اسماعیل نادری سے گفتگو

رمضان آپریشن کی ان کہی باتیں

احسان منصوری
مترجم: سید روح اللہ رضوی

2016-5-2


اشارہ:

حاجی اسماعیل نادری سے انکے گھر میں ملاقات طے پائی ہے۔ وہ کمانڈر جس نے اپنے دونوں پاوں کربلا ۵ آپریشن میں شلمچہ کے مقام پر قربان کردیئے۔ اب اراک یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ہیں۔ خزاں کے ایک خوشگوار دن انکا مھمان ہوا تاکہ ان سے رمضان آپریشن کے بارے میں کچھ سن سکوں، اس آپریشن کی داستانیں زیادہ ہیں سنا ہے کہ عراق نے جھیلوں میں تارکول ڈال دیا تھا اور کمانڈرز نے لا علمی کی بنیاد پر دستوں کو جھیلوں میں اتار دیا اور وہ لوگ پھنس گئے جس کے نتیجے میں ہم نے کئی شھید دیئے۔ دوسری طرف سے یہ آپریشن چونکہ خرم شھر کی فتح کے بعد شروع ہوا تھا اس لحاظ سے بھی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔

 

سوال: منصوری: کیا وجہ ہے کہ رمضان آپریشن کے بارے میں ایک خاص ذھنیت موجود ہے ؟

نادری: نہیں معلوم، کہ رمضان آپریشن کے بارے میں ایک خاص ذھنیت کیوں پیدا ہوگئی اور اراک کے بعض کمانڈرز جیسے شہید اصغر فتاحی اور شھید رحیم آنجفی بعض افراد کی تھمت کا شکار ہوئے۔   البتہ جو دلیل بیان کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ کی ادبیات میں، مفقود نام کی کوئی چیز پہچانی نہیں جاتی۔ لوگوں کو اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں مجاھدین کے مفقود ہوجانے کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ لوگوں کے ذھنوں میں "مفقود" کا معنی بیٹھ جائے کہ " آپ کا بیٹا مفقود ہوگیا ہے اور اسکے کوئی آثار نہیں بچے نہ ہی اسکی لاش ملی ہے۔" اس پہلے تک مجاھد یا محاذ سے زندہ اور صحت و سالم لوٹتا تھا یا زخمی حالت میں، ورنہ شھید ہوجاتا اور اسکا جنازہ آجایا کرتا تھا یا قیدی بنا لیا جاتا تھا۔ یہ جو رمضان آپریش میں ایک دستے کے ایک تہائی افراد کی لاشیں بھی نہ ملیں، بہت سخت مرحلہ ہے۔  اگر طویل مدت میں تھوڑے تھوڑے کرکے ایسے واقعات پیش آتے مثلا ۵ مفقد الاثر، کچھ عرصے بعد ۲۰ مثلا اگلے سال ۳۰، ۱۰۰، ۲۰۰ مفقود الاثر دے چکے ہوتے تو ایک دفعہ میں اتنا شدید دھچکا نہیں پہنچتا۔ وہ بھی ایک عظیم فتح کے بعد۔ اور ہمیشہ بعض لوگ موقع سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور انہوں نے یہاں بھی سوء استفادہ کیا۔ جب کہ اصغر فتاحی اور رحیم آنجفی کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔

میں پہلا شخص تھا جو اراک سے اس آپریشن کے لئے بھیجا گیا۔ اس سے پہلے تھران یا اصفھان سے جاتا تھا کیونکہ اراک میں یونٹ موجود نہیں تھا۔ بعد میں جب یونٹ بنا تو میں اراک سے گیا۔ اس وقت اصغر فتاحی کمانڈر تھا اور میں رابطوں کا ذمہ دار تھا۔

 

