عید نوروز اور محمد ہاشم مصاحب کی یادیں

عید نوروز کی رات جوانوں کے لئے ٹرک بھر کر میوہ جات!

گفتگو: مہدی خانبان پور

ترتیب: تاریخ شفاہی ایران

ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-7-11


محمد ہاشم مصاحب، عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں تہران کے ایک علاقے کے تعلیمی بورڈ میں تربیتی امور کے ذمہ دار تھے۔ حال حاضر میں اسی جگہ ہائی سیکنڈری  اسکول کے ذمہ دار کی معاونت کررہے ہیں۔ یہاں انکے کچھ واقعات جو دوران جنگ عید نوورز سے متعلق ہیں بیان کیے جارہے ہیں۔

 

ضروری دوائوں کا تحفہ

۱۹۸۶ء میں، میں جنگ کے لئے امدادی سامان محیا کرنے والے ارادہ میں تھا، دوستوں نے پیغام دیا کہ جنگی علاقوں میں خصوصا وہ جگہیں جہاں زیادہ سردی تھی، روز مرہ کی ضروری اشیاء درکار ہیں۔ کیونکہ مغربی علاقے زیادہ سرد تھے لہذا وہاں امکانات بھی کم تھے۔ ہم نے اعلان کیا اور لباس، دوا کے لئے سکول کالجز وغیرہ میں اشتہار لگا دہیے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت انہی دو چیزوں کی تھی۔ ہر قسم کی دوائیں آتی تھیں۔ ایک شخص کا کام ہی یہی تھا کہ وہ دوائیں چیک کرتا تھا کہ کون سی کام کی ہے کون سی نہیں، یا اگر دوائیں ایکسپائر تو نہیں ہوگئیں۔ لوگوں کو جو چیز گھر میں ملتی لے آتے تھے، بغیر دیکھے کہ یہ ہمارے یا انکے کسی کام ہی  ہے بھی یا نہیں۔ اپنی ضرورت کی دوائیں بھی لوگوں نے پہنچانا شروع کردی تھیں۔ کبھی کبھار ایسے واقعات پیش آتے جو کسی لطیفے سے کم نہ ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر بعض دفعہ دواوں میں ایسی دوائیں بھی آجاتیں جن کا مردوں سے کوئی تعلق نہیں اور صرف خواتین کے استعمال کی ہوتیں۔ جوان کہتے تھے کہ "انکا مجاہدین کو کیا کام ؟" ہم یہی جواب دیتے کہ بیچارے لوگ خلوص میں جو ہاتھ آیا اٹھا لائے۔

واقعی جنگ ایسی ہی تھی۔ لوگوں کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے جنگ کے لئے دے دیا۔ دیکھتے ہی نہیں تھے کہ کیا دے رہے ہیں، جب اعلان ہوا "دوا" تو جو کوئی دوا گھر میں ہوتی لے آتے۔

 

بچوں کی بھری ہوئی  گلکیں

ہم نے گلک بنوائیں اور انکو اسکولوں میں بھجوایا تاکہ بچے اپنے شوق سے محاذ پر موجود افراد اور جنگ میں شریک ہوں۔ اس سال مکے کی صورت میں یہ چندہ کے ڈبے بنائے تھے، ہم نے سپاہ پاسدار کے ثار اللہ یونٹ سے رابطہ کیا اور اس کام میں انہوں نے ہماری مدد کی۔

گذشتہ سال لالے کے پھول کی طرز پر یہ ڈبے بنوائے تھے۔ اس سال مکے کی صورت میں اور نیچے اسکے امریکہ مردہ باد لکھا ہوا تھا۔ ہم نے یہ ڈبے اسکول وغیرہ میں بھیج دیے۔

وہاں سے بہت عجیب خبریں آئیں، حتی تہران کے غریب ترین علاقوں سے جب ڈبے واپس آئے تو وہ ہمیشہ بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ بڑی چادر بچھاتے تھے اور اس پر یہ ڈبے خالی کرتے تھے، پھر حساب کتاب شروع کرتے اور محاذ پر بھیجتے۔

 

 اس وقت  کے پانچ لاکھ تومان

ہمارے ذہن میں یہ بات آئی ایک کاروان کی شکل میں محاز پر امداد لیکر جائیں۔ ہم نے سارے اسکولوں مین یہ اعلانات کردیے کہ مدد کریں۔ اس وقت محاذ پر ضرورت بہت زیادہ تھی۔ ہم سے پوچھا کہ کیا چاہئے ہے ؟ ہم نے کہا کہ "جو کچھ ممکن ہو، کپڑے، پیسے، دوائیں کچھ بھی۔

