ایثار و شہادت کی اندازہ گیری ،تاریخ شفاہی کی رو سے

غلام رضاآذری خاکستر
ترجمہ: سید جون عابدی

2015-11-24


مختلف شعبوں کے خصوصی سیشن منعقد کروانے کا اقدام نہ صرف نئی اطلاعات کے تبادلے و جزئی مسائل پر توجہ دلانے کا سبب بنتا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ،تحقیقی شعبوں پر بھی مثبت اثرات ڈالتا ہے کہ گذشتہ دس دہائیوں کے دوران ،تاریخ شفاہی کی خصوصی نشستوں اور اس کے نتیجے میں شائع ہونے والا مواد اور مطالب ،اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اسکے نتیجے میں شائع ہونے والے ماخذ ،مضامین اور قیمتی تجربات سے بھری تحریریں محقیقین کوکافی مدد فراہم کرتی ہیں۔

تاریخ شفاہی کی نویں خصوصی نشست، 09 مارچ  2014 میں ایثار وشہادت کے موضوع پر ،اصفہان یونیورسٹی کے ادبیات ڈپارٹمنٹ میں تاریخ کے گروپ ،نیشنل لائبریری اور دستاویزی سینٹر اور آستان قدس رضوی سینٹر کی مشارکت سے منعقد ہوئی۔

اس نشست کے بانیوں یعنی دستاویزی مرکز برائے فداکاران بنیاد شہید ، امور فداکاران کی تنظیم اور تاریخ شفاہی ایران کی انجمن نے،اس اجلاس کےذریعے جنگ کی تاریخ نگاری میں ایثار وشہادت پر روشنی ڈال کر ایک اہم اور بہترین اقدام کیا ،کہ ایثار و قربانی اور شہادت اہم موضوعات میں سے ہیں کہ اس سے پہلے ،ان موضوعات کو اسطرح اجاگر نہیں کیاگیا تھا اور نہ ہی یہ موضوع اسطرح محققین کے تجزیے کا باعث بنا تھا اسطرح کی نشستوں اور اجلاس کو منعقد کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ محققین ،ایثار و شہادت کے اس مفہوم کو تاریخ شفاہی میں ،بغیر کسی ملاوٹ اور علمی سطح پر شامل کریں اور ان کو اُسی طرح بیان کریں جسطرح بیان کرنے کا حق ہے ،اسکے علاوہ اسطرح کی نشست کا انعقاد اور اسپر مختلف مقالات کو شائع کرنے کے پیچھے چند مقاصد پوشیدہ ہیں جنمیں سے ،پہلا یہ : کہ تاریخ شفاہی میں اب تک ان موضوعات پر، مختلف مصنفین کی طرف سے لکھے گئے مقالوں میں کوئی خاص کام نہیں کیا گیا لہذا اس نشست کے بعد اور اس میں بیان کئے جانے مطالب ،محققین کو تحقیق میں پیش آنے والے کافی سوالوں کے جواب دیں گے اور اس نشست کو منعقد کروانے کے نتیجے میں ہم شکر گزار ہیں،اس علمی نشست کے سیکرٹری محترم جناب علی رضا کمری صاحب کے دفاع مقدس کے مفاہیم ایثار وشہادت انہی کے پسندیدہ مضامین میں سے ہیں کہ ہم نے اس سلسلے میں کچھ گفتگو کی اور اسی حوالے سے چند نکات کی تحقیق کی جو آپکی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

 

سوال: تاریخ شفاہی کی نویں خصوصی نشست جو کہ ایثار و شہادت سے موسوم تھی، کیا ان مقالوں کی اشاعت معاشرے کی تحقیقی ضروریات کو پورا کرے  گی ؟


