ایرانیوں کے یورپ کے بارے میں لکھے گئے پہلے سفرنامے پر ایک نظر

"طالبی کا سفر"(مسیر طالبی)

محمود فاضلی
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-11-26


" مسیر طالبی" یا" ابوطالب بن محمد اصفہانی " (1) کے سفر کی شرح ،وہ پہلا سفر نامہ ہے جو ایرانیوں نے یورپ کے بارے میں لکھا،یہ سفر نامہ پہلی بار سن 1352 میں شائع ہوا اور اس کے بعد اب تک پانچ دفعہ شائع ہوچکا ہے، اس سفر نامے کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے جوکہ" 521 " صفحات پر مشتمل ہے اور کتاب کا عنوان  " مسیر طالبی" (یعنی طالبی کا سفر) ہی رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب تین حصّوں پر مشتمل ہے جنمیں کچھ عنوانات یورپ کے سفر نامے کے آغاز سے متعلق ہیں اور کچھ راستے میں آنے والے جزیروں،آئرلینڈ،ویلز،لندن شہر،آکسفورڈ کاسفر،برٹش میوزیم اخبار کے کاغذ کے فوائد واستعمال ،آزادی وقانون آزادی،ریاست کے حالات،برطانیہ میں اوقات کار کی تقسیم،پوری ریاست میں اوقات کی تقسیم،برطانیہ میں فضائل اور رذائل کا بیان امن کا بیان واظہار،برطانیہ کی فرانس سے جنگ کا احوال اور فرانس کے سفر کی شرح واحوال اٹلی ،مالٹا،ازمیر شہر،استنبول ،بغداد،بمبئی جزیرے کے مزار اور قبریں وغیرہ جیسے عنوانات اور ان کی ذیل میں تفصیلات پر مبنی ہے۔

یہ سفر نامہ ، بارہویں صدی ہجری کی تالیفات میں سے ایک ہے، مرزا ابوطالب خان (116-1220 ھ،ق) نے انڈیا کے ایک مسلمان حکمران گھرانے میں پرورش پائی، آپ ایرانی نژاد اور فارسی زبان بولنے والے تھے، ان کے والد،نادر کے دور میں اصفہان میں، کسی غلطی کے مرتکب ہوگئے تھے اور نادر کے غصّے کے ڈر سے اور سزا سے بچنے کیلئے،بھارت فرار ہوگئے تھے اور بھارت جا کر وہاں کے مسلمان حکمران کے دیوان خانے کا حصّہ بن گئے اور خوب عزت اور دولت کمائی۔

استعمار گراؤں کے دور میں ،وسطی بھارتی کمپنی (ایسٹ انڈیا کمپنی) (2) میں شمولیت اختیار کی اور ان کے ساتھ تعاون کیا،جاہ طلبی نے ان کو طاقت اور قوت کا فریفتہ بنادیا اور انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کام جاری رکھا مگر دوسری ایجنسیوں کے ساتھ ان کی نہ بنی اور اسطرح بالاخر انہوں نے علیحدگی اختیار کرلی،اس علیحدگی اور تنھائی کے بعد ،ایک شرق شناس انگریز نے ان کو لندن جانے کا مشورہ دیا اور خود بھی ان کے ساتھ لندن کیلئے روانہ ہوگیا،اور وہ ،اس انگریز کے ساتھ ،کلکتہ سے کشتی کے ذریعے لندن کیلئے روانہ ہوگئے اور بالاخر  350 روزہ طویل مسافت کے بعد لندن پہنچ گئے۔

لندن میں ان کو خوب پذیرائی ملی اور اخباروں میں ان کو "ایران کے شاہزادے " کے لقب سے لکھا جانے لگا اور اس لقب کے ساتھ ہی ان کو خوب شہرت بھی ملی اور وہ کچھ ہی دنوں میں خوب مشہور ہوگئے،وہ دو سال،پانچ ماہ اور15 (پندرہ)روزلندن میں مقیم رہے اور اسکے بعد دوبارہ ہندوستان لوٹ گئے اور وہیں سے اپنے سفر نامے کا بھی آغاز کیا۔

