حضرت یونس ؑ یونٹ کے غوطہ خور

آپریشن کربلا 4 کی شکست کا تصور بھی محال تھا

گفتگو: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-11-27


نوٹ: "یادوں کی شام" نامی پروگرام کا دوسوساٹھواں پروگرام، آپریشن کربلا 4 کے ،تین  غواصوں( تیراکوں) کے نام کیا گیا، یہ پروگرام ہر ماہ کی پہلی جمعرات کو آرٹ کونسل میں منعقد ہوتا ہے۔


عراق کے علاقے ابو فلوس سے 175 گمنام شہداء کے ہاتھ بندھے لاشے ملنے کے بعد،جب شہداء کے لاشے ایران پہنچے تو انمیں سے دوشہداء کو آرٹ کونسل میں سپرد خاک کیا گیا ، اور یہی بات سبب بنی کہ   " یادوں کی شام " کے دوسو ساٹھویں پروگرام کو انہی غوطہ خوروں کے نام کردیا گیا۔" محمد علی اسفنانی " فریدون شہر کے لوگوں کی طرف سے مجلس شوریٰ کے نویں نمائندے منتخب ہوئے اور آپ لشکر امام حسینؑ اصفہان سے تعلق رکھنے والے، وہ شخص تھے جو یونٹ حضرت یونس ؑ کے غوطہ خوروں میں سے ایک تھے اور اسی نسبت سے اس پروگرام میں آپریشن کربلا 4 سے جڑی اپنی یادوں کو بیان کرنے کیلئے  تشریف لائے تھے۔


آپ سب سے پہلے اپنا تعارف کروائیں اور اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں؟

میں محمد علی اسفنانی ہوں ،میری عمر 47 برس ہے اور جنگ کے آغاز میں میری عمر15 سال سے بھی کم تھی اور میں چاہتا تھا کہ جلد ازجلد جنگ کرنے محاذ پر جاؤں مگر میری کمزور جسامت اور کم عمری کیوجہ سے ایسا ممکن نہ تھا اسکے علاوہ ہم فریدون شہر میں رہا کرتے تھے اور والد کی وفات کے بعد میں ہی گھر میں بڑا تھا ،لہذا گھر کے بڑے ہونے کی نسبت سے گویا ایک سرپرست کی ذمہ داریاں میرے کاندھوں پر تھیں مگر ان سب حالات کے باوجود مجھے یہ احساس بہت شدت سے ہوتا تھا کہ مجھے جنگ پر جانا چاہیے اور شاید یہ اسوقت کے حالات کیوجہ سے تھا کہ ہرکوئی یہ چاہتا تھا کہ اس جنگ میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے اور اپنا حصّہ ڈالے اور لوگ سوچتے تھے کہ جب دوسرے اس جنگ میں زخمی ہورہے ہیں یا اسیر ہورہے ہیں یا شہید اور غازی کہلارہے ہیں تو وہ کچھ کیوں نہ کرے، اور میرے خیال میں ،وہ واحد دلیل کہ جسکی بناء پر میں اس سن و سال میں بھی محاذ پر گیا،یہی تھی کہ مجھے اس ذمے داری کا شدت سے احساس تھا۔

 

 آپ سب سے پہلے کس علاقے کے محاذ پر گئے ؟

میں سن 62 میں کردستان شہر کے محاذ پر تعینات ہوا ،عراق نے جنوب کی طرف سے حملہ کیا تھا اور کردستان میں ڈیموکریٹس مسلسل حملے کرہے تھے لھذا اپنے ایک کمانڈر کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے لشکر امام حسین ؑ میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے میں کردستان گیا پھر اسکے بعد،لشکر امام حسین ؑ میں شمولیت اختیار کی اور اسی میں رہا۔

 