ان مجموعات اور بیانات اور نقطہ نظر کی اشاعت جو کہ ایک خاص موضوع "ایثار و شہادت پر پیش کئے گئے ہیں،بلاشبہ ،تفکر علمی ،باعث رشد و ترقی اور بصیرت کا سبب بنے گی اور میرے خیال میں تاریخ شفاہی کے اس نویں خصوصی اجلاس میں ایک ایسے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اب تک دنیا میں نظر انداز کیا جارہا تھا یا یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ موضوع صرف ایران کی سرحدوں تک ہی محدود ہے کیونکہ ایثار و شہادت کی یہ روح ،صدراسلام سے لے کر اب تک ایرانیوں کی طرف سے ہی اجاگر کیا گیا ہے عراق کی ایران پر مسلط کردہ ،آٹھ سالہ جنگ کو دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ،ان مجاہدین جنگ کے کارنامے جو ایثار و شہادت کی تجلی تھے اور یہ مفاہیم ان کے ذہنوں میں رس بس گئے تھے، آج وہ وقت آگیا ہے کہ علمی سطح پر ہم اپنی بہترین میراث کو اجاگر کریں اسپر روشنی ڈالیں اور اسپر تحقیق کریں اور تاریخ شفاہی میں اس بے بہا خزانے کو یادوں،مشاہدات،بیانات اور تحلیلات کی صورت میں جمع کریں اور اس میراث اور خزانے کو آنے والی نسلوں کے سپرد کریں۔

کہ تاریخ شفاہی میں ایثار وشہادت ،اصولوں اور معنٰی اور بنیادوں سے لے کر تصورات اور مفاہیم تک اہم ہے کہ تاریخ شفاہی کے مراکز نے اسکو ریکارڈ کرنے اور شائع کرنے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز تر کردیا ہے،تاکہ عراق کی مسلط کردہ جنگ ظاہری مفہوم و معنٰی سے ہٹ کر ،معنوی مفہوم جیسے ایثار وشہادت سے پہچانی جائے، اس موضوع کی اہمیت اور ہزاروں فدا کاروں ،مجاہدین،شہداء اور غازیوں کا وجود باعث بنا کہ یہ مفہوم علمی حیثیت اختیار کرے اور مقالات اور تحقیق کی راہوں کو کھولے۔ تاریخ شفاہی کے مقالات کے مجموعے جو کہ ایثار وشہادت پر شائع ہوئے ہیں پر چند حوالوں سے تحقیق کی جاسکتی ہے ،ایک قسم ان مقالوں کی ہے جو مفہوم و معناہی ایثار وشہادت کو بیان کرتے ہیں،دوسری قسم ان مقالوں کی ہےجو عینی شاہدین کی یادوں اور تجربات پر مبنی ہیں جو کہ تاریخ شفاہی کی بدولت ہی ہم تک پہنچے ہیں اور تیسری قسم ان تحریروں کی ہے جنہوں نے ان موضوعات پر تنقید کی ہے اور چوتھے وہ مقالے ہیں جنھوں نے کلی اور مجموعی طور پر ان موضوعات کو بیان کیا ہے۔


کتاب" تاریخ شفاہی کے نویں خصوصی جلسے کے مقالات کا مجموعہ "پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسمیں موجود چند مقالوں کے اہم مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

بہادر قیم،اہواز کے شہید چمران یونیورسٹی کے تاریخی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اپنے مقالے ایران کی تاریخ نگاری کے شعبے میں تاریخ شفاہی " ایثار وشہادت" کا مقام ،میں عصر حاضر میں ایثار و شہادت کے مفاہیم پر روشنی ڈالتے ہیں اور تاریخ شفاہی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسطرح بیان کرتے ہیں کہ " تاریخ شفاہی کے مطالب،ایران کے دور حاضرکی تاریخ نگاری میں بے انتہا اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ سب مطالب ایسے اشخاص سے لئے گئے ہیں جو بذات خود اس واقعے میں موجود تھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے گئے واقعات کو اپنے احساسات اور جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں

 (ص45) مصنف کی نظر سے ایثار و شہادت کی تاریخ شفاہی پر توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک کے سیاسی نظام ،مسلط کردہ جنگ انقلاب اسلامی کے لئے (عالمی استکبار کی جاری دشمنی اور اس دورِ حاضر کے ماخذ اور دستاویزات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے ایثار و شہادت کو تاریخ نگاری میں علمی اقدامات کے طور پر دو مراحل میں تقسیم کیا ہے ایک ان قوانین نویسی اور ان موضوعات سے پہلے اوران موضوعات کے ساتھ،تاریخ نگاری اور اسکی اہمیت کے ساتھ ساتھ چند عوام جیسے ، پسند،مہارت ،مصنف کی شخصی وانفرادی خصوصیات ،تاریخ شفاہی سے آشنائی،معلومات کو جمع کرنے میں محنت،لکھنے اور تحریر کرنے کی مہارت اور فن تمام متعلقہ رابطوں سے فائدہ اٹھانا ،مطالب کو ترتیب دینا،مبالغہ آرائی سے پرہیز کرنا اور صحیح طور پر موازنہ کرکے حقائق کے ساتھ بیان کرنا اوراسی طرح کی دوسری صفات کو تاریخ شفاہی کے محقق کی خصوصیات کے طور پر ذکرکیا ہے۔