سوال: منصوری: بٹالین کا کیا نام تھا ؟

نادری: بٹالین کا نام "ناصر بختیاری" تھا کیونکہ وہ انہی دنوں شہید ہوا تھا. ہم سپنتا گئے، کچھ عراقی اسیر بھی ہمارے ساتھ تھے جنہیں ہم نے رمضان آپریشن کے پہلے مرحلے میں گرفتار کیا تھا۔ ہم ساتھ کھانا پینا کرتے تھے، انکو سگریٹ بھی دیتے تھے۔ پھر خیمہ وغیرہ جب لگاتے تو اسیروں کو جدا کردیتے تھے، اس سے پہلے ہم سب کام مل کر کرتے تھے۔

 

سوال: منصوری:  سپنتا کہاں ہے ؟

نادری: نورد کی جانب ہے، اھواز سے خرمشھر جاتے ہوئے، نورد کے کارخانوں کے ساتھ ہے۔ نورد کے گوداموں میں سے ایک ہے۔ ادھر آپریشن کی تیاری کی اور آپریشن سے ایک رات قبل بلڈوزر وغیرہ کے ذریعے راستے ہموار کیے، میں وائرلیس اٹھائے ہوئے تھا اور ساتھ رحیم آنجفی اور اسماعیل ھاشمی تھے۔ ہم اس علاقے کے دوسرے کنارے جو دشمن کی جانب تھا، موجود تھے تاکہ دستوں پر نظر رکھ سکھیں۔ اسی راہ میں ۲، ۳ جوان گولی لگنے سے شھید ہوگئے تھے ہم نے انہیں دستوں کی صف سے جدا کردیا، اس کے بعد ایک علاقہ تھا، تقریبا ایک کلومیٹر جس میں مائنز بھی بچھی تھیں اور دشمن کا خطرہ بھی زیادہ تھا، ان حالات میں ہم نے صف بندی کے ساتھ آگے بڑھنا تھا۔ اس بٹالین کے اہم افراد میں اصغر فتاحہی، رحیم آنجفی، سید اسماعیل ھاشمی اور مسعود مرادی تھے۔ رحیم آنجفی اس ونگ کا کمانڈر تھا جو مھدی زین الدین کے ماتحت تھا، لیکن اس وجہ سے کہ پیچھے نہ رہ جائے اور وائرلیس کے زریعے بٹالین کو کنٹرول کرے، دستے کے ساتھ ہی آگیا تھا۔ عام طور پر ساتھ نہیں آیا جاتا۔ پی این پی میں بیٹھ کر ڈائرکشن دی جاتی ہے لیکن میں نے رحیم آنجفی کو پیچھے رہ کر رہنمائی کرتے نہیں دیکھا ہمیشہ دستوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ راستہ صاف کرنے والی ٹیم سے بھی اگے ہماری ٹیم ہوتی تھی، پھر حالات کا جائزہ لیکر راستہ صاف کیا جاتا تھا کیونکہ اس علاقے میں مائنز کافی بچھائی گئی تھیں، اسی طرح خاردار تاروں کو بھی صاف کیاجاتا تاکہ دستوں کا گزرنا آسان ہو اور کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ آپریشن کیوںکہ رات میں ہورہا تھا لہذا اور سخت تھا، دشمن کی پلاننگ بہت سخت تھی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا، زمین سے ۱۰، ۲۰ سینٹی میٹر اوپر مشین گنز لگائی ہوئی تھیں جس سے بچنا محال تھا اور ایک ہی راہ حل تھا کہ دستے زمین پر رینگتے ہوئے تقریبا ۱۰۰ میٹر کا فاصلہ طے کریں، عراق نے بہت منظم پلاننگ کی ہوئی تھی۔

اس کے باوجود بھی کہ زمین پر لیٹ کر حرکت کررہے تھے، انکے جسم بھی زمین سے اتنے بلند تھے کہ آسانی سے دشمن کا نشانہ بن سکتے تھے، خصوصا وہ افراد جو بیگز لئے ہوئے تھےجس میں راکٹ تھے۔ گولی اگر بیگ پر لگتی تو فورا آگ بھڑک جاتی، مشین گن کی گولی پورے جسم کو ہوا اڑا دیتی تھی۔ فورا آگ لگتی تھی۔ ۲، ۳ جوان اسی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ باقی یہ برداشت نہیں کر پارے تھے۔ جب یہ منظر دیکھتے تو کھڑے ہوکر آگ بجھانے لگتے جس تیزی سے کھڑے ہوتے کہ اس جوان پر لگی آگ بجھائیں اسی  تیزی سے گولی کا نشانہ بن کر گرجاتے۔

