ڈاکٹر قمر آریان کی شائع نہ ہونے والی یادداشت

وہ شعر جو مصدق تک نہ پہنچ سکا

میثم غلامپور
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-31


سن ۲۰۱۰ء کے گرمیوں کے دنوں میں ایک دن صبح تہران کے محلہ بہجت آباد گیا ؛ ایسے گھر پر، جس کے دروازے کی گھنٹی کے اوپر "زرین کوب" لکھا ہوا تھا، لیکن ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا کہ ڈاکٹر عبد الحسین زرین کوب اس گھر اور اس دنیا کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ اب اس گھر میں ہمیشہ اُن کا ساتھ دینے والی زوجہ اکیلی رہتی تھیں۔

میں اُس دن ایک اخباری رپورٹر کے عنوان سے ڈاکٹر قمر آریان سے ملنے گیا تاکہ اُن کے شوہر کی برسی کے بہانے اُن سے علامہ زرین کوب کے بارے میں کچھ سنوں۔ یہ ملاقات ڈاکٹر روز بہ زرین کوب (عبد الحسین زرین کوب کے بھتیجے) کے ذریعے طے پائی اور اس ملاقات میں عبد الحسین زرین کوب کے بھائی کی زوجہ بھی شریک تھیں۔  اُس ملاقات میں اُس محبت کرنے والی  خاتون (ڈاکٹر قمر آریان) کا چہرہ میرے ذہن میں بیٹھ گیا تھا جو اپنی عمر کے ۹۰ سال گزار چکی تھیں، اُن کی جسمانی حالت اچھی نہیں تھی، مشکل سے سن پا رہی تھیں لیکن بعض باتیں اُنہیں بہت اچھی طرح یاد تھیں۔ ڈاکٹر قمر آریان  نے تالیف اور ترجمے کے ذریعے علمی میدان میں اپنا نام بنایا ہے؛ اُن کے تالیف شدہ کتابیں جیسے:"زن در داستان ھای قرآن"، "چہرہ مسیح در ادب فارسی" اور "کمال الدین بہزاد"، ترجمہ شدہ کتابیں جیسے: فلپ کی کتاب"شرق نزدیک در تاریخ" اور برٹولڈاشپولر کی "جہان اسلام" اور اُن کے بہت سے مقالات بھی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔

ہماری ملاقات رمضان کے مہینے میں ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اُن سے ملنے گیا تو اُن کے پاس ایک چھوٹا سا قرآن رکھا ہوا تھا  انھوں نے اُس کی طرف اشارہ کرکے کہا تمہارے آنے سے پہلے میں قرآن پڑھ رہی تھی۔ اُس ملاقات میں قمر آریان اپنے شوہر کو عبدی مخاطب کر رہی تھیں اور بہت ہی احترام اور محبت سے اُن کا تذکرہ کر رہی تھیں۔ خدا جانتا ہے کہ اُس دن تک ڈاکٹر کی کتابوں کو کتنی دفعہ دلچسپی سے پڑھ چکی تھیں۔ اُن کے بقول اُنہی دنوں میں رات کو سونے سے پہلے "بامداد اسلام" کا مطالعہ کر رہی تھیں اور اس کے مطالعہ سے ابھی تک لذت محسوس کر رہی تھیں۔قمر آریان خود کو مٹانے والی ایسی قابل بھروسہ ہستی تھیں جو اپنے شوہر کیلئے  علمی سیڑھی ثابت ہوئیں؛ اُن کا شمار ایسی خواتین میں ہونا چاہیے جو کسی کامیاب مرد  کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اُس مختصر سی ملاقات میں اس خاتون نے اپنے شوہر کی گھریلو زندگی کے مختلف  نکات پر بات چیت کی؛ اُن سے پہلی ملاقات اور اُن کے کردار و  گفتار سے لیکر اُن کی شہید مطہری سے دوستی اور اُن کی زندگی کے آخری ایام تک۔

