لیفٹیننٹ کرنل کیپٹن سعید کیوان شکوہی "شہید صفری" آپریشن کے بارے میں بتاتے ہیں

وہ یادگار لمحات جب رینجرز نے دشمن کے آئل ٹرمینلز کو تباہ کردیا

مریم اسدی جعفری
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-12-20


ایران، عراق آٹھ سالہ جنگ میں تیل اور کھلے سمندر تک دسترسی حاصل کرنا ایران اور عراق کی سیاسی اور معاشی ضرورت تھی۔ دونوں طرف سے سمندری راستوں کے ذریعےتیل نکالنے اور اُسے برآمد کرنے کیلئے پوری کوشش کی جاتی۔ دوسری طرف سے، ملک کے جنوبی سمندر پر تسلط اور  صدام کی بحری افواج کو شکست دینا بہت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ ایسے میں ۵ نومبر ۱۹۸۰ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کی بحری افواج شہید صفری آپریشن کے ذریعے دشمن کے دو بڑے آئل ٹرمینلز کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کیپٹن سعید کیوان شکوہی جو اس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے افسروں اور اسی طرح انھوں نے مروارید آپریشن میں اہم کردار ادا کیا،  سمندر میں ہونے والے شہید صفری آپریشن میں اپنے واقعات ہمارے رپورٹر کو بیان کرتے ہیں۔

 

جب ایران پر مسلط کردہ جنگ کا آغاز ہوا تو، آپ کہاں تھے؟

جب جنگ شروع ہوئی تو میں تہران میں تھا اور میرا ارادہ یہ تھا کہ بحریہ سے ریٹائرمنٹ لے لوں۔جو لوگ فوج میں نظم و ضبط کے قائل ہیں اور  مختلف عہدوں کو فوج کی بقاء کیلئے حیاتی پہلو سمجھتے ہیں، اُن کیلئے شرائط زیادہ مناسب نہیں تھے۔ لہذا میں تہران منتقل ہوگیا اور ارادہ کیا کہ ریٹائرمنٹ لیکر ایک طرف ہوجاؤں۔ ایسے حالات تھے کہ جنگ شروع ہوگئی اور بعثی دشمن  کے، ایئربیسز، ہوائی اڈوں، خاص طور سے مہرآباد ایئرپورٹ پر فضائی حملہ، میرے دوبارہ کام کرنے کا باعث بنا۔ لہذا میں نے محاذ پر جانے کیلئے اپنا نام لکھوایا۔ مجھے قبول کرلیا گیا اور میں نے جنگی کشتی کے ماہر کے عنوان سے اپنا کام شروع کردیا۔ جنگ کے پہلے مہینے تک میں بندر عباس میں تھا۔ وہاں بھاری جنگی کشتیوں پر تکنیکی افسروں کے ساتھ سمندر میں جاتا، لیکن اُسی پہلے مہینے میں دو مرتبہ سمندر میں جانے کے بعد، میں نے احساس کیا کہ جنگ کے اثرات بندر عباس تک نہیں پہنچے ہیں اور دشمن میں بھی یہاں تک پہنچنے کی سکت نہیں ہے۔ میں نے بوشہر جانے کی درخواست دی؛ ایسی جگہ جو میرے خیال سے جنگی علاقے سے زیادہ نزدیک تھی۔ بوشہر میں مجھے  اسپیشل آپریشن کیلئے چنا گیا ۔

 

اسپیشل آپریشن کیا تھے؟

ایسے غیر متعارف آپریشنوں کا مجموعہ جو اداروں کی حدود سے باہر ہوتا ہے۔ دشمن کی اطلاعات جمع کرنا، اُس کیلئے مشکلات کھڑی کرنا، دشمن پر کارآمد حملہ۔ اسپیشل آپریشن کا ادارہ، ۴۲۱ ٹاسک فورس کے ادارے میں تھا کہ جو تمام سمندری محاذوں پر جنگ کو لیڈ کر رہا تھا یعنی پورے خلیج فارس یا جہاں بھی سمندری جنگ ممکن ہو وہاں دشمن سے لڑے۔ اس ٹیم کی کمانڈ ۴۲۱ ٹاسک فورس کی زیر نظر اور کیپٹن مصطفی مدنی نژاد کے ہاتھ میں تھی اور اسی میں اسپیشل آپریشن کی ٹیم موجود تھی۔ اس ٹاسک فورس کے قوانین و ضوابط اور انکو چلانے والا دستور العمل پہلے سے تحریر شدہ تھا۔ اسپیشل آپریشن کی ٹیم بحریہ کے ان افراد پر مشتمل تھی جو خود سے آگے آئے تھے۔ وہاں جو نہیں آنا چاہتا تھا اُسے زبردستی نہیں لایا جاتا تھا۔ اس طرح، غیر متعارف افراد سے مل کرایک ٹیم تیار ہوئی جو کام کرنے میں آزاد تھی ۔

