ٹائی لگاو اور تصویریں کھینچو!

محمد حدین جمال زادہ سے اراک میں انقلاب اسلامی کے حوالے سے گفتگو

یوسک نیکفام

۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵
ترجمہ: سید روح اللہ رضوی

2016-5-1


اشارہ:

محمد حسین جمال زادہ سن ۱۹۵۲ ایران کے شہر اراک میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی اراک شہر کے بعض تاریخی حوادث سے مربوط رہی ہے۔ جس شہر کے مرد و خواتین کا کردار تاریخ میں موثر بلکہ تاریخ ساز رہا ہے۔ اراک کے عوامی انقلاب کی تاریخ  میں اور پہلوی حکومت کے آخری دنوں میں  انکی کھینچی  ہوئی منفرد تصاویر  ایک تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔
انکےخزانے میں  ۴۰ سال پرانا فوٹوگرافی کا تجربہ،  اراک کی تاریخی تصویریں،  ی ادگار چہرے،  کھلاڑی،  فنکار،  شعراء ، طلاب،  ڈاکٹرز،  مصنفین اور دیگر  نامور ستاروں کی تصاویر موجو دہیں۔  ان کی تصاویر کی کئی نمائشیں اراک میں منعقد ہوتی رہی ہیں جوشہر اراک میں  تاریخ کے مختلف واقعات و حادثات  کو بیان کرتی ہیں۔ 

 

سوال: اراک میں انقلاب کے لئے پہلا سیاسی قدم کب اور کس طرح اٹھایا گیا ؟

۷ جنوری ۱۹۵۸، خواتین کی ایک تقریب اراک یونیورسٹی میں منعقد تھی۔  ہال بھرا ہوا تھا، خواتین کی تعداد بدستور زیادہ تھی۔ اراک کے گورنر دہقانپور اس دن کی مناسبت سے گفتگو کررہے تھے کہ یونیورسٹیوں کے بعض طالب علموں نے ہال کے عقب سے حملہ کردیا اور شیشہ وغیرہ توڑ دیا۔  ہال میں موجود افراد میں پولیس آفیسرز،  مختلف اداروں کے رئیس وغیرہ بھی موجود تھے۔  پہلے شور شرابہ شروع ہوتا تھا  اور دیواروں پر حکومت کے خلاد نعرے لکھے جاتے تھے، لیکن اسطرح   سامنے آکر ایسا اقدام ابھی تک نہیں ہوا تھا۔

خواتین نے تو چیخ و پکار شروع کردی تھی، کچھ تو بے ہوش ہوکر گر بھی گئیں تھیں۔ پروگرام سارا خراب ہوچکا تھا، پولیس آگئی، خبر تہران تک پہنچ گئی کہ یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے۔  شاہی گارڈز نے یونیورسٹی کا محاصرہ کرلیا تھا، جو بھی باہر جاتا اس سے پوچھ گچھ ہوتی۔ اگر کوئی داڑھی والا ہوتا یا کوئی الٹا سیدھا جواب دیتا تو پکڑ لیا جاتا۔ جوبھی انکے سامنے کھڑا ہوتا اسکو بہت مارتے اور زبردستی گاڑیوں میں ڈال کر لے جاتے۔ ۳ دن تک یونیورسٹی کے حالات ایسے ہی رہے۔ یہ پہلا انقلابی اقدام تھا جو اراک میں یونیورسٹیز کے طلاب نے اٹھایا۔

 

سوال: کوئی وہاں تصویریں کھینچ رہا تھا ؟

نہیں، کوئی بھی نہیں تھا۔ کسی کی ہمت ہی نہیں تھی۔ گارڈز کی اتنی ہیبت تھی کہ کوئی اسطرف جا  ہی نہیں سکتا تھا، چہ برسد کہ تصویریں بھی کھینچے۔ میں نے ۷ جنوری والے دن ہال کے اندر تصویریں لی تھیں۔ پروگرام کے ایک دفعہ خراب ہونے کے بعد دوبارہ اسکو معمول کی جانب لانے کی کوشش کی، اور ڈر و خوف کے ساتھ پروگرام کو آگے بڑھایا گیا، اسکے باوجود بھی پورا  پروگرام نہیں ہوسکا۔

 

