محل کے قید خانے سے جُڑی،انور خامہ ای کی یادیں


2015-11-10


ہم سب سے مختلف تھے

نوٹ: انور خامہ ای ان 53 افراد میں سے،زندہ رہنے والے وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے محل کے قید خانے میں گزاری ،ان کے پاس ان گزرے دنوں کی بہت سی یادیں باقی ہیں،محل کے اس قید خانے میں قید،سیاسی اور غیر سیاسی قیدیوں کی یادیں ۔۔۔۔فرخی یزدی کی قید تنہائی سے آزادی تک کی یادیں ۔۔۔۔۔ انور خامہ ای ،اس وقت 96برس کےہیں لہذا سن 1316سے1320کی یادوں کو سوچ سوچ کر،ٹہر ٹہر کر اور مشکل سے بیان کرپاتے ہیں۔

 


سب سے پہلے یہ بتائیں کہ آپکو کب گرفتار کیا گیا اور کب محل کے قیدخانے میں منتقل کیا گیا؟

ہم 53لوگ تہران پولیس کی حراست میں تھے جن کو بعد میں محل کے قید خانے میں منتقل کردیا گیا۔ہم میں سے دو،تین لوگ جیسے محمد شورشیان،رادمنش اور شاید ایک کوئی اور ایسے تھے جو سن  1315 میں گرفتار کئے گئے تھے جبکہ باقی 1316کے فروردین یا اردیبہشت میں گرفتار کئے گئے مجھے بھی 1316کی 22اردیبہشت کو گرفتار کیا گیا اور تہران پولیس کی حوالات میں لایا گیا اور اسکے نیچے والے حصےمیں قید کیا گیا جو کہ آج کل میوزیم بن چکا ہے یعنی پہلے شہری پولیس کی حوالات میں رہا پھر محل کے قید خانے میں نیچے والے حصے میں قید رہا۔

 

وہ قید خانہ کیسا تھا؟

اس قید خانے میں چار راہداریاں تھیں جن کے اطراف چھوٹے تنگ کمرے بتائے گئے تھے ہم سب کوالگ الگ قید کیا گیا تھا کچھ کمروں میں بیت الخلاء اور سونے کیلئے کچھ چار پائیاں تھیں اور کچھ میں کوئی سازوسامان نہ تھا ،یہاں تک کہ ہمیں جب بھی بیت الخلاء استعمال کرنا ہوتا ہم اپنے دروازوں کو پیٹتے پھر نگہبان آتا اور ہمیں راہداری میں بنے بیت الخلاء لے جاتا اس دوران ہمیں کسی سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی کبھی کبھار نگہبانوں کو کچھ پیسے دیتے تو وہ کچھ نرمی کرتے اور ہم تھوڑی بہت بات چیت آپسیمں کرلیتے میں انہی حالات میں،نیچے والے قید خانے میں دس سال تک رہا،اس کے بعد ہمارے کیس کو عدالت میں لایا گیا اور عدالت نے ہمیں سزاسنادی جس کے بعد ہمیں دوبارہ اسی قید خانے میں لے آئے مگر اس دفعہ یہ آسانی تھی کہ ہمارے تنگ کمروں کے دروازوں کو باہر سے بند نہیں کیا جاتاتھا اور ہمیں راہداری میں آنے کی اجازت دے دی گئی تھی ہم جب چاہتے راہداری میں آسکتے تھے،سن 1320میں حالات کچھ بدل گئے جب اتحادیوں کے کچھ قیدیوں کو اس قید خانے میں لایا گیا ہم ان کے ساتھ مزید ایک سال تک اُسی قید خانے میں رہے اس کے بعد ہم سب کو اوپر والے حصے میں منتقل کردیا گیا۔

 

آپ نے ایک جگہ پر محل کے قید خانے اور فرانس کے قید خانے کا موازنہ کیا ہے آپ ہمیں یہ بتائیں کہ شہر کے حوالات یا جیل میں اور محل کے قید خانے میں کیا فرق تھا؟

