ایک دہشتگرد فرقے کے ساتھ زندگی گذارنا اور اس سے فرار

مترجم: سید روح اللہ رضوی

2016-5-7


مسعود بنی صدر سابقہ ادارہ مجاہدین خلق کے رکن اور  لکھاری تھے۔ وہ ۱۹۵۳ میں تہران میں پیدا ہوئے۔  وہ ۱۹۷۸ میں انجینئرنگ اور ریاضی  کے  شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے  کے دوران مجاہدین خلق میں شامل ہوگئے۔  مجاہدین خلق ایک سیاسی ادارہ تھا  جو بعد میں ایک دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہوگیا۔ بنی صدر خوش قسمتی سے ۱۹۹۶ میں فرار  ہونے میں کامیاب ہوگئے اور  اُنہوں نے ۲۰۰۴ میں  کتاب "ایک ایرانی باغی کی یادیں"  شائع کی۔ اُنہوں نے اس وقت سے اپنی پوری زندگی کو اس گروہ کو پھیلانے کیلئے مطالعہ اور تحقیق میں صرف کیا اور اس مطالعہ کے نتیجے میں اس کی دوسری کتاب " دہشت گرد اور ویران کرنے والے گروہ: غلامی کی ایک نئی شکل" ہے جو ۲۰۱۴ میں شائع ہوئی۔

● میں نے اپنے گذشتہ واقعات کو لکھنا شروع کیا۔ کتاب کا آخری حصہ چل رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ وہ  ایک فرقہ کی تشکیلات تھیں۔

فر آبزرور کا نمائندہ آناپیوو وراچک سابقہ مجاہدین خلق کے رکن مسعود بنی صدر کے ساتھ بات کرنے بیٹھا ہے؛  اس کے کچھ حصوں کو آپ آگے ملاحظہ کریں گے۔

مجاہدین خلق ۱۹۶۵ میں امریکی  سامراجیت کے خلاف بنی۔ اس گروہ نے اسلام اور مارکسیزم  کے رابطہ پر  اعتقاد  کے ساتھ، ایرانی انقلاب کی ترقی میں مدد کی۔ لیکن جب انقلابی حکومت میں اختلاف پیدا ہوا تو یہ ایک دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہوگئی  اور ایران چھوڑنے پر مجبور ہوگئی اور ایران عراق جنگ میں اس نے صدام  کی حمایت کی۔ امریکی حکومت  ۲۰۱۲ تک مجاہدین خلق کو دہشت گرد ادارہ کہتی رہی۔ ایرانی حکومت کے اندازوں کے مطابق تین آخری دہائیوں میں مجاہدین خلق کی کاروائیوں کے باعث ۱۲ ہزار سے زیادہ ایرانی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔

یہ ادارہ جو ایران کے باہر سے کاروائیاں انجام دیتا ہے۔ اس میں ایک فرقے کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔  مجاہدین خلق معاشرتی اور خاندانی رشتوں کا شیرازہ بکھیرتی ہے اور اپنے اراکین کو مجبور کرتی ہے کہ اپنے لوگوں کو ترک کردیں ، اُنہیں تنہا کرنے، غلط معلومات اور عقائد میں عمل دخل کرکے اُنہیں گروہ سے وابستہ کرتی ہے۔

میں تقریباً ایک مہینے تک ہسپتال میں تھا ایسے میں میرا گروہ کے کسی فرد سے کوئی رابطہ نہیں  تھا۔ ہسپتال میں دوسرے لوگوں سے ملنے میں بھی کامیاب رہا۔

مسعود بنی صدر، انقلاب کے بعد ایران کے پہلے وزیر اعظم یعنی ابو الحسن بنی صدر  کا کزن ہے، ایران میں تعلیم کے دوران مجاہدین خلق میں شامل ہوا اور تقریباً ۲۰ سال تک اس کے سیاسی ڈپارٹمنٹ میں کام کیا۔ اُس نے بالآخر ۱۹۹۶ میں میں اس گروہ کو خیر باد کہہ دیا اور آج کل اس فرقے کے نظریاتی خطرات کو بیان کر رہا ہے۔