 آپ نے غوطہ خوری کے یونٹ کو ہی کیوں منتخب کیا؟

اس یونٹ کے لئے غوطہ خوروں کا انتخاب کیا جاتا تھا اور ایسے مجاہدین کو منتخب کیا جاتا تھا جو جنگی صلاحیتوں کیساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی مضبوط ہوں ،  محاذ پر جانے کے بعد اپنی لگن کیوجہ سے میں نے کافی مہارت حاصل کرلی تھی اور جسمانی لحاظ سے بھی جسمانی ہیکل میں تیزی سے تبدیلی آئی تھی ،اسوجہ سے منتخب ہوگیا کہ میرا سب سے پہلا آپریشن والفجر 8 تھا۔


 آپ نے تیراکی کی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟

دراصل البدر آپریشن کے بعد،غوطہ خوروں اور تیراکی کے ذریعے آپریشن کی تجویز کو پیش کیا گیا،اور خیبر آپریشن جو کہ ہور العظیم میں کیا اس علاقے کا سب حصّہ پانی پر مشتمل ہے اور اسکے بعد ہیڈ کوارٹر خاتم الانبیا ؐء آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچی کہ اب ہمیں آبی اور پانی کے راستے بھی آپریشنز کا آغاز کردینا چاہیے اور جنوب کی طرف ،خیلج فارس اور دوسرے پانی کے علاقوں (آبی علاقوں) سے آپریشنز کرنے چاہئیں،اس ضرورت کے پیش نظر ہر یونٹ میں سے کچھ مجاہدین کا انتخاب کیا گیا اور پھر ان کو تیراکی کے ہنر سکھائے اور مشقیں کروائیں اور ٹریننگ دی اور اسطرح پھر وہی مجاہدین آکر باقیوں کو سکھایا کرتے تھے ،کہ ہمیں خوزستان ،خارک جزیرے اور اصفہان میں تیراکی کی ٹریننگ دی گئی ۔


 آپ نے کن آپریشنز میں بحیثیت تیراک (غوطہ خور)حصّہ لیا؟

سب سے پہلے آپریشن والفجر 8 جو کہ اروند رود میں انجام پایا اور ہمیں فتح و کامیابی نصیب ہوئی ،اسکے بعد آپریشن کربلا 3 میں شرکت کی کہ یہ بھی ایک بڑا آپریشن تھا جو کہ ہم نے خلیج فارس کے گہرے پانی میں انجام دیا اور اسکے بعد اپنے کمانڈر سردار حاج احمد موسوی کی سربراہی میں ،کربلا 4 آپریشن میں بھی حصّہ لیا، کہ کمانڈر سردار حاج احمد موسوی ہمارے آپریشنز کے کمانڈر بھی تھے اور لشکر امام حسینؑ کے یونٹ 14 حضرت یونس ؑ کے غوطہ خوروں کے بھی کمانڈر تھے۔


 آپریشن کربلا 4 کے بارے میں کافی ڈسکشنز ہوئی ہیں اور یہاں تک کہ یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اس آپریشن کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی لیک ہوگئی تھی ،آپ اس آپریشن میں بنفس نفیس شریک تھے تو آپ اس آپریشن سے پہلی والی رات کے بارے میں بتائیں۔

آپریشن کربلا4 ،اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ،خاص خصوصیات کا حامل تھا کہ ان پہلوؤں پر  خصوصی جلسے تشکیل دیئے جاسکتے ہیں،مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس آپریشن کیلئے بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں حتیٰ میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ ایک ذمے دار شخصیت نے اس آپریشن کے بارے میں ایسی باتیں کیں جو بالکل درست نہ تھیں آپریشن کربلا4، آپریشن کربلا 3 کے بعد انجام پایا اور ہم سب ہی آپریشن کربلا 3 کی کامیابی کے بعد بہت پر اعتماد تھے حتیٰ ہمارے لئے آپریشن کربلا(4) کے شکست کا تصّور کرنا بھی محال تھا اور ہم سب صرف کامیابی کی امید لے کر روانہ ہوئے تھے۔

یعنی آپکا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس آپریشن کی شکست کا احتمال بھی نہ تھا؟

