دفاع مقدس میں انجمن جہاد سازندگی کے عملے اور انجینئرنگ کا کردار(2)

وسیع آپریٹنگ علاقے اور لوگوں کا کام


2015-11-26


نوٹ: اب تک عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے بارے میں کافی تحریریں سامنے آچکی ہیں جسمیں مجاہدین کی ایثار وقربانی اور کردار سے لے کر ،محاذ کے پس پردہ خواتین کا کردار بھی سامنے لایا جا چکا ہے اور اس موضوع پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان تمام ایثار وقربانی کے واقعات سے پیوستہ ،ان لوگوں کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جو کہ جہاد سا زندگی (جہادی تعمیر وزندگی) نامی تنظیم کے طور پر سامنے آۓ اور ان دستوں (اسٹاف) کا کام لوگوں(عوام)  سے مدد جمع کرنے سے لے کر، پلوں کی تعمیر ،دیواروں اور مورچوں کی تعمیر کرنا تھا وہ بھی ان برستے گولوں کی بوچھاڑ میں۔۔۔۔۔،یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے جنگ کے اختتام کے کئی سالوں بعد تک بھی، جنگی خراب کاریوں اور نقصانات کی مرمت اور تعمیر کا کام جاری رکھا، ہم نے اسی سلسلے میں وزارت جھاد و زراعت کے ، ثقافتی امور کے محکمے کے ڈپٹی آفس میں، فتح اللہ نادعلی صاحب سے ،اس اسٹاف کی کارکردگی، ذمہ داریوں اور بالخصوص جنگ کے دوران ، تعمیر اور انجینئرنگ کے امورمیں ان کی خدمات کے حوالے سے گفتگو کی، پچھلے ہفتے اس گفتگو کا پہلا حصّہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اب اس گفتگو کا دوسرا اور آخری حصّہ آپکی خدمت میں پیش کیا جارہاہے.

 

 وہ ریسرچ سینٹرز جو جنگ کے دوران آپ لوگوں (مجاہدین/فوجیوں) کی حمایت اور مدد کیا کرتے تھے جنگ کے اختتام کے بعد ان کا کیا ہوا؟

آج بھی بہت سے ماہر افراد جو جنگ میں ہمارے حامی ومددگار تھے ملک کے مختلف ریسرچ سینٹرز میں کام کررہے ہیں جیسے کچھ زراعت کے شعبوں سے وابستہ ہیں کچھ تحقیق اور ریسرچ کاکام کررہے ہیں اور کچھ آج بھی فوج اور پولیس کی انٹیلی جنس میں ہیں اور کچھ ایرواسپیس تنظیموں سے وابستہ ہوکر ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔


جیسا کہ مشاہدہ کیا گیا تھا کہ جنگ ملک کے جنوب و مغرب سب جگہ مسلط کردی گئی تھی تو پھرکیا وجہ ہے کہ اہواز جیسے شہر میں کوئی ہیڈکوارٹر یا دستہ تشکیل نہیں دیا گیا؟
سیکوریٹی کے مسائل کے پیش نظر،محاذوں اور جنگی علاقے سے نزدیکی اور قریب ہونے کے باعث شہراہواز کو استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ تحقیق ہمیشہ ایسے علاقے میں موزوں ہوتی ہے جہاں امن ہو تاکہ محقق کو اپنے کام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور وہ  آرام سے کام مکمل کرسکے، اسی وجہ سے سارے ریسرچ سینٹرز جنگ سے متاثرہ علاقوں سے دور بنائے گئے


اب تک ہم نے تعمیرات اور انجینئرنگ کے حوالے سے خدمات پر گفتگو کی ہے اب کچھ لوگوں سے امداد کی جمع آوری اور خواتین کا اس جنگ میں کردار کب سے شروع ہوا،اس بارے میں بھی بتائیں ؟

