"مہرنجون" دفاع مقدس میں

تمام دلاور ایک گاؤں سے

آیسو صادقی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-1


"مہرنجون" ایک گاؤں کے نوجوانوں کا ایران پر عراق کی جانب سے تھونپی گئی جنگ کے محاذوں پر شرکت کیلئے جوش و ولولہ کی داستان ہے۔ وہ گاؤں کے اسکول کی دریوں  سے اُٹھ کر فوجی ٹریننگ کیلئے جاتے ہیں اور پھر جنگی  کاروائیوں میں شرکت کرتے ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ گاؤں واپس آجاتے ہیں اور کچھ درجہ شہادت پر فائز ہوجاتے ہیں۔ اس کتاب میں، نوجوانوں نے محاذ پر جو کوششیں کی اور جو  تجربات کسب کئے ہیں، اُنہیں کتاب لکھنے والے کے ذریعے سامنے لا یا گیا ہے ، جو خود انہی نوجوانوں میں سے ایک تھے ۔

محاذ پر جانے کی کوشش

"مہرنجون" کتاب جو گاؤں کے شہداء کے شمار اور معلومات سے شروع ہوتی ہے، شروع میں کچھ نوجوانوں کے محاذ پر جانے کی کوشش کرنے اور اُس میں ناکام رہ جانے کے بارے میں بیان کرتی ہے: "میرے والد مجھ سے تین چار قدم کے فاصلے پر کھڑے تھے  اور اب میرے لئے یہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ جیسے ہماری نگاہیں آپس میں ٹکرائیں، وہ مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھے۔ میں کھڑا ہونا ہی چاہتا تھا کہ انھوں نے میری کلائی کو پکڑ لیا۔ لیکن میری توقع سے ہٹ کر، جب میں منتظر تھا کہ وہ مجھے کھینچ کر لائن سے ہٹا دیں گے، اُنھوں نے میرے ماتھے کو چوما۔ کہنے لگے: "بابا کی جان! میں نے تم سے سو مرتبہ کہا ہے کہ تمہارے محاذ پر جانے کا وقت ابھی نہیں آیا، سنتے نہیں ہو۔" (ص۵۰ و ۵۱)

گاؤں کے تمام لڑکوں کو محاذ پر جانے کا جنون تھا اور وہ اس سلسلے میں ایک دوسرے پر سبقت لیتے اس حد تک کہ کسی کو بتائے بغیر ہی اس سفر پر نکل پڑتے۔ ان ہی لوگوں میں سے ایک صادق  ہے جو بغیر بتائے چلا گیا اور کتاب کے مؤلف کو خط لکھ کر گاؤں کے حالات سے باخبر ہونا چاہتا ہے: "اس نے اظہارکیا تھا کہ مہرنجان کی وضعیت اور ستمبر کی فضا کے بارے میں اس کیلئے کچھ لکھوں۔ "ہوای شرجی" ایک اصطلاح ہے جو میں نے پہلی دفعہ اس خط میں پڑھی اور میں اس کا مطلب  بعد میں سمجھا۔ لیکن میں صادق کیلئے ہرگز جواب نہیں لکھ پایا۔ لکھنا چاہتا تھا لیکن اُسے جواب دینے کی حسرت ہی رہی۔ میں بغیر بتائے چلے جانے والے شخص کیلئے کس طرح کچھ لکھ سکتا تھا اور اُسے کیسے مہرنجان  کے حالات، نہر اور  اُس میں نہانے کے بارے میں اطلاع دیتا؟" (ص ۶۷)

محاذ

بالآخر مؤلف اور اُس کے دوستوں کے محاذ پر جانے کی باری آجاتی ہے  جس میں وہ بٹالین کے پہلے ڈنر اور پھر  اپنے وسائل لینے کے بارے میں بتائے: "میں نے ایک کلاشنکوف بندوق، گرنیڈ کا تھیلا اور چار میگزین، لٹکانے والی ڈوری، ہیلمٹ، ریلیف کین ، ش۔م۔ ہ کین، بیگ، بیلچہ اور مورچہ کھودنے کیلئے کھدال اپنے اختیار میں لیا۔  یہ سب میرے ہاتھ میں تھا کہ خیمہ  کے باہر مجھے مخصوص کینوس بیگ کے ساتھ  ایک  ماسک تھما دیا گیا اورپھر دستخط اور انگوٹھے کا نشان لگوایا گیا۔ جب میں نے اپنے سامان پر نگاہ ڈالی، میں نے دیکھا کہ میں ان کے اٹھانے میں مشکل سے دوچار ہوں۔" (ص ۱۰۷)

اس دوران جو ٹریننگ حاصل کی جاتیں تھیں وہ خود بعض مطالب سے مخصوص ہوتیں: "نامانوس عناوین اور اصطلاحیں جیسے آٹروپین، امیل نیٹریٹ اور اس جیسی  دوسری اصطلاحوں کو میں نے اچھی طرح یاد نہیں کیا تھا۔ ان کو یاد کرنے میں مجھے کافی ٹائم لگا کہ کیمیائی عوامل میں سے کس کی بو کیسی ہوتی ہے۔ مثلاً کہا جاتا عامل" خون" مچھلی اور بچی ہوئی سبزی کی بو دیتا ہے اور عامل "اعصاب" کی بو عطر اور سینڈ کی بو سے ملتی جلتی ہے۔" (ص ۱۲۴)