ہم افراد میں سے اس آپریشن کربلا 4 میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو بہت ہوشیار تھے اور بہت سارے مسائل کے نتائج کے بارے میں کافی حد تک پہلے سے ہی بتا دیا کرتے تھے اور ہمیں بھی اس آپریشن کے آغاز سے پہلے ایسا لگا تھا کہ عراقی ہمارے اس منصوبے سے آگاہ ہوگئے ہیں اور کچھ ایسے شواہد بھی ملے تھے جنکی وجہ سے ہمیں  یہ احساس ہوا تھا مگر پھر بھی ہم نے کسی سے اسکا ذکر تک نہ کیااور اپنی توجہ کو  صرف کامیابی کی طرف اور اس مشن کی تکمیل پر مرکوز رکھا۔

 

اس آپریشن سے ایک رات قبل ،مجاہدین کا مورال کیسا تھا کیا آپ کو اس بارے میں یاد ہے؟

جی مجھے یاد ہے کہ ہمارے یونٹ کا ایک کم عمر مجاہد ،اس آپریشن سے ایک رات قبل بہت رورہا تھا،جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا ،دوڑ کرمیرے پاس آیا اور بولا " کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ مجھے اس آپریشن پر نہیں لے کر جائیں گے ،وہ آپکی بات مانتے ہیں،آپ میرے ساتھ چلیں اور ان سے کہیں کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔۔۔۔

مجھے بہت حیرت ہوئی ،بہرحال میں کمانڈر کے پاس گیا اور ان سے ماجرا دریافت کیا " تو انہوں نے بتا یا کہ وہ اور اسکا سگا بھائی دونوں ہی اس آپریشن کا حصّہ ہیں اور میں نہیں چاہتا ایک ہی گھر کے دونوں لڑکے ایک ہی جگہ ،ایک ساتھ شہید ہوجائیں " مگر آخر کار اس مجاہد کے اصرار اور لگن کو دیکھتے ہوئے اسے اجازت مل گئی اور وہ اس آپریشن میں ہمارے ساتھ گیا ،اسکے علاوہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سب مجاہدین کا خدا سے بہت قریبی تعلق برقرار تھا اور سب خدا پر حد درجہ توکل رکھتے تھے اس رات (آپریشن کربلا4 سے قبل)  ہم سب ایک 12 میٹر کے چوکور کیمپ میں ساتھ کہ یہ طے پایا کہ نماز مغرب و عشاء کو پڑہتے ہی تھوڑا کھانا کھائیں گے اور فوراً اس آپریشن کیلئے نکل جائیں گے۔

مجھے صحیح سے یاد نہیں مگر ایساہوا کہ نماز کے بعد زیادہ تر مجاہدین دعائے توسل اور زیارت عاشور پڑہنے میں مشغول ہوگئے اور اسکے بعد سرکو سجدے میں رکھکر اللہ کے حضور راز و نیاز کرنے لگے ،ہم میں سے بعض کو اس آپریشن کو شروع کرنے کی جلدی تھی لہذا ہم نے روشنی زیادہ کردی تاکہ یہ لوگ جلدی سجدے سے سر اُٹھائیں مگر ان کا گریہ و راز ونیاز ایسا تھا کہ ہم مجبور ہوگئے اور دوبارہ روشنی (لالٹین) کو کم کردیا ،یہاں تک کہ وہ خود اپنی دعاؤں اور راز ونیاز کو ختم کرکے،سجدے سے اُٹھے۔

میں یہاں ایک بات کہنا چاہوں گاکہ وہ لوگ شکست کا سوچ بھی نہیں رہے تھے ،ہم پر یہ ذمے داری تھی کہ کسی کو اپنے شکوک و شبہات سے آگاہ نہ کریں مگر دیگر مجاہدین کا مورال انتہائی بلند تھا اور کسی کو اسکی شکست کا شائبہ تک نہ تھا اور ان کے چہروں پر عزم اور یقین نمایاں تھا اور ظاہر ہے اگر ان کو اس آپریشن کی شکست کا کوئی احتمال بھی ہوتا تو وہ یقینا نظر آتا اور ہوسکتا تھا کوئی اس آپریشن سے بھاگنے یا دور رہنے کی تدبیر کرتا یا کم سے کم منہ سے ہی اسکا اقرار کرتا مگر ایسا کچھ بھی نہ تھا۔

