اراک میں امریکی یرغمالیوں پر نگہبانی کی داستان

احسان منصوری
مترجم: سید مبارک زیدی

2016-3-8


نوٹ: موسم خزاں میں ایک دفعہ جمعہ کی صبح آغا جمشید مرادی کے گھر مہمان کے طور پر گئے۔ صوبہ مرکزی میں بنیاد شید و امور ایثار گران کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور سپاہ پاسداران کے بانیوں میں سے ایک سے رابطہ کرنا کوئی زیادہ مشکل نہ تھا، چند دفعہ فون کرنے سے حل ہوگیا۔ میں نے انقلاب اسلامی کے بعض سینئرز سے یہ بات سنی ہوئی تھی کہ امریکی جاسوسوں کے بعض یرغمالیوں کو کچھ وقت کے لئے اراک میں رکھا گیا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ امریکی یرغمالیوں کی دیکھ بھال کے بارے میں جمشید مرادی کے پاس اطلاعات موجود ہیں  اور جب مجھے پتہ چلا کہ وہ اُن کی حفاظت  کرنا اُن کی ذمہ داری تھی  تو میری دلچسپی میں اور اضافہ ہوا کہ  ایک  ریٹائرڈ پاسدار کے ساتھ بیٹھ کر کچھ باتیں سنوں۔

 

کن وجوہات کی بناء پر ان یرغمالیوں کو اراک منتقل کیا گیا؟

طبس میں ہونے والے حادثے کے بعد، مسئولین نے ان یرغمالیوں کو تقسیم کردیا تاکہ دوبارہ ایسا حادثہ پیش نہ آئے۔

سال ۵۹ میں اردیبہشت کا مہینہ تھا؟

صحیح تاریخ مجھے یاد نہیں لیکن فیصلہ کیا گیا کہ ان یرغمالیوں میں سے دو افراد کو اراک منتقل کیا جائے۔ میں اُس زمانے میں  صوبہ مرکزی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کاروائیوں میں مشغول تھا۔ حقیقت میں ان یرغمالیوں کی حفاظت میری ذمہ لگائی گئی اور کہا کہ سپاہ کے بہترین فوجیوں سے ان کی حفاظت کا کام لیا جائے۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اُس وقت بہترین فوجی موجود ہی نہیں تھے۔ یعنی ابھی فوجی تربیت کا کام ہی شروع نہیں ہوا تھا۔ سب ہی لوگوں کی عمریں کم تھیں۔

آپ کو یاد ہے کہ ان دو یرغمالیوں کو کیسے لایا گیا تھا؟

مجھے یاد ہے کہ  گاڑی میں لائے تھے۔ پہلے ہی سے بتا دیا گیا کہ ان کی حفاظت کیلئے کسی جگہ کو مشخص کیا جائے تو ہم نے شاہراہ عباس آباد اراک (آج اس کا نام شہید بہشتی ہے) پر موجود  سپاہ کے پبلک ریلیشن آفس کو مشخص کیا تھا۔ ہم نے اُس جگہ کچھ ابتدائی کام انجام دیئے۔ جیسا کہ کمروں کے سامنے جالیاں لگائی گئیں اور ان یرغمالیوں کی حفاظت کے کام انجام پا گئے۔ جگہ بھی بالکل آج کل کے سوشل سیکیورٹی دفتر کے سامنے تھی جس کا ابھی بھی سپاہ کی ملکیت ہے۔ جب حفاظتی کام انجام پا گئے تو پھر اُنہیں منتقل کیا گیا اور  یرغمالیوں کے رہنے اور زندگی گزارنے کے لیے ایک ماحول مہیا ہوا۔ ان دو یرغمالیوں کے لئے بھی اور سپاہ والوں کے لئے بھی مزے کی بات تھی۔ سپاہ کے لوگ آکر ان دو لوگوں کو دیکھنا چاہتے تھے۔ البتہ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ بہت سوں کا اس بات کا علم نہیں تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ سپاہ کے افراد کو پتہ چل گیا۔  اس وقت انٹیلی جنس سپاہ کا حصہ تھی  اور الگ سے انٹیلی جنس کا ادارہ قائم نہیں ہوا تھا  اور انٹیلی جنس کے تمام کام سپاہ کے ذریعے انجام پاتے تھے حتی سخت دشمنوں کی معلومات جمع کرنا بھی سپاہ کا کام تھا۔ امنیت کے سارے مسائل سپاہ سے مربوط تھے۔ اس کام میں بھی سپاہ کی انٹیلی جنس کا دخل تھا اور میں سپاہ کے آپریشنز میں  حفاظت کے  امور کو دیکھتا تھا۔