سوال: کون سے گروہ تھے جنہوں نے ہال کے شیشہ توڑے تھے ؟

نہیں معلوم۔ کوئی خاص اعلان یا پرچہ وغیرہ تقسیم نہیں کیے گئے تھے جس سے معلوم ہو کہ کون افراد تھے۔ اتنا پتہ تھا کہ یونیورسٹیز کے ہی طلاب ہیں۔ اسکے بعد مدارس کی جانب سے ارامنہ چوک کی طرف ایک عمارت کرائے پر لی گئی اور اس میں یونیورسٹیز کے طالب علموں کے لئے ایک سینٹر بنایا گیا، جس میں موسیقی کے الات، مخلتف مشروبات اور کھیل وتفریح  کے مختلف اسباب مہیا کیے گئے تاکہ ان کو اسی میں مشغول و سرگرم رکھیں۔

لیکن اس حال میں بھی طالب علموں نے دیواروں پر نعرے لکھنا بند نہیں کیے، طالب علموں کی روز کی پٹائی اور گرفتاریوں نے شہر کے لوگوں کو بھی بیدار کر دیا تھا۔ جس کے بعد دیواروں پر نعرے زیادہ شدت کے ساتھ اور علی الاعلان لکھے گئے۔

 

سوال: کیا نعروں کی قسموں اور دیوار پر چاکنگ وغیرہ سے پتہ لگاسکتے تھے کہ مخالف گروہوں کی کن جگہوں سے وابستگی ہے ؟

نہیں ، پتہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔  البتہ ایسے گروہ موجود تھے جو خفیہ طور پر کام کررہے تھے۔ ۱۹۵۹ ء میں جب  امام خمینی پیرس چلے گئے، تو انکے بیانات و اعلانات کو  غیر قانونی طور پر شہر میں  لایا جاتا اور تقسیم کیا جاتا تھا۔

 

سوال: کون کرتا تھا ؟

نہیں معلوم،  انکے نام نہیں معلوم۔ میرے پاس بھی آتے تھے۔ بیانات کی کاپی  کرکے فورا  ا  نکو تقسیم کیا جاتا۔  ستمبر ۱۹۷۸ء تک اراک میں کوئی خاص خبریں نہیں تھیں۔ باقی شہروں میں لوگ جمع رہتے تھے ، ریلیاں،  احتجاجات چل رہے تھے۔ اراک میں عوامی احتجاجات ستمبر میں علی الاعلان شروع ہوئے ۔ لوگ سڑکوں پر نکل آتے اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے۔ جوانوں  اور شہر کی پولیس کے درمیان جھڑپیں چلتی رہتیں ۔ ستمبر میں،  میں تقی خان مسجد گیا،   قرآن کا درس ختم ہورہا تھا،  ایک مولانا صاحب تھے جو قم سے آئے ہوئے تھے۔ اور  مسجد کے بیسمنٹ میں نو جوانوں کو قرانی علوم سکھاتے تھے۔ ان دروس میں سیاسی مسائل بھی بیان ہوتے تھے۔ اس وقت میرے ایک چچا بھی اس کلاس میں جاتے تھے۔ میں گیا تھا تاکہ تصویریں لے سکوں۔ جب مسجد سے باہر آیا تو دیکھا کہ مسجد کے چاروں طرف پولیس ہی پولیس ہے ۔ مجھے گرفتار کرلیا گیا اور میرے کیمرے کو بھی ضبط کرلیا گیا۔  تھانے لے جارہے تھے کہ راستے میں کیپٹن زمرد صاحب پہنچ گئےاور  پوچھا کہ کیا ماجرا ہے ، جمالزادہ کو کیوں گرفتار کیا ہے ؟ ایک نے کہا کہ "جناب یہ حکومت مخالف  افراد کے لئے تصویریں کھینچ رہا تھا" سروان زمرد نے کہا کہ " اسکا کام ہی یہی ہے، حکومت مخالف کی کیا بات ہے ؟ اس کا سامان اسکو دو اور اسکو چھوڑو۔ یہ تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے ، حکومت کے بھی سب جلسوں کو یہی کوریج دیتا ہے۔ چھوڑدو!" میرا کیمرہ مجھے دیا اور  پھر خداحافظ۔

 