سب سے پہلے میں یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ انجمن جہاد سازندگی نے پوری جنگ میں مختلف دستوں کو تشکیل دیا اور اس گفتگوکا آغاز ہی چونکہ آپریشنز اور دیہاتوں کی حفاظت وآزادی سے ہوا تو خود بخود گفتگو کا رخ اسی جانب مڑ گیا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مجموعی طور پر پوری جنگ میں چار عوامل کار فرما اور مددگار رہے،جو کہ لوگوں سے امداد کی جمع آوری اور رسائی، انجینئرنگ وتعمیرات، ریسرچ اور تحقیق، منصوبہ بندی اور تعمیر نو،کہ جب ان سب کو ایک ساتھ ملاتے ہیں تو جنگ کا ایک وسیع نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے ،کہ اگر دیکھا جائے تو ایسا کہیں اور نظر نہیں آتا اور اگر کہیں ،  لشکر اور سپاہ اور مجاہدین کا ذکر آتا ہے تو اسکا مطلب ہوتاہے، جنگی اسلحہ اور لڑائی کرنے والے(لڑنے والا)گروہ،مگر جب ہم عراق و ایران کی اس جنگ میں ایران یعنی اپنی سپاہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس سپاہ میں یعنی لڑنے والوں اوراسلحہ اٹھانے والوں میں کم عمر رضا کار بھی نظر آتے ہیں،فوجی اور پولیس بھی مجاہدین بھی۔


ایک اور پہلو اس جہاد ،جس نے اس جنگ کو فتح سے ہمکنار کیا ،لوگوں کی امداد اور تعاون تھا،جیسے روٹیوں کو پکانے کا کام ہمیشہ خواتین نے انجام دیا کہ ہمارے کمانڈرز میں سے ایک کمانڈر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کا تعلق یزد سے تھا اور وہ یزد کی فرنٹ لائن پر ہی تعینات تھے،  کہ ایک دن ، یزد کے مجاہدین کی خبر گیری کے لئے پچھلے محاذوں پر آئے تو دیکھا وہاں تقریبا (ساٹھ)60 خواتین بھی موجود تھیں جو روٹی اور کھانا پکانے کا کام انجام دیتی تھیں اور جب ان کو پتہ چلا کہ میں کون ہوں تو سب نے اپنے زیورات لاکر دے دیئے کہ ہماری طرف سے یہ قبول فرمائیں اسی طرح ایک اور واقعہ سناتا چلوں کہ ایک غلام رضا نام کا بلڈوزر کا ڈرائیور تھا جو اصفہان کے محاذ پر متعین تھا اور سن 61 کے محرم کے آپریشن کے دوران شدید زخمی ہوگیا تھا کہ بالآخر اسکی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئی تھیں،مگر وہ جنگ کے اختتام تک یعنی سن 67 تک اپنی خدمات ایک بلڈوزر کے ڈرائیور کے طور پر ہی انجام دیتا رہا،وہی بیان کرتا ہے کہ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں بلڈوزر کے ڈرائیور کی ضرورت ہے غلام رضا نے کہا وہ ڈرائیور ہی ہے مگر آنے والا شخص نہیں جانتا تھا کہ اسکی ٹانگیں مصنوعی ہیں لھذا اسے کام بتادیا اور اس نے بالآخر انجام بھی دے دیا اور جب واپس آکر اپنی مصنوعی ٹانگوں کو نکال کر رکھا تو وہ شخص بے حد حیران ہوا کہ کسطرح ایک اپاہج شخص نے اس مہارت سے کام کو مکمل کردیا اور کسی کو احساس بھی نہ ہونے دیا ۔۔۔۔۔


ایک کپڑے دھونے کیلئے بنایا جانے والا گھر بھی اہواز میں تھا جہاں خواتین مجاہدین کے کپڑے دھویا کرتی تھیں کیا یہ مراکز بھی ہیڈ کوارٹرز کے زیر نگرانی ہوا کرتے تھے ؟

جی ہاں بالکل، جہاں بھی لوگ خدمات انجام دے رہے تھے وہاں کا رابطہ محاذ اور جنگ سے قائم ہوتا تھا البتہ ایسا بھی تھا، کہ کچھ انجمنوں اور تنظیموں نے بھی بعض ذمے داریوں کو سنبھال رکھا تھا، مگر اہواز میں ہمارے دستے اور مراکز قائم تھے۔

 

جنگ کی تشہیری مہم کے دستوں اور جنگ کی پشت پناہی کرنے والے دستوں میں کیسا رابطہ پایا جاتا تھا ؟