سپاہ ثاراللہ نے حساب کتاب کیا کہ کن کن چیزوں کی ضرورت ہے اور ان پر کتنا خرچہ ہوگا۔ مثلا اتنی کشتیاں، اتنی ایمبولینس چاہئے ہیں اور انکا اتنا خرچہ ہے۔ وہ ہم کو قیمت بتاتے ہم اسکولوں میں بتاتے اور پیسے جمع کرتے۔

جب ہم نے امداد کا اعلان کیا تو زیادہ تر دوائیں اور کپڑے آئے۔ ہم اسکول کے سربراہوں کا اجلاس بلایا اور انکو مالی حالت سے آگاہ کیا، اس وقت جنگ کے مالی ادارے کی حالت بھی بہت اچھی نہیں تھی۔

خواتین کے اسکول، مردوں سے زیادہ محنت کرتے اس مسئلہ میں۔ مثلا ایک اسکول کی مسئول نے کہا کہ ہماری خود حالت اچھی نہیں ہے ہم کتنے پیسے دے سکتے ہیں۔ ہم نے درخواست کی کہ آپ شروع کریں، جب آغاز آپ سے ہوگا تو انشاء اللہ سب دیں گے اور پیسے زیادہ ہوجائیں گے۔

وہ جلسے میں آئیں تو ہم سمجھے کہ ۲۰، ۳۰ ہزار تومان ہونگے لیکن جب انہوں نے چیک دیا اور کہا کہ "یہ ہمارے اسکول کی جانب سے مدد" تو اس میں پانچ لاکھ تومان لکھے تھے۔ اس وقت کے حساب سے وہ بہت زیادہ تھے۔ ہم حیران رہ گئے بعد میں پتہ لگا کہ انہوں نے اپنی تنخواہ اور اپنے شوہر کی تنخواہ جو ڈاکٹر تھے وہ محاذ کے لئے ہدیہ دی ہے۔ باقی افراد نے کہا کہ ہم شرمندہ ہیں کہ اتنی مدد نہیں کرسکتے۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں جتنا ہوسکے امداد کریں۔

اس سال بہت ہی زیادہ امداد  جمع ہوگئی تھی۔ ہم نے خریداری شروع کی۔ ضرورت کی اشیاء، ۴، ۵ ایمبولینس، ۴، ۵ کشتیاں، ۲، ۳ ٹرالر۔۔۔ یہ سب اسی پیسوں سے خریدا۔

تقریبا۶، ۷ مارچ تک ہم نے سب جمع کرلیا، طے ہوا کہ ۱۱، ۱۲ مارچ تک محاذ کی جانب چل پڑیں گے۔ شہداء چورنگی سے آبسردار چوراہے تک روڈ کے کنارے یہ سامان سجا ہواتھا۔ سب اسکی آمادگی میں مدد کررہے تھے۔ اس کاروان کا نام ہم نے فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا رکھا تھا۔

طالبات کے ایک مدرسے کی انچارج کا فون آیا کہ ہم کاروان کے نکلنے سے قبل دنبہ قربان کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ جب دنبہ آیا تو سب جمع ہوگئے۔ دنبہ پورا دلہن بنا ہوا تھا، سب دیکھ کر ہنس رہے تھے۔

تقریبا ۱۶، ۱۷ مارچ کو ہم اندیمشک کے علاقے پہنچ گئے، ایک صف میں سارے ٹرالر چل رہے تھے۔ جب چھاونی پہنچے تو پتہ لگا کہ سارے جوان محاذ پر گئے ہوئے ہیں، ہم نے کہا کہ یہ سامان لیکر ہم وہاں جارہے ہیں تو نہیں مانے، بالآخر زبردستی ہم نے منوالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر کچھ ہوا تو ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم اہواز کے جنگی علاقے میں پہنچ گئے۔ جیسے ہمیں دیکھا تو حاجی علی صادقی کہنے لگے: "یہ سارا سامان کہاں سے لے آئے ؟" ہم نے انکو ساری کہانی سنائی کہ یہ سارے کے سارے تحفہ و تحائف ہیں۔ جب ہم پہنچے تھے تو سال کی تبدیلی کا وقت تھا۔ ہم اس لمحہ ٹرالوں سے سامان اتار رے تھے۔