سوال: وہاں کسی کو گرفتار کیا تھا ؟

نہیں ، لیکن اپنی نظروں میں رکھا ہوا تھا۔  مسجد میں جو افراد تھے انہوں نے اصلی افراد کو کسی دوسری جگہ سے باہر نکلوادیا تاکہ گرفتار نہ ہوں۔ حمیدی صاحب کو مسجد کے پچھلے حصہ سے کسی اور جگہ منتقل کردیا گیا تھا۔

ایک اور دفعہ تعلیمی بورڈ گیا تاکہ  تصویریں لے سکوں۔  پہلے انقلابیوں سے گدی پر کچھ ہاتھ کھائے اور اسکے بعد پولیس نے گرفتار کرلیا اور تھانے لے گئی۔  میرے کیمرے کی ریل نکال کر پھینک دی۔ میں نے کہا بھی کہ ابھی تو  تصویریں کھینچی ہی نہیں ہیں  اور میرا تو کام ہی یہی ہے  ۔ تو کہنے لگے کہ: "تم ٹائی لگاو اور تصویریں کھینچو، ہم تم کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے"

 

سوال: دوسری بار کہاں گرفتار ہوئے تھے ؟

ادارہ فرہنگ روڈ پر اساتید اور طالب علم جمع تھے، اتفاق سےشہناز اسکوائر پر موجود  پہلوی ہسپتال جو اب ولی عصر ہے وہاں بھی زخمیوں کی  عیادت کے لئے چل پڑے۔ جب قصر طلائی سینما کے قریب پہنچے تو کچھ ڈنڈا بردار  سینما سے باہر نکلے اور طالب علموں پر  حملہ کردیا۔ ایک استاد جو آگے آگے تھے انکو بھی ڈنڈوں سے مارا اور انکا سر پھاڑ دیا۔

 

سوال: یہ ڈنڈا بردار افراد کا تعلق کس گروہ سے تھا ؟

نہیں پتہ کہ کس گروہ کے افراد تھے۔ اسکے بعد اساتید و طالب علموں نے تعلیمی بورڈ کی عمارت کے سامنے دھرنا دے دیا۔ جس استاد کا سر پھٹا تھا انہوں نے تقریر شروع کی  اور  زور دیا کہ : "ہمیں ان ڈنڈا برداروں کا جواب دینا ہوگا ور پولیس بھی اس واقعہ کا نوٹس لے ۔ دن کے اجالے میں طالب علموں اور اساتید پر یہ حملہ کیا گیا ہے ۔" میں تصویریں کھینچ رہا تھا۔  دیوار پر چڑھنے لگا تاکہ اچھی تصویریں بنا سکوں،  پولیس آگئی اور مجھے نیچے کھینچ لیا اور تھانے لے گئے۔

تفتیش شروع ہوئی  " کیوں بلوہ گروں کی تصویریں کھینچتے ہو ؟" میں جوابا کہا کہ "میں تو ابھی آیا تھا کہ تصویریں کھینچوں،  ابھی شروع نہیں کیا تھا کہ تم لوگوں نے گرفتار کرلیا" کیونکہ کئی حکومتی اداروں کی تصویریں کھینچتا رہا ہوں تو ایک  شخص پہچان گیا اور کہا کہ کیا ہوا ؟ میں نے جواب دیا کہ " ایک سرکاری اخبار کے لئے تصویریں کھینچ رہا تھا مجھے گرفتار کرلیا" دوبارہ کہنے لگے کہ " ٹائی کیوں نہیں لگاتے ؟"

میں صرف  باقاعدہ پروگرامز میں ٹائی لگاتا تھا، اسکے بعد سوچ لیا تھا کہ اب ٹائی ہی لگا کر تصویریں کھینچوں گا ۔

ایک بار اور اسی جگہ ہنگامہ ہوا، دھرنا شروع ہوگیا۔ اکثر احتجاجات پہلے وہیں ہوتے تھے۔  اس دفعہ حکومت مخالف افراد   ایک دو ہاتھ مار کر میرے لئے رکاوٹ بنے۔ میں تصویریں کھینچ رہا تھا کہ دیوار سے نیچے کھینچ لیا اور کہنے لگے کہ یہ ساواک کا بندہ ہے اور اسی کے لئے تصویریں کھینچ رہا ہے۔ جتنا چلا تا رہا کہ "بھائیوں میں فوٹوگرافر ہوں اور ساواک کانہیں ہوں" مان کر نہیں دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ یہ فوٹوگرافر ہے جو تہران کے اخباروں کے لئے کام کرتا ہے۔ خیر ، مجھے اس آدمی نے نجات دلائی ۔ بعد میں بھی کچھ چھوٹا موٹا مسئلہ ہوتا رہا۔ کھمبوں اور دیواروں سے نیچے کھینچ لیا کرتے تھے اور اسی طرح دونوں جانب سے پٹائی لگتی رہتی۔