بہت خراب صورتحال تھی، سب کے سب، گولیوں کا نشانہ بنے تھے، میں بھی صف سے جدا مائنز کی طرف زمین پر لیٹا ہوا تھا اور تقریبا ۱۰ میٹر سے بھی کم کا فاصلہ تھا مجھ میں اور ان مشین گنوں میں۔ میں نے رحیم سے اجازت مانگی کہ جاوں اور دستی بم سے مشین گنوں کو اڑا دوں۔ ۳۰۰، ۴۰۰ افراد میں ۴، ۵ ایسے لوگ تھے جو صرف بھاگ رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے۔ رحیم، اصغر، سید اسماعیل اور ایک شخص جو پہلے نشہ کرتا تھا بعد میں محاذ پر آگیا، باقی لڑکے ناراض تھے کہ کیوں ایسے شخص کو اجازت دی گئی لیکن رحیم اور اصغر کا کہنا تھا کہ امام حسین ع نے بھی حر کو قبول کیا، یہ محاذ اسلام کا محاذ ہے جو آسکتا ہے آجائے۔

اس نے کمال کردیا، چفیہ - بسیجی رومال- کو اپنے سر پر باندھا تھا ، زخمی جوانوں کو بڑی تیزی کے ساتھ محفوظ جگہ پر منتقل کررہا تھا، کسی کو گود میں اٹھاتا کسی کو کندھے پر، یہاں تک کے خود شہید ہوگیا۔
مجھے اور اصغر کو بھی کوئی گولی نہیں لگی، میں پیٹ کے بل زمین پر لیٹا ہوا تھا اور وائرلیس میری کمر پر۔

رحیم نے کہا: "مھدی زین الدین صاحب سے رابطہ کرو اور حسن درویش سے کہو کہ یا ٹینک بھیجے یا افراد سوار کرنے والی گاڑی، لڑکے ابھی اس زمین کی آگ کو برداشت نہیں کرسکتے، ٹینک یا گاڑیوں کے ذریعے ہی حملہ ممکن ہے۔" میں نے جتنی کوشش کی کہ رابطہ ہو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ توجہ کی پتہ لگا کہ اینٹینا زمین پر پڑا ہے میں نے اسے اٹھا کر اپنے سر پر رکھا اور پھر ایک گولی کا نشانہ بن کر وہ اینٹینا بھی ۲ ٹکڑے ہوگیا، اتنی شدید تپش اور گولیاں کہ جو زندہ بچا تھا اسے خدا نہیں چاہتا تھا کہ ابھی جان دے۔ ورنہ کسی کا زندہ رہنا اس موقع پر ناممکن تھا۔

اصغر نے ایک گروہ کے ساتھ مل کر ۱۵، ۲۰ مشین گنوں کو تباہ کردیا لیکن ۱۵، ۲۰ افراد کافی نہیں تھے، مشین گنوں کی تعداد تقریبا ۲۰۰ تک ہوگی، جس سے جہازوں کو تباہ کیا جاتا تھا اور ۱۰۰ میٹر کے فاصلے سے بھی کم پر کسی انسان کو وہ گولی لگے گی تو اسکا کیا حشر ہوگا بہت سخت مرحلہ ہے یہ۔
اس کے باوجود ہم فرنٹ لائن تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن کوئی ایسا نہیں تھا جو اس وقت سالم ہو، یا شہید تھے یا زخمی، کوئی سالم ہوتا تو آگے بڑھا جاتا، اتنے میں مھدی زین الدین اور درویش آئے اور حکم دیا کہ واپس پلٹ جائیں کیونکہ کوئی اور دستہ فرنٹ لائن تک بھی نہیں پہنچ پایا تھا اور ہم سے زیادہ نقصان اٹھایا تھا۔ ہم اس جگہ سے لوٹ گئے، صبح ہوگئی تھی، دن نکلنے لگا تھا کہ دھماکوں کی شدت اور شور شرابے کی آوازیں ذہن میں گونج رہی تھیں مجھے یاد ہے کہ ہم اپنی زمین پر پہنچے تھے اسکے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کیا ہوا۔