 

کیمیکل بم سے بچاو  کی تربیت

۱۹۸۷ میں عید نوورز سے قبل میں نے حاجی علی صادقی کو فون کیا "جناب! اس سال کیسے حالات ہیں ؟ عید نوروز کی رات آپریشن ہے کہ میں آجاوں ؟"

ہم کیونکہ تہران میں مشغول تھا، جنگ کے مختلف اداروں میں، جب آپریشن ہونا ہوتا تو ہمیں ۱۰، ۱۵ دن قبل بتادیتے تاکہ وقت پر پہنچ جائیں۔ یہاں بھی کام زیادہ تھا، کیونکہ اس وقت تہران میں بھی حملہ ہورہے تھے، راکٹ یا میزائل وغیرہ سے۔ تہران کچھ خالی بھی ہوگیا تھا۔

جب پہلی بار بم برسائے گئے تو صبح کے ۷:۳۰ یا ۸ بج رہے ہوں گے، میں گاڑی میں شہداء چورنگی سے دفتر کی جانب جارہا تھا۔ شہداء چورنگی اور آبسردار چوراہے کے درمیان ایک دم خطرے کے سائرن بجنا شروع ہوگئے۔ معمولا دنیا بھی میں جب سائرن بجائے جاتے ہیں تو لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں الٹا حساب تھا، ساری عوام چھتوں پر پہنچ جاتی کہ دیکھیں کہ راکٹ کہاں جاکر گرتا ہے۔

میں بغیر دیر کیے گاڑی سے اتر کر گاڑی کہ انجن پر چڑھ کر دیکھنے لگا۔ راکٹ تو ہماری جانب ہی آرہا تھا، عجیب حالت ہوگئی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ بہارستان اسکوائر پر جا گرا، خوفناک آواز کے ساتھ زمین میں ایک زلزلہ آگیا تھا۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اس جانب چل پڑا۔  جب پہنچا تو اس وقت تک لکڑی اور کھانے پینے کی اشیاء کی چیزیں ہوا سے زمین پر گر رہیں تھیں۔   جب عین اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ تھانے سے ایک گاڑی تیزی کے ساتھ نکل رہی ہے، کئی افسر اس میں زخمی پڑے ہیں۔ حادثے کے مقام پر پہنچا تو دوبارہ سائرن بجا۔
ہمیں بتایا گیا تھا، کہ جب صدام کے افراد بم برساتے ہیں اور لوگ وہاں جمع ہوجاتے ہیں تو یہ دوبارہ وہیں بم مارتے ہیں تاکہ زیادہ تعداد میں لوگ مریں۔ میں گاڑی میں بیٹھ کر نکل ہی رہا تھا کہ دوسرا میزائل گرا لیکن اللہ کا شکر پھٹا نہیں اور زمین میں گھس گیا، ظہر کے بعد تک ایک گروہ اسکو ناکارہ بنانے میں لگا رہا۔

میرے ذہن میں آیا کہ ایک کام سنجیدگی کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔ اس وقت میں بہت تفریح اور ہنسی مذاق کرتا تھا، تعلیمی بورڈ کے سب دوست مجھے جانتے تھے، بہت تنگ کرتا تھا سب کو۔ تعلیمی بورڈ کے سربراہ مظفر صاحب تھے۔ ہم کچھ آپریشن میں ساتھ بھی تھے جو میرے لئے باعث فخر ہے۔ مجھے کہتے تھے کہ "مصاحب، تم علاقے کے مسئول کی بات نہیں مانتے، وہ مجھ سے شکایت کررہا تھا" میں نے کہا کہ: "جناب جنگ ہے، وقت ہی کہاں ملتا ہے کہ ہر کام سے قبل اس سے مشورہ لوں"، بولے" لیکن اب جب بھی کچھ کرو تو پہلے اس سے ہماہنگی کرلیں اور اسکی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرنا"

میں بھی وہی الٹے سیدھے کام انجام دیتا رہتا تھا۔ عید نوروز کی رات میں نے دفتر فون کیا، تمام اسکولوں کے مسئولین کو نامہ ارسال کیا کہ ہم کیمیکل بمب سے بچاو کی کلاس رکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ خبریں موجود تھیں کہ صدام کبھی بھی کیمیکل حملہ کرسکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے ہم نے کلاسز کا انعقاد کیا۔ ایک بٹالین سے ہماہنگی کی تاکہ ۲، ۲ مرد و خواتین آئیں اور کلاسز کا انعقاد کریں۔ ہماری کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اور تقریبا ۱۵۰۰ لڑکے اور ۱۵۰۰ لڑکیوں نے اپنے نام لکھوا دیے۔