لیکن ان سب باتوں کے علاوہ قمر آریان نے اُس دن ڈاکٹر مصدق کی عدالت کے بارے میں ایک بات کی تھی لیکن چونکہ وہ ہمارے موضوع سے مرتبط نہیں تھی اس لئے اُسے اخبار میں شائع نہیں کیا۔ وہ ۱۹ اگست کو ہونے والی بغاوت کے زمانے میں اپنی زندگی کے تیس بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ خود اُنکے بقول  وہ ڈاکٹر مصدق کے چاہنے والوں میں سے تھیں۔ اتنی زیادہ کہ ڈاکٹر زرین کوب کے ساتھ اُن کی عدالت  میں بھی حاضر رہیں۔ اور یہ واقعہ بھی اُسی عدالت سے مربوط ہے۔ ان دنوں اُن کی شادی کو گزرے ابھی ۳ مہینے ہوئے تھے۔ ہم وہ عدالت جانا چاہتے تھے لیکن اجازت نہیں مل رہی تھی، بالآخر " ... ایک افسر جو میرے شوہر کا جاننے والا تھا، وہ میرے اور عبدی کیلئے اندر جانے کیلئے پاس لے آیا۔ ہم ایک کمرے میں گئے جہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ سب کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا۔ اور مجھے معلوم بھی نہیں تھا۔ میں بیٹھ گئی۔  ایک آدمی نے آکر کہا کہ جب مصدق کو لایا جائے تو اُس کے احترام میں کھڑے نہیں ہونا۔ میں نے کہا کہ کیا بدمعاشی ہے ... جب ڈاکٹر مصدق آئے تو بالکل تھیٹر کا ماحول تھا؛ واقعاًٍ دیکھنے والا ماحول تھا۔  ڈاکٹر مصدق اپنی گفتگو سے اس طرح اُن کی عزت کی دھجیاں اُڑا رہے تھے کہ مجھے بہت خوشی ہو رہی تھے ..."

اُسی عدالت میں قمر آریان نے قلم اٹھایا اور عربی کے ایک شعر کا ایک مصرعہ لکھا، جس کا مضمون اس طرح تھا: "خدا کیلئے کوئی بڑی بات نہیں کہ پوری دنیا کو کسی ایک شخص میں سمیٹ دے"۔ وہ جلسے کے بعد چاہتی تھیں کہ یہ لکھا ہوا مصرعہ ڈاکٹر مصدق کے وکیل کرنل جلیل بزرگمھر کو دیں تاکہ وہ اُ ن تک پہنچا دیں۔ لیکن عدالت کی شرائط ایسی تھیں کہ وکیل نے وہ پرچہ لینے سے انکار کردیا: "محترمہ میں جناب مصدق کو کوئی چیز نہیں دے سکتا؛ یہ مجھ سے لے لیں۔" ڈاکٹر زرین کوب جنہیں عدالت کی شرائط کے بارے میں پتہ تھا اُنھوں نے بھی جلدی سے اُس کاغذ کو پھاڑ دیا تاکہ کوئی مشکل پیش نہ آئے  لیکن شاید دیر ہوچکی تھی۔ دو افسروں نے قریب آکر کہا کہ آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے۔  میں نے کہا: میری اس شخص سے شادی ہوئے ابھی تین مہینے ہوئے ہیں۔ اس کی بہن گھر میں ہمارا انتظار کر رہی ہے ... کہنے لگے تمہارے ہاتھ میں وہ کاغذ کیسا تھا؟ میں نے کہا شعر تھا۔ چونکہ عربی میں تھا اس لئے اُس کے معنی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور کاغذ کو بار بار اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے...۔ البتہ بات زیادہ بڑھی نہیں اور بالآخر وہی افسر جس نے ہمیں عدالت میں جانے کیلئےپاس دلوایا تھا اُس نے کچھ واجبی سے سوال جواب کئے مثلاً تمہارا ڈاکٹر مصدق سے کیا رابطہ ہے۔ آریان نے بھی جواب میں ایک نئی بات کی کہ اصل  میں ڈاکٹر مصدق  اُن کے ٹیچر تھے اور وہ تو ہمیشہ کلاس میں شاہ کی حمایت کرتے تھے اور اب مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ ایسا کیوں ہوگیا؟ البتہ افسر کا جواب بھی دلچسپ تھا:  "یہ تو ہمارے اپنے آدمی ہیں، شاہ کے حامی ہیں، اُنہیں چھوڑ دو، جانے دو ...۔

عدالت میں پیش آنے والا یہ وہ واقعہ تھا جو ڈاکٹر قمر آریان کے ذہن میں موجود تھا اور اس واقعہ کے ۶۰ سال بعد ، جب اُنھوں نے اپنے اور شوہر کے مشترکہ واقعات بیان کرنا چاہے تو یہ واقعہ اُنہیں فوراً یاد آگیا اور اُنھوں نے اس طرح بیان کیا۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد دو سال کا عرصہ بھی نہیں گزراتھا کہ  بروز بدھ، ۲۳ مارچ، سن  ۲۰۱۱ء میں قمر آریان نے قضائے الٰہی کو لبیک کہتے ہوئے  اس دنیا کو خیر باد کیا اور یہ ڈاکٹر قمر آریان کا آخری انٹرویو تھا جو شائع ہوا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4007


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