 

شہید صفری آپریشن میں اسپیشل ٹیم کو لیڈ کرنے کی ذمہ داری آپ کی تھی؟ کیا جنگ میں یہ آپ کا پہلا تجربہ تھا؟

ابھی یہ نہ کہیں کہ میں وہاں اسپیشل آپریشن ٹیم کا کمانڈر تھا۔ چونکہ جب میں اسپیشل آپریشن ٹیم میں داخل ہوا تو میں ٹیم کا ایک رکن تھا۔ زینہ بہ زینہ ایسے واقعات پیش آئے کہ مروارید آپریشن میں ٹیم کی مسئولیت میرے ذمہ تھی۔ جنگی خلاقیت کو خاص طور سے اسپیشل آپریشن میں، سابقہ تجربہ کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے اس سے پہلے کوئی جنگ نہیں کی تھی کہ جس میں ہم نے جنگ کی خاص لازمی مہارتوں کو حاصل کرلیا ہو۔ لیکن بہرحال، فوجی آپریشن کی ثقافت ایک اصول کے تحت ہے کہ جس کے نتیجہ میں ان مختلف خلاقیتوں کا اس اصول میں شامل ہونا، وہی چیز ہے جس کا نتیجہ آپ نے آٹھ سالہ جنگ میں دیکھا کہ جنگی سامان، وسائل نہ ہونے اور پورے سیاسی و نظامی محاصرے کے باوجود کامیاب ہوئے۔ شہید صفری جارحانہ آپریشن بھی اسی وجہ سے کامیاب ہوا۔

 

شہید صفری آپریشن کی فارمیشن کے بارے میں بتائیے

دراصل شہید صفری آپریشن جو ۵ نومبر ۱۹۸۰ء کو شروع ہوا، ایرانی فورسز کی ایسے دشمن کے مقابلے میں یہ پہلی جارحانہ مؤثر حرکت تھی جس نے انقلاب کے دنوں کی خاص شرائط سے استفادہ کرتے ہوئے ہم پر غافلگیرانہ حملہ کیا تھا اور ایران کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اور جہاں بھی جنگ ہورہی تھی، وہ دشمن کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے ہو رہی تھی۔ میں نے خود، اسے "سمندری  گوریلوں کا آپریشن" کا نام دیا۔  کیونکہ اُس وقت کوئی خاص نام نہیں تھا اور میری نظر میں اس آپریشن کو سمندری گوریلہ کاروائی کہا جاسکتا تھا۔ سمندری گوریلے بھی ایک اصطلاح ہے جو اُس زمانے میں رائج نہیں تھی اور آج بھی اُس طرح سے نہیں ہے۔  لیکن حقیقت میں ایک غیر مرسوم آپریشن ہے  جس کی اپنی خاص شرائط ہوتی ہیں  او ر اُسے شہید صفری آپریشن میں مشخص کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تاریخ میں لکھی جانے والی  شہید صفری آپریشن کی صورت میں پہلی برتری، یہ  ایرانی افواج کی دشمن پر پہلی موثر جارحیت تھی۔

 