 

سوال: مخالف افراد کیا چاہتے تھے ؟ انکی ڈمانڈز کیا تھیں ؟

اسکولز ، کالج سب بند ہوگئے تھے۔ کیونکہ ستمبر سے تہران اور بعض دوسرے شہروں میں علمی مراکز بند ہوگئے تھے تو اراک میں بھی اساتید کلاسز میں نہیں گئے اور طالب علموں نے بھی انکا ساتھ دیا۔ ایک دوسرے کے ہمراہ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت مخالف نعرے لگانا شروع کردیے۔ پہلی بار ستمبر کا آخری ہفتہ تھا جب سڑکوں پر نکلے۔

 

سوال: اراک میں انقلاب کی جو آپ نے تصویریں لیں ہیں وہ بہت ہی   پیشہ ورانہ نہیں ہیں لیکن انکی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ کیا حالات تھے  ، وہ کیا مشکلات تھیں جن میں آپ نے یہ اہم کام انجام دیا ؟

افسوس کے ساتھ ابتداء میں جو تصویریں لیں  اور وہ تھیں بھی سڑکوں کے بند کرنے اور ٹائر وغیرہ جلانے کی، اپنے لئے نہیں رکھتا تھا۔ لوگ سڑکوں پر ٹائر جلارہے ہیں، سڑکیں بلاک کررہے ہیں، تصویریں بنا کر سیدھا "آزادگان" اخبار کے دفتر یا بعض دفعہ "اطلاعات" کے دفتر بھیج دیا کرتا تھا۔
بعد میں میں نے سوچا کہ یہ تو بے وقوفی ہے کہ کیمرہ کی اصل تصویر یا ریل ہی بھیج دوں ، یہ کام مجھے نہیں کرنا چاہئے ہے۔

اسکے بعدمیں ریل اپنے پاس رکھتا تھا اور تصاویر کا پرنٹ انکو بھیجا کرتا تھا۔  Mamiya C330    جس کے ۲ لینس ہیں ، اور بہت بھاری ہوتا تھا اس سے فوٹو لیا کرتا تھا۔  اکثر اوقات تصویر کھینچتا اور بھاگ جاتا ، بالکل بھی نہیں رکتا کہ کوئی آکر پٹائی  نہ لگادے یا تفتیش کرے۔ اس وقت جوان تھا، بھاگ دوڑ، دیواروں کو پھلانگناسب آسان تھا۔ اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ تصویروں میں دقت کی جائے اور اسکو مرتب کیا جائے۔

 

سوال: یاد ہے اندازا کتنی تصویریں لی ہونگی آپ نے ؟

تقریبا ۷۰۰، ۸۰۰ تصویریں۔ علاوہ ان تصویروں کے جو بغیر  محفوظ کیے تہران بھجوادی تھیں۔ اکثر تصویریں ابھی موجود ہیں۔

 

سوال: آپ کے علاوہ بھی افراد تھے جو مظاہروں اور احتجاجوں کی تصویریں لیتے تھے ؟

حسن بیدل، ایک پرانے فوٹوگرافر ہیں اراک کے اور اسکے علاوہ اراک یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے جو تصویریں بنایا کرتے تھے۔

 

سوال: ریلیوں کے بارے میں بتائیں۔

ریلیاں  ستمبر ، اکتوبر میں زیادہ منظم نہیں تھیں۔ نومبر کے آخر میں خواتین اساتذہ نے چادر یں اوڑھ کر ریلی  نکالی۔ اور طالبات کے ساتھ اسکولز اور کالجز سے نکل کر سڑکوں پر آئیں۔ اس سے پہلے اکثر خواتین جو سرکاری استاد شمار ہوتی تھیں بغیر حجاب کے ہی ریلیوں میں آجاتی تھیں۔ اس  دن بہت ہی منظم صورت میں ریلی نکلی۔ اخباروں نے لکھا تھا کہ "اراک کی خواتین اساتذہ نے ریلیاں نکالیں" اور اسکے ساتھ پہلی بار اراک کی خواتین کی با حجاب تصاویر بھی اخباروں میں چھپیں۔