 

سوال: منصوری: اصغر کیوں نہیں رہا ؟

نادری: اصغر ناراض تھا کہ واپس کیوں لوٹے ، اسکے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا کیونکہ ۱۰، ۱۵ افراد ممکن نہیں کہ ایک فرنٹ کو سنبھال سکیں۔ کسی اور دستہ کا وہاں پہنچنا مشکل ہوگیا تھا لہذا بہتر تھا کہ دن نکلنے سے قبل ہی لوٹ جایا جائے۔ اس سے پہلے بھی ۲ بٹالین جو بہت ماہر تھیں وہ بھی ایک ۱۲ دستوں پر مشتمل تھا، دوسرا بٹالین کوئی معمولی بٹالین نہیں تھا۔ یہ دونوں اتنی قدرت کے ساتھ آگے بڑھے باقی بٹالین نہیں بڑھسکے، آخر میں انکو بھی واپس آنا پڑا، اب صرف ایک دستہ بچا تھا اور عراق کے لئے اسکو اسیر بنانا مشکل کام نہیں تھا۔

 

سوال: منصوری: مفقود یعنی کیا ؟

نادری: وہ شہید جس کی کوئی نشانی موجود نہ ہو، کوئی چیز نا بچی ہو جسم کا کوئی ٹکرا نہ ملا ہو، اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکی لاش دشمن کے ہاتھ لگ جائے، وہ اسے شہید کردیں اور اسکی لاش انہی کے پاس موجود رہے۔

 

سوال: منصوری: یہ لاش دشمن کے کس کام کی ہوگی ؟

نادری: ان کے کسی کام کی نہیں ہوتی، ہم نہیں لاسکتے وہ بھی اپنی جگہ سے باہر نہیں آسکتے تھے، کیونکہ زمین پر مائنز بچھی تھیں اور اگر وہ باہر آ بھی جاتے تو ہم ماردیتے۔

 

سوال: منصوری: اصغر کے دستے سے ۱۰۰ افراد بچے تھے ؟

نادری: بہتر افراد کے نام سء مشہور ہے، لیکن ۱۰۰ افراد سے زیادہ تھے لیکن کربلا کے شہداء کی تعداد کی وجہ سے ۷۲ افراد مشہور ہوگئے۔

 

سوال: منصوری: اسکے بعد ؟

نادری: واپس اگئے، جنگ کے بعد بعض افراد کے پلاک یا انکی ہڈیاں واپس آئیں۔

 