اس سمندری آپریشن کی پلاننگ میں کونسی چیزیں مؤثر تھیں؟

جنگ کے شروع ہونے سے اس فورس کے بننے تک، اُس وقت ۴۲۱ ٹاسک فورس کے کمانڈر  کی فکر کا صحیح تشخیص دینا تھا کہ سمندری محاذ پر کامیابی کیلئے ہمارے سامنے دشمن کے دو اساسی قلعے تھے۔ یہ تیل برآمد کرنے کے دو بڑے ٹرمینلز اور  فولاد سے زیادہ سخت اور مستحکم تھے۔ البکر اور العمیہ قلعے نظامی لحاظ سے اسٹرٹیجک پوائنٹ پر  تھے، ایک طرح سے سمندر میں دشمن کے قلعے تھے۔ ایسے قلعے کہ جن کے پیچھے دشمن مستقر ہوجاتا اور ان قلعوں سے نکل کر  ہمارے لئے  بہت سی مشکلات کھڑی کرسکتا تھا۔ اگر شہید صفری اور  مروارید آپریشن رونما نہیں ہوتے تو حتماً جنگ آٹھ سال طولانی نہ ہوتی اور ہمیں اس جنگ میں فاتح کا عنوان نصیب نہیں ہوتا۔  ہمارے مواصلاتی نظام کو دشمن سے شدید خطرہ تھا اور اگر جمہوری اسلامی ایران کی بحریہ، عراقی بحریہ کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی، وہ ایک طرف سے ہمارے آئل ایکسپورٹ پر رکاوٹ کھڑی کرتے  اور دوسری طرف سے ملک کی اصلی ضروریات کی درآمدات میں رکاوٹ ڈالتے؛ خرمشھر پر قبضے کے بعد ہمارے پاس جو بندرگاہ تھی وہ صرف بندرگاہ امامؒ تھی۔ ہمیں یاد رہے کہ دشمن کے پاس، میزائل فائر کرنے والی ۱۲ کشتیاں تھیں اور ہر کشتی میں ۴ SX میزائل اور ۴۰۰  SX کلنگ میزائل تھے۔ اگر یہ فائر پلیٹیں اور میزائل مار کشتیاں خلیج فارس تک پہنچ جاتیں، یقینی طور پر جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا اور زیادہ احتمال یہ تھا  کہ ہم جبری مصلحت کا شکار ہوجائیں  اور ہمارے اہم ترین شہروں میں دشمن کا قبضہ باقی رہے۔ شہید صفری  اور پیکان آپریشن نے آگے بڑھنے کیلئے ایک سیڑھی  کا کام کیا جو ۲۸ نومبر ۱۹۸۰ء کو خلیج فارس واٹر وے، بندرگاہ خارک اور بندرگاہ امام سے دشمن کی نابودی کا سبب بنی۔

 

پس شہید صفری آپریشن میں اصلی کردار اسپیشل آپریشن کی ٹیم کا تھا

جی ہاں، پہلے سے ہی بحریہ رینجرز کی ماہر فورسز کو منظم  کردیا گیا تھا۔ انھوں نے منہدم کرنے اور غوطہ وری کی خاص ٹریننگ حاصل کی ہوئی تھی۔یعنی سمندر کے اندر، سمندر کی سطح پر منہدم کرنے کی کاروائی اور گوریلہ کاروائیوں  کی خاص طریقہ سے ٹریننگ لی تھی۔ ہم نے بحریہ رینجرز سے خرمشھر میں بھی کام لیا۔ رینجرز کے اس مجموعہ میں S.B.S نامی ایک اور گروہ تھا جو SPECIAL BOAT SERVICE کا مخفف ہے۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ یہ غوطہ لگا کر سمندر کی گہرائی میں جاسکتے تھے، سمندر کے اندر منہدم کرنے  کا کام انجام دیتے۔ہمارے پاس منہدم کرنے والے بہت سے ماہرین ہیں کہ جن سب کو جنگ نے پروان چڑھایا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے  جنگ سے پہلے، دھماکے سے متعلق ٹریننگ حاصل کرلی تھی۔

 

یہاں تک تو شہید صفری آپریشن کی زمینہ سازی اور ضروری شرائط کے بارے میں بتایا۔ اب اُس کی پلاننگ کے بارے میں بتائیے