دن کے وقت معمولاً سپاہ کے افراد وہاں ہوتے تھے اور میں وہاں رات کو جایا کرتا تھا۔ سپاہ کے وہ فوجی جو اس مسئلے میں ملوث نہیں تھے اُن کا دل کرتا تھا کہ آکر ان یرغمالیوں کو دیکھیں۔

ان دو یرغمالیوں کی کیا خصوصیات تھیں؟

ادھیڑ عمر  اور لمبے قد کے تھے۔ اُن کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ ہوگی۔  ان کے سر درمیانی حصے کے بال جھڑ چکے تھے اور گنجے ہوگئے تھے۔ پتہ چل رہا تھا کہ اُن کے بال قدرتی طور پر جھڑ گئے ہیں کیونکہ سر کے چاروں طرف  کے بال موجود تھے۔

گورے تھے؟

جی ہاں گورے اور جاندار۔

آپ کو اُن کے نام یاد نہیں؟

نہیں میرے ذہن میں نہیں۔ اُن کی فائل میں حتماً ہونا چاہیےجوسپاہ پاسداران کی انٹیلی جنس کے پاس تھی۔

حفاظت کیلئے جوان فوجیوں کو رکھا گیا تھا۔ وہاں پہ فوجی ہمیشہ رہتے تھے۔ اس طرح سے تھا کہ دو گھنٹے ڈیوٹی دیتے، دو گھنٹے تیار رہتے اور دو گھنٹے سوتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم نے جوان فوجی جو رکھے تھے وہ اپنی جوانی کی وجہ سے بہت کھیل کود اور مذاق کرتے۔ مثلاً ایک دوسرے سے کشتی لڑتے اور بچہ گانہ حرکتیں زیادہ کرتے۔ ان فوجیوں کے شور کی آواز ان یرغمالیوں تک جاتی اور وہ ہمارے جوان فوجیوں کو تعجب سے دیکھتے تھے  اور اُنہیں اُمید نہیں تھی کہ سپاہ کے فوجی اتنے زندہ دل اور شوخ طبیعت کے مالک ہوں گے۔ البتہ کچھ دنوں بعد اُنہیں اس کی عادت پڑگئی۔ شروع میں ڈرتے تھے۔ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کے لئے کوئی حادثہ پیش  نہ آجائے۔ بعد میں سمجھ گئے کہ ان لوگوں کی عادت ہی مذاق کرنے کی ہے۔ پھر انہیں اس کی عادت ہوگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ مسکراتے رہتے اور  وہ چاہتے تھے کہ ہمارے افراد سے رابطہ قائم کریں لیکن ہم نے رابطہ برقرار کرنے کے لئے فوجیوں کو منع کیا ہوا تھا۔

کوئی ترجمہ کرنے والا تھا؟

ہمارا مترجم سپاہ کی انٹیلی جنس کا ایک شخص تھا البتہ وہ کوئی اعلی درجہ کا مترجم نہیں تھا، بلکہ ضرورت کی حد تک یعنی اُن کی ضرورتوں کو پورا کردیتا تھا ۔ ہمارا وظیفہ صرف اُن کی دیکھ بھال کرنا تھا اور بہترین اور خاص ترجمے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔  دونوں ایک ہی کمرے میں رہتے اور اُن کے لئے ہر چیز آمادہ تھی۔