رضا شاہ کی حکومت سے پہلے،سارے قیدی توپ خانے والی چوک پر قائم پولیس جیل میں ہی رکھے جاتے تھے اس جیل میں دوبڑے صحن تھے ایک کو چوروں ،قاتلوں اوراسی طرح قتل وغارت گری کے کیسز میں لائے گئے قیدیوں اور مجرموں کو رکھا جاتا تھا اور دوسرے میں سیاسی قیدی وغیرہ ہوتے ،بعد میں اس دوسرے حصے کو سیاسی ادارے میں تبدیل کردیا گیا،ہمارے قید خانے یا پولیس جیل کا فرش ہمیشہ گیلا رہا کرتا تھا وہاں کوئی خاص روشنی کا انتظام نہ تھا لہذا وہ بڑے کمرے ہمیشہ گیلے اور تاریک رہتے تھے اور بہت گھٹن کا احساس ہوتا مختصراَ یہ کہ بہت ہی برا حال تھا،اسکے بعد جب رضا شاہ کی حکومت آئی تواس نے کچھ عمارتیں بنانے کا حکم صادر کیا جسمیں جیل کی عمارت بھی تھی لہذا وہی شہری پولیس والی جیل کی عمارت کے ساتھ ہی ایک نئی عمارت بطور جیل بنادی گئی کہ بظاہراَاسکوفرانس کے طرز تعمیر پر بنایاگیا تھا اسمیں بھی دو حصے بنائے گئے تھے ایک عمومی جیل تھی اور ایک عارضی جیل تھی جوکہ سیاسی قیدیوں کو رکھنے کے کام آتی تھی ہم پہلے اس پرانے جیل میں تھے اور اسکے بعد محل کے قید خانے (جیل)میں منتقل کردیئے گئے ،محل کے قید خانے میں بھی عدالت کے سزاسنانے سے پہلے بہت سختیاں تھیں اور بہت مشکل وقت دیکھا مگر سزا کے بعد تھوڑی چھوٹ دے دی گئی تھی۔


کیا محل کے قید خانے میں تشدد بھی کیا جاتا تھا ؟

محل کے قید خانے میں تشدد نہیں کی جاتا تھا صرف جب تک جرم ثابت نہ ہوتا اور تفتیش کی جارہی ہوتی تھی اس وقت تک ہم پر تشدد ہوتا تھا اس کے بعد نہیں،مجھے یاد ہے پرانے قید خانے میں مجھ پربہت تشدد کیاگیا تھا مگر جب وہاں سے محل کے قید خانے میں آیا تو کوئی تشدد نہیں ہوا ہاں یہاں پر یہ قانون تھا کہ قید خانے کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو جیسے لڑائی جھگڑا،بدتمیزی وغیرہ ،ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں بند کردیا جاتا تھا جہاں نہ ہوا تھی نہ روشنی


آپ کے گھر والوں کی حالت کسی تھی اور کیا ان سے آپکی ملاقات کروائی جاتی تھی ؟

ہماری وجہ سے ہمارے گھر والوں کو کوئی تکلیف نہیں دی جاتی تھی اور جب تک ہم شہر کے قید خانے میں رہے اورہم سے تفتیش کی جاتی رہی،کسی کوہم سے ملنے کی اجازت نہ تھی مگر جب محل کے قید خانے آئے وہاں ملاقات کی اجازت تھی ہر ماہ کی پہلی پیر کو ہمارے گھروالوں میں سے جو بھی ہم سے ملنے آتا،ملنے دیا جاتا،تاہم ملاقات کاکمرہ بھی دو حصوں میں منقسم تھا جالی کے ایک طرف ہم ہوتے اور دوسری طرف ہمارے گھر والے،ملاقات کا دورانیہ صرف 20منٹ تھا مگر بعض اوقات نرمی بھی کردیتے اور ایک گھنٹے کی مہلت بھی مل جاتی تھی،گھر والے ہمارے لئے کھانے پینے ،اور پہننے کی جتنی بھی چیزیں لاتے ہمیں دے دی جاتیں تھیں۔

 

محل کے قید خانے میں آپ کے علاوہ اور کون کونسے قیدی تھے آپکے ان کیساتھ کیسے تعلقات تھے؟ کیا کبھی آپ لوگوں کے درمیان جھگڑے وغیرہ بھی ہوا کرتے تھے؟