فارسی ادبیات وزبان کے استاد اور محقق" غلام حسین یوسفی " کہتے ہیں انہوں نے سن 1213سے لے کر1218 ھ ق تک کے سالوں کو طویل مسافت میں گزارا اور یہ کتاب ان کے اس سفر،اس دوران کے قیام جو کہ انہوں نے فرانس اور سلطنت عثمانیہ کے مختلف حصّوں میں کئے،سے متعلق ہے انہوں نے اس سفر کے دوران رونما ہونے والے تمام واقعات،حادثوں اور اپنی یادوں اور مشاہدوں کو تاریخ کے ساتھ قلم بند کیا اور مرحلہ وار تاریخ کے حساب سے ہر دن کو بیان کیا،اور اسکے علاوہ چونکہ وہ واپس لوٹنے کے بعد بھی کافی عرصے تک بے روزگار تھے،لھذا یہ ان کیلئے بہترین موقع تھا اور انہوں نے اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام تحریروں اور یادوں کو مکمل کیا اور اپنے پورے سفر کو بہترین طریقے سے تحریر میں قید کیا اور اس طرح بالاخر سن 1219 میں ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوگیا۔

یہاں یہ بات زیادہ حیران کن ہے کہ ان کے اس سفر نامے کا ترجمعہ فارسی زبان میں ہونے سے پہلے انگلش یا انگریزی زبان میں ہوا،اور چارلس اسٹوارٹ نامی شخص نے " مرزا ابوطالب کے سفرنامے " کے عنوان سے اسکا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا،جبکہ فارسی زبان میں سن 1810 میں اسکا ترجمہ ہوا۔(3) ایرج افشار،جوکہ ایک ایران شناس مورخ اور محقق ہیں اس کتاب "مسیر طالبی" کے بارے میں کچھ اسطرح فرماتے ہیں " یہ پہلا سفرنامہ ہے جو ایرانیوں نے یورپی ممالک کیلئے لکھا ہے اور اس کتاب کے مصنف نے یہ تمام معلومات ،اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر حاصل کی ہیں اور انہیں من وعن بیان کیا ہے،قاچاری دور کی تاریخ اور اس دور کی معلومات اور ایران و یورپ کے مابین سیاسی روابط کو سمجھنا،اس دور کی ہمسایہ قوموں اور ان کے عقائد جو وہ مشرقیوں کیلئے رکھتے تھے،ان کو سمجھے بغیر ہر گز ممکن نہ تھا اور اس کتاب نے اس حوالے سے کافی مدد کی ہے کہ یہ کتاب انہی عقائد اور رویوں کی عکاسی کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کتاب میں کافی فارسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے جو ہندوستان میں رائج تھے جو کہ برصغیر میں فارسی زبان کی تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(4)

کتاب "مسیر طالبی "کے کافی ایڈیشن شایع ہوۓ ہیں ،ان کی نگریزی ترجمہ ہوئی کتاب دوبار لندن میں ،فرانسوی زبان میں ایک بار ،اور جرمنی زبان میں فرانسوی زبان سے  ترجمہ شدہ،اور اردو زبان میں مرزا علی محذون مراد آبادی کی بدولت ،شائع ہوچکی ہے۔

یاورقیاں:

.1 ابوطالب بن محمد اصفہانی ،کتاب کے مصنف سن 1166 ہجری قمری میں پیدا ہوئے اورسن 1221 ہجری قمری میں وفات پاگئے ان کا تعلق ایران کے شہر اصفہان سے تھا،مگر وہ ہندوستان (انڈیا) میں رہا کرتے تھے۔

(2) ایسٹ انڈیا کمپنی،اٹھارہویں میلادی صدی کے وسط سے انگریز استعماروں کی طرف سے تشکیل پائی تھی جو کہ انڈیا کے سیاسی امور کو سنبھالتی تھی۔

(3) یہ حصّہ ،ڈاکٹر غلام حسین یوسفی کے مقالے سے لیا گیا ہے یہ مقالہ پہلی بار خراسان ثقافت ونشر اشاعت کے ادارے (شمارہ خرداد 1343) کی جانب شائع ہوا۔


(4)ایرج افشار کی گفتگو،مسیر طالبی،تصیح حسین خدیوجم،انشتارات علمی و فرہنگی ص

25 ۔



 
صارفین کی تعداد: 4908


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