اسی طرح ایک اور مقالے میں،خوارزمی یونیورسٹی کے تاریخ ڈپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سید ابوالفضل رضوی،اسطرح لکھتے ہیں " تاریخ شفاہی کے محققین اور اسکے لکھنے والے،معاشرے کی ضروریات کو سمجھ کر اسکو پورا کرنے کیلئے اسکے مطابق لکھیں تاکہ معاشرے کی موجودہ ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔اخلاقی بیانات کہ انقلاب کے آغاز کی دہائی میں اور مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سالہ دور میں بیان ہوئے ،تین وجوہات،استقامت ایثار وشہادت کی بناء پر انقلاب کی پہلی نسل کیلئے کارآمد ثابت ہوئے کہ پچھلی دو دہائیوں میں کم دکھائی دیئے اور اس تناظر میں تاریخ شفاہی کا کردار بہت اہم ہے جو عصر حاضر میں اپنی ماہیت کارکردگی اور نتائج کی بدولت،آج کے دور کی بہت سی اہم ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار اداکررہی ہے  (ص127)  اسی کے آگے مزید، مصنف نے جنگ کی ماہیت اور حقیقت کو فلسفے کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس جنگ کے مثبت اور منفی وجوہات پر بات کی ہے۔


اسکے علاوہ مقالہ" انقلاب کی دہائی میں دینی تعلیمات اور مجاہدین میں ایثار وشہادت کے جذبات کو اجاگر کرنے میں اسکے کردار " کو جناب ولی اللہ مسیبی قمبوانی نے بہت خوبصورتی سے بیان کیاہے آپ اصفہان یونیورسٹی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں،اسی طرح کی اور بہت سی تحریریں اس کتاب کا حصّہ ہیں۔

ایران کی عراق سے جنگ کے آغاز میں ہی ،عوام کے عظیم گروہ، بالخصوص معاشرے جوان آگے بڑہے اور اپنی زندگی کی تمام آرزؤں اور مادی دنیا کی تمام آسائشوں کوخیرباد کہہ کے میدان جنگ میں آن کھڑے ہوئے اور اپنی اسلامی تعلیمات اور اعتقادات کی بدولت اپنے ملک کا دفاع کیا۔مصنف نے بہت خوبصورتی سے مجاہدین کی اعتقادی شخصیت کو تاریخ شفاہی کے فریم میں بیان کیا ہے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ علماء کی تقریریں،استادوں اور مدارس کی رہنمائی ،تربیتی تنظیموں ،معاون کتابوں اور دینی تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ جہاد کی صورت میں ایثار و شہادت کے عظیم شاہکار اور واقعات ہمارےسامنے آئے۔

محترمہ مریم توسلی کوبانی صاحبہ اپنے مقالے میں موضوع " بے نام فداکاروں کی تاریخ شفاہی " پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ مفہوم ایثار و شہادت اب تک محققین کی نظر سے پوشیدہ تھا اور حقیقت میں ایک مجاہد کا فدا کار انہ رویہ ،اسکے برعکس کے وہ خود بہت سی مشکلات سے روبرو تھا اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے گھر والے ،ماں،باپ ، بہن، بھائی، بیوی ، بچے بھی مشکلات کا شکار تھے ،قابل ستائش اور قابل بیان ہے۔مصنفہ نے اس سوال کہ کیا فدا کاری و ایثار و قربانی صرف جنگ تک ہی محدود ہے؟ کا جواب اپنے مقالے میں دیا ہے اور ان کاعقیدہ ہے کہ اب تک دفاع مقدس کی تاریخ پر تحقیق کرتے وقت ،مجاہدین اور ان کے گھر والوں کی ایثار و قربانی پر اب تک کم توجہ کی گئی تھی،کہ فدا کاروں کے ساتھ ساتھ ان کے گھر والوں پر اس فداکاری کے معنوی،جذباتی ،اجتماعی ،اقتصادی اور ثقافتی اثرات کیا رونما ہوئے،مصنفہ نے بہت اچھے انداز سے اس مقالے میں ان سب کو بیان کیاہے۔ اس کتاب کے دیگر مقالوں میں " تاریخ شفاہی کی استعداد و صلاحیت" انقلاب اسلامی کی تاریخ نگاری میں خواتین کی مدد و کردار؛شکوہ السادات سمیعی کے قلم سے دفاع مقدس؛ اور دیگر مقالے تحریر کئے گئے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ۔