 

سوال: مظاہرے اور ریلیاں شہر کی کس جگہ ہوتی تھیں ؟

اکثر پروگرام تو نیشنل پارک میں ہوتے تھے،اسکے علاوہ آقا ضیاء الدین مسجد ، حاج تقی خان مسجد میں بھی جمع ہوتے تھے۔ ان مسجدوں سے باہر آتے اور شاہراء محسنی سے پولیس کا گھیرا توڑ کر نیشنل پارک کے اصلی مجمع سے جا ملتے تھے۔  ٹینک ، بکتر بند گاڑیاں، پولیس موبائلز یہ سب ملی باغ پر موجود ہوتے تھے اور لوگوں کو روکنے کے لئے ہوائی اور زمینی -straight- فائرنگ بھی ہوتی تھی۔سہام السلطان  کے چھوٹے بازار میں بھی ۲ جوانوں کو شہید کیا تھا جو بعد میں وہ سڑک ان دو شہیدوں کے نام سے منسوب ہوگئی۔ اس بار کیونکہ بہت زیادہ فائرنگ ہو گئی تھی تو سب افراد  منتشر ہوگئے تھے اور انکی سائیکلیں یا موٹر سائیکلیں وہیں نیشنل پارک کے پاس رہ گئیں تھیں جنہیں  بعد میں ایک جگہ کر کے آگ لگا دی گئی تھی۔  جہاں تک مجھے یاد ہے اس مسئلہ کے بعد  تقریبا ۲۴، ۲۵ نومبر کو آرمی نے شہر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔

۹ اور ۱۰ محرم کو (۱۰ اور ۱۱ دسمبر) حکومت نے عزاداری کی وجہ سے لوگوں کو کچھ نہیں کہا  اور جلسہ جلوس پر پابندی نہیں لگائی۔ اراک کا سب سے بڑا مظاہرہ اور ریلی اسی دن ہوئی۔ لوگ مسجد آقا ضیاء، مسجد حاج تقی خان اور مسجد حاج آقا صاحب سے نکل کر نیشنل پارک کی جانب آئے۔ ریلی کا ایک سرا نیشنل پارک پر تو دوسرا سائنس یونیورسٹی پر تھا ۔  اگلے دن تو دوازدہ ملایر تک چلے گئے تھے۔ لوگ ماتم کررہے تھے نوحے پڑھ رہے تھے، حکومت کے خلاف نعرے بھی لگ رہے تھے  ۔ سب سے زیادہ مذہبی نعرہ لگ رہے تھے۔

 

سوال: کون مظاہروں کی قیادت کررہا تھا ؟

شروع میں تو  اسکول کالجز کے عہدے دار اور اساتید تھے۔ جنہوں نے تعلیمی بورڈ پر ایک جلسہ بلایا تھا۔ کچھ لوگ جو پہلے ہی فعال تھا، انہوں نے وہاں ایک تنظیم بنائی انجمن معلمان کے نام سے۔ حسین فتاحی صاحب، جعفر یحیایی صاحب، حسن بابائی اس کے اہم افراد میں سے تھے۔

 

سوال: آپ کی کھینچی ہوئی تصویروں میں مظاہروں کے دوران گاڑیوں کے کارخانے میں کام کرنے والے بھی دیکھے گئے ؟

اکتوبر کے اوائل میں سب سے زیادہ مظاہروں  میں شرکت اور اسکا اہتمام گاڑیوں کے کارخانوں میں کام کرنے والے افراد          کی تھی ۔  دو مرتبہ ان لوگوں نے   کارخانوں سے شہر کی جانب مارچ کیا  ، عوام نے بھی ساتھ دیا ۔ نومبر میں بھی ایک دفعہ مارچ کیا تھا۔ اسکے بعد سارے کارخانوں نے انکا ساتھ دیا۔ بینر اور پلے کارڈز جو ریلیوں کی تصاویر میں دیکھے گئے ان پر یہ نعرہ لکھا تھا "اساتید  کو معاوضہ نہیں چاہئے "

