ہم حیران تھے؛ ابتدائی ایام میں اس طرح کی جنگ کے لئے ہم تیار نہ تھے

گفتگو: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید جون عابدی

2015-11-24


اشارہ:

سرحد پر رہنے والے لوگ سرحد کے اس طرف سے آنے والی صدایئں برابر سنتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ آوازیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو جنگ ہونے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔یہ خاتون جو آبادان میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلیں بڑھی تھیں،جنگ کے ابتدائی ایام ان پرکیسے گذرے انہی کی زبانی سنتے ہیں۔بے یقینی اورحیرانی کے عالم میں سرحد پارسے آنے والی ان آوازوں کے ساتھ ایک جنگ کا آغاز ہوا تھا جس کا سلسلہ آٹھ سالوں تک جاری رہا ۔سہیلا فرجام فر،یہ وہ لڑکی ہے جو آبادان میں پلی بڑھی اوربعد مین دزفول میں ہوائی فوج کی ہوایئ اڈے پر نرس کی خدمات کے لئے موجود تھیں۔انہوں نے آبادان اوردزفول کے جنگی واقعات کو تحریر کیا ہے ۔

 

آپ کی کتاب ’’کفشہای سرگردان‘‘سے شروع کرتے ہیں،کون سی بات سبب بنی کہ آپ نےاس کتاب کو لکھنےکا فیصلہ کیا اوراس کو لکھنے میں آپ کو کتنا وقت لگا؟ 

میں سال ۱۳۷۹ سے اس کتاب کو لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے خود سےکہا کہ چاہے منفی یا مثبت کسی نظریہ کے تحت بھی ہو،ہمارے ملک میں یہ بہت بڑا حادثہ یعنی جنگ ،رونما ہوا اور ہم اپنا دفاع کرنے پر مجبورہوگئے۔اور اسی وجہ سے اس کا نام مقدس دفاع رکھا گیا؛لھٰذا میں نے سوچا کی اس کو لکھا جائےاورلوگوں کو بتایاجائے۔ بالآخر ۱۳۸۱ میں یہ کتاب بازار میں آئی اور اسی سال اس نے تین مختلف فسٹیول میں  تین انعامات حاصل کئے۔

اوردوسری جانب سے میں جنگ میں خواتین کے کردار کو روشن طور پربیان کرنا چاہتی تھی؛ابھی موجود برادران سب جنگ میں موجود تھے اورانہوں نے وہاں بہت زحمتیں اٹھائیں تھیں،ان سب کی آپ بیتی،اپنی یادداشتیں،اورایثارکی داستان شائع ہوچکی ہے۔لیکن خواتین کے بارے میں کم لکھا گیا ہے۔اور اسی لئے ہمارے ایک دوست نے یہ بات ہمارے سامنے رکھی اوربس یہی چیز میرے لئے مشعل راہ بنی۔

انہوں نے مجھ سے کہا :’’جب تک تم خود ہی اپنے بارے میں اوراپنی فعالیت کے بارے میں کچھ نہیں لکھوگی تو دوسروں سےکیا توقع  کی جاسکتی؟ہم نےخواتین کے بارے میں بس یہی سنا ہےکہ وہ محاذ کے  پیچھے سے فوجیوں کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ان کے کپڑےدھونا،سلنا،ان کے لئے دیغوں میں کھانا تیار کرنا یا ان کے لئے مربہ بنانے کا کام کرتی تھیں اورانہیں محاذ پر بھیج دیتی تھیں۔تو کیا جنگ میں خواتین کا اتنا ہی کردار تھا؟‘‘

میں  نے ان کو جواب دیا نہیں ایسا نہیں ہے:’’ہم دوسرے کام بھی کرتے تھے خصوصاً اسپتالوں میں ہمارا بہت نمایاں کردار تھا اور ڈاکڑوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتے تھے۔‘‘

اوریہ ایک چنگاری تھی اوریہیں سے میں نے اپنی یادداشت لکھنے کا کام شروع کردیا۔

 

ہم نے آپکی سوانح حیات میں پڑھا ہے کہ آپ آبادان میں پیدا ہویئ تھیں اور جنگ کے ابتدایئ ایام میں آپ کے گھر والے وہیں ساکن تھے،ہمیں ان ابتدایئ ایام کےبارے میں بتائیے،جنگ کی شروعات میں آبادان کس طرح تھا؟

