تاریخ شفاہی کی رو سے بو شہر میں انقلاب اسلامی (3)

1978کے اواخر میں، جدوجہد اور تنازعات کا عروج

محمد جمیری
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-11-27


نوٹ : زیر نظر مضمون میں ہم بو شہر صوبے میں پہلوی حکومت کے خلاف اور انقلاب اسلامی کے حصول میں ہونے والے تنازعات پر بات کریں گے اس مضمون میں بو شہر کے لوگوں کی رہبر انقلاب امام خمینیؓ کی پیروی پر تحقیق اور معلومات ،انٹرویوز کی صورت میں جمع کی گئی ہیں اور اسی طرح ان تنازعات میں مجاہدین اور عالموں کا تعارف کرانا بھی اس مضمون (آرٹیکل) کا مقصد ہے۔

پچھلے ہفتے اس گفتگو کا پہلا اور دوسرا حصّہ آپکی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اب اسکے تیسرے حصّے کا مطالعہ کریں۔

1977 کے آتے ہی ،انقلابی سرگرمیاں اور جدوجہد اپنے عروج کو پہنچ گئیں،بو شہر میں بھی ،لوگوں کی طرف سے،ان سرگرمیوں میں حصّہ لینے کا جوش و خروش اور تیاری نظر آنا شروع ہوگئی،کیونکہ اس سال پہ درپہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے لوگوں کو انقلاب سے نزدیک تر کردیا،جن میں سے ایک آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی 23اکتوبر1977 میں شہادت تھی،دوسراایک مقالہ جوکہ " ایران اور سرخ و سیاہ استعمار" کے نام سے " اطلاعات" اخبار میں شائع ہوا جسکو احمد رشیدی مطلق کے فرضی نام کے ایک شخص نے لکھا تھا اور جس میں امام خمینیؒ کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی گئیں جسکے ردعمل میں 9 جنوری78 کو قم کی عوام نے مظاہرے کئے اور جھڑپوں میں کئی لوگ شہید ہوگئے،اس قتل و غارت کے بعد اسی سال کے فروری میں تبریز کے لوگوں نے ان شہیدوں کے چہلم کی تقریب منعقد کی جس میں حکومتی حملے کے باعث مزیدشہادتیں ہوئیں اور اس بہیمانہ تشدد کے ردعمل کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں تبریز کے شہداء کا چہلم منایا گیااور یہ سلسلہ جاری رہا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اس مقالے کی اشاعت سے پہلے ملک کے مختلف شہروں میں آیت اللہ مصطفی خمینی کے چہلم اور ختم کی تقاریب منعقد کی جارہی تھیں اور بوشہر میں بھی جامع مسجد عطار میں بھی ایک مجلس کا انعقاد کیا گیا جنکے بارے میں شیخ محمد صداقت اسطرح بیان کرتے ہیں " آیت اللہ حسینی نے مجھے جامع مسجد عطار میں آیت اللہ مصطفی خمینی کی یاد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے جس سے آپ نے ہی خطاب کرنا ہے میں نے ان کو آنے کی یقین دہانی کرائی اور جب میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ساواک اور شہری پولیس کے کچھ افراد بھی وہاں موجود ہیں بہرحال میں نے علم و عالم کی اہمیت اور مقام کے موضوع پر تقدیر کی اور اسکے بعد سے ہی لوگوں میں انقلاب کے مسائل سے آگاہی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔


شیخ سلمان بحرانی بھی ،9 جنوری کے شہداء کے حوالے سے جامع مسجد عطار میں ،ان شہداء کے چہلم کے حوالے سے ہونے والی تقریب کے بارے میں اسطرح بتاتے ہیں کہ" سن 1978 میں 9 جنوری کے شہداء کے چہلم کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد ہوئی کہ جس سے آیت اللہ قرائتی نے خطاب کیا مگر سیاسی گفتگو ہوئی اور کوئی احتجاج اسکے بعد نہیں کیا گیا۔

بوشہر کی مسجدوں کے بارے میں بتانا بہتر ہوگا کہ ان سالوں میں بوشہر کی تین مساجد سب سے زیادہ سرگرمیوں کا مرکز تھیں ایک جامع مسجد عطار،مسجد امیرالمومنین ؑ اور مسجد توحید اور ان تینوں میں بھی جامع مسجد عطار اہم اور بڑا مرکز تھی،اس مسجد کے امام جماعت آیت اللہ سید مصطفی حسینی تھے لہذا انقلابی افراد اور قوتیں،اس مسجد کو اہم اور بنیادی مرکز کے طور پراستعمال کرتے تھے اور بوشہر کے زیادہ تر مظاہرے یا تو اس مسجد سے شروع ہوتے تھے یا یہاں پر ختم ہوتے تھے بعد میں سید صالح طاہری خرم آبادی کی بو شہر میں اقامت کے بعد اور شہید عاشوری کے چہلم کی تقریب کے بعد انہوں نے اپنے لئے مسجد امیر المومنین ؑ کا انتخاب کیا۔