کہ ان مقالوں میں مصنف نے چند سیاسی قیدی خواتین کی زندگی کے مختلف ادوار،شہداء کی بیواؤں،جنگ کے دوران اسیر ہونے والی عورتوں ،کے بیانات و واقعات کو قلم بند کیاہے اور ان سے لئے جانے والے انٹرویوز کو بھی تحریر کیاہے اور اسطرح ایک خاتون کے کردار ،اس کی قربانیوں اور سرگرمیوں کو تاریخ میں ثبت (ریکارڈ) کرکے محققین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے۔ رحیم روح بخش اور فریدہ حشمتی نے اپنے مشترکہ مقالے "دفاع مقدس کے وزارت تعلیم و تربیت میں ،تاریخ شفاہی کی اہمیت "میں تعلیم و تربیت اور طلباء کی فداکاریوں اور قربانیوں کی طرف اشارہ کیاہے ۔اور اس ضمن میں 36 ہزار شہید طلباء ،4 ہزار شہید استادوں کی طرف معاشرے کی توجہ دلاتے ہوئے،تعلیم و تعلّم کے کردار اور دفاع مقدس میں ان فداکاریوں سے روشناس کرایا ہے اور اس حوالے سے کام کرنے کی اہمیت پر زور ڈالتے ہوئے،انجمن تاریخ شفاہی کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے۔


مقالہ"تاریخ شفاہی میں شہادت پر تحقیق کے طریقے اور امکانات اور ضرورت کی وضاحت "محترم حمید ژیان پور اور ڈاکٹر ابوالفضل حسن آبادی کی مشترکہ کوشش ہے۔جسمیں تاریخ شفاہی کے حوالے سے،روشنی ڈالی گی ہے۔اس مقالے کے مصنفین کا عقیدہ ہے کہ تاریخ شفاہی کے محققین کی توجہ ،جدید انداز اور طریقوں کی جانب کروا کر کچھ ایسے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں جو بہت کار آمد ہوں گے اور ان جدید طریقوں کو استعمال کرکے ایک نیا کام کیا جاسکے گا جس پر آج تک توجہ نہیں دی گئی ہے۔

دفاع مقدس کی تاریخ شفاہی میں طریقہ کار کا تعارف" ڈاکٹر مہدی ابوالحسنی ترقی صاحب کا لکھا ہوا ہے اور اسی طرح ایثار و شہادت کے حوالے سے متعدد دیگر مقالے اس کتاب میں شائع کئے گئے ہیں،مصنف کا عقیدہ ہے کہ جنگ کے مختلف پہلوؤں جیسے اجتماعی ،سماجی ،ثقافتی،تعلیمی ،تربیتی پہلوؤں کو بھی علمی تحقیق کی ضرورت ہے اور تاریخ شفاہی میں ایک راوی کی شرکت ،رضامندی،اور تعاون کو تحقیق کے مختلف مدارج میں یقینی بنایا جائے۔