سوال: منصوری: تارکول کا کیا قصہ تھا ؟

نادری: کوئی خاص بات نہیں۔ اسماعیل ھاشمی نے کہا تھا کہ ایک ندی ہے جو عراقی فرنٹ کے ساتھ تھی، زین الدین صاحب سے پوچھا کہ کہ کیا یہ ندی عبور کی جاسکتی ہے یا نہیں تو کہا کہ "یہاں کول ہے" یعنی دلدل ہے۔ یہ لفظ یعنی اتنی آسانی سے اس دلدل کو کراس نہیں کیا جاسکتا۔ جب واپس ہم آئے تو دیکھا کہ سب کہ رہے ہیں کہ وہاں تارکول تھا، لڑکے اس میں پھنش گئے تھے اور وہ اسکو عبور نہیں کر پارہے تھے تو وہ اس میں ڈوب گئے اور عراقیوں نے انہیں بہت مارا۔ جب کہ ہم اس جگہ موجود تھے نہ تارکول نام کی کوئی چیز تھی نہ اس جیسی کوئی دوسری چیز۔  شازندی لہجے میں دلدل کو کول کہتے تھے۔ بعد میں یہ کہانی مشہور ہوگئی کہ پورے علاقے کو عراقیوں نے تارکول سے بھر دیا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ اتنے بڑے پیمانے میں تارکول ڈال دیا جائے، کس چیز کے ذریعے ڈالیں گے، عقل بھی کبھی استعمال کی جانی چاہئے ہے، اتنی بڑی تعداد میں تارکول کہاں سے لائیں گے ؟ شلمچہ سے طلائیہ تک تقریبا ۸۰ کلومیٹر لمبائی اور اگر ۱یک کلومیٹر بھی چوڑائی حساب کی جائے تو کتنا تارکول چاہئے ہوگا ؟ ہم کس کام کہ ہیں کہ دیکھ رہے ہوں کہ وہ آئیں اور تارکول ڈالنا شروع کردیں۔ زمان و مکان اس کام کے لئے مناسب تو ہو۔
دوسری بات یہ کہ وہ کیوں یہ کام کریں گے ؟ اگر ہمیں روکنا ہوتو خندقیں کھود کر پانی ڈال دیں گے، اور انہوں نے یہ کام کیا۔ یہ جو اسماعیل نے ۲، ۳ مرتبہ "کول" "کول" چلایا سب سمجھے کہ تارکول ہے، بعد میں محاز سے ہٹ کر کہانی بن گئی کہ لڑکے اس تارکول میں پھنس گئے ہیں۔ اس بات کو لوگوں کے ذھن سے نکالنا ہوگا۔ مثلا ٹی وی سینٹر کوئی پروگرام رکھے اس حوالے سے، سید اسماعیل اور دوسرے جنگ میں شریک افراد جائیں اس بات کو لوگوں کے لئے واضح کریں، بتائیں کہ تارکول نہیں تھا بلکہ ایک جیسے لفظ کے چکر میں غلط فہمی ہوئی ہے۔

رمضان آپریشن میں بڑی مشکلوں میں سے ایک پیاس کی شدت تھی۔ شدت کی گرمی تھی، بطور مثال ہم نے آخری نماز جو مغرب کی پڑھی تھی اس وقت ہم نے اپنے تھرماس صرف اور صرف برف سے بھرے تھے اور کچھ بھی نہیں ڈالا تھا، برف کو توڑ توڑ کر بھرا تھا۔ امامبارگاہ سے جہاں ہم رکے ہوئے تھے وہاں سے ہماری چھاونی کا رساتہ ۴، ۵ کلومیٹر سے زیادہ نہیں تھا۔