اب مشکل یہ تھی کہ یہ کلاسیں کہاں رکھی جائیں۔ میری نظر میں شارع مجاہدین اسلام پر موجود بہنام نامی بلڈنگ مناسب جگہ تھی، ہم نے اس کے ساتھ بات چیت کی اور اس نے بھی قبول کیا اور ہمیں جگہ دےدی۔

کلاسیں شروع ہوئیں، ہم نے ۳ دن اساتید، مسئولین اور تعلیمی اداروں سے وابسطہ دیگر افراد کے لئے مسلسل کلاسز رکھیں۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ تیسرے دن چینل والوں کو اطلاع ملی اور انہوں نے ایک رپورٹ بنا کر نشر کردی۔ اس دن رات ۱۰، ۱۱ بجے تھکا ہارا گھر پہنچا تھا کہ مظفر صاحب کی کال آئی: "مصاحب! یہ ٹی وی کیا دکھا رہا ہے ؟"میں نے کہا: "بزرگوار! کیمیکل بم سے بچاو کے طریقے پر کلاسز ہیں" بولے کہ: "دفتر کے مسئول نے مجھے فون کیا ہے مجھے کچھ معلوم ہی نہیں اور تہران میں پتہ نہیں کیا کیا ہورہا ہے۔ تم ان سے ہماہنگی کے بغیر کیوں کوئی کام کرتے ہو ؟ اگر ہمیں بتادیتے تو زیادہ بہتر طریقے سے کام انجام پاتا" میں نے کہا کہ: "صاحب حالت اتنے خراب ہوگئے  کہ میں نے دیر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اگر اسی انتظار میں اگر صدام حملہ کردیتا تو کون دفاع کرتا۔" بولے "میں نے کب کہا کہ کام اچھا نہیں ہے، بلکہ بہت اچھا ہے کہ سب اس سے آگاہ ہوں تاکہ کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ لیکن بتاو تو۔ اپنی مرضی سے سارے کام کرتے رہتے ہو۔ مجھے علاقے کے مسئول کہ رہا ہے کہ اس بندے سے میری جان چھڑاو۔ اپنی مرضی سے سارے اداروں کو نامہ بھی لکھ دیتا ہے۔ "

اسی دن شام میں علاقے کے مسئولین سب اسی بلڈنگ میں پہنچ گئے جہاں ہم نے کلاسیں رکھی تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ۳ ہزار افراد موجود ہیں اور ہمارے اس پروگرام میں شرکت کررہے ہیں۔ سارے انتظامات کئے گئے تھے۔ کیک اور چائے کا بھی اہتمام تھا۔ مظفر صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر قریب کیا اور کہا: "ایک سوال ؟ اگر یہ میزائل اسی بلڈنگ پر آکر گرجائے، یہ ۳ ہزار افراد شہید ہوجائیں تو ؟ کیا کروگے ؟" میں نے کہا :"حاجی صاحب یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ میرے ذہن میں تو صرف لوگوں کو کیمیکل بم سے نجات دینے کے لئے ٹریننگ کرانا تھا۔"

 

۲۰ ٹن خشک میوہ جات کی پیکنگ

کلاسیں تقریبا ۱۰ مارچ تک ختم ہوگئیں تھیں اور عید نوروز نزدیک تھی۔ ہم نے پھر سوچا کہ اب عید کی مناسبت سے کوئی پروگرام بناتے ہیں۔ طے ہوا کہ  خشک میوہ جات جو نوروز کے ایام میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ، محاذ پر موجود جوانوں کے لئےان کا اہتمام کریں۔  اور پھر اسکولوں میں یہ  اعلان کرادیا ۔ کہا گیا: "یہ خشک میوہ جات کس کام کے ؟ " ہم نے کہا کہ :"یہی کہ اگر ہم سب مل کر یہ کام کریں اور ان میوہ جات کو پلاسٹک کی پیکنگ کرکے ایک خط کے ساتھ جو اسکول کے طلاب نے لکھا ہو، مجاہدین کے لئے بطور تحفہ ارسال کریں۔ تو یہ کام انکی تشویق اور احساسات و جذبات کی قدر شمار ہوگا۔ وہ لوگ سوچیں گے کہ عوام انکی فکر میں ہے مجاہدین کی حمایت کررہی ہے۔" کہنے لگے:"بہترین"