اُسی اجتماعی حکمت عملی اور کیپٹن مصطفی مدنی نژاد کی  سربراہی میں جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا، ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ البکر اور العمیہ قلعوں کو حتماً تباہ ہونا چاہیے۔ وہ اصرار کر رہے تھے کہ جس طرح بھی ہو ان قلعوں کی تباہی کا راستہ نکالا جائے۔ اس ہدف پر ایجنڈا تیار کیا گیا۔ ہم نے دھماکوں کیلئے بری افواج  سے مدد طلب کی۔ جیسا کہ ہمارے رینجرز خرمشھر میں درگیر تھے،  شروع میں ہمیں ایرانی بحری فورس میں ایسے ادارے کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔  ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ  بری افواج نے زیادہ تر خشکی پر کام کیا ہے اور اُنہیں سمندر کی شناسائی نہیں،  سمندر کی فضا سے واقف نہیں ہیں۔ لہذا آپریشن کا ماحول اُن کیلئے نامعلوم اور نامشخص ہے  اور ہم اس بات سے نا اُمید ہوگئے کہ وہ ہمارے لئے کوئی مفید کام انجام دے سکیں۔ بالآخر کیپٹن مدنی نژاد نے اس ٹیم کے عناصر کو ڈھونڈ لیا۔کیپٹن رحمان الفتی نامی بہادر آدمی، جو رینجرز اور S.B.S کا  کارکن تھا۔ ایک دن وہ مل جاتا ہے۔  وہ آفیسر ٹریننگ کا کورس پورا کرکے  تھرڈ لیفٹیننٹ کی پوسٹ تک پہنچ گیا تھا۔ وہ پیشقدم، جنگی اور نڈر آدمی تھا ، درحالیکہ وہ اپنے ساتھیوں میں بھی بہت زیادہ مشہور و مقبول تھا۔ سادہ ،  دھیمے لہجے میں بات کرنے والا اور نہ ہی خوشامد کرنے والا تھا۔ پہلی ، دوسری میٹنگ میں ہم نے جو بھی کہا، اُس نے کہا مسئلہ نہیں  ہے ہم انجام دیں گے۔ اُس کی لغت میں انکار نامی کوئی چیز نہیں تھی اور ہمیں بھی اُس کی باتوں سے  حوصلہ ہوگیا تھااور ہم خوش تھے کہ ہمارے اپنے فوجی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔

 

کس وجہ سے اس آپریشن کا نام "شہید صفری" رکھا گیا؟

میں شہید [جواد] صفری آپریشن کی نامگذاری میں شامل  تھا۔ اس آپریشن کی پلاننگ کے وقت ہم نے کہا اس آپریشن کا نام بھی رکھا جائے۔ میں نے اُسی رحمان سے پوچھا کہ خرمشھر میں تمہاری S.B.S ٹیم کا سب سے پہلا شہید کون تھا؟ اُس نے کہا: شہید صفری۔ ہم نے بھی اس آپریشن کا نام شہید صفری رکھ دیا۔ میں اُس وقت شہید صفری آپریشن پلان کرنے والا کو آرڈینٹر افسر  اور فوجیوں اور مختلف پوسٹوں کے درمیان رابطہ کا کام انجام دیتا تھا۔ افراد کی تعداد، طریقہ انہدام، دھماکہ خیز مواد کا معیار اور ضروری وسائل  بھی رحمان اوراُس کی ٹیم کے ذریعے مشخص ہوئے۔ شروع میں ہم اس  فکر میں تھے ان ماہر فورسز اور بلاسٹرز کو  البکر اور العمیہ قلعوں  میں بغیر شور کئے خاموش کے ساتھ کیسے نفوذ کریں۔ طے پایا کہ یہ کام بحری فورسز کے مختلف یونٹوں کے ذریعے لیا جائے۔ یہ یونٹ مچھیروں کی کشتیاں تھیں، جن میں بحریہ نے کچھ تبدیلیاں ایجاد کردی تھیں  اور کشتیوں کو مسلح کرکے اپنے فوجیوں کو متعین کردیا تھا اور ان سے آپریشن کی معلومات حاصل کی جاتی اور اسپیشل آپریشن میں استفادہ کیا جاتا۔ چونکہ ان کی شکل و صورت مچھیروں کی کشتی کی طرح تھی، کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔

 