بو شہر کے مجاہدین کی سرگرمیوں کے حوالے سے یہ سرگرمی قابل اہمیت ہے ،جس میں دو سرگرم انقلابی اراکین کوہمدان بھیجا گیا تاکہ وہ گوریلا جنگ کی تعلیم اور مشقیں سیکھ سکیں،کیونکہ شہید عاشوری کا یہ خیال تھا کہ ہمارے انقلابی مجاہدین کو ان مشقوں کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے تاکہ ضرورت کے وقت کام آسکیں یہ واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ شہید عاشوری علاج کیلئے کچھ عرصہ لندن میں مقیم رہے جہاں انکی ایک نابینا عالم جو کہ ہمدان سے تعلق رکھتے تھے شناسائی ہوئی اور انہی کی دعوت پر شہید عاشوری نے بو شہر آکر رضا قادریان اور باقر میگلی نژاد کو بنیادی جنگی تعلیم کیلئے ہمدان روانہ کیا،جہاں ان نامینا عالم کے کچھ افراد ان دونوں کو لیکر شہر کے اطراف میں واقع پہاڑوں پر لے گئے ،جہاں جاکر بوشہر کے دونوں افراد متوجہ ہوئے کہ ان کو سکھانے والے افراد اپنے دینی عقائد کے حوالے سے کافی بے پرواہ ہیں جسکی اطلاع انہوں نے ان نابینا عالم کو بھی دی کہ کچھ عرصے بعد یہ راز کھلا کہ وہ لوگ انجمن مجاہدین خلق کے اراکین تھے۔

اس حوالے سے رضا قادریان بتاتے ہیں " امامبارگاہ ارشاد کے اراکین،انقلاب کی کامیابی سے کافی پہلے سے مسلح تھے اور اپنے اسلحے کو مخفی رکھا کرتے تھے گرچہ ان کی اسلحے کی رسد کو پہنچانے میں شہید عاشوری بھی شامل تھے چونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ پہلوی حکومت امریکا کے ساتھ مل کر لوگوں کے قتل عام کے درپے ہے لہذا انقلابی قوتوں کو جنگی مہارتوں کا عادی ہونا چاہیے لہذا اسلحے کی ترسیل کیلئے ان کا رابطہ،حاجی ماشاء اللہ کارزونی سے شہیدعاشوری کی سفارش پر ہی ہوا تھا جو کہ برازجان کے سابقہ فعال وسرگرم مجاہدین میں سے تھے لہذا وہ اسلحے کو خریدنے کیلئے زاہدان جاتے تھے،گرچہ 10اور11 فروری 1978 کو مسلح ہوکر حکومتی اہلکاروں کے سامنے آنے کا مشورہ محترم طاہری خرم آبادی(1)کا تھا اور امامبارگاہ حسینیہ کے سب ہی اراکین اس کوشش میں تھے کہ امام خمینیؒ کی تجویز پر ،فوجی اسلحہ خانے پر حملہ کیا جائے۔

غرضیکہ پورے ملک میں روز بروز احتجاجوں ،مظاہرات اور گرفتاریوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اوریہی لہر بو شہر میں بھی اُٹھی اور سن 1978 کاماہ رمضان دوسرے رمضانوں سے قدرے مختلف نظر آیا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اس سال کا محرم وصفربھی بہت مختلف تھا اور اسی سال کے ماہ رمضان کی ایک رات جبکہ حجت الاسلام حسینی منبر سے خطاب فرما رہے تھے، سیکوریٹی فورسز کے اہلکاروں نے دھاوا بول دیا اور مسجد کے بیرونی دروازوں کو بند کرکے آنسو گیس پھینکی اور نمازیوں پر خوب تشدد کیا۔اس سال کی عیدالفطر کی نمازعید فٹبال کے گراؤنڈ میں محترم حسینی اور شہید عاشوری کی امامت میں ادا کی گئی جبکہ حکومتی فورسز کی گاڑیوں نے گراؤنڈ کو محاصرے میں لے رکھا تھا نماز ے بعد خطبے میں شہید عاشوری نے امام حسین ؑ کی زندگی پر روشنی ڈال کر لوگوں کے خون کو گرما دیا اور پورا گراؤنڈ" ٹینک اور توپ کاکوئی خوف نہیں" اور" خمینی زندہ باد(درود برخمینی) اور مرگ بر شاہ (مردہ باد شاہ)کے نعروں سے گونج اُٹھا۔

