میں نے تصویریں ساواک کے حوالہ کردیں

یوسف نیک نام
مترجم: سید مبارک زیدی

2016-3-8


محمد علی داوری سالوں سے فوٹو گرافی کر رہے ہیں اور اُن کا شمار شہر اراک کے مشہور، بہترین اور ماہر فوٹوگرافرز میں ہوتا ہے۔ وہ نوجوانی ہی سے اس فیلڈ میں دلچسپی رکھتے تھے،  وہ اپنی صلاحیتوں اور تخلیقی ذہن کے باعث اس شہر میں فوٹو گرافی کو ترویج دینے میں بہت مؤثر ثابت ہوئے۔ اپنے طبقے کو خیر باد کہہ کر، اکیلے اور تہی دست اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے اراک آتے ہیں اور فوٹو گرافی کی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں اور اپنے دل کو اسٹوڈیو اور تصویر ابھارنے والے تاریک کمرے میں لگاتے ہیں، اپنے دل میں یہ ٹھان لیتے ہیں اور جان لیتےہیں کہ اس فانی دنیا میں صرف عکس ہے باقی رہنے والی چیز ہے۔

شہر اراک کی تاریخ میں محمد علی داوری کی تصویروں کی بہت اہمیت ہے۔ وہ پہلے فوٹو گرافر ہیں جو اسٹوڈیو میں فلیش استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح شہر کے واقعات، اتفاقات اور حادثات کے پہلے فوٹو گرافر، کپڑے،  المونیم اور اجسام پر تصویریں بنانا بھی اُن کے ہنر اور تخلیق کی نشاندہی کرتا ہے ۔

وہ پورٹریٹ کے استاد ہیں۔ پورٹریٹ عکاسی کی مشکل ترین قسموں میں سے ایک ہے۔ بیٹھے، کھڑے ہونے کا طریقہ اور تصویر کھینچتے وقت آدمی کا اسٹائل، اس طرح کی فوٹوگرافی کی بہت اہمیت ہے۔ چھوٹی سی غلطی تصویر کو خراب  کردیتی ہے۔ صحیح لائٹ، مناسب زاویہ اور  فکسڈ فریمنگ، یہ سب چیزیں بھی پورٹریٹ کو ہنری نمونے میں تبدیل کرتی ہیں۔ ہم نے داوری کی تصویروں میں مشاہدہ کیا ہے کہ جن میں تمام چیزوں کو صحیح اور دقیق انتخاب کیا گیا ہے اور یہ اُن کے کمال پسندی کی علامت ہے ۔

آپ نے شاہ کے کس سفر کے فوٹو گرافی کی ہے؟

میں نے شاہ کے زرعی اصلاحات کی خاطر دوسرے سفر کی  فوٹو گرافی کی ہے۔ شاہ کا وفد ٹرین کے ذریعے آیا۔  شاہ ہوائی جہاز کے ذریعے اراک ایئر پورٹ پہنچا۔  ہماری زرعی اصلاحات کو  بھی لے لیا گیا اور کسانوں کو دیدیا ۔

آپ کہاں سے شاہ کے ساتھ ہوئے؟

میں نے  جہاز کی سیڑھیاں اُترنے سے لیکر تقریب کےآخر تک کی فوٹوگرافی کی۔

کسی نے آپ کی مدد کی؟

نہیں، میں اکیلا تھا۔

ایئر پورٹ کے بعد شاہ کہاں گیا؟

وہ آرام کرنے کیلئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گیا جو شہر صنعتی میں تھا۔ آرام  کے وقت  میں نے بہت کم فوٹو گرافی کی۔

اس کے ساتھ آنے والوں میں کون لوگ شامل تھے؟

وزیر زراعت حسن ارسنجانی اور اراک کا گورنر جلیل ناصح اُس کے ہمراہ تھے۔  دہ پول میں  طاق نصرت کو بند کیا ہوا تھا۔ گرمی بھی بہت زیادہ تھی۔ ارسنجانی بہت تیز آدمی تھا اور وہ حتی شاہ سے کہتا کہ بعض لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور صحیح رپورٹ پیش نہیں کرتے! ایک دفعہ وہ اپنے حواسوں میں گم، اپنے پیر کو میرے پیر پر رکھے ہوئے تھا کہ میں نے کہا: "جناب معاف کیجئے گا!یہ انسان کا پیر ہے اور آپ کا پیر میرے پیر پر ہے" تو ہنسنے لگا۔  یہ بھی ان کا ایک مذاق تھا۔