سوال:   آنا پیوو وراچوک:  مجاہدین خلق اور دوسرے سیاسی اداروں میں کیا فرق ہے؟ آپ کی نظر میں ایک فرقہ کی تعریف کیا ہے؟  اور یہ دونوں آپس میں کس طرح جمع ہوسکتے ہیں؟

مسعود بنی صدر:فرقے زیادہ تر غلامی سے شباہت رکھتے ہیں تاکہ ایک سیاسی تنظیم کی شباہت اختیار کرلیں  جو نظریات اور آئیڈیلز پر مبنی ہوتے ہیں۔ فرقوں کے عقائد ایک خاص قسم کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کسی فرقے کے رکن کی نظر میں ،  یہ کہ کیسا دکھائی دیتا ہے سے زیادہ مہم یہ ہے کہ وہ کس طرح سوچتا ہے۔ مجاہدین خلق میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اسلام کی اس یا اُس اصل پر اعتقاد نہیں رکھتا اور کسی کو اس کی پروا نہیں ؛  لیکن اگر آپ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، اگر اطاعت نہ کریں یا ادارہ کے رہبر سے وفادار نہ ہوں تو ایک لمحے کے لئے بھی مجاہدین خلق میں نہیں رہ سکتے؛ اسی طرح کی چیزیں القاعدہ اور داعش میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک دوسرا اصلی فرق یہ ہے کہ ایک فرقہ، ایک طرح سے ایک طرز زندگی ہے اور غلامی کی طرح اُس سے آزادی کا کوئی راستہ نہیں سوائے مرنے کے۔ جب آپ کسی گروہ کے رکن ہوتے ہیں تو اُس کا آپ کے تمام وجود پہ اختیار ہوتا ہے۔ آپ کا ماں یا بہن ہونا فرقہ میں شمولیت کی بنیاد پر مشخص ہوتا ہے۔ آپ کا کام بھی ایک فرقے کے رکن کی حیثیت سے مشخص ہوتا ہے۔

 

سوال:  پہلے مرحلے میں کیا چیز سبب بنتی ہے کہ لوگ کسی فرقے میں شامل ہوتے ہیں؟

میرے خیال سے  لوگ اپنی مرضی سے کسی فرقے میں شامل ہونے کے بجائے زیادہ تر  بھرتی کیئے جاتے ہیں۔ لیکن، تین دلائل  کی بنیاد پر کچھ لوگ دوسرے کی بہ نسبت فرقوں کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔ سب سے پہلا شخص  وہ ہے؛  جس کی کوئی شخصیت نہ ہو، سب سے کٹا ہوا ہو یا اپنی زندگی کے بے ہدف ہونے کا احساس کرتا ہو۔ آج کل بہت سے جوان تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں، یہ کسی تعلق نہ ہونے کا فقدان اُنہیں جماعتوں، فرقوں اور مختلف گروہوں کی طرف مائل کرتا ہے  تاکہ ان کی کمی پوری ہوجا ئے۔ دوسرا مرحلہ اپنی خواہش  کا ہے؛ چاہے نظریاتی، سیاسی یا فلسفی ہو  اور اگر آپ معاشرے یا مذہب  میں اپنے ساتھ ناانصافی ہوتے دیکھیں تو آپ کے اندر کی حس آپ کو کچھ کرنے پر اُکساتی ہے۔ فرقوں میں بھی نا انصافی پائی جاتی ہے لیکن اُن کا دعویٰ  انصاف  کو عام کرنے کا ہوتا ہے ،  اگر آپ شرافتمندانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا اس کی خاطر زندگی ہاتھ سے دھو بیٹھے تو آپ شہادت کے درجہ پر فائز ہوکر قومی ہیرو بن جائیں گے۔ اور تیسری چیز ممکن ہے ایسا ہو کہ آپ پیدا ہی اُسی فرقے کے اندر ہوئے ہوں۔ آپ کے والدین کسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے لہذا  آپ اُسی فرقے میں پلے بڑھے۔

 

سوال:  آپ نے کہا کہ کسی فرقے کے رہبر کی شخصیت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے، آپ کو ایسی بات کرنی چاہئے جو لوگوں کے دل جیت لے۔ اس مقصد کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟

بھرتیوں کے بعد ذہنوں پر کام ہونا چاہیے۔ میں نے اس چیز کو تین مربوط حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی چیز  ذہنی یا منطقی چالاکی اور نفو ذ کرنے والی مؤثر تکنیک ہیں جو آپ کے نظام کو بدل  دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر،  آپ کسی گھرانے سے منسلک ہیں، وہ لوگ منطقی طریقے یا مؤثر تکنیکوں کے ذریعہ  آپ کو مائل کرسکتے ہیں  کہ آپ ایک نئے خاندان کے فرد ہیں ناکہ اپنے والدین ، بھائی اور بہنوں کے ہمراہ۔ وہ آپ کو اُن کے لئے لڑنے پر آمادہ کرلیتے ہیں، کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ آپ اپنے یا معاشرے کے لئے عدالت کے خواہاں ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد ذہن ، ماحول اور رویوں کو کنٹرول کرنے کا مرحلہ ہے۔ آپ کے سابقہ احساسات پر غلبہ کیلئے، فرقے کے سرکردہ افراد آپ کو آپ کی گذشتہ زندگی اور معاشرے سے الگ کرلیں۔

 

سوال: کسی انسان کو  اُس کے دوستوں اور خاندان سے  جدا کرنا، یہ کسی شخص کی نظر میں کتنی اہمیت  رکھتا ہے؟ آپ کے تجربے کے مطابق،  آپ سے کیا کہا گیا یا آپ سے کس چیز کا مطالبہ کیا گیا؟

آہستہ آہستہ  نا مشخص ہوجاتا ہے، بالکل گم۔ مثال کے طور پر، میں ڈاکٹریٹ کے آخری سال میں تھا؛ لیکن مجاہدین خلق کی تعلیمات کچھ اس طرح کی تھیں  کہ میں اپنے ڈاکٹریٹ پر فخرکرنے کے بجائے احساس شرمندگی کرنے لگا ۔ کیوں؟  کیونکہ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ جب تم تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اُس زمانے میں کچھ ایسے لوگ تھے جو  جیلوں میں شاہ کے مظالم سہہ رہے تھے  لہذا تم انسانیت کے لئے اپنی جان فدا کرنے کے بجائے خود غرضی سے اپنی تعلیم میں مشغول رہے۔  لہذا میں اس پر فخر کرنے کے بجائے شرمسار ہوا۔ میں اپنے خاندان، اپنے خاندانی نام  اور اپنے چچا زاد بھائی جو کہ ایران کا وزیر اعظم تھا کی وجہ سے شرمندہ تھا۔

● مجھے ایک قدرتی اور معمولی مہربانی نے بہت متاثر کیا، کیونکہ ہمارے فرقے میں عام لوگوں کو حیوانات  کے درجے سے ایک درجہ اوپر سمجھا جاتا ۔

یہ آپ کا نیا پن ہے، آپ کی نئی شخصیت ہے کہ آپ  کی حیثیت بالکل"نامعلوم" ہوجائے  اور اپنی تعریف فرقے کی بنیادوں پر کریں۔ فرقے کے افراد میں آپ کا رتبہ کیا ہے؟ فرقے کے رہبر اور آپ کے درمیان کیا رابطہ ہے؟  فرقے میں آپ کا رویہ کیسا تھا؟ آپ فرقے کے اہداف کو پورا کرنے میں کتنے کامیاب ثابت ہوئے ہیں؟  میں اُسے ایک طرح کی غلامی کہتا ہوں کیونکہ  آپ بالکل گم ہوجاتے ہیں۔ مجاہدین خلق میں ہمیں اس بات کی بھی اجازت نہیں تھی کہ اپنے بچوں اور اُن کی آسائش کے بارے میں سوچیں۔

 

سوال: کس چیز کی وجہ سے آپ کا ارادہ بدل گیا؟ کس وجہ سے آپ نے مجاہدین خلق کو خیر باد کہا؟