۲، ۳ دن میں ہم نے امداد جمع کرلی  جسکی مقدار بہت زیادہ تھی۔ تہران کے بازار میں حاجی عطار کی دکان پر گئے اور انکے محلی لہجہ میں ان سے بات کی کہ ہم محاذ کے لءے خشک میوہ جات خریدنا چاہتے ہیں ، تو آپ کتنی بچت ہمیں دینگے ۔ جیسے پستہ ۷۰ تومان کے تھے تو کہا: "۵۰ تومان کے دےدونگا۔" اسی طرح باقی پستہ، اخروٹ اور دیگر میوہ جات کو بھی ہم نے ان سے سستے میں خریدا۔ جو ملا کر تقریبا ۲۰ ٹن ہوگیا تھا۔

پستہ، بادام، اخروٹ، کشمش، چنے، نقل سب ملا کر کنٹینر میں سوار کیا۔ ہم لوگ کام کرنے سے پہلے سوچتے نہیں تھے، کام کرنے کے بعد پریشان ہوتے تھے کہ اب کیا کریں۔  اب یہ ۲۰ ٹن خشک میوہ کی پیکنگ کا کیا کریں جو کنٹینر میں بھے ہیں۔ ہم نے طالبات کے ایک اسکول کی  مسئولہ کو فون کیا اور کہا کہ آپ یہ کام اپنے اسکول کی بچیوں اور اسٹاف سے کرالیں۔ پوری جنگ کے دوران اس خاتون نے ایک بار بھی منع نہیں کیا ۔ کہا :"مسئلہ نہیں بھیج دیں"

اسکول کے پورے صحن میں دریاں بچھادی گئیں۔ بیچ میں یہ میوے ڈال دیئے گئے۔سیکڑوں  افراد پر مشتمل گروہ  انکو تھیلیوں میں پیک کررہا تھا۔ ہم نے ایک کارڈ بھی چھپوایا تھا جس پر ایک خط موجود تھا وہ بھی تھیلیوں میں ڈلوایا۔

جب پیکنگ ہوگئی تو یہ سوچا  جانے لگا کہ اب اسکو لیکر کہاں جائیں ؟ ہم نے معلوم کیا کہ جوان آج کل کہاں ہیں۔ جواب دیا کہ :"۲کوہہ نامی علاقہ میں ہیں" ٹرک والوں سے بات کی کہ ۲ کوہہ جانا ہے  کتنے لوگے ؟ تو صاف انکار کردیا  کہ وہاں جائیں گے اور بمباری کردی تو ہم تو گئے کام سے۔ سپاہ کے ثار اللہ یونٹ سے رابطہ کیا کہ اس مسئلہ کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اپ پیسے دینگے ؟ ہم نے کہا: "جی جی ضرور" خلاصہ ایک ٹرک مل گیا مناسب قیمت پر مگر اس شرط کے ساتھ کے عین جنگی علاقےتک نہیں جائےگا۔