شاہ اور کہاں گیا؟

شاہ اراک ایئر پورٹ سے ہیلی کوپٹر کے ذریعے دہ پول شازند گیا  جہاں اُس کا سرکاری استقبال کیا گیا۔ تقریب میں گاؤں سے آئے ہوئے کافی لوگ جمع تھے  کہ جنہیں شاہ نے زمین کی مالکیت کی سندیں دیں۔ میں بھی فوٹوگرافی کر رہا تھا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد جب شاہ ہیلی کوپٹر پر سوار ہونے آیا تو  پائلٹ نے کہا کہ ہوا مناسب نہیں ہے اور پرواز کی اجازت نہیں دی۔ ماہر پائلٹ سارجنٹ تھا۔ شاہ ہیلی کوپٹر سے اتر کر کالے رنگ کی کار میں بیٹھ گیا اور میں نے تصویریں بھی بنائیں۔ تقریباً دس منٹ بعد پائلٹ نے آکر کہا کہ ہوا مناسب ہوگئی ہے اب پرواز کرسکتے ہیں۔ شاہ کار سے اُتر کر دوبارہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھا اور چلا گیا۔ ہم بھی اراک واپس آگئے اور پھر ایئر پورٹ گئے۔ [۲]

کسانوں کے درمیان زراعتی زمینوں کی اسناد کی تقسیم؛ اسد اللہ علم (سیدھی طرف سے پہلا شخص) اور دہ پول شازند میں اراک کا گورنر جلیل ناصح

فرح ، شاہ کے ساتھ نہیں تھی، یہ بات صحیح ہے؟

جی ہاں نہیں تھی۔

یہ شاہ کا دوسرا سفر تھا۔ تصویروں کے چھپ جانے کے بعد اُن کا کیا کرتے تھے؟

ساواک اراک کی تحویل میں دیدیا۔

کبھی کسی سرکاری اخبار کے رپورٹر رہے ہیں؟

نہیں، میں کبھی بھی سرکاری رپورٹر نہیں رہا، بلکہ غیر سرکاری طور پر اُن کے لیے فوٹوگرافی کرتا اور اُنہیں فوٹو دیتا رہا۔

کیا شاہ کے دوسرے سفروں کی بھی آپ نے فوٹوگرافی کی ہے؟

جی ہاں۔ باقی سفروں کی فوٹوگرافی بھی میں نے کی ۔  شاہ کے گاڑیوں کی فیکٹری، آلمونیم فیکٹری اور قدس ہسپتال جانے کی فوٹوگرافی بھی میں نے کی۔

ڈاکٹر علی اکبر بہادری  [۳]کو  پھانسی دیدی گئی۔ تہران سے آرڈر تھے۔  اس کے اموال کو بھی ضبط کرلیا۔ اُس کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ قدس ہسپتال بھی اُس کا اپنا نہیں تھا۔ اُس کی پھوپھی قدس السلطنہ کا تھا۔ میرے بھابھی بھی بیاتیوں میں سے ہے۔ میری ممانی  بھی عشرت خانم  بیات ہیں۔ مالکوں کے درمیان شادی عام تھی۔ میرے والدین آپس میں کزن تھے۔ ڈاکٹر بہادری، علی اکبر خان کے نام سے مشہور تھے۔ ابھی ڈاکٹر نہیں بنے تھے۔ ایک دن میرے ماموں کے گھر آئے ہوئے تھے – ماموں کا جرمنی میں انتقال ہوا – سہ راہ زندان پر اُن کا گھر  تھا۔ میں بھی وہیں تھا اور رمضان کا مہینہ تھا ، میں روزے سے تھا، مجھے زبردستی پکڑکے، ہنسی مذاق میں مجھے مجبور کیا کہ کچھ کھالوں۔  میڈیکل امتحان میں پاس ہوگئے تھے، کہنے لگے میں پاس ہوگیا ہوں اور کل دوپہر تک فارم بھرنے کی مہلت ہے لیکن ۴۵۰ تومان کم ہیں۔ کسی نے پیسے دیئے اور علی اکبر دوسرے دن فارم بھرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ڈاکٹر نے اپنی پھوپھی سے کہا کہ آپ اپنی زمین ہسپتال کے لئے وقف کردیں۔ پھوپھو نے بھی دیدی اور علی اکبر نے ہسپتال کی بنیاد ڈال دی۔ میں نے ہسپتال بننے کے پہلے دن سے  اُس کے افتتاح تک کے تمام مراحل کی  فوٹو گرافی کی۔ ڈاکٹر اس بیمارستان کےلئے تہران سے بہت ہی ماہر سرجنوں کو لائے۔ ڈاکٹر اشتری بہترین ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جو وہاں چیک اپ کرتے تھے۔ آنکھوں کا ڈاکٹر بھی بہت اچھا تھا۔مشرفی زادہ بھی بہت اچھا سرجن تھا۔ میٹرنٹی ہوم بھی بہت اچھا تھا۔