محل کے نیچے والے حصے میں،راہداری نمبر ایک سے چار تک صرف سیاسی قیدی ہواکرتے تھے اورپانچ سے آٹھ تک میں عام قیدی ہوتے اور چند مرتبہ ہمارا ان سے جھگڑا بھی ہوا، ہم نے قید کی آدھی مدت تقریباَ نیچے والے قید خانے میں(محل کے )گزاری تھی جس کے بعد ہمیں اکیلا قید کرنے کے بجائے،ساتھ کردیاتھا اس حصے میں دو سے تین کمرے تھے جہاں ایک کمرے میں ہم تقریباَ 20سے 30افراد قید ہوا کرتے تھے البتہ سیاسی نمائندوں محمد شورشیان اور رادمنش کو ایک ساتھ ایک کمرے میں رکھا گیا تھا مگر یہ سہولت کبھی کبھی میسر آجاتی تھی کہ شدید گرمیوں کی راتوں میں ہمیں اجازت دے دی جاتی کہ اپنی چادریں لاکر صحن میں بچھا کر سوجائیں اسکے بعد ہمیں دوسرے حوالات جیسے حوالات نمبر 7,6اور 8میں بھی رکھا دوسرے قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا جہاں سردار رشید کردستانی وغیرہ بھی قید تھے مگر اس سے پہلے محل کے نیچے والے حصے میں ہم جب تک قید رہے وہاں ایک دو جاسوسی کے قیدیوں کے علاوہ ہم سب سیاسی قیدی ہی ہوا کرتے تھے۔

 

دوسرے قیدیوں سے آپ کا جھگڑا کس بات پر ہوا تھا؟

بعض اوقات قید خانے کی انتظامیہ سے تعلقات کی بناء پر، بعض قیدی خواہ مخواہ سب پر اپنی اہمیت جتاتے تھے اور جھگڑے کرتے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ جب ہم سب نیچے والے حصے میں تھے تو سب ہی سیاسی قیدی تھے لہذا آپسمیں ایک خاص قسم کی انڈراسٹینڈنگ دی اورکبھی جھگڑا نہیں ہوا مگر جب اوپر منتقل کردیئے گئے تو وہاں ہر طرح کا قیدی تھا جن سے نوک جھوک ہوجایا کرتی تھی اور بعض اوقات جھگڑا،جیسے ایک مرتبہ،شعبان زمانی جو ہم 53افراد میں سے ایک تھا اسکا کسی غیر سیاسی قیدی سے جھگڑا ہوگیا،اور زمانی نے اس قیدی کو مارا،البتہ معاملہ کچھ اسطرح تھا کہ شروعات اس قیدی کی طرف سے ہی کی گئیں تھیں اور اس نے توہین آمیز الفاظ بولے تھے مگر شکایت شعبان زمانی کے خلاف درج کردی گئی کیونکہ ان قیدیوں کے محافظوں اور نگہبانوں کے ساتھ روابط تھے،اور شعبان زمانی کو سزا کے طور پر اس اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا۔ سزاملنے پر قیدیوں کو اس کوٹھڑی میں اکیلئے ڈالا جاتاتھا یا کچھ لوگ اور بھی وہاں موجود ہوتے تھے؟حوالات نمبر2 کے چار کمروں کو بالکل الگ کرکے بنایا گیا تھا یہ کوٹھڑی تھی اوران لوگوں کیلئے بنائی گئی تھی جو قید خانے کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور لڑائی جھگڑا یا بدتمیزی کرتے ہیں،اسکی سزا کی معیاد 24گھنٹوں سے لے کر ایک ہفتے تک کی ہوا کرتی تھی اور قیدی کو اس اندھیرے تاریک اور حبس والے ماحول میں اکیلا ہی رہنا پڑتا تھا۔

 