ہمارا ٹرک سرحد پار

جب ہم اندیشمک پہنچے اور چھاونی میں گئے تو معلوم ہوا کہ "والفجر ۱۰ آپریشن " کے سلسلے میں سارے مجاہدین آگے روانہ ہوگئے ہیں۔ ٹرک والے سے بات کی، ناراض ہوا تو  ہم نے کہا کہ ہم جنگی علاقے نہیں جائیں گے بلکہ کرمانشاہ تک ہی تو جانا ہے جو بھی اضافی کرایہ بنتا ہے لے لینا۔
کرمانشاہ کی چھاونی پر بھی وہی مسئلہ، ہم نے کہا  عید نوروز کے حوالے سے خشک میوہ جات لائے ہیں تاکہ جوانوں کی عید کو یادگار بناسکیں  ، جنگ شروع ہوچکی تھی  وہاں کے مسئول جناب جعفر محتشم تھے انہوں  نے کہا کہ اگر " سب جوان عراق کے علاقے محمد صالح جاچکے ہیں، آپ وہیں لے جائیں۔  ہم نے گاڑی کا پوچھا کہ اگر ممکن ہو تو اس ٹرک ڈرائور کو فارغ کردیں۔ لیکن وہاں کوئی گاڑی بھی نہیں۔ مجبورا ٹرک ڈرائور کو رازی کیا کہ تھوڑا سا ہی آگے جانا ہےاس وقت تقریبا رات ۱۱ بجے تھے۔   وہ جب بھی پوچھتا کہ کب آئےگا ہم کہتے بس آنے والا ہے،   ڈرائور نے کہا "صبح کے ۵ بج رہے ہیں ہم ابھی تک راستے میں ہیں اور تم کہ رہے ہو کہ ابھی پہنچنے والے ہیں۔ "خیر پہنچ گئے۔ ڈرائور نے کہا: "یہ کہاں لے آئے ہو ؟" میں نے کہا " یہ پہاڑ کے پیچھے والا ہی علاقہ ہے، پہاڑوں کی وجہ سے  اتنا گھوم کر آنا پڑا۔
فوجی خیمے نصب تھے، اندر گئے تو کوئی نہیں تھا۔ ۲ ،۳ جوان دور نظر آئے تو پوچھا کہنے لگ"ے آگے ایک ندی ہے وہاں تیراکی کررہے ہیں۔" ہم نے کہا : "عید کی رات ہے شدید سردی اس میں کون تیراکی کرے گا" خیر مجبورا ۲۰ کلومیٹر مزید آگے گئے۔
راستے میں ڈر تھا کہ کہیں عراقی جہاز وں کی گولہ باری کی زد میں ناآجائیں۔
ندی نہیں تھی بلکہ عراق کا  ایک چھوٹا ڈیم تھا ۔ پہنچے تو ڈرائور کہنے لگا یہ کون سی جگہ ہے ؟ "میں نے کہاکہ "وہی پاوہ کی ندی ہے" کہنے لگا " نہیں جناب وہاں تو میں گیا ہوں یہ وہ نہیں۔  وہاں پانی بھی کم تھا اور پہاڑ بھی نہیں تھے"میری سمجھ میں نہیں آیا کیا جواب دوں، میں نے کہا" یہ اسی کا تسلسل ہے، آپ جب آئے تھے تو گرمیاں تھیں پانی کم تھا اب زیادہ ہوگیا ہے۔"کہنے لگا"چلیں اب یہاں تو اس کو خالی کریں۔" ہم نے وہاں کے مسئول سے بات کی، کہنے لگے"اس ڈرائور کو کہاں لے آئے اور اب یہ واپس کیسے جائے گا۔ تنہا نہیں جاسکتا، اگر غلطی سے عراقیوں کے درمیان چلے گیا تو کون ذمہ دار ہے ؟"
خیر ہم نے سامان اتارا، اور ڈرایور کو جتنا طے کیا تھا اس کا دگنا کرایہ دیا۔ مثلا اگر ۱۰ ہزار تھے تو ۲۰ دئیے۔ وہ بھی خوشحال ہوگیا۔ کہنے لگا "اب کہاں جاوں ؟"
"جہاں سے آئے تھے اسی راستے سے واپس چلے جاو"
"کیا آپ لوگ ساتھ نہیں جائیں گے "
"ہم تو ابھی آئے ہیں"

"مجھے راستہ نہیں معلوم"
وہ جگہ یاد ہے جہاں تم نے پوچھا تھا کہ یہ کونسی جگہ ہے "
"ہاں یاد ہے"
"مجھ کو معاف کردینا۔۔"
"ہوا کیا ہے جو آپ معافی مانگ رہے ہیں"
"ہم   عراق کے ۷۰ کلومیٹر اندر ہیں"
اسکی شکل دیکھنے والی تھی،  چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ کہنے لگا "یعنی یہ عراق ہے جہاں ہم کھڑے ہیں"
"یہ عراق کا علاقہ دربندی خان ہے، اس جانب حلب چا ہے،  ہمیں وہاں جانا پڑے گا، سارے جوان وہاں ہیں، اگر تم یہاں سے جاو گے تو آگے ۲ راستے ہیں وہ علاقہ محمد صالح ہے اگر کوئی غلط راستہ اپنا لیا تو عراقیوں کے ہاتھ لگ جاوگے۔ "
"میرے اللہ!... میری ماں!....مجھے بچالو کوئی۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ میں جنگی علاقے میں نہیں جاونگا۔  تم نے بھی حامی بھری تھی"
"بھائی کوئی اور راستہ ہی نہیں تھا۔ یہ یہاں تک پہنچانا تھا، یہ جوان لڑ رہے ہیں، تمہارے بچوں کی طرح ہیں"
"اچھا اب مجھے خود پہنچواو"
"رکو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے"
وہاں کے مسئول حاجی علی صادقی سے بات کی کہ کسی کو اسکے ساتھ بھیجیں تاکہ کم از کم ایران کی سرحد تک چھوڑ آئے باقی یہ چلے جائے گا۔
کہنے لگے" ٹھیک ہے لیکن اسکا کیا کرنا ہے جو لے کر آئے ہو"