کیا اُنہیں کسی خاص چیز کی ضرورت پڑتی جو اُن کیلئے فراہم کی جاتی ؟  جیسے اُنھیں داڑھی بنانے کے لئے بلیڈ وغیرہ فراہم کرتے تھے؟

جی ہاں، جو چیز بھی چاہتے اُنہیں دی جاتی اور ان دو یرغمالیوں سے اچھا رویہ اختیار کیا جاتا تھا۔ البتہ میرے ذہن میں ایسی کوئی خاص چیز نہیں جن کی اُنہیں ضرورت ہو۔ وہ راضی تھے اور ہم نے اس چیز کو اُن کی خوشحالی سے درک کرلیا تھا۔

کیسا کھانا کھاتےتھے؟

وہی کھانا جو ہم کھاتے  تھے اُنہیں بھی دیتے۔

ٹوائلٹ، باتھ روم کے لئے کہاں جاتے تھے؟

اُسی کمرے میں یہ سہولت موجود تھی۔ اُس میں واش روم بھی تھا اور حمام بھی یعنی ایک مکمل سوئٹ تھا۔ اتنا بڑا کمرا تھا کہ جسے آدھا گھر کہا جاسکتا تھا۔

واش روم میں کمورڈ تھا؟

نہیں، ایرانی واش روم تھا۔ (آغا مرادی ہنستے ہیں) اُنہیں ایسی کوئی مشکل بھی  نہیں تھی۔

وہ لوگ صبح سے شام تک کیا کرتے تھے؟

زیادہ تر ورزش کرتے تھے۔ البتہ اُس باؤنڈری سے باہر نہیں آسکتے تھے وہی پر ہلکی پھلکی ورزش کرتے تھے۔

کیا بیمار بھی ہوتے تھے؟

اُن کا مسلسل چیک اپ ہوتا تھا۔  اُن کے لئے ڈاکٹر بلاتے تھے اور وہ ڈاکٹر اُن کا چیک کرتا ۔

کیا کوئی خاص آدمی اُن سے ملنے آیا تھا؟

نہیں ، اگر کوئی اُن سے ملنے آنا چاہتا تو اُس سے ہمیں اجازت لینی پڑتی تھی۔

وہ لوگ کب تک آپ کے پاس رہے؟

مجھے صحیح سے یاد نہیں لیکن ایک مہینے سے زیادہ رہے تھے اور اُسی وقت بلافاصلہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

اُن کا عہدہ کیا تھا؟

پتہ نہیں چل سکا، ہمیں نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ کس عہدے پر فائز ہیں۔

یرغمالیوں کے مسئلے میں اور کون لوگ شامل تھے؟

آج کل انفارمیش منسٹری اور سپاس قدس میں اپنے کام انجام دے رہیں۔ [ا]

کیا اراک کے لوگوں کو پتہ تھا کہ یرغمالیوں کو یہاں لاکر رکھا گیا ہے؟

شروع میں بہت سے لوگوں معلوم نہیں تھا، لیکن بعد میں پتا چل گیا۔ اس بات کا احساس ہمیں اُس وقت ہوا جب ہم نے دیکھا کہ لوگ بلڈنگ کے سامنے سے گزرتے ہوئے تھوڑا رکتے تھے اور  تجسس آمیز نگاہوں سے دیکھتے  ہوئے گزرتے تھے۔ یہ بلڈنگ بھی شہر کے  مصروف علاقے میں تھی۔ جب تک لوگوں کو پتا چلا تو یرغمالیوں کے کے جانے کا مسئلہ بھی حل ہوچکا تھا۔

اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکالنے پر آپ کے مشکور ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ آغا مرادی نے اُن کے نام لئے تھے لیکن ہم سیکورٹی ایشوز کی بنیاد پر اُن کا نام ذکر نہیں کر رہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4188


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