 ہم اپنے شوہر اوردوبچوں کہ ایک کی عمر ڈیڑھ سال اوردوسرا جلد ہی پیدا ہوا تھا،کے ساتھ دزفول کے ائر فورس بیس کی کالوںی میں رہا کرتے تھے۔جنگ سے کچھ دن پہلے میری والدہ کا فون آیا کہ تمہارے اسکول کے زمانہ کی دوست کی شادی ہے آجاؤ۔ہمیں تو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والاہے۔میں اپ نے بچوں کے ساتھ آبادان چلی گئی اور ہفتہ کے آخر میں میرے شوہر بھی ہمارے پاس آنے والے تھے؛اور ہم سب اس بات سے بے خبر تھے کہ صدام نے ہمارے خلاف کچھ اور ہی سازش رچی ہوئی تھی۔

آوازیں آتی تھیں اور جب ہم بچہ تھے تو جب بھی آواز سنتے تو اس پر زیادہ توجہ نہ دیتے تھے،اورلیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ حالات بہت بدل گئے تھے۔

ہمارے والد کا گھر آبادان کی ریفائینری کے پیچھے تھا؛انہی ابتدائی ایام میں جب ریفائینری پر بمباری ہوئی تو اس کے بعد ہہت غلیظ قسم کا دھواں وہاں سے اٹھنے لگا تھا۔

ہم سے کہا گیا کہ گھر کوخالی کردو عراقیوں نے ریفائینری پر بمباری کردی ہے۔ لیکن ہم وہاں رکے رہے سوچا کہ شاید دھوکے سے مار دیا ہے۔اورحالات ٹھیک ہوجائیں گے۔لیکن بعد میں عراقی ٹیلیویژن سے لی ہوئی تصویریں دیکھیں تو سمجھ میں آیا کہ اب یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔

یہ بھی بتادیں کہ جب جب موسم امس بھرا اورمرطوب ہوا کرتا تھا اس وقت ٹیلویژن پرایرانی چینل کے علاوہ بیرونی چینل بھی آنے لگتے تھے۔اور عراقی چینل پر جو دیکھایا جاتا تھا وہ بہت اذیت ناک ہوتا تھا۔ہم دیکھتے کے عراقی خرمشہر کے اندر داخل ہوچکے تھے اور وہ لوگ گھروں کو غارت کررہے رہے تھے۔

چونکہ آبادان،خرمشہر سے بہت نزدیک ہے اوران دونوں شہروں کے درمیان صرف ایک میدان کا فاصلہ تھا۔لھٰذا میرے والد،بھائی اور خالو نے طے کیا کہ خواتین اور بچوں کو کسی محفوظ جگہ بھیج دیا جائے اور مرد وہیں آبادان میں رک جائیں۔ہم اپنے والدہ اوربچوں کےساتھ گاٰڑی میں سوار ہوئے اوراس بربادی کی جگہ سے دور چلے گئے۔

اگرچہ اس دوران خرمشہر اور اہواز ہائیوے پربھی بمباری ہورہی تھی۔ہم نے تو یہاں تک سنا تھا کہ کئی گاڑیوں پر حملہ کیا گیا ہے اور عورتوں اوربچوں کو قید کرلیا گیا ہے۔اس لئے ہم بہمنشیر کے راستہ بہبہان چلے گئے۔جنگ کے ابتدایئ مہینوں میں خوزستان کو شہروں میں  امن تھا۔بہبہان میں اپنے بچوں کو گھر والوں کے سپر د کیا اورچونکہ میں دزفول کے ائیرفورس بیس کے اسپتال میں میٹرن تھی لھٰذا واپس مرکز آگئی اوراپنے شوہر کے ساتھ زخمیوں کا علاج کرنے میں مشغول ہوگئی۔

 

آبادان اورخرمشہر میں ابتدا ہی سے تحرکات ہورہے تھے،تو کیا عوام کے درمیان کوئی چہ می گوئیاں نہیں ہورہی تھیں؟