کیا آپکو بھی کبھی اندھیری کوٹھڑی کی سزاملی؟

جی ہاں ایک دفعہ میرا اور گرکانی کا جھگڑا ایک غیر سیاسی قیدی سے ہوگیا وہ ہماری جاسوسی کیا کرتا تھا مگر ہوا یہی کہ شکایت ہمارے ہی خلاف درج کی گئی اور ہم دونوں کو چند دنوں کی سزا ہوئی،جب اس تاریک کوٹھڑی میں قید کیا کرتے تھے تواس سے پہلے آپ کے جوتے،چپل اور کوٹ وغیرہ اتروا لیا کرتے تھے اور ایک کپڑوں میں ننگے پاؤں وہاں قید کرتے ،اس کوٹھڑی میں فرش نہیں تھا لہذا کچی زمین ہونے کیوجہ سے ہمیشہ گیلی اور ٹھنڈی ہوا کرتی تھی،اور راتوں کو سردی کے مارے ہم ٹھٹھرنے لگتے اور ایک دوسرے کی کمر سے کمر ملا کر بیٹھ جاتے تاکہ کچھ گرمی مل سکے اور بہت دشوار سزا کاٹی۔

 

آپ نے بتایا کہ ان 53لوگوں کے ساتھ آپ کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے تو آپ کی کیا سرگرمیاں تھیں ؟

ہم جب تک محل کے نیچے والے پورشن میں قید رہے ساتھ تھے مگر جب اوپر آئے تو سب الگ الگ ہوگئے البتہ گھر والوں سے ملاقات کے دوران یاکبھی کبھی ملاقات ہوجایا کرتی تھی ،کیونکہ اوپر منتقل ہونے کے بعد تھوڑی نرمی کردی گئی تھی اور ملاقات مہینے میں ایک بار کے بجائے،اب ہفتے میں ایک بار کروادی جاتی،ہمارے گھر والے ملاقات کو آتے تو گھر کا پکا ہوا کھانا ہمارے لئے لاتے اور ہم وہاں کا کھانا نہیں کھاتے تھے،کھانے کے علاوہ لباس اور کتابوں کے حصول میں بھی کافی آسانی ہوگئی تھی اور ہمیں بر وقت سب کچھ موصول ہوجاتا تھا مجھے یاد ہے جب میں شہری پولیس والی جیل میں تھا تو اگر ایک شاعری کی کتاب بھی ہمارے پاس سے نکل آتی تو ہمیں سزادی جاتی،مگر محل کے قید خانے میں ایسی کوئی سختی نہ تھی اور ہرطرح کی کتابیں اور وسائل ہمیں ہمارے گھر والے لاکر دے دیتے تھے جیسے ہمارے درمیان ڈاکٹر مرتضیٰ یزدی بھی تھے جنہوں نے اپنی جرمنی کی ساری میڈیکل کتب کا مطالعہ قید خانے میں ہی کیا تھا وہ صبح سے رات تک بس مطالعے میں ہی مصروف رہتے اور اپنی قید میں ایک اچھے ڈاکٹر بن گئے ، اسکی ایک وجہ اورتھی اور وہ یہ کہ ہم 53افراد میں سے جب بھی کوئی بیمار ہوتا توانہی سے رجوع کرتا اور ہم جیل کے ڈاکٹروں پر بالکل بھروسہ نہیں کرتے تھے ان کے علاوہ بھی تین چار لوگ جیسے ڈاکٹر بہرامی، ڈاکٹر یزدی وغیرہ بھی ہمارے ڈاکٹر تھے۔


محل کے قید خانے کے کیا معمولات تھے؟

رات تقریباَ 10بجے کے قریب ایک گھنٹی بجتی جسکے بعد سب راہداریوں کے دروازے بند کرکے سب قیدیوں کوکمروں میں بھیج دیا جاتااور پھر ان کمروں کے دروازوں کو بھی بند کردیا جاتا اور صبح سے پہلے کسی قیمت پر بھی نہیں کھولاجاتا تھا ہم عموماَ راہداری نمبر2میں ہی رہے ہیں لہذا مغرب سے پہلے ہی راہداریوں میں آجاتے اور رات کے دس بجتے ہی کمروں میں بند کردیئے جاتے۔

 