اس سال کا ماہِ رمضان اگست اور ستمبرکے مہینوں میں آیایعنی سن 1978 کے آخری حصّے میں کہ بالخصوص چند لوگوں کی شہادت،جن میں شہید شیخ عاشوری سرفہرست ہیں،نے لوگوں کی اس جدوجہد میں نئی روح پھونک دی۔

4نومبر1978 کے تلخ حادثے کے بعد جس میں تہران میں طلباء کو شہید کیا گیا تھا،بو شہر کی طرف سے بھی یکجہتی اور بھائی چارگی کا مظاہرہ ہوا،اور 8 نومبر کو عالی شان مظاہرے کا اہتمام اس شہر میں کیا گیا،رضا قادریان جو کہ اس مظاہرے کے اہتمام کے بنیادی عناصر میں سے تھے اس بارے میں کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں" 4 نومبر1978 کے تلخ حادثے کے بعد سوشل سیکوریٹی ایڈمنسٹریشن کے اہلکاروں سے مشورے اور تعاون کی یقین دہانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کو8 نومبر کو ایک عالی شان مظاہرہ کرکے یکجہتی کا مظاہرہ کریں،اس غرض سے ہم نے سوشل سیکوریٹی کے ادارے کوبند کردیاکہ یہ تعطیل حکومت کے سقوط اور انقلاب اسلامی کی کامیابی تک جاری رہی صرف اکاؤنٹس کے محکمے کے چند افراد،ریٹائرڈ افراد کی پینشن دینے کی غرض سے ادارے جاتے تھے۔

اس دن 8 نومبر کو ہم سب عوام کے ساتھ اس ادارے کے قائم کردہ کلینک (صحت عامہ شعبے) پر گئے اور وہاں کے مدیر ڈاکٹر سے تعاون کرنے کوکہا مگر اس کے اس عذر پر کہ وہ حکومتی ادارے کا ملازم ہے اور ملازمت نہیں چھوڑسکتا، سعادت اسکول (2) کی جانب روانہ ہوگئے ابھی ہم سعادت اسکول کے قریب ہی پہنچے تھے کہ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے فائرنگ شروع کردی گئی اور یہ خبر پھیل گی کہ میگلی نام کے ایک شخص کو گولی لگ گئی ہے اور وہ شہید ہوگیا ہے ہم سب کا دھیان حاجی باقر میگلی نژاد کی جانب گیا چونکہ وہ انقلاب کے ہر کام میں ہمیشہ آگے آگے ہوتے تھے،لہذاپریشانی کی حالت میں ہاسپٹل پہنچے تو معلوم چلا وہ شخص صادق میگلی نژاد،سعادت اسکول کا طالب علم ہے۔


شہید صادق میگلی نژاد کی شہادت کا واقعہ بھی کچھ اسطرح سے ہے کہ تہران میں طلباء کی شہادت کے واقعے پر ،سعادت اسکول کے کئی طلباء نے ہڑتال کی اور ساواک نے دھمکی دی کہ اگریہ ہڑتال ختم نہ ہوئی توہم شدید ردعمل کا اظہار کریں گے وہ سب یہ کام محترم حجتہ الاسلام نبوی صاحب کی قیادت میں کررہے تھے لہذا اعلان ہوا کہ 8نومبر کو ہڑتال ختم کی جائے گی کہ اُسی روز یہ مظاہرین وہاں پہنچ گئے اور سب ایک ساتھ شامل ہوکر احتجاج کرنے لگے ،صادق جوکہ اسکول کی چھت پر موجود تھا اور چاہتا تھا دستی بم پولیس پر پھینکے کہ اسی اثناء میں گولی کا نشانہ بنایا گیا اور شہید ہوگیا۔ شیخ محمد صداقت کا بھی دو افراد کی شہادت کے بارے میں دلچسپ بیان ہے کہ" ان جھڑپوں میں دو افراد اتفاقاً مارے گئے جن میں سے ایک صادق درختیان (جمشیدو) نام کا کاریگر تھا جو بازار میں کام کرتا تھا اور مظاہرے میں شریک نہ تھا مگر مظاہرین کو منتشر کرنے کے دوران پولیس والے کا نیزہ لگنے سے شہید ہوگیا،دوسرا شخص اسماعیل محمودی تھا جو کہ بو شہر میں ،سعادت اسکول کی تعمیر ومرمت کا کام کرنے آیاتھا جبکہ خود خراسان کا رہنے والا تھا شہید صادق کے ساتھ ،اسی دوران ایک گولی اسے بھی لگی اور وہ شہید ہوگیا۔ اسکے علاوہ پولیس کے تین اہلکاروں کی شہادت کے ساتھ ہی لوگوں کے جوش و جذبے میں اضافہ ہوگیا شیخ صداقت اس بارے میں بتاتے ہیں کہ " سات شہیدوں جن میں صادق میگلی بھی شامل تھے کی یاد میں امامبارگاہ ارشاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا میں نے اپنے بھائی اور والد کے ساتھ کہ ہم تینوں ہی عالم تھے اس میں شرکت کی جلسے سے شہید عاشوری خطاب کررہے تھے،جبکہ حجتہ الاسلام محمد علی زم کو بھی تہران سے مدعو کیاگیا تھا کہ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ شہری پولیس کے آپریشنز کا ایک انچارج جسکا نام رھبری تھامیرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ لوگوں سے کہیں کہ حکومت کے خلاف کوئی نعرہ نہ لگائیں میں نے کہا تم بھی اپنی فورسز سے کہو کہ لوگوں پر فائر نہ کھولیں بہرحال دونوں طرف سے قول و قرار ہونے کے بعد معاملہ بہتر طور پر حل ہوگیاورنہ اس دن بو شہر میں کافی قتل و غارت ہوتا(3)