چھاؤنی یا سرحدوں کی طرف سے کچھ آوازیں آیا کرتی تھیں۔لیکن واقعاً کسی کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ان توپوں اورٹینکو کی آوازیں اتنی بڑی جنگ میں تبدیل ہوجایئں گی جو آٹھ سال تک چلیں گی۔اورخوزستان کے شہروں کےعلاوہ دوسرے شہروں پربھی بمباری کی جائےگی۔ بہرحال یہ بمباری ۸ سال تک چلتی رہی۔کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔سب یہی کہتے تھے کہ کچھ دنوں تک شہر سے باہر رہیں گے اور پھر واپس آجائیں گے۔

 

جنگ کے شروعاتی دنوں میں زخمیوں کے علاج کے سلسلہ میں کچھ بتائیے؛ان دنوں ان زخمیوں کی کیا کیفیت تھی؟اور ایسے ہی آپ کی کیا حالت تھی؟کیا آپ لوگ ڈرے ہوئے تھے؟

میرے خیال سے عوام حیران اورسرگردان ہوگئی تھی۔ان دنوں کوئی بھی اس طرح کی جنگ کے لئے آمادہ نہ تھا۔کئی سالوں کے بعد وہ جنگ منظم ہوپائی۔جب کہ ابتدائی دنوں میں کوئی آمادگی نہ تھی۔اسی لئے خرمشہر ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ان دنوں صرف عوامی اور مقامی فوج دفاع کررہی تھی۔

ہم تمام کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ ان ابتدائی دنوں میں سب کےسب حیرت زدہ اورسرگردان تھے۔اور یہ بھی نہ بھولیں کہ اس وقت کا صدر جمہوری بنی صدر تھا،اور ہمیں جس طرح سے منظم ہونا چاہئے تھا ہم منظم نہیں تھے۔ لیکن عوام کے درمیان ہمدردی اور ہمدلی کا جذبہ تھا۔

مجھے یاد ہےکہ ماہ مہر کی دوسر تاریخ تھی اور شعبہ تعلیم وتربیت کے دفتر میں میٹنگ ہورہی  تھی کہ نئے تعلیمی سال کا آغاز ہے اور یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں تو اس صورت حال میں کیا کیا جائے۔اسی وقت اس دفتر پر بمباری ہوگئی اور بہت سے مرد اورخواتین جو ثقافتی کام انجام دیتے تھے ایک لمحہ میں گوشت،پوست اور ہڈیوں میں تبدیل ہوگئے۔لیکن یہ وہی لوگ تھے جو عوام کے ہمدرد تھے اور سب ملکر لوگوں کی مدد کرتے تھے۔اسی دوران شہر میں انبولنس کی خدمات شروع ہویئ تھی۔اور انہیں کے ذریعہ لوگوں سے مدد مانگی جاتی تھی۔ جیسے کنبل اور لحاف وغیرہ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں مدد پہونچانے کے لئےآبادان کےاسپتال شیرخورشید جس کا نام بدل کر بعد میں شہید بہشتی ہوگیا،پہونچی تودیکھا کہ پورا اسپتال بھرچکا ہے اوراسپتال کا صحن بھی زخمیوں سے پرتھا۔

 

آپ دزفول سے کب واپس آئیں؟

میں جیسے ہی آبادان سے بہبہان اپنی خالہ کے یہاں پہونچی تو فورا اپنے بچوں کو اپنے گھر والوں کے سپرد کیا اور وہاں سے واپس آگئی۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ ائرفورس بیس واپس نہیں آسکتی تھی۔ جنگ کے انہیں ابتدائی دنوں سے ہی دزفول کے ائیرفورس بیس کو محاذ قرار دے دیا گیا تھا۔اور سارے کام کرنے والوں سے کہا گیا تھا کہ اپنے بیوی اوربچوں کو وہاں سے نکال کر کہیں محفوظ جگہ پر پہونچادیں۔

جب ائرفورس بیس آئی تو دیکھا کہ وہاں کی فضا مکمل طور پر فوجی اور جنگی ہوگئی ہے اوروہاں پر صرف چند خواتیں ہی تھی۔اب جو پہونچی تو وہاں کا ماحول پہلے کی طرح اچھا نہیں تھا۔

بیس میں موجود خواتین دو گروہ میں بٹی ہوئی تھیں۔ایک گروہ نرسوں کا تھا جوعلاج کا کام انجام دیتی تھیں۔دوسرا گروہ ترسیلات اورخبررسانی کا کام انجام دیتا تھا۔اور ہمارے علاوہ اورکوئی دوسری خواتین وہاں موجود نہ تھیں۔ دشمن شروع ہی سے اس پر بمباری کررہا تھا کیونکہ اس کو معلوم تھا ’’فینٹم اور s4 ‘‘جیسے جنگی جہاز وہیں سے اڑتے تھے۔اسی لئے اس ہوائی اڈےکو منہدم کردینا چاہتا تھا۔

