفی کی  دعوت پر اُن کے گھر گئے ہوئے تھے، بازار بند کروانے کے جرم میں گرفتار کرکے انہیں پہلے قم کے تھانے  اور پھر تہران کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کے دفتر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اُسی رات دس بجے جناب مصطفی کو  قزل قلعہ نامی زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ (۱)

جناب مصطفی نے اپنی گرفتاری کے دوران ترکی میں امام خمینی کے پاس جانے کی درخواست کے علاوہ کوئی درخواست نہیں کی۔ اُن کی اس درخواست کا مقصد  بھی امام سے ملنا  اور اُن کی صحت کی طرف س مطمئن ہونا تھا۔ لہذا انھوں نے اس بارے میں ہر طرح کی کوشش کی۔ساواک کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے گرفتاری کے دوران اس بارے میں علماء اور مراجع کرام، خاص طور سے آیت اللہ خوانساری سے بھی مدد طلب کی ہے۔ (۲)

بالآخر پہلوی حکومت جو  اس بات سے خوفزدہ تھی کہ علماء رمضان کے مہینے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، منبروں سے حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کریں گے، اُس نے جناب مصطفی کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کرنل مولوی نے جیل میں جناب مصطفی کو اس فیصلہ سے آگاہ کیا۔ لیکن انہیں اپنے سفر کی تیاری کیلئے خاموشی سے قم میں چند دن رہنے کی اجازت دی گئی۔ لہذا جناب مصطفی ۲۹ دسمبر ۱۹۶۴ء کو عارضی طور پر آزاد  ہوئے۔ فرزند امام کی آزادی کی خبر سنتے ہی بہت سے لوگ اُن کے استقبال کیلئے  قم کی شاہراہ ارم پر جمع ہوگئے اور طلبہ اور علماء کرام جناب مصطفی خمینی سے ملنے گئے۔

آیت اللہ سید مصطفی خمینی نے علماء اور مراجع کرام سے ملاقات کے دوران اُنہیں  کرنل مولوی سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بتایا، لیکن اکثر علماء نے اُن کے ترکی جانے کی مخالفت کی اور وہ معتقد تھے کہ امام کی غیر موجودگی میں اُن کی تحریک کے حامی اپنی حمایت کرنے والے سے محروم ہوجائیں گے اور پہلوی  حکومت بھی یہی چاہتی ہے۔ علماء کی مخالفت اور نمائندہ امام سید فضل اللہ خوانساری کی طرف سے، جنہوں نے کچھ دنوں پہلے ترکی جاکر امام سے ملاقات کی تھی ،  امام کی صحت و سلامتی اور حالات کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد جناب مصطفی نے ترکی جانے کا ارادہ بدل دیا۔ (۳)

اس فیصلے سے پہلوی حکومت  کے غصے کا لاوا جوش میں آیا اور  ساواک نے جب دیکھا کہ وہ انہیں زبردستی اور دھمکیوں سے راضی نہیں کرسکتی، اُس نے ۲ جنوری والے دن جناب مصطفی کو گرفتار کرلیا۔

اُس رات انہیں صدر کلب میں رکھا گیا اور اگلے دن شام ساڑھے پانچ بجے اُنہیں ہوائی جہاز کے ذریعے استنبول منتقل کردیا۔ (۴) جناب مصطفی کو لے جانے والا ہوائی جہاز پہلے استنبول میں داخل ہوا  اور اس ایئرپورٹ پر موجود ساواک کے نمائندے نے اُنہیں برسا کا ٹکٹ تھمایا۔برسا میں بھی ترکی کے سیکیورٹی ادارے کا نمائندہ جو امام کا میزبان تھا،  وہ جناب مصطفی کا استقبال کرنے آیا  اور اُنہیں  امام کی رہائش گاہ لے گیا۔ امام خمینی (رہ) نے برسا میں سید مصطفیٰ سے پہلی ملاقات میں سب سے پہلے یہ سوال کیا: "تم اپنی مرضی سے آئے ہو یا تمہیں لایا گیا ہے؟" انھوں نے جواب دیا  کہ "مجھے لایا گیا ہے" تو امام نے فرمایا: "اگر تم اپنی مرضی سے آئے ہوتے تو میں اسی وقت تمہیں واپس بھیج دیتا۔"