وہاں کے محافظوں کا رویہ آپ لوگوں اور دوسرے قیدیوں کیساتھ کیسا تھا؟

ان کا رویہ بعض اوقات بہت ہی برا اور بعض اوقات نارمل ہوتا ،البتہ ہم بھی ان کو تنگ کیا کرتے تھے کیونکہ ہم اس قید خانے اور حکومت کو اپنا دشمن سمجھتے تھے لہذا ان سے ہمیشہ نفرت ہی ہوا کرتی تھی حتیٰ بعض اوقات غیر سیاسی قیدی بھی ان محافظوں سے الجھ پڑتے ان غیر سیاسی قیدیوں میں سے ایک تبریزی جوان تھا جو بہت لہیم شہیم اور لمبا چوڑا تھا وہ ہمیشہ بہانے ڈھونڈتا تھا تاکہ ان محافظوں سے جھگڑا کرسکے اوران کو تنگ کرسکے اور مارے پیٹے،کہ بعد میں وہ بھی بدلہ اتارتے اور فوراَ سے اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دیتے حتیٰ ایک دفعہ تو اس قیدی کو لٹا کر کوڑے بھی مارے گئے ،گرچہ ایسا ایک ہی دفعہ ہوا مگر سیاسی قیدیوں کو ایک دفعہ بھی کوڑے مارنے کی سزا نہیں دی گئی ۔

 

کیا آپکو کوئی ایسا قیدی(دوسرے غیر سیاسی قیدیوں میں سے )یاد ہے جو آپ کے ساتھ محل کے قید خانے میں تھا؟

دوافراد مجھے یاد ہیں جو ہمارے حوالات دو میں جہاں اکیلے قیدی قید کۓ جاتے تھے وہ بھی ہوا کرتے تھے انمیں سے ایک کا نام حنیف اللہ خان اور دوسرے کا نام عزت اللہ تھا۔عزت اللہ دو مرتبہ محل کے قید خانے سے فرار ہونے کی کوشش کرچکا تھا اور ایک دفعہ تو کامیاب ہو بھی گیا تھا مگر روس کی سرحد پر اسے پکڑ لیا گیا اور دوبارہ اسی جیل میں بھیج دیا گیا کہ آکر کار وہ بے چارہ وہیں پر مرگیا۔ ان 53افراد کے علاوہ وہ افراد جنھوں نے ملک کے امن وامان کو تباہ کرنے کا جرم کیا تھا،ہمارے ہی سیاسی قیدیوں والے حصے میں رکھے گئے تھے جیسے فرخی جوکہ شاہ اور اس کی عدالت پر اعتراض کرنے کے جرم میں یہاں لایا گیا تھا اور سیاسی قیدیوں والے حصے میں ہی قید تھا اور اسکے علاوہ کچھ قبیلوں کے سردار بھی قید تھے جو اس طرح کے کچھ کیسز میں اندر کئے گئے تھے ان میں سے بعض کی حالت بہت ہی خراب تھی اور بعض جیسے سردار اسعداورکچھ دوسرے سردار جو مالی طور پر مستحکم تھے اور اچھی اقتصادی حالت کے مالک تھے ان کیلئے ہر چیز باہر سے آجاتی لیکن فرخی ،خان بابا اور دو لوگ اور تھے جن کی حالت بہت بدتر تھی ان کا کوئی نہ تھا جو ان کیلئے باہرسے کھانا یا دوسری استعمال کی چیزیں بھیجتا لہذا بے چارے مجبوراَ قید خانے سےدیا گیا کھانا ہی کھا لیتے ،فرخی کو ایک الگ بنائے ہوئے تنگ کمرے میں قید کیا گیا تھا وہ ہمیشہ وہاں اکیلا ہی قید رہا مگر اس کا دروازہ بند نہیں کیا جاتا تھا اور جب چاہتا تھا باہر آسکتا تھا اور ہمارے ابتدائی دنوں میں کہ جب ہمیں بھی باہر آنے کی اجازت نہ تھی اورہمارے دروازے بند ہوتے تھے اسوقت بھی فرخی کا دروازہ بند نہیں کیا جاتا تھا اور وہ باآسانی باہر آجاتا تھا۔

 

مہدی قدیمی

ماخذ،مہر نامہ،شمارہ27،آذر

1391صفحات 110-111

 



 
صارفین کی تعداد: 3944


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