ہم لشکر ۲۱حمزہ کی پشتیبانی کررہے تھے اور ہیلی کاپٹراورایمبلنس سے مسلسل زخمیوں کو ہمارے پاس لایا جارہا تھا۔ہم سب مسلسل کام  کررتھے صرف آرام کرنے کے لئے جاتے تھے لیکن آرام کا کوئی وقت معین نہیں تھا۔تھوڑا آرام کرنے کے بعد آپریشن تھئیٹر اور ایمرجنسی وارڈ میں واپس آجایا کرتےتھے۔

دزفول کا ائیرفورس بیس شہر دزفول اوراندمشک کے درمیان پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع تھا۔ چونکہ ان دنوں دزفول پر بہت بم گرائے جارہے تھےلھٰذا ہم لشکر ۲۱ حمزہ کی پشتیبانی کے علاوہ اندمشک اوردزفول کے زخمیوں کو بھی دیکھ رہے تھے۔

 

خواتین کا جذباتی ہونا ،کمزور دل ہونا ،ڈرنا اورجلدی پریشان ہوجانا جیسے صفات آپ کے کام میں رکاوٹ تو نہیں بنے تھے؟

دیکھیں انسان جب دریا میں تیرتا ہے تو بہاؤ کے مخالف سمت میں نہیں تیرتا بلکہ موجوں کے ہمراہ ہی رہتا ہے۔ جب دریا میں اتر گئے تو آپکا وجود و عدم سب اسی میں ہوتا ہے۔ اور ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مریض،فوجی اورزخمی سب ایک ہی سمت میں حرکت کررہے ہیں،تو آپ دوسری طرف نہیں جاسکتے ہیں۔

یہ سب آپ کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بناتے ہیں۔عام دنوں میں آپ کی نگاہ میں مریض صرف مریض ہوتا ہے لیکن جنگ کے ایام میں جب ان کو غور سے دیکھیں گے تو بستر پراپنے وہ ہم وطن نظر آئیں گے جو اپنے وطن کی خاک کی حفاظت اوراس کا دفاع کرنے آئے تھے؛اس مںظر کو دیکھنے کےبعد پھر ہم احساسات سے خالی نہیں ہوسکتے ہیں۔

اب بستر پر لیٹے ہوئے اس شخص کوصرف بیمار نہیں سمجھیں گے بلکہ آپ اس کو اپنے باپ،چچا یا بھائی کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ حتیٰ آپ اس کی جگہ اپنے آپ کو دیکھیں گے۔

میرے خیال سے یہ مسائل لوگوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرتے ہیں۔عام حالت میں ہم جب مریضوں کےپاس جاتے ہیں توہم اپنے چہروں پر ماسک لگائے ہوتے ہیں۔لیکن جب جنگ اورخاک وخون کے حالات ہوتے ہیں اور شہید اورزخمی ہوجانےکا امکان ہوتا ہےتواس وقت یہ ماسک وغیرہ اٹھاکر کنارے رکھ دیتے ہیں۔اوراسوقت صرف آپ اپنے آپکو دیکھتے ہیں۔

 ہم نےائیرفورس کی اسکالرشپ سے تعلیم حاصل کی تھی اور بیت المال کی رقم سے پڑھائی کی تھی اورائیر فورس میں ہماری ٹریننگ اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنےکےلئے آمادہ رہنے کےخاطر ہوئی تھی۔ان دنوں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ٹریننگ ہمارے کام آئے گی۔اورکام آئی اور ہم نے تعلیم کا پورا ستعمال کیا۔

 

آپ ائیر فورس کے اسپتال میں کب تک رہیں؟

میں پہلے سال سے  لیکر بنی صدر کے معزول کئے جانے اورخامنہ ای صاحب کےملک کےصدر بننے تک ائیر فورس کے اسپتال میں رہی۔اس کے بعد کہا گیا کہ جو لوگ محاذ پر تھے وہ منتقلی لے سکتے ہیں۔اور دوسرے شہر جاسکتے ہیں۔چونکہ میں اورمیرے شوہر دونوں ہی ہوایئ فوج کے اسپتال میں کام کررہے تھے لھٰذا ہمارے آفسر نے کہا تم اپنے بچوں کےساتھ جاسکتی ہو لیکن تمہارے شوہر کو رکنا پڑیگا۔