آپریشن کے ایام اور اس کیلئے تیاری کرنا بھی کتاب کے بعض مطالب میں شامل ہے کہ جس میں ایک آپریشن سے پہلے وصیت نامہ لکھنا  اور تیاری کرنا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود مؤلف نے جزئیات پر بھی توجہ دی ہے: "بہت ساری بسیں لائن سے کھڑی ہوئی تھیں  اور کنڈیکٹروں نے لکڑیوں کے سروں، جیسے بیلچہ کا دستہ ہوتا ہے اُن پر بوریاں باندھی ہوئی تھیں، وہ بسوں کو چھپانے کا کام انجام دے رہے تھے۔ بہت ہی پرکشش منظر تھا۔ معمولاً لوگ گھوڑوں اور گاڑیوں کو دھوتے ہیں اور کیچڑ ، مٹی وغیرہ کو ہٹاتے ہیں؛ لیکن وہاں معاملہ اُلٹ تھا؛ کنڈیکٹروں نے کیچڑ والی مٹی سے تگاریاں بھری ہوئی تھیں اور لکڑی کے سرے پر بندھی اُن ہی بوریوں  کو تگاری میں ڈالتے اور بہت ہمت کے ساتھ گاڑی اور اس کے شیشوں پر کیچڑ کو ملتے۔" (ص ۱۷۷)

محاذ پر مؤلف کے مشاہدات

کتاب  میں مؤلف کے وہ مشاہدات بھی ہیں جسے اُس زمانے میں انھوں نے درک کیا۔ دلاوروں سے بھری  گزرتی بسیں ان کی آنکھوں کے سامنے مناظر کو پیش کرتی ہیں۔ بس مختلف شہروں کے اطراف سے گزرتی ہے۔ ان ہی میں سے ایک شہر سوسنگرد ہے کہ جہاں اب صرف ویرانی ہی ویرانی ہے: "شہر خالی خالی سا تھا۔ بالکل اُسی زمانے کی طرح جب مئی ختم ہو رہا ہوتا ہے اور گاؤں والے لوگ چلے جاتے ہیں اور چند ہی لوگ رہ جاتے ہیں۔ مثلاً میں نے ایک ادھیڑ عمر شخص کو دیکھا جس کے سر پر سفید پگھڑی تھی وہ دیوار سے ٹیک لگائے گزرنے والے بسوں کو تک رہا تھا۔ یا ایک ایسی عورت کو دیکھا جو گیس کا سلنڈر سر پہ اٹھائے سڑک کنارے سیدھی چلی جارہی تھی۔" (ص ۱۷۹ و ۱۸۰)

مؤلف اور اُس کے ساتھی جو کم سن و سال کے تھے اُن کے لیئے محاذ اور جنگی آپریشن کی فضا خاص اور انجانی سی تھی۔ یہ لوگ اپنی کم سنی کے باعث خطرناک حالات میں بھی اپنے لئے شرارتیں ڈھونڈ لیتے تھے: "مشکل ترین مرحلہ وہ تھا جب ہمارے اطراف اور نزدیک میں عراقی بم آکر گرتے اور آگ بھڑک اُٹھتی۔ دو بم ہمارے اتنے قریب آکر گرے کہ اگر پھٹ جاتے تو مجھ میں اور زبیر  میں سے کچھ بھی باقی نہ بچتا۔ لیکن ہم نے صرف اُن کے زمین پر گرنے کی آواز سنی؛ اُن کے پھٹنے کا پتہ نہیں چلا۔ ہم نے شرارت کی اور اُسے ڈھونڈنے نکل گئے۔" (ص ۲۴۵)

وہ کتاب جو مؤلف کے بہت ہی جوش و ولولے کے ساتھ محا ذ پر جانے سے شروع ہوتی ہے، اور مؤلف اور مہرنجان سے تعلق رکھنے والے اُن کے کچھ  ساتھیوں کے گاؤں لوٹنے پر ختم ہوتی ہے۔  خاندان والے اُن کی واپسی پر بہت ہی خوش ہیں:"شکر ادا کرنے والے ستون کے کنارے ایک لائن سے کھڑے ہوئے تھے۔ ماں بھی بہت پریشان تھی اور اُس نے ہمیشہ کی طرح کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ وفور جذبات میں لوگوں کو بھر بھر کے چاول بانٹ رہی تھی۔ حتی جو لوگ دیر سے آئے اُنہیں بھی خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔" (ص ۲۶۲)