آپ کو ان قلعوں کو اُڑانے کیلئے کتنے دھماکہ خیز مواد  کی ضرورت تھی؟

ہمیں تقریباً دو ٹن دھماکہ خیز مواد  کی ضرورت تھی کہ آپریشن سے ایک رات پہلے میں نے خود تنہا جاکر گولہ بارود کی کوٹھڑی سے لے لیئے تھے۔ چونکہ ہم جو کام بھی کرتے، کچھ بکے ہوئے افراد  جاسوس کے طور پر موجود تھے خاص طور سے مجاہدین خلق، وہ دشمن  کو ہر کام کی اطلاع پہنچا دیتے۔ شہید صفری آپریشن کے بارے میں دشمن کو کچھ معلوم  نہ ہونے کیلئے بہت راز داری سے کام ہوتا۔ میں نے چاندنی رات میں رات کے دو بجے ، طولانی سڑک پر جو سبز آباد  اور بوشہر میں موجود دھماکہ خیز مواد کی کوٹھڑی تک تھی  ایک  پک اپ  جس پر ذاتی نمبر پلیٹ تھی، ڈرائیو کی۔  پہلے سے قرار تھا کہ وہاں اسٹور کا انچارچ اور ایک بحریہ کا  ملازم موجود ہوگا۔ یہ لوڈنگ ہم نے خود ہی انجام دی اور رات ہی میں سارا سامان اُسی مچھیرے والی کشتی میں منتقل ہوگیا۔ اُسی دن- ۵ نومبر  ۱۹۸۰ء-  شام کا وقت  تھا کہ خرمشھر سے رینجرز آگئی اور ہم بوشہر چھوڑ کر ہدف کی طرف بڑھ گئے۔ ہم رات کو قلعوں کے نیچے پہنچ گئے۔ ہم مکمل تاریکی اور گھپ اندھیرے میں نفوذ کر گئے۔ شاید آپ کو تاریکی کا تجربہ نہ ہو۔ چونکہ شہروں میں ہمیشہ روشنی ہوتی ہے۔ تاریکی میں صرف ستارے ہوتے ہیں، چاند یا تو نکلا نہیں ہوتا ہے یا ڈوب چکا ہوتا ہے اور رات میں آسمان ستاروں سے بھرا ہوتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ستاروں پر ڈامر لگا دیا ہو اور کچھ بھی  دکھائی نہیں دیتا۔ اُس مچھیرا کشتی پر مرحوم کیپٹن فرہاد گریست کی کمانڈ میں، رحمان الفتی فورسز کے ساتھ جو سب رضاکارانہ طور پرتھے اور تقریباً ۲۰ افراد تھے، ہم نے حرکت کی لیکن گھپ اندھیرے میں ہم  قلعوں کے نزدیک مستقر نہیں ہوسکے۔

 

کیا ایسا کچھ ہوا جس کے بارے میں آپ لوگوں نے پیشگوئی نہ کی ہو؟

مسئلہ کچھ اور تھا ورنہ  شناسائی تو بہت اچھی طرح کی گئی تھی۔ جب آپ گھپ اندھیرے  اور  ریڈار کے بغیر آپریشن شروع کریں، تو ممکن ہے کوئی بھی حادثہ پیش آجائے۔ ہم البکر قلعہ میں پھنس گئے تھے۔  کشتی کے انجن کی پاور بھی کم تھی اور جیسے مرغی کی طرح جال میں پھنس گئےہوں،  ہم ہائی پریشر والی کچھ تاروں میں پھنس گئے تھے۔  یہ تاریں کشتی کی کرین میں پھنس گئی تھی۔ نہ پیچھے جاسکتے تھے اور نہ آگے بڑھ سکتے تھے۔ یونٹ نے دو ٹن دھماکہ خیز مواد بھی اٹھایا ہوا تھا۔ اگر ریڈار روشن کرتے تو دشمن کو پتہ چل جاتا۔ لہذا ہم بالکل سکوت ، تاریکی اور بحرانی حالات میں تھے۔  ایسے حالات میں، مرحوم الفتی کا رینجرز کو پرسکون رکھنے میں بہت موثر کردار تھا۔ بہرحال ناخدا گریست کی کوششوں سے ہم نے خود کو تاروں سے نکال لیا۔ واپس پلٹے اور ہم نے دوسرے زاویے سے قلعہ کے نزدیک ہونے کا اقدام کیا،  لیکن انجن کی پاور کفایت نہیں کر رہی تھی۔ ہماری آس بھی تقریباً ختم ہوچکی تھی اور ہم پریشان تھے کہ خدانخواستہ اگر کوئی برا حادثہ پیش آگیا اور یہ آپریشن شکست سے دوچار ہوگیا تو  دوبارہ اقدام کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ لہذا ہم نے سوچا کہ آپریشن جاری رکھنا بلا وجہ خطر مول لینا ہے۔ پس اُسی حالات میں آپریشن چھوڑ کر جس راستے سے آئے تھے واپس لوٹ گئے۔ البتہ میزائل مار کشتی شہید محمد ہمتی کے سربراہی میں دور سے ہمارا خیال رکھے ہوئے تھی۔ واپس آئے اور  ٹاسک فورسز کو ناکامی کے بارے میں بتایا۔ ٹاسک فورس نے بہت ہی سمجھداری سے ہمیں حکم دیا کہ سمندر میں موجود ایک کمین گاہ کی طرف چلے جائیں۔ اب صبح ہوچکی تھی۔