میں اپنے بچوں کے ساتھ تہران کی ہوائی فوج کے اسپتال آگئی اورکچھ عرصہ کے بعد میرے شوہر کو بھی منتقلی مل گئی اوروہ بھی تہران آگئے۔

یقینا ان دنوں ایسے افراد بھی آپ کے پاس علاج کے لئے آئے ہونگے جنکی یادیں آپ کے ذہن میں موجود ہونگی؛ہمیں ان کے بارے میں کچھ بتائیے۔   

مجھے یاد ہےکہ جنگ کے ابتدائی ایام میں ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور ’’دیوار صوتی‘‘یعنی آواز کی دیوار کو توڑنے کا کیا مطلب ہوتاہے ۔اور بہت سی دوسری اصطلاحات کے بارے میں بھی ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔

انہیں دنوں ہم دیکھتے تھے کہ عراقی ہوائی جہازآتے اوربہت کم اونچائی سے آبادان پر حملہ کرکے چلے جاتے تھے۔ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے کہ وہ لوگ کس طرح ہمارے شہروں اورمحلوں کو خاک وخون میں ملا رہے تھے۔

جس زمانہ میں،میں دزفول کی ہوائی فوج کے اسپتال میں تھی وہاں میرا کام ایک ایک وارڈ کو چک کرنا ،مریضوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور انکا اعداد شمار کرنا تھا۔

ایک دن وارڈ میں مجھے بتایا گیاکہ ایک کل رات ایک عراقی پائیلٹ کو لایاگیا ہے۔جس وقت میں اس عراقی فوجی کے کمرے میں داخل ہوئی مجھے بہت برا لگ رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا اس کا گلا دبادوں۔اوراس سے کہوں کہ تم لوگوں نےکتنے بچوں کو یتیم اوربےسرپرست کردیا ہے۔

لیکن بعد میں  مجھے خود ہی خیال آیا کہ میں ایک نرس ہوں اور جب میں اس کے امتحان میں پاس ہوئی تھی تو میں نے قسم کھائی تھی؛اوراسی طرح بچپن میں کتاب میں پڑھا تھا کہ رسول اکرم ص نے فرمایا ہے کہ اسیروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ۔

خلاصہ  یہ کہ میں اس عراقی فوجی کے پاس گئی میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ مواد کی وجہ سے سوجگئے ہیں اور میں اس کے ہاتھ میں ڈرپ لگانے کے لئے رگ تلاش کرنے لگی۔اور اس کا چہرہ زرد پڑگیا تھا۔میں نے اس کو پینے کے لئے مربے کا پانی دیا۔اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔میں اس سے کہا ’’مجھے عربی نہیں آتی۔‘‘

اس عراقی پائیلٹ نے مجھ سے پوچھا ’’تمہیں انگریزی آتی ہے؟‘‘چونکہ میں نے نرسنگ  کا کورس کرتے وقت کچھ دنوں تک انگریزی سیکھی تھی۔اس لئے اس سے کہا ’’ہاں‘‘۔

 

تو اس عراقی پائلٹ نے مجھ سے کہا :’’میں تمہارا دشمن ہوں تو تم کیوں میری تیمارداری کررہی ہو؟‘‘

میں  نے اس کےکہا ’’میں  نرس ہوں میرے کام میں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ کون کیا ہے ‘‘اس نے عربی میں مجھ سے کہا :’’مرحبا‘‘۔میں کبھی بھی اس عراقی کے نظریہ کو بھلا نہیں  پائی۔

بعد میں جب صلح ہوئی اورعراق سے ہمارے روابط بہتر ہوگئے تو میں خود سے کہتی تھی کہ کتنا اچھا ہوا کہ میں نےاس عراقی کے ساتھ صحیح سلوک کیا۔کم سےکم وہ ایک اچھی یاد تھی۔ واقعاً ہم لوگ،ایرانی اور عراقی زخمیوں کے درمیان فرق نہیں کرتے تھے۔

 