آپ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ شاہ کا رویہ کیسا تھا؟

… میں تو اُسے کئے لیے اجنبی تھا … دوسرے فوٹو گرافر بھی اُس کے ساتھ تھے۔ شہلا اور ہما اسٹوڈیو والے بھی تہران سے آئے ہوئے تھے۔ اراک سے صرف میں تھا کہ جس نے بقیہ فوٹو گرافروں سے رابطہ قائم کیا۔

کیا ویڈیو بھی بنی تھی؟

جی ہاں۔ تہران سے مووی بنانے والا آیا تھا۔  ایران کے قومی ٹی وی کے لئے مووی بن رہی تھی۔

شاید اُن فلموں میں  آپ بھی موجود ہوں؟

جی …

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ تاریخ شفاہی کے مؤلف اور محقق، اراک کے بارے میں ۹ کتابوں کے مؤلف ، منجملہ کتاب ہای طنز آوران اراک، تاریخ شفاہی انقلاب اسلامی در اراک، خاطرات روزگار سرکشی۔

[۲]۔محمد رضا پہلوی کا اراک کیلئے دوسرا سفر ۲۵ شہریور ۱۳۴۱ کو ہوتا ہے۔ اس سفر میں وزیر اعظم اسد اللہ علم، وزیر زراعت حسن ارسنجانی، کچھ ملکی عہدہ دار، اراک کے گورنر جلیل ناصح، شہر اراک کی انجمن کے سربراہ، اراک کے بجلی گھر کے چیئرمین اور  حکومتی اداروں کے سربراہ اور بعض مالکین اُن کے ساتھ تھے۔ شاہ ۲۵ شہریور ۱۳۴۱ کو صبح ۱۱ بجےمخصوص جہاز کے ذریعے اراک میں داخل ہوتا ہے  اور دہ پول شازند گاؤں میں کسانوں کو زراعتی اسناد کی تقسیم کی تقریب کا آغاز ہوتا ہے۔ شروع میں اراک کے گورنر جلیل ناصح چھوٹی سی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ پھر شاہ استقبال کرنے والے کے سامنے سے گزرتا ہے۔ اُس کے بعد وزیر زراعت حسن ارسنجانی رپورٹ پیش کرتا ہے۔  اس کے بعد شاہ کسانوں کو اسناد مالکیت تقسیم کرتا ہے اور خطاب کرتا ہے۔ خطاب کے ختم ہوتے ہی، اُس اراک کا چندہ روزہ سفر ختم ہوجاتا ہے اور دوپہر بارہ بجے  وہ ہوائی جہازمیں بیٹھ کر تہران چلا جاتا ہے۔ شاہ کا جہاز پونے دو بجے مہر آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کرتا ہے۔

[۳]۔"اکبر بہادری فرزند عیسی خان (نقاش) ۱۳۰۰ شمسی میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم تہران میں حاصل کی پھر کیڈٹ کالج میں داخلہ لے لیا  اور ساتھ ہی ساتھ میڈیکل کالج کے دورے کو بھی پورا کیا۔ شروع میں بہادری نامی کلینک جو چھوٹا سا ہسپتال تھی  کو تہران میں قائم کیا  پھر بروزیہ کی میڈیکل ٹیم کے تعاون سے اراک میں قدس ہسپتال کی بنیاد ڈالی۔ بہادری ۱۳۵۴ میں رستا خیز پارٹی کی طرف سے پارلمنٹ کے لئے منتخب ہوا اور ۲۷۸۳۷ ووٹوں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس دوران شاہراہ ملا صدرا ، تہران میں آٹھ ہزار میٹر زمین خریدی اور چاہتا تھا کہ یہاں  ایسا ہسپتال بنائے جس میں تمام امکانات موجود ہوں۔ یہ ہسپتال انقلاب کے دنوں میں بنا اور بہادری کو ضدا انقلاب کے عنوان سے جیل جانا پڑا۔ اس موقع پر اُس کے جاننے والوں اور رشتہ داروں نے بہت کوشش کی  کہ اُسے موت سے نجات دلائی جائے۔ جن میں سے خانم بتول بیات، بریگیڈیئر جنرل ناصر مجللی کی بیوی،  اُس وقت کی پولیس کا ڈائریکٹر، یہ سب ڈاکٹر بہادری کی شفاعت کئے لئے امام خمینی کی خدمت میں آئے  اور اس کے فلاحی کاموں کو بیان کیا۔ لیکن کورٹ نے  اُسے فساد پھیلانے والا قرار دیا  اور ۲۹ اردیبہشت ۱۳۵۸ کو ڈھائی بجے رات اُن کی پھانسی اور اموال ضبط کرنے کا آرڈر صادر کر دیا گیا۔"  تاریخ اجتماعی اراک، جلد اول، ص ۳۵۱۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3926


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