 

 آپ لوگوں کو اس بات کا کب پتہ چلا کہ آپریشن فیل ہوگیا ہے ؟

تقریباً آدھی رات کے بعد ہم سمجھے کہ آپریشن فیل ہوگیا ہے۔


اس آپریشن سے کسطرح واپسی ہوئی ؟

صبح کے 9یا10 بجے تھے ہم بلجانیہ جزیرے میں تھے اور معلوم تھا کہ آپریشن کو روک دیا گیا ہے اسی دوران ہم نے دیکھا کہ تین اطراف سے عراقیوں نے ہم کو گھیر لیا ہے اور ہماری طرف پیش قدمی کررہے ہیں ہمارے پاس اپنے دفاع کیلئے کوئی ہتھیار نہ تھا حتی کوئی نیزہ و خنجر تک نہ تھا بس ہمارے سامنے دریا تھا اور ہم ،،،،، ہم میں سے کچھ کشتیوں سے آئے تھے اور تیراکی نہیں کرسکتے تھے کچھ زخمی تھے کہ بعض نے کہا ایسے ہی کھڑے رہتے ہیں یا تو شہید ہوجائیں گے یا اسیر مگر میرے ساتھ کچھ اور مجاہدین بھی تھے جنہوں نے اس بات کی مخالفت کی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ عراقیوں کے دل میں ہم تیراکوں اور غوطہ خور مجاہدین کیلئے بہت کینہ ہے اور انہیں کئی مرتبہ ہماری وجہ سے شکست کا سامنا ہوا ہے لہذا ہم نہ مانے اور جب عراقی فوجی ہم سے تقریباً 10 میٹر دور تھے ہم نے دریا میں چھلانگ لگا دی انہوں نے پانی میں بہت سے فائر کئے مگر ہم بچ گئے اور واپس آگئے صحیح سالم ،ایسا نہیں تھا کہ ہمیں غوطہ خوری کے لباس کی وجہ سے تیرنے میں آسانی ہوئی بلکہ اسکے برعکس اس لباس کے ساتھ پانی کے اندر رہنا بہت کٹھن تھا کیونکہ یہ لباس انسان کو پانی کی سطح پر رکھنے میں معاون ہوتا ہے نہ کہ پانی کے اندر،اسلئے وہ مرحلہ بہت کٹھن تھا۔

 

 آپ کے یونٹ میں سے کتنے لوگ زندہ بچ کر واپس آسکے ؟

مجھے صحیح طور پر معلوم نہیں مگر تقریباً ہم 500 غوطہ خور گئے تھے اور 100 یا  150 ہی واپس آئے۔


 آپ نے اس آپریشن کربلا 4 کے بعد اور کونسے آپریشنز میں شرکت کی؟

اسکے بعد آپریشن کربلا 5 میں شرکت کی مگر اسمیں بحیثیت تیراک شرکت نہیں کی اسکے علاوہ آپریشن نصر 4 اور بیت المقدس 7 میں بھی شامل رہا اور بیت المقدس 7 میں میری شرکت بحیثیت تیراک ہی تھی اور قرارداد پر دستخط کے ایک دو ماہ بعد ہی  واپس آیا۔


کیا اس سے پہلے بھی ،کبھی آپ نے اپنی یادوں کو اسطرح بیان کیا ہے؟

میں نے کافی جگہ ان یادوں کو بیان کیا ہے مگر اب تک ان تمام یادوں کو ایک کتاب کی شکل نہیں دے سکا ہوں کہ اب میرا پورا ارادہ ہے اور میری خواہش بھی۔



 
صارفین کی تعداد: 4070


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