کتاب کے ابتدائی صفحات  کا حساب

کتاب کے ابتدائی صفحات میں جو بات فوراً آنکھوں کو لگتی ہے، مہرنجان گاؤ ں کے شہداء کے بارے میں وہ مطالب ہیں جس میں قاری کو فوراً ہی اُن کے بارے میں اطلاعات فراہم کردی جاتی ہیں: "اُس زمانے تک "مہرنجان" گاؤں نے ۹ شہداء پیش کئے تھے، اُن میں سے ۷ کا تعلق امام خمینی اسکول سے تھا ۔۔۔ مراد حیدری، جو گاؤں کا پہلا شہید تھا اور خرم شہر کو آزاد کراتے ہوئے اُس کا سر دو ٹکڑے ہوا، ان ہی شہداء میں سے تھا۔ حبیب اللہ نجاتی اور نظر محمودی یہ دو شہید بھی ہمارے گاؤں سے تھے ۔۔۔ امین محمودی بھی، جو خرم شہر کی فتح میں  اور مراد کے کچھ ہی دیر بعد شہید ہوا۔ اس نے پہلے اسی اسکول میں پڑھا پھر اسے شیراز کے عشایری ہائی اسکول میں داخلہ مل گیا ۔۔۔ حجت اللہ ضرغامی بھی شہداء میں سے ایک تھے ۔۔۔" (ص ۱۰ و ۱۱)

بہر حال یہ باتیں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے کے ساتھ بیان ہوئی ہیں، لیکن ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ مؤلف چاہ رہا تھا کہ اپنی یاد داشتوں کے درمیان بہت ہی تیزی سے گاؤں کے شہداء کے نام بھی شامل کردے  اور جہاں تک ہر شہید کی فردی خصوصیات کے بارے میں مطالب بیان ہوئے ہیں لیکن یہ مطالب زیادہ تر شماریات سے شباہت رکھتے ہیں اور مؤلف اس حصے میں کام کو صحیح انجام نہیں دے سکا۔

مہرنجون پر ایک نگاہ

"مہرنجون" کتاب میں ایک یا دو آپریشنوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اُن میں سے ایک، و الفجر ۸ ہے۔ (ص ۲۳۱) وہ آپریشن جس کی طرف زیادہ اشارہ کیا گیا، آپریشن کربلائے ۴ ہے  کہ جسے کتاب کے مختلف صفحات پر بیان کیا گیا ہے (صفحات ۲۰۱، ۲۰۵، ۲۰۹، ۲۴۶، ۲۴۸، ۲۵۱، ۲۵۳، ۲۵۹) اور کتاب کے حصوں میں بھی زیادہ تر موازنہ کی صورت رہی ہے: "تمام چیزیں بدل چکی تھیں۔ میرا سامان کربلائے ۴ کے بعد اور پہلے سے ہلکا ہوگیا تھا۔ ہم اُس وقت تمام گرنیڈز اور بھری میگزین کے ساتھ  لوٹتے تھے اور اب گرنیڈز اور تمام گولیاں فائر ہوچکی تھی۔ اُس دفعہ دستے اور گروپس مکمل تھے ۔ اب جہاں تک دیکھو ستون خالی ہوچکے تھے۔"

"مہرنجون" کے مختلف حصے ہیں ہر حصہ کا اُس کی مناسبت سے  نام رکھا گیا ہے، لیکن کتاب میں فہرست نہیں ہے جو اس کا ایک بہت بڑا نقص ہے۔ نقشہ بھی نہیں ہے۔ شاید یہ بہتر ہوتا کہ مؤلف کی طرف سے ایک چھوٹا سا مقدمہ لکھا جاتا جس میں وہ کتاب کے موضوع اور طریقہ تدوین کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرتے۔

"مہرنجان جنگ میں، تصاویر کی نگاہ سے" اسے حصے میں ہم مؤلف اور مہرنجان گاؤں کے دلاوروں کی تصویروں کو دیکھتے ہیں جن میں بعض تصویریں شہداء کی ہیں۔

کتاب کے فوائد میں سے ایک "مہرنجان جنگ  کی شماریات" والا حصہ ہے کہ جس میں گاؤں کے شہداء، مخصوص جانبازوں، آزاد شدگان اور مہرنجان کے دلاوروں کے نام موجود ہے۔

"مہرنجان گاؤں کے شہداء کے ا سماء" والے حصے میں شہداء کے نام اور اُن کا محل شہادت شامل ہے۔ "مہرنجان گاؤں کے خاص جانبازوں" والے حصے میں اُن کے نام اور اُن کی جانبازی کی نوعیت اور اُن کے زخمی ہونے کی جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اور "مہرنجان گاؤں کے آزاد شدگان" والے حصے میں بھی اُن کے نام ، وہ ادارے جہاں اُنھوں نے کام کیا اور اُن کی اسیری کی مدت کو قاری کیلئے بیان کیا گیا ہے۔

"مہرنجان کے دلاوروں" والے حصے میں  بھی اُن کے نام، عراق کی ایرانی پر تھونپی گئے جنگ میں اُن کی فعالیت  اور مہرنجان گاؤں میں ان دلاوروں  کی حالیہ و ضعیت کو بیان کیا گیا  کہ یہ سب کچھ اس ترتیب کے ساتھ پیش کیاگیا ہے کہ ان  معلومات نے اس حصے کو   فخریہ حصے میں تبدیل کردیا ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3939


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