۴ ،۵ سامان والی گاڑیوں میں ہم نے سامان رکھا اور روانہ ہوئے تو مسئول کہنے لگے۔
"آگے جاکر دوسرے شہر کی سرحد کو تیزی سے عبور کرلینا ورنہ عراقی بموں سے نہیں بچ پاوگے اور زیادہ اندر نہیں جانا، ۲ دن قبل کیمیکل بم پھینک رہے تھے، وہ علاقہ خطرناک ہے، جہاں تک جوان ہیں وہیں تک جاو، یہ سامان بانٹو اور فورا واپس"
ہم نے کہا جب جاہی رہے ہیں تو جوانوں کے ساتھ تھوڑا وقت تو گزاریں گے۔کہنے لگے " اگر وہ لوگ راضی ہوں تو مجھے مسئلہ نہیں"

ہم اس میں سامان لےکر نکل گئے اور ۲ کوہہ کی چھاونی میں اسکا خالی کرادیا ۔ جب جوانوں میں  ایک ۲ بم ہمارے اطراف آکر گرے لیکن الحمدللہ ہم جوانوں تکک پہنچ گئے۔ ایک نے جوانوں کو آواز لگائی:"آجاو  بھائیوں ، تمہارے لئے خشک میوہ لائے ہیں " رضا صاحب نے بانٹنا شروع کیا۔ میں نے کہا کہ زیادہ زیادہ دے دو کوئی مشکل نہیں" تو کہنے لگے"نہیں سب کو ایک ایک تاکہ باقی سب کو ملے"

اسی وقت ۲ بم ہماری گاڑی کے اطراف میں گرے۔ رضا صاحب نے  ڈبہ کھول کر جوانو ں کے آگے رکھ دیا۔ میں نے کہا "رضا ایک ایک" کہنے لگے نہیں جلدی بانٹو اور بھاگو۔"

وہاں سے نکل کر حلبچہ کے علاقے پہنچے۔ میں نے کہا شہر کے اند ر چلو، کہنے لگے "تمہارا دماغ خراب ہے، بیوی بچے نہیں ہیں تمہارے ؟وہاں کیمیکل بم مارے ہیں" میں نے کہا "نہیں ، نہیں ہیں میرے بیوی بچے" شہر کے اندر چلو اور جوانوں کی مدد کرو" ایک کہنے لگا"بھائی تم ہم کو مارنا چاہ رہے ہو، میرے بیوی بچے ہیں میں شہر میں نہیں جاسکتا" میں نے کہا "تو اتر جاو، میں خود لے جاونگا" بعض افراد اتر گئے اور ہم شہر کے اندر پہنچے۔
عجیب، وحشتناک منظر تھا، حتی عراقی فوجیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔  آگے ایک چوکی بنی تھی، جس میں جوان کیمیکل بم سے بچاو والے لباس پہنے کھڑے تھے۔ میں بھی اسی لباس میں تھا۔ میں نے شہر کے اندر جانے کا مطالبہ کیا۔ کہنے لگے:"یہ ممکن نہیں، گاڑی اندر جائےگی تو دھول اڑے گی جس میں کیمیکل کے اثرات موجود ہیں جو باقی زندہ افراد کے لئے نقصان دہ ہیں، آپ بھی کھانے کا سامان لائے ہیں وہ بھی زہر آلود ہوجائےگا۔"
واپس پلٹے حبیب چھاونی میں کچھ ڈبے اتارے اور اگے بڑھنے کا سوچا۔ خبر آئی کہ یہ علاقہ آج رات خالی کرنا ہے۔ کل صبح بہت خطرہ ہے یہاں۔ سامان باندھا اور نکل گئے ، ہماری گاڑی آخری گاڑی تھی۔ لائٹس  بند تھیں اور رات کا اندھیرا۔
صدیقیان صاحب جو جنگ کے ادارے کے مسئول تھے کہنے لگے: "مصاحب! تم ہمیں مرواو گے، ایک منٹ کے لئے لائٹس کھولو" میں نے کہا"نہیں ہوسکتا ، عراقی پہاڑوں پر موجود ہوں گے ، خطرہ ہے۔"
"اس رات کے اندھیرے میں کون ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوگا، لائٹس کھولو ، ابھی ہمیں کسی گڑھے میں گرا دیتے"