اسکے بعد بغیر کسی فاصلے کے گاڑیوں میں سوار ہوکر فرنٹ لائن کی جانب روانہ ہوئے جب اترے اسکے ایک گھنٹے بعد میں نے اپنا گلا تر کرنے کا سوچا اور جیسے ہی تھرماس کا ڈھکنا کھول کر ایک گھونٹ پانی پیا تو پانی اتنا بدبو دار اور کھول رہا تھا کہ مجھے پھینکنا پرا۔ لڑکے محاز پر ہنسی مزاق زیادہ کرت تھے تو میں نے سوچا کہ شاید انہوں نے میرا تھرماس بدل دیا ہے اور اس میں گرم پانی بھر دیا ہے۔ جواد پاکپور - خدا اسکی روح کو بلند کرے اسی مقام پر مفقود ہوا - اس سے میں نے کہا کہ "اپنا تھرماس مجھے دو" کیونکہ مجھے اسی پر شک تھا۔ بولا کہ "کیوں تمہارے پاس نہیں ہے ؟" میں نے کہا کہ "ہے لیکن گرم ہے" اس نے دیا تو وہ بھی میرے تھرماس کی طرح تھا، ایک اور سے لیا وہ بھی ایسا ہی تھا۔ سارے کے سارے تھرماس ایک گھنٹے کے اندر اندر ایسے ہوگئے تھے۔ برف کھولتے ہوئے بدبو دار پانی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اس شدت کی گرمی تھی۔ رات، دن کی نسبت بہتر تھی لیکن کیوںکہ رات میں زیادہ فعالیت تھی اس کی بنا پر پانی تقریبا دن کی ضرورت کے مطابق تھا۔ سب کو پانی کی ضرورت تھی جو موجود نہیں تھا سب سے زیادہ اسی کی ضرورت تھی۔  پسینہ سے برا حشر ہوا وا تھا، دوسری طرف ریت پورے جسم ہپ لگی ہوئی تھی۔ بہت سوں کی حالت تو اسی سے خراب ہوگئی تھی۔ اصغر و رحیم نے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی بلکہ اپنی سکت اور ذمہ داری سے بڑھ کر کوشش کی تھی۔ لیکن ہمارا معاشرہ اتنی بڑی مقدار میں مفقود ہوجانے کے لئے آمادہ نہیں تھا، گھر والے کے لئے اس صدمہ کو سہنا مشکل کام تھا، یہ مسئلہ اس سے قبل پیش نہیں آیا تھا۔ اس وقت تک یا شہید ہوتے تھے یا اسیر ہوتے تھے جن کی خبریں گھر والوں کو ملتی رہتی تھیں۔ کچھ نا کچھ اسکی نشانی موجود ہوتی تھی۔ لیکن ان مفقود الاثر جوانوں کے گھر والے نہ یہ جانتے کہ شہید ہوگیا ہے اور نہ ہی اس کا علم ہوتا اگر زندہ ہے تو کس حال میں ؟ بہت سخت مرحلہ ہوتا ہے یہ، کہ اپنے بیٹے کے جنازے کا انتظار کیا جائے یا اسکے زندہ لوٹ جانے کا۔ ابھی جو جنگ کو ۲۷ سال ہوگئے ہیں بعض خاندان ابھی تک اس کیفیت کا شکار ہیں۔ ابھی بھی منتظر ہیں کہ شاید ان کا بیٹا زندہ لوٹ جائے اور یہ کیفیت بہت سخت ہے بہت ہی زیادہ تکلیف دہ۔

آپریشن کے بعد یہ توقع نہیں تھی کہ اصغر کے ساتھ ایسا برتاو کیا جائے گا۔ شہر میں اصغر اور رحیم کے مخالفت عروج پر تھی۔ گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا تھا۔ جب دفتر جاتے تو دفتر کے باہر بعض لوگ نعرے لگانے پہنچ جاتے۔ گالیاں دیتے الٹی سیدھی باتیں کرتے، واضح تھا کہ کہیں سے بھڑکائے گئے ہیں کیونکہ اسطرح کے واقعات نہیں ہوتے تھے۔

 

سوال: منصوری: خانوادہ شہداء تھے ؟

نادری: شہداء کے والدین کے عنوان سے آئے تھے لیکن ہم نہیں جانتے تھے۔ ہم جن والدین کو جانتے تھے وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ لوگ تھے جو والدین، بہن یا بھائی یا شہداء کسی رشتہ داری کے عنوان سے آئے تھے۔

 

سوال: منصوری: کتنی تعداد تھی انکی ؟

نادری: ۲ گروہ تھے، چالیس یا پچاس افراد پر مشتمل۔ بعض لوگ رحیم اور اصغر کے گھروں پر بھی گئے تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ خانوادہ شہداء تھے، اگر تھے تو یہ کام ان سے بعید اور غیر متوقع ہے۔ اس وقت شہر میں ایک خاص سماء تھا۔ بعض لوگ سپاہ سے نکال دیے گئے تھے۔ حتی بعض افراد بعض لوگ خود کو سپاہ اور کمانڈرز جیسے رحیم وغیرہ سے بڑا سمجھتے تھے۔ نہ یہ کہ رحیم یا سپاہ اس بات کا ادعی کرے۔ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ یہ لوگ پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔ بنی صدر کا معاملہ تھا اور انکی حمایت۔ جب بنی صدر چلا گیا جب بھی یہ لوگ حمایت کرتے رہے۔ بہت سارے لوگ تھے حتی سپاہ میں بھی ایسے افراد موجود تھے جو بنی صدر کے ہمفکر تھے اور انکو بعد میں معلوم ہوا کہ انکی یہ فکر غلط تھی۔  بعض لوگ تعصب کی بنیاد پر اس سے حمایت کرتے رہے ورنہ کوئی حامی نہیں تھا اسکا۔

