جنگ اور اسیری کے قصے

عراقیوں کے ٹی وی کو کئی کلو رنگ سے ٹھیک کردیا!

بیان: علی اصغر گرجی زادہ

ترتیب: فاطمہ مرادی

ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-6-7


جب میں عراقیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور "الرشید جیل" لے جایا گیا، وہاں بہت گھٹن تھی اس حد تک کہ تقریبا ایک سال بعد سورج دیکھنا نصیب ہوا، وہ بھی کچھ بیماری کی وجہ سے اجازت ملی کہ ۱۰ منٹ وہاں موجود کھلی فضا میں چہل قدمی کرسکوں۔

اسیری کہ دوران ہمارے ذہنوں میں تاریخیں رہتی تھیں کہ اب کون سی مناسبت آنے والی ہے۔ عید غدیر کی شب، میرے سیل کے ۲ ساتھی جو دونوں ہی کرمانشاہ کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے، ایک محمد سہرابی جو ٹیلویژن سینٹر کا رپورٹر تھا اور دوسرا رستم ترکاشوند، ہم آپس میں عید غدیر کے پروگراموں  کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔ سہرابی نے کہا: "کرمانشاہ میں عید غدیر کی شب تھال بھر کے وہاں کی مشہور مٹھائی جس میں پستہ اور بادام ہوتا ہے، تقسیم کی جاتی ہے" یہ بات سن کر مجھے ایران، گھر والے اور وہ مٹھائی یاد آگئی۔

اگلے دن، جیل کے صدر دروازہ کی خوفناک آواز سن کر صبح ہوئی۔ جو عموما ساڑھے سات بجے کھلتا تھا لیکن آج ایک گھنٹہ قبل ہی کھول دیا گیا۔ ہم سمجھ گئے کہ کوئی بات ہے۔ عموما ایسے حالات میں سیل میں موجود افراد کی چیکنگ یا منتقلی ہوتی تھی یا عراق کے انقلابی قیدیوں کی سزائے موت۔ یہی سوچ رہے تھے کہ ہمارے سیل کھول دئیے گئے۔ دروازہ کے سامنے وہاں کا ایک ذمہ دار کھڑا تھا، جسے دیکھ کر ہمیں خطرہ کا احساس ہوا۔ لیکن وہ مسکرایا اور کہا: "کل رات میں اپنی ماں کے پاس کاظمین میں تھا، میں نے اسے بتایا کہ کچھ ایرانی باشندے بھی اسی جیل میں ہیں جہاں میری ڈیوٹی ہے۔ میری ماں نے جب یہ سنا تو مجھ سے کہا کہ آج شب عید غدیر ہے، ہم اور وہ ایرانی شیعہ ہیں۔ تم کل یہ تحفہ جو ابھی تمہیں دیتی ہوں، انکو لازمی دینا۔ میں نے اپنی ماں کو جتنا منع کیا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا، وہ نہ مانی اور کہنے لگی کہ اگر میرا یہ کام نہیں کیا تو دودھ حلال نہیں کرونگی۔" اسکے بعد اس نے وہ تحفہ ہمیں دیا تو وہ شہر یزد کی وہی پستہ بادام والی مٹھائی تھی۔

جنگ کے ابتدائی دنوں میں خرمشہر میں میرا ایک دوست جس کا نام غلام عباس سروندی تھا، شہید ہوگیا۔ ستمبر کے مہینہ میں خوزستان کا موسم بہت زیادہ گرم ہوتا ہے تقریبا ۵۰ درجہ حرارت تک پہنچ جاتا ہے۔ شہید سروندی کے بدن میں بم  کے ٹکڑے گھس گئے تھے جس کی وجہ سے وہ شہید ہوئے اور کچھ دنوں بعد انکو دفنا دیا گیا۔

جب غلام عباس سروندی کو غسل دینے کے لئے غسل خانے لایا گیا، میں اس وقت ۱۸ سال کا  تھا اور بہت حیران تھا کہ کس طرح میرے دوست کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ اسکا خون رک ہی نہیں پا رہا تھا بعد میں مجبورا اسے پلاسٹر کے ذریعے بند کیا گیا۔

شہید دوسروں سے بہت مختلف ہوتا ہے:

فتح المبین آپریشن میں، ایرانیوں کی جانب سے عراقی فوجیوں کی میتوں کو دین اسلام کے احکامات کے مطابق ایک عالم دین کی زیر نگرانی دفن کیا، کیونکہ وہ مسلمانوں کی میتیں تھیں۔ یہ بات ہمارے لئے ایک درس تھی، وہ افراد جنہوں نے ہمارے ملک پر حملہ کیا، ان کے ساتھ یہ کردار اپنایا گیا، جبکہ عراقی فوجیوں نے ہمارے غوطہ گر فوجیوں  کو ہاتھ پائوں باندھ کر زندہ درگور کیا تھا۔

جنگ کہ زمانے میں ، میں دزفول کے ہوائی اڈے میں تھا۔ میں نے  اپنے شہر کے ایک شخص کو دیکھا جس نے مجھ سے کہا: "میرے پاس مجاہدین کی مدد کے لئے صرف کفن ہے جو میں نے نجف و کربلا وغیرہ سے مس کر کے لایا ہوں۔ اس نے مجھے وہ کفن  دیا کہ کسی شہید کے لئے بطور تحفہ قبول کروں میں نے بھی اسی دن ایک شہید کو دے دیا۔

اسیری کے دور کی ایک سرگرمی عراقیوں کے ساتھ ہنسی مزاق تھی۔ ایک دن موصل کے جیل میں، ایک عراقی فوجی آیا اور کہا: "کوئی رنگین ٹی وی صحیح کرسکتا ہے ؟ افسر کے دفتر کا ٹی وی خراب ہوگیا ہے۔ اگر اسے پتہ لگ گیا تو ہمیں جان سے مار دےگا"  ایک ایرانی اسیر، جو اسے صحیح کرنا نہیں جانتا تھا کہنے لگا کہ میں کردونگا۔

اس نے فوجی سے کہا کہ اسے ٹھیک کرنے کے لئے مجھے ایک کلو لال، ایک کلو سبز اور ایک کلو سفید رنگ چاہئے ہے۔ وہ فوجی بھی کچھ گھنٹوں میں یہ سارا سامان لیکر آگیا۔ اس ایرانی نے رنگ چھپا دیے تاکہ کسی فوجی کو معلوم نہ ہو کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔ جب فوجی آیا تو پوچھا کہ رنگ کا کیا کیا ؟ تو اس قیدی نے جواب دیا کہ "ٹی وی صحیح کرنے میں لگ گیا" تو فوجی بولا: "ہاں! یہ جو کہتے ہیں کہ ماہر ہوتے ہیں صحیح کہتے ہیں۔

 

·         پلاٹون سردار علی اصغر گرجی زادہ، سردار ہاشمی کے ساتھی اور سپاہ پاسداران کی بری فوج کی ایک کمیٹی کے سربراہ ہیں، جو عراقیوں کے ہاتھوں قید و بند کی صعبتیں برداشت کرچکے ہیں۔انکی زندگی کے واقعات انکی کتاب "الرشید جیل" میں درج ہیں۔  سردار گرجی زادہ فی الحال سپاہ کی انصار المھدی عج بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔

·         اس یادداشت کو "شب خاطرہ" کے نام سے ایک محفل میں جو مقاومت کی ادبیات اور ھنر کے درفتر میں منعقد ہوئی، مورخہ  ۲۴ فروری ۲۰۱۶ کو بیان کیا گیا تھا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3845


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