فرقوں- میری نظر میں تمام فرقوں میں ایک کمزوری پائی جاتی ہے۔ یہ فرقے آپ کو بدل سکتے ہیں، آپ کے نظریات کو بدل سکتے ہیں اور اسی طرح آپ کے ظاہر اور رویے وغیرہ کو بھی۔ لیکن اہم بات یہ  ہے کہ اس کی قدرت نہیں رکھتے؛ یہ فرقے آپ  کی یادوں کو مٹا نہیں سکتے۔ اگر آپ اپنی سابقہ زندگی، دوستوں اور گھر والوں کے بارے میں نہیں سوچتے،  لیکن اُن کے لئے آپ کے احساسات ابھی بھی جاگ رہے ہیں ۔ کوئی بھی چیز ان احساسات کو بیدار کرسکتی ہے، ایک خوشبو آپ کو آپ کی  بچپن کی وادیوں میں لے جائے گی؛ ایک پھول ، ایک خاص رنگ یا کسی کا شفقت سے پیش آنا، سڑکوں پر چلنا، کسی کو اپنی ماں کی  شبیہ میں دیکھنا، سڑک پر ایک ماں اور بچے کے درمیان عشق کو دیکھنا۔ گرہوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد  کیلئے خود کو نجات دینا بہت مشکل ہے جیسے مجاہدین خلق ، داعش اور القاعدہ جو معاشرے اور فطری زندگی (روحانی  اور جسمانی لحاظ سے بھی) سے الگ ہوگئے ہیں۔  کیونکہ جس کو پسند کرتے ہیں یا دوست رکھتے ہیں اُس سے اظہار دوستی نہیں کرسکتے اور اُسے یاد نہیں کرسکتے۔ لیکن میری طرح کا  فرد جس نے مختلف ممالک کا سفر کیا ہو تاکہ یورپ اور امریکہ میں اقوام متحدہ کو  مختلف سیاسی گروہوں کی  رپورٹیں دے سکے، حالات فرق کرتے ہیں  کیونکہ میں دوسرے عام افراد سے مل سکتا ہوں۔

پہلی چیز جس نے معمولی مہربانی کو میرے ذہن میں اُجاگر کیا ، جب میں فرانس سے  امریکہ  کے سفر پر تھا۔  اتنا تھکا ہوا تھا کہ فلائٹ کے شروع سے آخر تھا سوتا رہا۔ جب میری آنکھیں کھلیں تو دیکھا ایک ادھیڑ عمر کی خاتون میرے برابر میں بیٹھی تھی اور جہاز میں کھانے پینے کیلئے جو چیز بھی دی گئی تھی اُس نے وہ تمام چیزیں میرے لئے سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ ایک بہت ہی معمولی اور فطری شفقت تھی، لیکن اس نے  مجھ پر گہرا اثر چھوڑاکہ میں معمولی انسانی   زندگی کو درک کروں، کیونکہ ہمارے فرقے میں معمولی انسانوں کو حیوانات سے  ایک درجہ اوپر سمجھا جاتا ہے۔ وہ لوگ فرقے سے باہر کےافراد کو انسانی صفات سے عاری سمجھتے ہیں، لہذا  اُن  کے پیروکار فرقہ  کیلئے ہر کام کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آپ د یکھ رہے ہیں کہ داعشی  بغیر کسی شک یا  عذاب وجدان کے  لوگوں کی گردنیں اُڑا رہے ہیں۔ مجاہدین خلق میں اگر آپ ایک معمولی شخص سمجھے جاتے ہیں تو یعنی آپ ایک کتے یا سور کی طرح ہیں۔ معمولی ہونا ایک بہت بڑا جرم ہے کہ اس حال میں  میرا ایک معمولی خوبصورت  سے سامنا ہوتا ہے، دوست رکھنے کا حسن اور ایک مہربانی اور ہمدردی کی خوبصورتی کو درک کرنے کا حسن۔

● مجاہدین خلق کی تعلیمات کچھ اس طرح کی تھیں  کہ میں اپنے ڈاکٹریٹ پر افتخار کرنے کے بجائے احساس شرمندگی کرنے لگا