جنگ کی تشہیری مہم ایک باقاعدہ نظام کے ماتحت تھی کیونکہ ہمارا دشمن اپنی پوری کوششوں میں لگا تھا کہ ہمیں مایوس اور نا امید کرے اور ہمیں باطنی طور پر کمزور کردے کہ اس دستے کا کام دشمن کے اس حربے کو ناکام بنانا تھا اور عوام کو مایوسی اور نا امیدی کے ان پروپیگنڈوں سے بچانا تھا ،جو دشمن کی جانب سے کئے جارہے تھے، اسکے ساتھ ساتھ آپریشنز کی نوعیت ،وقت اور نتیجہ و کارکردگی کو بھی ساتھ ساتھ لیکر چلنا تھا مثلاَ آپریشن والفجر(آٹھ)۸ آپریشن دہہ فجر کے ساتھ ہی ایک وقت میں انجام دینا تھا کہ بلافاصلہ ان آپریشنز کے کامیاب ہوتے ہی ،آغا محترم ہاشمی نے آزادی چوک پران آپریشنز کی کامیابی کے بارے میں تقریر کی اور مبارکباد دی، یعنی ہم ۳۵ ملین کی آبادی کو، روحانی اور باطنی طور پر ،ایک ساتھ متحد ہوکر ،اس جنگ اور پرپیگنڈوں کا مقابلہ کرنا تھا جو بلاشبہ انہی دستوں کی محنت کیوجہ سے ممکن ہوسکا۔


آپ نے زمینی ہیڈکوارٹرز اور ان کی ذمے داریوں کے بارے میں گفتگو کی اب ہمیں کچھ آبی ہیڈکوارٹرز نوحؑ کے بارے میں بھی بتائیں ؟

جنگ کے مختلف حصّے اور پہلو تھے وہ جنگ جو ابتداء میں زمینی جنگ کے طور پر شروع ہوئی تھی آخرمیں پانی کے راستوں سے ہونے والوں حملوں اور آبی جنگ میں تبدیل ہوگئی تھی۔فتح المبین آپریشن ،ایک زمینی آپریشن تھا کہ جسمیں ہم نے عراق کے توپ خانے پر قبضہ کرلیاتھا یا خرم شہر کی آزادی کا آپریشن مکمل طور پر زمینی تھا کہ ان سب میں عراق کو منہ کی کھانی پڑی تھی اور وہ مسلسل عقب نشینی کرنے پر مجبور تھے کہ بیت المقدس آپریشن کے بعدعراقی فوجی اس جانب متوجہ ہوچکے تھے کہ ہم رات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور تاریکی اور فرصت کے اوقات سے فائدہ اُٹھا کر جیت رہے ہیں لھذا انہوں نے ہمارے راستوں میں مائنز اور خاردار تاروں کو بچھا دیا جنکا نقصان ہمیں یہ ہوا کہ ہمارے فوجی ان راستوں کو عبور کرنے میں کافی تھک گئے اور جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آپریشن رمضان اور محرم میں ہمیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی اور اسکے بعد ابتدائی والفجر اور والفجر ایک (۱)آپریشن میں بھی ہمیں کافی پریشانی اور مشکل اٹھانی پڑی،جس کے بعد ایرانی افواج نے یہ فیصلہ کیا کہ آپریشن کی ٹیکنیک اور اسٹیریٹجی کو تبدیل کردیا جائے اور آپریشنز کو صرف زمینی راستے سے انجام دینے کے بجائے پانی کے راستوں کو بھی استعمال میں لایا جائے، اور پھر ہم نے ایسا ہی کیا اور آپریشن بدر اور خیبر کو اسی نئی اسٹریٹجی سے انجام دیا اور عراق کو غافلگیر پایا اور کامیابی ملی،مگر یہ بات مسلم تھی کہ پانی کے راستے آپریشن انجام دینے کیلئے ہمیں کچھ خاص، ماہرغواص اور یونٹ کی ضرورت تھی، جسکی وجہ سے، ایک الگ یونٹ آبی آپریشنز کیلئے قائم کیا گیا اور جنگ کا رخ خلیج فارس کی طرف موڑدیا گیااور اسی طرح جزائر لاوان، خارک کیلئے ہیڈ کوارٹر نوح (ع) تشکیل پایا اور اس ہیڈ کوارٹرنے اس پورے آپریشن کو کمانڈکیا یہاں تک کہ آئل فیلڈ والے آلات اور مشینوں کیلئے جزیروں میں آئل کو جمع کرنا اور ان کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کو بھی نبھایا۔


اسکا مطلب ہے کہ پانیوں پر عارضی اورہلنے والے پلوں کی تعمیر کاکام بھی اسی ہیڈ کوارٹر نوحؒ کے ذریعے انجام پایاتھا؟