"تاریخ شفاہی پر انحصار کرتے ہوئے دفاع مقدس کے شہداء ،ایثار و شہادت کی  بہترین مثال "محترمہ فائزہ توکلی کی تحقیق کاشاہکار ہے جسمیں انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ دفاع مقدس کے شہداء میں یہ جذبہ ان کی دعاؤں مناجات اور اللہ سے قلبی رابطے کی بدولت تھا اور یہی وہ رشتہ اور رابطہ تھا جس نے شہداء اورمجاہدین کو محاذ کے پیچیدہ مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیا تھا اور یہاں تک کہ وہ ان تمام مشکلات کو باآسانی عبور کرکے فتح سے ہمکنار ہوئے (ص 355) ،اسکے علاوہ بیت المقدس آپریشنز،ہر شہید ایک عنوان؛ مختلف سوالات کی تقسیم بندی و مجوعہ ،شفاہی نگار،ایثار وشہادت کی تاریخ شفاہی کو نقصان پہچانے والے عوامل،اور دیگر مقالے اس کتاب کا ایک بڑا حصّہ ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخ شفاہی کی رو سے مختلف انٹرویوز اور مقالوں کی مدد سے ایثار وشہادت کے مفاہیم کو بیان کرنا ایک اہم اور موثر اقدام ہے ،اور اسطرح تاریخ شفاہی کو بھی ایک نیارخ اورمیدان ملا ہے جہاں وہ خود کو ثابت کرسکے اور اسطرح مختلف محققین کے قلم جب اس موضوع پر اٹھیں گے تو تحریر میں مختلف پہلو جیسے سیاسی ،ثقافتی واجتماعی ،پہلو بھی اجاگر ہوں گے اور اسطرح ایک محقق مجاہدین کے انٹرویوز اور مختلف دستاویزات کو حاصل کرنے کے بعد،اس قابل ہوجائیں گے کہ شہداء کی سوانح حیات پر بھی لکھ سکیں اور تاریخ شفاہی کے ضمن میں لئے جانے والے کئی انٹرویوز اطلاعات و معلومات کا ایک نیا در کھولیں گے اور تاریخ میں ایک نیا باب رقم کریں گے مختلف زاویوں کے بیانات "شہادت سے متعلق " اور مختلف شہداء کے گھر انوں کے افراد ( جن میں شہید کے والد ،والدہ،بہن ،بھائی،بیوی بچے شامل ہیں) دوست احباب،رشتے دار،کلاس فیلو ،کے شہادت اور شہید کے متعلق بیانات نظریات اور اعتقادات سبب بنیں گے کہ ان سب کرداروں کا تاریخ شفاہی میں اضافہ،تاریخ شفاہی کی ترقی ترویج اور اسکی وسعت کا سبب بنے گا۔
اور یہ موضوع باعث بنے گا کہ شہدا ء کی حقیقی شخصیت ،سب کے سامنے آئے جو بہت سے لوگوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوگی،مگر ان سب نتائج کو حاصل کرنے کیلئے ضروری تھا کہ یہ تمام واقعات بیانات اور اعتقادات انہی لوگوں سے سنے جائیں جن سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کی تحریف اور مبالغہ آرائی سے پاک وصاف حقائق دنیا کے سامنے آئیں اسی ضرورت کے پیش نظر تاریخ شفاہی کی انجمن نے اس نویں خصوصی جلسے کو منعقد کیا تاکہ ایک خاص نظر جو معتبر بھی ہو اس موضوع پرسامنے آئے ،گرچہ موجودہ کتاب ،مکمل طور پر اس موضوع اور مفاہیم کو بیان نہیں کرتی اور کچھ حصّوں کو تاریخ شفاہی کے نئے باب ایثار و شہادت کو بیان کرتی ہے مگر یہ بات قابل تعریف ہے کہ اب بہت سے مصنفین کی دلچسپی اور توجہ اس جانب مرکوز ہوگئی ہے جو اس سے قبل ان کی نگاہوں سے پوشیدہ تھا اور اس موضوع نے تحقیق کے دروازوں کو اپنی جانب کھول لیا ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ مقاصد ،آرزویں اور وہ خواہش جو ایک شہداء سے وابستہ رہیں اور اسکی شخصیت کاحصّہ رہیں،ان دیگر مسائل اور موضوعات میں سے ہیں جو محققین کو ایک موثر انٹرویو اور گفتگو کے نتیجے میں حاصل ہوں گی،اور یہ بات قابل تعریف اور قابل بیان ہے کہ تاریخ شفاہی کی انجمن کی جانب سے منعقدہ کردہ اس نویں خصوصی نشست سبب بنی کہ مقالات کا ایک بہترین مجموعہ سامنے آسکا اور جس نے آگے بڑھ کر محققین اور ماہرین کے ان بہت سے سوالوں کے جوابات دے دیئے جوان کو کافی عرصےسے درپیش تھے۔


 



 
صارفین کی تعداد: 4386


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