 

جب آپ واپس پلٹے تو کیا محسوس کر رہے تھے؟

شروع میں ہم تھوڑے پریشان تھے،  لیکن دوبارہ، ہم نے اپنی  ہمت اور توانائی  کو جمع کرلیا اور ٹاسک فورس   کے ڈپٹی  کے ساتھ  آپریشن کیلئے اسٹاف کا جذبہ بڑھایا۔ ہم ایک ساتھ جمع ہوگئے اور راہ حل نکالنے کی کوشش کی، شہید ہمتی ایک لحظہ کیلئے ہمارے پاس سے گیا اور واپس آکر کہنے لگا میں آج رات تک کیلئے آمادہ ہوں، وہی کل والی حکمت عملی انجام دی جائے۔ یہ میرے لئے ایک نعمت تھی کہ ایسا آپریشن کہ میں جس کی تشکیل، پلاننگ اور اجراء میں موجود تھا،  ہاتھ سے نہ چلا جائے اور اب پیکان فریگیٹ کا ملاح اُس کے اجراء کیلئے رضاکارانہ طور پر آمادہ ہو۔  پیکان ایک غیر معمولی یونٹ تھا جو چند لوگوں سے ملکر بنا تھا جو ہر آپریشن کیلئے آمادہ تھے۔ گویا شہید ہمتی نے جاکر اپنے کارکنوں سے بات کی تھی کہ  ہم ایک بہت خطرناک آپریشن کرنا چاہتے اور اُس میں واپس نہ آنے کا بھی احتمال ہے۔ اگر تم میں سے ایک بھی اس پروگرام سے موافق نہیں تو میں  اپنی تجویز سے صرف نظر کرلوں گا۔ ظاہراً ایک آدمی نے بھی مخالفت نہیں کی اور سب اپنے کمانڈر پر یقین اور اعتماد کےساتھ آپریشن کیلئے تیار تھے۔ میٹنگ ختم ہوئی اور ہم نے وسائل کو پیکان پر منتقل کردیا اور اگلی رات، بالکل اُسی تاریکی میں، دوبارہ اُسی نقشہ پر عمل ہوا۔ ہم نے پہلے مرحلے میں فوجیوں کو العمیہ قلعہ پر اُتارا اور اُن سے مربوط وسائل اُنہیں دیدیئے۔ پھر ہم دژ البکر واپس آگئے۔ ہم رینجرز فورسز کو اُتارنے میں مشغول تھے۔ شہید ہمتی آیا اور میرے کان میں کہا کہ میرے پاس تین ظاہری ہدف ہیں اور مجھے درگیر ہونے کیلئے قلعہ سے جدا ہونا ہے۔ مکمل خاموشی تھی لیکن دشمن کی پوزیشن دیکھنے کیلئے ہر دس منٹ میں ایک مرتبہ ریڈار روشن کرتے۔ میرے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ آپریشن  میں کوآرڈینیٹر ا فسر کے عنوان سے بھی رینجرز ٹیم میں شامل ہوجاؤں یا کشتی کے اوپر ہی رہ جاؤں۔ چونکہ اُس وقت مجھے سمندری جھڑپوں کا عملی تجربہ نہیں تھا پس  میں نے وہیں رہنے کو ترجیح دی اور پیکان پر ہی رہ کر اس درگیری کا تجربہ کیا۔ پیکان نے وہاں ایسا کارنامہ انجام دیا جو ناقابل بیان ہے۔ ایک یونٹ، تین یونٹوں سے بھڑ گیا۔ شروع میں بہت تیزی سے ہدف کے نزدیک ہوا اور توپخانہ سے درگیر ہوا۔ ایک یونٹ کو پیکان توپخانہ  نے اُڑا دیا ۔ ایک دوسرا جو ابھی ہم پر حملہ کرنے کیلئے پوزیشن لے رہا تھا، میزائل سے مارا گیا اور تیسرا جس میں لڑنے کی  ہمت نہیں تھی، وہ وہاں سے فرار کر گیااور پیکان نے تیزی سے اُس کا تعاقب کیا،  لیکن پھر جانے دیا۔ کیونکہ جنگ کے شروع میں، ہمارے پاس دشمن کے ۴۰۰ میزائل کے مقابلے میں صرف ۱۱ میزائل تھے۔ پس ہمیں اُنہیں بچانا چاہیے تھا۔ لہذا پیکان اُن کے تعاقب سے منصرف ہوگیا اور اپنی سمندری حدود میں واپس آگیا اور بقیہ کاموں کو s.b.s   رینجرز کے سپاہیوں کے سپرد کردیا۔ ڈائنامٹ  لگانے کا عمل ۲۴ گھنٹے طولانی ہوگیا۔  اگلے دن، پیکان دوبارہ واپس آیا اور  قلعہ سے اضافی رینجرز کو ہٹا لیا اور صرف دو یا تین افراد قلعوں پر فیوز روشن کرنے کیلئے رہ گئے۔