آخر کار تقریب ختم ہوئی اور لوگ احتجاجاً بلوار ایئرپورٹ تک آئے کہ وہاں آکر لوگ بے قابو ہوئے اور بہشت صادق تک خوب سیاسی نعروں کی بوچھاڑ کی مگر رھبری (آپریشن انچارج)نے اپنے وعدے کو وفا کیا اور کوئی جھڑپ نہ ہوئی،اسی طرح ایک تقریب دو اور شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مسجد عطار میں ہی منعقد کی گئی اوراسی بہشت صادق تک پیدل مارچ کیا گیا،شہید مجید بشکوہ ،جواد نبوی امر احمدوریانی نے اس تقریب کی ذمہ داری سنبھالی ،اس تقریب میں بھی اُس دن کی طرح رہبری (آپریشنز کا انچارج )میرے پاس آیا اور کہنے لگا لوگوں سے کہیں صلح آباد والے راستے سے بہشت صادق جائیں کہ خود ہی اسی راستے کا انتخاب ہوگیا اور اسطرح یہ تقریب بھی امن وامان کیساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران عوام ،جو کہ خود انقلاب کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل جھیل رہے تھے دن بہ دن پہلوی حکومت کے زوال کے وقت کو قریب آتا دیکھ رہے تھے، حکومت کے زوال کے وقت کو قریب آتا   لہذا زیادہ سے زیادہ گلیوں اور سڑکوں پر نکلنے گلیوں اور سڑکوں پر نکلنے لگے اور اپنی نفرت کا اظہار کرنے لگے جبکہ حکومت کی طرف سے بھی ان تحریکوں کو سرکوب کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جانے لگیں، وزیراعظموں کی ایک کے بعد ایک تبدیلی ،ان اقدامات میں سے تھی جسکو حکومت ،عوام کو ڈرانے دھمکانے کیلئے کررہی تھی یہاں تک کہ فوج سے منتخب وزیر اعظم " تیمسار ازہاری " کو لوگوں کو رُعب میں کرنے کیلئے لایا گیا،اور اس نے بھی بہت سارے وزیروں کو فوج اور پولیس میں سے منتخب کرکے اپنی ٹیم بنائی اور بوشہر میں بھی " تیمساری موقری" نام کو گورنر تعینات کردیا گیا۔ اس کے متعین ہوتے کے ساتھ ہی حجت الا سلام صداقت نے شہید عاشوری کے ساتھ مل کر ایک ریلی کا اہتمام کیا تاکہ نۓ آنے والے گورنر کو بھی بو شہر کے لوگوں کی انقلابی طاقت کا اندازہ ہوجاۓ، یہ مطاہرہ بہت ہی بہترین انداز میں منعقد ہوا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی یہ مظاہرہ سابقہ خیابان پہلوی( موجودہ امام خمینی اسٹریٹ) سے لے کرحالیہ امام خمینی چوک پر اختتام پذیر ہوا، اور مظاہرین نے گورنر آفس کے سامنے بھی پہلوی حکومت کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔

 

1۔ آیت اللہ سید صالح طاہری خرم آبادی، شہید عاشوری کی شہادت کے بعد بو شہر کے لوگوں کی انقلابی قیادت کیلۓ منتخب ہوۓ۔

2۔یہ اسکول ایران کے قدیمی اسکولوں میں سے ایک تھا، جو کہ دارلفنون کے بعد بو شہر میں تعمیر کیا گیا۔

3۔ رہبری( پولیس آپریشنز کا انچارج) سن  1978 میں ماہ محرم کی پہلی رات کو جامع مسجد کو محاصرہ کرنے والی فورسز کا انچارج تھا اور عبدالرسول زاہدی کی شہادت ، کچھ لوگوں کے زخمی ہونے اور چند علماء کی گرفتاری کا ذمہ دار تھا۔۔۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 4410


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