چونکہ آپ خود جنگ میں تھیں اور وہاں دوسری خواتین بھی موجود تھیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بہت سی دوسری خواتین جنگ کے بارے میں ہم سے گفتگو نہیں کرتی ہیں؟

میرےخیال سے میں نے اس سلسلہ میں کام کیا ہے ۔یہاں تک کہ ان خواتین کے بارے میں بھی جو محاذ کی پہلی صف میں تھی  یا وہ خواتین جو اسپتالوں میں کام کرتی تھیں،ہوسکتا ہے کہ آج کے جوان مطالعہ سے بہت زیادہ دلچسپی نہ رکھتے ہوں لیکن انہیں فلم دیکھنا پسند ہے۔میرے خیال میں اگر ہم ان خواتین کے کردار کو فلم اورسیریل کی صورت میں پیش کرتے ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

فلموں اورسیریلوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دوران جنگ کی خواتین کے کردار کو بہت روشن اورواضح طور پر بیان نہیں  کیا جاتاہے۔اس یا تویہ دکھایا جاتا ہےکہ ہاتھوں میں قرآن لئے اپنے گھر والوں ،بچوں یا بھائیوں کو رخصت کررہے ہیں یا محاذ کے پیچھے سے مدد پہونچا رہی ہیں۔

آج تک میں نے کوئی ایسی فلم نہیں دیکھی جس میں محاذ کی صٖف اول میں خواتین کے کردار کو دکھایا گیا ہو۔بہت سی خواتین ایسی بھی تھیں جو محاذ میں سپاہیوں کے ٹھکانوں میں اپنے باپ اور بھائیوں کے لئے کھانے پہونچاتی تھیں۔ ہم ان مناظر کو نہیں دیکھتے ہیں۔تو پھر ہم کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری تیسری اورچوتھی نسل ہمارے کردار کو آگاہ ہوجائے گی۔ میرے خیال سے فلموں اورسیریلوں میں خاص طور سے خواتین کے کردار کو بیان کرنے میں کوتاہی سے کام لیا گیا ہے ۔

 

وہ خواتین جو جنگ میں زخمی ہوجاتی تھیں اور آپ کے پاس علاج کے لئے آیا کرتی تھیں انمیں سے کسی کی کوئی یادداشت آپ کے ذہن میں ہے؟

جی ہاں میں شہراندمشک اوردزفول کی پشتپناہی کررہی تھی اوراس وقت مسلسل ہمارے لئے لیبر آیا کرتے تھے۔یا ان  زخمیوں کو بھی لایا جاتا تھا جودزفول کی تنگ اور کوتاہ گلیوں میں ۹ میٹر والی راکٹ گرنے سے زخمی ہوجایا کرتی تھیں۔ دزفول کی گلیاں اس قدر تنگی تھیں کہ ایک طرف سے راکٹ اگر گرتا تو دوسری طرف سے باہر نکل جاتا تھا۔

 

آپ نے اپنی کتاب میں متعدد موضوعات کو بیان کیا ہے منجملہ جنگ زدہ ہوٹل میں جوانوں کی شادی کا تذکرہ کیا ہے۔اس ہوٹل کے بارے میں کچھ بتایئے۔یہ ہوٹل کہاں تھا؟

ہماری ایک دوست جنگ زدوں کے ہوٹل میں تھی اوراس نے وہیں شادی  کرلی تھی۔اس وقت یہ ہوٹل خراب ہوچکا ہے لیکن اس وقت یہ ہوٹل سید خان پل کے نزدیک تھا اور اس کےمشرقی جنوب میں واقع تھا۔جنگ سے پہلےیہ عمارت ایک بین الاقوامی ہوٹل تھی۔ لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد وہ ہوٹل جنگ زدہ افراد کہ جائے سکونت بن گیا۔ اس ہوٹل کے کمروں میں جنگ زدہ افراد خصوصاً آبادان اورخرمشہر کے جنگ زدہ افراد کو سکونت دی جاتی تھی۔

 

تہران سے واپس آنےکے بعد جنگ زدہ افراد کے بارے میں کچھ بتائیے۔انکی کیا حالت تھی کیا کوئی  ان کا پرسان حال تھا؟