 

سوال: منصوری: ابھی بھی ہیں؟

نادری: بعض مر گئے بعض موجود ہیں ابھی تک۔ اس وقت یہ لوگ میٹینگز کرتے تھے، آنا جانا لگا ہوا تھا۔ سال۶۰ کی اوایل میں مرکزیت حاصل تھی۔ بعد میں کنار کردیا گیا تو انکے لئے سخت تھا، اس جگہ اصغر و رحیم کو برداشت کرنا۔ یہ جو حالات بن چکے تھے، فضا میں شدت پیدا ہوگئی تھی اور ایک بڑی تعداد ایک ہی باری میں مفقود الاثر ہوگئی تھی، تجزیہ یہی تھا کہ کسی خاص پوائنٹ سے اس آگ کو بھڑکایا جارہا ہے۔

عجیب بات یہ تھی کہ جو افراد احتجاجا آئے تھے ہم ان میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے کہ ان کی شہداء سے کیا نسبت ہے۔ ایک مشکوک اقدام تھا جو ان افراد کے خلاف اٹھایا گیا تھا۔

 

سوال: منصوری: اصغر سے آپکی بات ہوئی تھی؟

نادری: ہم نے تفصیلی بات کی اس موضوع پر۔ اصغر اکثر اپنا درد دل بیان کرتا تھا۔ خصوصا ان دنوں جب اس پر بہت زیادہ پریشر تھا تو اسے تنھا نہیں چھوڑا۔ یہی کہا کہ "یہ بھی ایک امتحان ہے، فکر نہیں کرو"۔ وہ خود بھی اس بات کو نہیں سوچ رہا تھا کہ احتجاج کرنے والے افراد کسی جگہ سے بھڑکائے جارہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ "شاید ان مسائل کی پشت پناہی خاص افراد کی جانب سے ہورہی ہے۔ تم زیادہ ٹینشن نہیں لو۔ شاید ان لوگوں کو اپنی شکست کا احساس ہورہا ہے اور انتقام کی خاطر ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ ایسی حرکتوں میں دوام نہیں ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ گذر جائیں گی اور حقیقت واضح ہوجائے گی۔" وہ بھی اس کیفیت سے باہر آگیا۔ اگر اکیلا رہ جاتا تو اسکے لئے بہت مشکل تھا۔ لیکن مسعود مرادی، محمود حسینخانی، غضنفر داود آبادی اور رحیم جیسے افراد نے اس کو اس کیفیت سے نکالنے میں بہے کوشش کی۔

وہ کہتا تھا کہ " میں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی، یہ لوگ بے انصافی سے کام لے رہے ہیں" ہم کہتے تھے کہ "ہم تمہارے ساتھ تھے، ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کسی منطقی بات سے قانع ہوجانے والے نہیں۔ یہ لوگ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تمہارا کام کرنا یا نکرنا انکے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔"

بالآخرہ اسکو محرم آپریشن کے لئے راضی کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن وہاں اس نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

 

۱۔ شہید علی اصغر فتاحی، امام حسین ع بٹالین کے کمانڈر،  لشکرعلی ابن ابی طالب ع ۱۷، شپاہ پاسداران انقلاب اسلامی

۲۔ شہید رحیم آنجفی، پیدایش ۲۱ مارچ ۱۹۵۳، کمانڈر لشکر علی ابن ابی طالب ع ۱۷، والفجر ۴ آپریشن میں سال ۱۹۸۳ میں گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔

۳۔ شہید مسعود مرادی، پیدایش ۱۹۶۳، اراک کے مضافاتی گاوں میں پیدا ہوئے، ۸۴ میں اپنے شہید دوستوں سے جا ملے۔



 
صارفین کی تعداد: 3756


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