جناب مصطفی کے ترکی جلاوطن ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی خبر کی طرح پھیل گئی جو قم، نجف، کربلا اور کاظمین کے دینی مدارس کیلئے پریشانی کا باعث بنی۔ ساواک نے اس بارے میں رپورٹ تیار کی: "آخری اطلاعات کے مطابق قم کے علماء کرام  غصے اور کشیدگی کا شکار ہیں اور انھوں تہران کے علماء کو خطوط لکھے ہیں  کہ ہم نے جتنی بھی تحقیق کی ہمیں آیت اللہ خمینی کے فرزند کی کوئی خبر نہیں اور وہ ترکی میں بھی نظر نہیں آئے اور قم کے علماء میں یہ فکر راسخ  ہوگئی کہ کہیں انھیں صفحہ ہستی نہ مٹا دیا گیا ہو۔"

بقول ساواک اس سلسلے میں، قم کے چند برجستہ علماء نے مراجع کرام سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومت سے کہیں  کہ وہ فرزند امام کے جلاوطنی کی صحیح جگہ کے بارے میں بتائے۔  اسی وجہ سے شاہ کے خصوصی آفس کے انچارج ہیراڈ کی آیت آملی سے ملاقات میں کہا گیا کہ فرزند امام کے جلا وطنی کی جگہ بتائی جائے تاکہ علماء کرام کو اُن کی صحت و سلامتی کا یقین ہوجائے اور مزید کشیدگی نہ پھیلے۔

اس مدت میں جناب مصطفی برسا میں امام کے پاس تھے۔   حجۃ الاسلام و المسلمین محمد رضا ناصری نے جناب مصطفی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے برسا میں اپنی اور امام کی کارکردگی کے بارے میں بتایا:" جب امام کتاب تحریر الوسیلہ لکھ رہے تھے تو اُن سے اُس کے مسائل کےبارے میں مباحثہ کرتے تھے۔ جناب مصطفی نے بتایا: "اُس وقت بحث کرتے وقت  ہماری گفتگو  اس حد تک بلند ہوجاتی کہ ساواکی آکر کہنے لگتے: جھگڑا نہ کریں،  باپ بیٹے آپس میں جھگڑا نہیں کرتے۔ جب ہماری بحث ختم ہوجاتی تو ہم ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔" (۵)

لیکن ترکی میں چند مہینے رہنے کے بعد، جناب مصطفی کا دوبارہ ایران واپس جانے کا موضوع اٹھا۔امام خمینی (رہ) کے ایران سے دور ہونے، جلاوطنی کے زمانے میں  اُن کی خالی جگہ پر  کرنے کیلئے جناب مصطفی کی منفرد خصوصیات اور اسلامی تحریک کو زندہ رکھنے کی ضرورت کی وجہ سے اُن کا ایران واپس آنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ اسی وجہ سے جناب مصطفی نے اس مسئلے کو سمجھتے ہوئے امام کی اجازت سے اور اس بات پر توجہ دیتے ہوئے کہ اُنہیں ترکی میں بہت کم وقت رہنا تھا، برسا میں سیکیورٹی ادارے کےانچارج  کے ذریعے ساواک کے عہدیداروں کو اپنے ایران واپس جانے پر راضی کرنے کی کوشش کی  اور  ۱۷ فروری ۱۹۶۵ کو  ایک درخواست کی صورت میں ساواک سے ایران واپس جانے کی اجازت چاہی۔  ترکی میں آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی کوششوں  کے دوران، ایران میں بھی علماء کرام اپنی کوششوں میں لگے رہے۔ جیسا کہ قم کی ساواک کے بقول، آیت اللہ مرعشی نجفی نے اُس وقت کے صدر کو ایک خط لکھ کر درخواست کی کہ امام کو رہا کیا  جائےیا پھر دوسری صورت میں جناب سید مصطفی کو رہا کیا جائے اور انہیں ترکی اور ایران رفت و آمد کی اجازت دی جائے۔ (۶)