 

رینجرز کس طرح ۲۴ گھنٹے تک قلعوں پر، خاص طور سے دن کے اُجالے میں چھپے رہے؟

جب قلعہ پر ڈائنامٹ لگائے جا رہے ہوں توحقیقت میں وہ ہمارے اختیار میں ہے اور دشمن کے فوجیوں میں سے کوئی نہیں  بچا ہے۔ اب دھماکہ سرکٹس دو قلعوں پر  اُتر گئے ہیں اور  ۷ نومبر ۱۹۸۰ کا دن ہے۔ قلعوں پر ہیلی کاپٹر اُترنے کا پیڈ تھا۔ ہیلی کاپٹر بقیہ فوجیوں کو لانے کیلئے پرواز کیلئے آمادہ تھے۔ ہم نے  پہلے سے کہا ہوا تھا کہ ہر قلعہ پر، دو یا تین لوگ فیوز  کھینچنے کیلئے موجود رہیں۔ یہ فیوز  دیر سے اور آہستہ جلتے ہیں۔ آپ کے پاس فیوز کے مطابق دھماکہ ہونے والے علاقے سے دور ہونے کیلئے ۵ سے ۲۰ منٹ ہوتے ہیں۔ یعنی رینجرز کو فیوز لگانے کے آخری  نقطہ سے ہیلی کاپٹر اُڑنے کی جگہ تک، بھاگنا پڑتا۔ پس ان ہیلی کاپٹر کو بھی نظر میں رکھیں کہ  جنہیں آکر بقیہ لوگوں کو منتقل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف سے ہم نے یہ احتمال بھی دیا کہ اگر ہیلی کاپٹر پر حملہ ہوگیا اور وہ دھماکہ کرنے والوں کو سوار نہ کرسکے، پھر ہم کیا کریں۔ ہم نے پلاسٹک کی دو کشتیوں کو ہر قلعے کے نیچے چھپایا ہوا تھا تاکہ فوجی ان کشتیوں کے ذریعے وہاں سے نکل جائیں۔ اب فیوز کھینچنے اور دھماکے کرنے کی آمادگی کے حالات ہیں۔ اتفاق سے ٹیلیویژن ٹیم بھی آگئی تھی اور مدنی نژاد جو بہت ہی سمجھدار اور تجربہ کار آدمی تھے،  انھوں نے ہمیں اس طرح سے سمجھایا کہ ان لوگوں کو لے جائیں۔ اور اُن سے کہا اگر آپریشن  کامیاب ہوگیا تو بتانا یہ کونسی جگہ ہے۔ لیکن اگر کامیاب نہ ہو تو نہیں بتانا کہ معاملہ کیا تھا۔ ایک ہیلی کاپٹر البکر قلعہ پر اترا اور دوسرا العمیہ پر اُترا۔ میں العمیہ پر اُترا؛ یعنی ایسی جگہ جس قلعہ کا کمانڈر رحمان الفتی تھا۔  s.b.s  رینجرز کا ایک اور بہت ہی بہادر شخص تھا کہ مجھے جس کا نام بھول گیا ہے۔ ہم وہاں اُترے اور تھوڑی دیر بعد البکر قلعہ دھماکے سے اُڑ گیا۔ ٹیلی ویژن نے البکر کی مووی بنالی تھی۔ آگ کے شعلوں اور دھویں کے ساتھ دھماکے کی خوفناک آواز نے ہمارے لئےمنظر کو خوبصورت بنادیا تھا۔  