ابتدائی مہینوں میں ہوٹل میں جنگ زدہ لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا جاتا تھا اور ان کوکھانےکا کوپن دیا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں جنگ زدہ افراد کی کمیٹی کی طرف سے ان گھرانوں کو جن میں ایسی لڑکیا تھیں جنہیں کھنا پکانا آتاتھا،گیس اورفریج جیسے زندگی کے ضروری وسائل دے دئے گئے تھے۔ یہاں تک کہ مجھے یاد ہےکہ ہوٹل کی ایک منزل پرشادی کا جشن ہورہا تھا اور گیلری کو کاغذوں سے سجایا گیا تھا۔

 

کیا کبھی ایسا ہوا تھا کہ آپ تھک گئی ہوں اورجنگ کے خاتمہ کی تمنا کرنےلگی ہوں ،یاکبھی جنگ کے خاتمہ کی افواہ پھیلی تھی؟

 مجھے خرمشہر کی آزادی بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔اس دن ہم جنگ زدوں کے ہوٹل میں اپنے شہر والوں کے ساتھ جشن منایا تھا۔اس وقت ہماری دوحالتیں تھیں ایک طرف سےہم دیکھ رہے تھےکہ ہمارا شہر آزاد ہوکر دوبارہ ہمارے ملک کا حصہ بن گیا تھا اوردوسری طرف سے اس آزادی کے لئے ہمارے ملک کے جوانوں نے اپنا خون دیا تھا اور اس کے بعد شہر کو چھڑوایا تھا۔

میں ہمیشہ یہ دعا کیا کرتی تھی کہ جنگ ختم ہوجائے اورملک میں  دوبارہ امن و امان ہوجائے۔اور میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ ایسا ہی سوچتے تھے۔لیکن جنگ کے حالات میں جنگی حکمت عملی ہماری سمجھ سے باہر ہوتی ہیں۔

 

ایک  آخری سوال،ایک خاتون اورماں ہونے کے لحاظ سے آپ کےلئے جنگ میں آپ کے لئےسب سے سخت لمحہ کون سا تھا؟

ہماری زندگی کی سب سے بہترین یادداشت وہ ایام ہیں جب دزفول میں بمباری ہورہی تھی۔ مجھے یاد ہےکہ ایک عورت اپنے بچہ کے ساتھ آئی تھی۔اس کا وہ بچہ چہرے،جسم اور عمر میں میرے بڑے بیٹے ’’ہومن‘‘ کی شبیہ تھا۔ بچہ کو گولی لگی تھی اور اس کے ایک ہاتھ میں دودھ کی شیشی اوردوسرے میں چپس تھی۔ اس بچہ کی ماں بہت گریہ کررہی تھی اور بہت زیادہ پریشان تھی۔اس نے مجھے دیکھتےہی بچے کومجھے سونپ دیا اورکہا:’’میں کیا کروں‘‘ ۔میں بچے کو فورا ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر کے پاس لے گئ۔اور ڈاکٹر نے مجھےدیکھتے ہی کہا :’’بچےکو فورا آپریشن تھئیٹر میں لے آؤ۔‘‘

خلاصہ یہ کہ میں بچہ کو وہاں پہونچا کر واپس  اپنے کام پر چلی آئی۔اپنا کام ختم کرکے جب میں گئی کہ دیکھوں کہ بچے کی حالت کیسی ہے تودیکھا کہ اس کی ماں آپریشن تھئیٹر کے دروازے پر چہارزانو بیٹھی  ویسے ہی دعا وزاری میں مصروف تھی۔

میں آپریشن تھئیٹر کے اندر پہونچی تو میری سمجھ میں آیا کہ وہ لوگ بچے کو نہیں بچا پائے؛اس وقت میرے اندر اس بچے سے متعلق عجیب احساس تھا۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اس کی ماں کو اس کی موت کی خبر سناؤں۔

میں باہر تو آگئ لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے گونگی ہوگئی ہوں۔ مجھے یاد ہےکہ میں نے صرف اس کو گلے سے لگایا اور بغیر بات کئے ہوئے ہم دونوں رونے لگے اس وقت اسکو سمجھ میں آیا کہ اس کا بچہ نہیں رہا۔

وہ دن میرا سب سے برا دن تھا،ایک عرصہ تک میں سوچتی رہی کہ اگر میرا بچہ ہومن اس کی جگہ ہوتا، توکیا ہوتا؟اس دن کے مناظر کو میں نے کئ دنوں تک خواب میں  دیکھا تھا۔



 
صارفین کی تعداد: 4126


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