اس درخواست کے بعد ساواک کے انچارج نے  اندرونی دباؤ اور برسا میں سیکیورٹی ادارے کے انچارج سے خط و کتابت اور گفتگو کی وجہ سے آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی ایران آمد کو بلا مانع قرار دیدیا، لیکن دھمکی دی کہ ساواک کے ممنوع کردہ  روابط کی انجام دہی کی صورت میں، انہیں ایران کے جنوبی علاقے میں قید کردیا جائے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ لوگ مشکل شرائط  کے ذریعے اُنہیں واپس ایران آنے سے روکنا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے ۲ اپریل ۱۹۶۵ء کو دوسری شرائط رکھی گئیں اور جناب مصطفی سے کہا گیا کہ تعہد نامہ لکھ کر دیں کہ وہ کسی قسم کی مخالف سیاسی سرگرمی اور اجتماع میں شرکت نہیں کریں گے اور اُنہیں قم کے بجائے خمین میں رہنا  پڑے گا۔

اس مدت میں امام کے طرفداروں اور ایران میں جہدوجہد کرنے والے افراد اور وہ لوگ جو مختلف ممالک میں امام کی تحریک کیلئے سرگرم تھے، انھوں نے متعدد خطوط، ٹیلی گرافس اور تحریروں کی صورت میں ترکی حکومت کے عہدیداروں اور اداروں  جیسے اس ملک کے وزیر اعظم، حکومت اور پارلیمنٹ  پر زور ڈالا اور اسی طرح مختلف ممالک میں ترکی کے سفارت خانوں پر بار بار رجوع کرکے امام اور اُن کے فرزند  کی جلا وطنی کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی حکومت پر اعتراض کیا۔ اس طرح ترکی کی حکومت وقت نے امام خمینی (رہ) کے وجود سے خطرہ محسوس کیا اور پہلوی حکومت جو خود  اندرونی اور بیرونی مذہبی مراکز اور ملک سے باہر اسٹوڈنٹس کے دباؤ میں تھی، پر دباؤ دالا کہ وہ امام کو کہیں اور منتقل کریں۔ اب ایران کی حکومت وقت کے پاس  دو راستے تھے: ایک یہ کہ امام اور  اُن کے فرزند کو ملک واپس بلا لیا جائے جو کہ حکومت کی مصلحت میں نہیں تھا کیونکہ پہلوی حکومت کے خاتمے کے لئے دوبارہ جدوجہد شروع ہوجاتی اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ انہیں عراق جلا وطن کردیا جائے کہ بالآخر انہیں عراق کے شہر نجف میں منتقل کرکے جلاوطن کرنے کا حکم صادر کیا گیا اور  اس طرح امام خمینی (رہ) اور اُن کے فرزند ۴ اکتوبر ۱۹۶۵ء والے دن ترکی سے ہوائی جہاز کے ذریعے بغداد منتقل ہوگئے۔ (۷)

 

حوالہ جات:

۱۔ امام در آئینہ اسناد: پولیس کی اسناد کے مطابق امام خمینی (رہ) کی جہدوجہد کی تحقیق، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ)، تہران: ۲۰۰۴، ج۲، ص ۱۵۷

۲۔ امید اسلام: شہید آیت اللہ سید مصطفی خمینی  ساواک کی اسناد کے مطابق، تہران: تاریخی اسناد کی تحقیق کا مرکز، ۲۰۰۹، ص ۲۱

۳۔ ایضاً، ص ۲۳

۴۔  سید علی اکبر محتشمی پور کی یادداشت، تہران: انقلاب اسلامی کی ادیبات کے دفتر میں زبانی تاریخ کا یونٹ، ۱۹۹۷، ص ۴۳۰

۵۔ امید اسلام، ص ۲۳

۶۔ ایضاً، ص ۲۵

۷۔ ساواک کے مطابق اسناد کے آئینے میں ،  امام خمینی (رہ) کے دوستوں کی کاوشوں کی تحقیق ، تہران؛ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ)، ۲۰۱۴، ج۵، ص ۹



 
صارفین کی تعداد: 4263


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