لیکن رحمان نے مجھ سے کہا کہ کل رات کا موسم مرطوب تھا اور مدار گیلے ہوگئے ہیں۔ مجھے مداروں کو خشک کرنے کیلئے دو گھنٹے کی ضرورت ہے۔ اب ہر لحظہ ممکن ہے کہ دشمن فضا سے یا سمندر سے حملہ کردے۔ لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے ہیلی کاپٹر والے سے کہا ہمیں دو گھنٹے  رکنا پڑیگا۔ انھوں نے کہا لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ ابھی ادھر اُدھر سے ہمارے سروں پر آجائیں گے! میں نے کہا بہرحال آپ لوگ ابھی جائیں، دو گھنٹے بعد آجائیے گا۔ ہیلی کاپٹر چلا گیا اور میں قلعہ پر رہ گیا۔ میں نےسوچ لیا تھا کہ اگر ہیلی کاپٹر نہیں آیا تو ہم تین افراد اُسی چھپی ہوئی کشتی پر سوار ہوکر یہاں سے نکل جائیں گے اور خدا بہت کریم ہے۔ رحمن مدار  خشک کرنے اور اُس کی بعض حصوں کو تبدیل کرنے میں لگ گیا۔ مدار کو خشک کرنا یعنی نم شدہ فیوز کو تبدیل کرنا۔ بالآخر یہ کام ہوگیا۔ میرے پاس بحریہ افواج کا ایک مخصوص کیمرہ تھا اور میں نے ان دو لوگوں کے آخری کام کی فلم بنالی تھی۔

 

آپ کو پتہ ہے اس وقت یہ فلم کہاں ہے؟ کیا  اُس تک رسائی ممکن ہے؟

کسی زمانے میں بحری افواج کی انٹیلی جنس کے پاس تھی۔ پھر  بحریہ کے پاس چلی گئی۔ وہاں سے ٹی وی والوں کے پاس گئی تاکہ دکھائی جاسکے۔ اُس کے کچھ حصے میں نے ٹی وی پر دیکھے، لیکن پورا سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا؟ خلاصہ یہ کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ کانوں میں ہیلی کاپٹر کی آواز آئی   (جیسا کہ طے تھا کہ وہ آئے گا ) مجھے ہیلی کاپٹر آنے کی زیادہ اُمید نہیں تھی ، ہیلی کاپٹر آکر پیڈ پر اتر گیا۔ فیوز کھینچنے کا کام شروع ہوا۔ اُس فلم میں دکھایا ہے کہ دو افراد فیوز کھینچ رہے ہیں اور میں بھی پیچھے کی طرف بھاگنے کی حالت میں ہوں اور فلم تھوڑا ہل رہی ہے۔ لیکن العمیہ قلعہ پر ہونے والے واقعات کی مشخص سند ہے۔ ہم ہیلی کاپٹر تک پہنچے۔ ہیلی کاپٹر اُڑنے کے تھوڑی دیر بعد دھماکہ ہوا اور یہ قلعہ بھی بھڑک اٹھا۔  



 
صارفین کی تعداد: 6314


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