دوسری چیز جو میری نجات کا باعث بنی وہ اپنی بیٹی اور اپنے پرانے  دوست کو انگلینڈ میں دیکھنا تھا۔ اس کے بعد قسمت نے بھی مدد کی اور میں  اپنے کمر درد کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوگیا۔ وہاں میں بہت زیادہ مصروف تھا اور لندن میں مریم رجوی (مسعود رجوی کی بیوی اور ادارہ مجاہدین خلق کی مشترکہ لیڈر) کے ساتھ سیاسی جلسے تھے، وہ مجھ سے غافل ہوگئے۔ تین ہفتہ یا ایک مہینے تک ہسپتال میں رہا اور اس مدت میں گروہ والوں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوسکا۔ مجھے یاد ہے کہ میرےبستر کے نزدیک ایک لڑکا  تھا جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا  اور اس کے ہاتھوں پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ میں  اُسے کھانادیتا اور حتی  کپڑے تبدیل کرنے میں اُس کی مدد کرتا۔ وہ بھی بہت مہربانی سے پیش آتا۔ ان تمام واقعات نے میری مدد کی تاکہ جان سکوں کہ میں کون تھا اور درحقیقت کون ہوں؛ایک انسان۔ ان احساسات نے اچانک مجھے ایک بہت ہی برے خواب سے جھنجوڑ کا بیدار کیا۔ اس کے باوجود میں اعتراف کرتا ہوں کہ اُس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے  یا کیا ہوچکا ہے،  سیاسی فریب کاریوں کو درک نہیں کرسکتا، گروہ کی دوغلی پالیسیوں کو نہیں سمجھ سکا۔ لیکن میں یہ کر سکا کہ خود کو جان لوں کہ  میں کون تھا۔  اپنی پرانی شخصیت اور اپنے پرانے احساسات کو درک کرنے میں کامیاب ہا، میرے خیال سے یہی وہ چیز تھی جو میرے گروہ ترک کرنے کا باعث بنی۔

سوال: یہ جوآپ کے ساتھ  تمام حادثات پیش  آئے ان کو عملی جامہ پہنانے میں کتنا وقت لگا؟

بہت ٹائم لگا۔ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ کسی گروہ کو ترک کردیں لیکن وہ بھی آپ کو چھوڑ دیں اس میں زیادہ ٹائم لگتا ہے۔ کیونکہ وہ آپ کے ذہن، دل ، فلسفہ اور طرز تفکر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان سب سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔  میرے خیال سے مجھے اس فارمیشن کو فرقہ سمجھنے میں ایک سال کا عرصہ لگا ۔ مجھ سے نہیں ہوسکا کہ اُس پروسیس کو  برین واش سمجھوں۔ آہستہ آہستہ جب میں نے اپنی یاد داشت لکھنا شروع کی – جہاں سے شروع ہوا تھا وہاں سے ترتیب وار یاد کرتا  گیا – میرے خیال سے کتاب کی آخری فصل تھی جہاں مجھے احساس ہوا کہ  وہ ایک فرقہ کا پروسیس تھا اور میرا برین واش کیا گیا تھا۔

 

سوال: جو آپ نے اس کو تشخیص دے لیا تو کیسا محسوس کیا؟

بہت اعلیٰ احساس  اور اس کے ساتھ ساتھ وحشت کا احساس بھی تھا۔ ذرا سوچیں جو شخص آپ کے لئے مقدس اور پاکیزہ ترین شخص ہو، پھر آپ متوجہ ہوں کہ وہ فقط  ایک شعبدہ باز تھا جو آپ  کو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا اور صرف آپ کی دولت ہی نہیں بلکہ آپ کی سلامتی، خوشی اور اسی طرح انفرادیت، شخصیت اور انسانیت کو بھی تاراج کرنا چاہتا تھا۔ اس تصور سے میرے احساس کو درک  کرسکتے ہیں۔ ان سب کے بعد آپ خود کو آزاد سمجھتے ہیں اور جو چاہے کرسکتے ہیں۔ پہلے کی طرح نہیں کہ  جس کے پیروں میں کسی فرقے کی زنجیریں ہوں۔ اچانک ہر فیصلہ آپ کے لئے  دشوار ہوجاتا ہے۔ میں اپنی بیٹی سے مدد لیتا  اور کپڑے خریدتے وقت اُس سے کہتا کہ وہ میرے لیئے پسند کرے۔ جب لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کو ایک باشعور انسان سمجھتے ہیں۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک ایسا بچہ ہے جسے اپنے والدین کی حمایت حاصل نہیں۔ اُسے سہارے کے لئے کوئی مضبوط دیوار نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]  Anna Pivovarchuk

[2] Fair Observer

[3] The Moscow Times



 
صارفین کی تعداد: 3543


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