جی نہیں،میں نے بیان کیا ہے پانی کے اندر کے آپریشنز کیلئے یہ ہیڈکوارٹر تشکیل دیا گیاتھا۔پانی کے اوپر پل بنانا،آبی آپریشنز میں نہیں آتا کیونکہ اسکو دونوں طرف زمین سے  متصل کیا جاتا ہے تاکہ پانی سے گزرا جاسکے اور زمین کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک باآسانی پہنچا جاسکے یہاں میں آبی آپریشنز کو سمجھانے کیلئے ایک مثال دیتاہوں مثال کے طور پر ہم سے کہا جاتا تھا کہ اس علاقے میں آپریشن کرنا ہے،لہذا جاکر دشمن کی سرگرمیوں کا جائزہ لو اور یہ اندازہ لگاؤ کہ کسطرح دشمن کی سرگرمیوں کو روکنا ہے. اس ٹاسک کے بعد ہیڈکوارٹر نوحؒ کا یونٹ،پانی کی گہرائیوں میں اترتا تھا اور ان علاقوں اور حصّوں پر جہاں دشمن کی سرگرمیوں کو کم یا ختم کرنا ہونا تھا وہاں پانی کے پمپوں کے ذریعے،پانی کی سطح کو اتنا بلندکردیا جاتا تھا کہ وہاں دشمن کے ٹینک اور ان کی پٹرولنگ خودبخود کم ہوجاتی تھی یا مثلاَ خلیج فارس میں ،اس کنارے پر جہاں آپریشن متوقع تھا ایک عارضی بند بنادیا جاتا تھا،یہ بند عراقی غواصوں کی نقل و حرکت کو کیچ کرکے ،ان پر نظر رکھنے میں معاون ہوتا تھا اور اسی طرح کے کام وغیرہ اس یونٹ کی ذمے داری تھے۔

 

ہم نے دیکھا کہ انجمن جہاد سازندگی نے جنگ میں تعمیرات وانجینئرنگ کے حوالے سے اہم ترین کام انجام دیا مگر جیسے ہی جنگ ختم ہوئی اس انجمن نے اپنی توجہ اس جانب سے ہٹاکر زراعت کی جانب کرلی،ایسا کیوں ہوا؟

یہاں بات افرادی فیصلے کی نہیں ہے یا ایسا چند لوگوں کے فیصلے کیوجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ فیصلہ ہمارے نظام اور سسٹم کا فیصلہ ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اگر کبھی دوبارہ جنگ ہوئی تویہ یونٹس دوبارہ جنگ میں معاون ومددگار ہوں گی اور آج خوش قسمتی سے ہمارے ملک کے انجینئرز اس مقام پر پہنچ چکے ہیں اور ہماری فوج اور پولیس اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ اب یہ سب کام خود بخود انجام دے سکتی ہے گرچہ جہادی طاقت اور وہ افرادی قوت آج بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہے کہ جنگ کے اختتام کے  بعد،فوج اور پولیس دوبارہ اپنے اداروں اور محکموں کی طرف لوٹ گئیں اور ہمارا یہ دستہ،غذائی قلت سے نبرد آزما ہونے،زراعت کی جانب چلاگیا کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ غذائی آسودگی اور رسائی جنگ کے بعد اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ تھا،لھذا جھادِ نصر اور جہادِ کوثر نام کے ٹاسک اور فورسز بنائی گئیں اور آج بھی جب ہم یہ بات کررہے ہیںیہی لوگ ہیں جو آج بھی اس ملک کے اہم ترین پروجیکٹس کو مکمل کررہے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ دفاع کی جنگ اب بھی جاری ہے اور اسکے معنٰی یہ ہیں جہاد اور تعمیر نو زندگی نو کی ابھی بھی ضرورت ہے وہی لوگ جو اُس زمانے میں پل،کیمپ اور مورچے تعمیر کرتے تھے آج زراعت کی ٹیکنالوجی اور مچھلیوں کی پرورش کے بہترین پروجیکٹس کو جہاد نصر میں انجام دے رہے ہیں اور یہ کام وہ ہیں جو پولیس اور فوج نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔

 

ہم سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ جہادکے ڈھانچے کو کیوں تبدیل کردیا گیا ہے؟

 تو جواب یہ ہے کہ یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے اورجب انقلاب آگیا اورہمیں فتح بھی مل گئی تو اب ضرورت اس بات کی ہے ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اور اپنی ضرورتوں کے مطابق،اپنی افرادی قوتوں اور انجمنوں و تنظیموں کو ڈھالیں اور بہت سی نئی تنظیمیں اور راہیں بنائیں کہ جن کا مرکز صرف انقلاب اسلامی ہو اور ہم سب وہیں سے فیضاب ہوکر آگے بڑہیں تاکہ تبدیلی لاسکیں ایسی تبدیلی جو انقلاب کو مزید کامیاب کرسکے اور ہمارے لئے نئی راہوں کو کھول سکے۔۔۔۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4056


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