۱۰، ۱۵ کلومیٹر پر گھنٹہ کے حساب سے گاڑی چل رہی تھی، کبھی کبھی گہرائی آجاتی تو میں موڑ لیتا۔ کہنے لگے "لائٹس آن کرو، اللہ کی قسم سارے عراقی سو رہے ہیں"
جیسے ہی لائٹس کھولیں ایک راکٹ بالکل قریب  آکر گرا  ، پوری گاڑی ہل گئی۔ صدیقیان صاحب کہنے لگے"تمہاری ماں کا واسطہ لائٹیں بند کردو، بھاگو یہاں سے ورنہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے"
"آپ نے ہی تو کہا تھا کہ سب سورہے ہیں، اب دیکھ لیا ؟"
ہم نکل گئے لیکن انکے راکٹ بند نہیں ہوئے۔

یہ خشک میوہ جات کیوں لے آئے ؟
ہم ڈیم کے پاس پہنچے، تقریبا  رات کے ۳ بج رہے تھے۔حاجی علی صاحب نے بتایا کہ الفجر آپریشن کے جواب میں عراقی فوج کاروائی کرنے والی ہےلہذا آمادہ رہیں۔ رات بارش شروع ہوگئی تھی، میں کئی روز سو نہیں سا تھا، آنکھ کھلی تو توجہ ہوئی کہ آدھا پانی میں ہوں، تیز بارش ہورہی تھی، کوئی محفوظ جگہ دھونڈی اور پھر سوگیا۔
صبح ۶ بجے آواز آئی " بھائیوں نماز کا وقت۔۔۔۔ نماز ۔۔ نماز"
اس وقت بھی بارش اپنے زوروں پر تھی، نماز کے بعد بیٹھے ہوئے تھے  تو میں نے حاج علی سے پوچھا " کیا ہوا عراقیوں نے حملہ نہیں کیا" کہنے لگے "دیکھ نہیں رہے بارش ہورہی ہے، انکے ٹینک کیچڑ میں پھنس گئے ہیں۔"
اسی آپریشن میں چند افسروں نے امام خمینی کو خط لکھا کہ اگر ہم یہ ڈیم جو سربندی خان کے علاقے میں ہے اڑا دیں تو بصرہ تک سارا پانی پانی ہوجائےگا۔ کچھ بھی نہیں بچے گا اور جنگ بھی رک ختم ہوجائےگی۔ امام نے جواب دیا کہ کسی بھی صورت میں اس بات کی اجازت نہیں ہے ، ہمیں حق نہیں کہ پینے کے پانی سے لوگوں کو محروم  رکھیں اور اسے ضایع کردیں۔
سال کی تبدیلی کے وقت ہم اسی ڈیم پر اپنے لائے ہوئے خشک میوہ جات تقسیم کررہے تھے۔  سرکاری ٹی وی ہم سے انٹرویو لے رہا تھا۔
"کیا کررہے ہیں ؟"

"خشک میوہ تقسیم کررہے ہیں "
"کہاں سے لائے ؟"
"تہران، اسکول کے بچوں اور مسئولین نے مہیاء کیے ہیں"
"یہ خشک میوہ ہی کیوں لائے ؟"
"تاکہ جوانوں کو احساس ہو کہ انکی حمایت کرنے والے اور انکی فکر کرنے والے موجود ہیں"
اسی اثنا میں گولا باری کی آواز آئی۔ ہم نے سوچا کہ پھر کوئی آپریشن شروع ہوگیا۔ کیمرہ کا رخ بھی دھماکوں کی جانب تھا۔
کہنے لگے" اپریشن نہیں شروع ہوا، نیا سال شروع ہوا ہے"
سب جوانوں نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔  عراقی سمجھے کہ یہاں سے حملہ کیا جارہا ہے اور پیچھے کی جانب بھاگ گئے۔ اس کے بعد یہ لطیفہ بن گیا کہ

"صدام کی فوج نئے سال کی خوشی میں ہونے والی ہوائی فائرنگ اور دھماکوں سے بھی ڈرتی ہے" 



 
صارفین کی تعداد: 4063


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