بہرام حجتی صاحب اس دور میں تعلیمی بورڈ کے سرپرست اعلی تھے۔ایک دن انہوں نے اساتذہ کی دعوت کی  اور کہا کہ آپ لوگ اپنی کلاسز میں جائیں اور طلاب کو بھی واپس لائیں  اسکی وجہ سے ہم آپ کی تنخواہوں اور معاوضوں میں اضافہ کردینگے۔ اگلے دن تمام اساتذہ طالب علموں سے سمیت سڑکوں پر نکلے اور یہ نعرے انکے بینرز پر لکھے ہوئے تھے کہ "اساتید کو معاوضہ یا تنخواہ نہیں چاہئے "۔ ریلی کی پہلی صف میں علماء دین اور اساتید تھے۔

 

سوال: علماء میں سے کون کون تھے ؟

میر مہدی صاحب، میر جعفری صاحب ، امامی صاحب، واعظی صاحب، دونوں عظیمی صاحب جو بھائی تھے، داودی صاحب، بیات صاحب، موسوی صاحب ، یہ وہ افراد تھے جو انقلاب میں آگے آگے تھے۔

 

سوال: نیشنل پارک میں جو شاہ ایران کا مجسمہ گرایا گیا تھا اسکا کیا ماجرا تھا ؟

پہلی بار جب لوگوں نے ارادہ کیا کہ شاہ کے مجسمہ کو گرائیں تو اس وقت میں موجود نہیں تھا۔  فائرنگ ہوگئی تھی اور لوگ بھاگ گئے تھے۔ دوسری بار  ۱۶ جنوری  کی صبح  شہر میں ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔ ظہر و عصر کی نماز اراک سائنس یونیورسٹی میں پڑھی گئی۔ اسکے بعد بعض لوگ اراک میں ساواک کے دفتر کی طرف چلے گئے۔ دو پہر ایک بجے تقریبا انہوں نے فردوسی  پارک کی پچھلی جانب سے ساواک پر حملہ کردیا۔ دفتر کو آگ لگادی  اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے۔ جب ۲ بجے کی خبروں میں اعلان ہوا کہ شاہ  ملک سے بھاگ گیا ہے   تو اسکے بعد شام میں لوگ مزید جمع ہوگئے۔ ساواک اور پولیس کے دیگر عہدہ داران بھی تقریبا عوام سے جاملے تھے۔ بعد میں یہ خبریں پھیلیں کہ شاہی گارڈز بری تعداد میں پہنچ رہے ہیں لہذا سب اپنے گھروں میں چلے جائیں لیکن کسی نے نہ سنی، میر جعفری صاحب بھی آگئے اور  اور جتنی بھی کوشش کی کہ لوگ گھروں کو واپس لوٹ جائیں لوگ نہیں گئے۔  بلکہ مسجد سادات  کی طرف جانے لگے کہ اتنے میں شاہی گارڈز پہنچ گئے اور انہوں نے لوگوں پر حملہ کردیا، فائرنگ شروع ہوگئی۔ میں بھی بھاگ گیا تھا ۔  کچھ شہید ہوئے کچھ زخمی   ہوئے  ۔ تہران سے آئے ہوئے گارڈز ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں  سمیت  اراک میں اپنی جما چکے تھے۔ میں لوگوں کے مجمع سے دور  ان مناظر کی تصویریں لے رہا تھا۔

دوسری بار بھی  لوگوں نے جتنا چاہا لیکن شاہ کا مجسمہ نہیں گرا سکے ۔  ٹرالر لیکر آئے اور رسیوں سے باندھ کر اسکے ذریعے کھینچا  ۔  شاید ۱۱ فروری تھی  ،  خونریزی اور قتل و غارت سے بچنے کے لئے ایک رات قبل  پولیس نے مجسمے کو نیچے کی طرف سے اکھاڑ دیا تھا، اسکے پیچ اور نٹ وغیرہ کھول دیے تھے اور اسے تورہ اسکوائر لے گئے تھے۔  پولیس والے بھی تقریبا عوام کے ساتھ ہوچکے تھے۔

 

سوال: مجسمے کے گرتے ہوئے تصویر لی تھی ؟

نہیں، افسوس کے ساتھ مجسمہ عوامی مجمع سے دور گرایا گیا تھا۔

 

سوال: پھر مجسمہ کا کیا ہوا ؟

مجھے نہیں معلوم کہ اسکے بعد مجسمہ کا کیا کیا، کہاں لے کر گئے ۔ چار لوہے کے شیر بھی تھے جو باغ ملی کے چاروں طرف   لگے ہوئے تھے ۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ سٹی گورنمنٹ والے لے گئے۔ ابھی بھی کہتے ہیں کہ شہری حکومت کے کسی گودام میں پڑے ہیں۔

 

سوال: مجسمہ کے گرانے کے بعد کوئی خاص واقعہ پیش آیا ؟

گیارہ محرم تھی ،  شاہ کے مجسمہ کو گرانے کے بعد پہلا اقدام حکومت کی جانب سے ، رات سے لیکر صبح تک پولیس اور آرمی والے  شہر میں گشت لگاتے رہے اور فائرنگ کرتے رہے۔  بجلی کی تار  کاٹ دی گئی تھیں ، پورا شہر تاریک تھا۔ اگلے دن سے ، ۲ دن تک شہر،  حکومت حامی ڈنڈا برداروں کے ہاتھوں میں رہا۔   وہ لوگ اطراف کے  گاوں سے لائے گئے تھے اور سڑکوں پر کھڑے ہوکر دیکھتے کہ کس کس کی  گاڑی یا  دکان  پر شاہ کی تصویر نہیں لگی ہوئی ،  اگر کوئی ایسی گاڑی یا دکان دیکھتے تو  ڈنڈوں سے اسکے شیشہ  توڑ دیا کرتے تھے۔

اس دن سے جس دن امام نے کہا تھا کہ آرمی والے ہمارے بھائی ہیں ، عوام نے انکی  بندوقوں میں پھول لگادیے۔  اسکے بعد آرمی شہروں میں موجود ہوتی تھی لیکن لوگوں کو کچھ نہیں کہتی تھی۔

 

سوال: ۱۹۷۹ کے فروری میں اراک میں کیا رونما ہوا ؟

۲۶ جنوری کو  امام خمینی کی واپسی کی خبر آئی جس میں بعد میں تاخیر ہوئی۔ اراک سےچند بسیں بھر کر تہران گئیں تھیں تاکہ امام کا استقبال کریں۔  مزےکی بات یہ تھی کہ کچھ سامان اٹھانے والی گاڑیاں بھی  ،  گھر کی بنی روٹیوں،  کھانے پینے کی اشیاء اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھر کر  تہران لے جائی گئیں۔ تہران کی صورت حال  اور جو وہاں حالات تھےا سکی وجہ سے اعلان ہوا تھا کہ وہاں زخمیوں کے لئے ابتدائی طبی امداد اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی اشد ضرورت ہے۔

یہاں تک کہ   یکم فروری کو جب امام کے آنے کی خبر یقینی ہوگئی تو مزید اور لوگ بھی اراک سے  تہران کی جانب روانہ ہوئے۔ امام کے آنے کے بعد اراک میں بھی امن و سکون واپس لوٹ گیا۔  انتخابات کے دنوں میں ، بازرگان کی حمایت کے لئے دو دن اراک میں ریلیاں منعقد ہوئیں۔ افسوس کے ساتھ تہران نہیں جاسکا کہ تصویریں کھینچ سکوں لیکن اراک میں یہ کام انجام دیتا رہا۔

مجھے یاد ہے کہ جب بھی کہیں قبضہ ہوتا تھا تو اسکو کوئی خاص نام دے دیا جاتا تھا ۔ جیسے فرح اسکول کا نام تبدیل کردیا گیا تھا، اسی طرح اراک سائنس یونیورسٹی کا نام عسکری زادہ   رکھ دیا گیا جو تہران میں شہید ہونے والے مجاہدین میں سے تھا۔

نام کی تبدیلی کے لئے گتے  پر وہ نام لکھ کر اس جگہ کی دیواروں پر کھڑے ہوجاتے یا چپکا دیتے۔  اکتوبر میں اساتید پہلوی اسکول میں جمع  ہوئے جب اسکول سے باہر نکلے تو  اسکول کے بورڈ پر پہلوی کے نام  کی جگہ ڈاکٹر علی شریعتی کے نام کی شیٹ چپکا دی تھیں۔ یوم القدس کی ریلی کے لئے انڈسٹریل ایریا کی جانب گئے اور وہاں بھی آیت اللہ خوانساری نے نماز پڑھائی۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3787


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