مسیح مہاجری کی اسلامی جمہوریہ تنظیم سے جڑی یادیں


2015-11-10


اس سال (تیرماہ 1391) ماہ مبارک رمضان میں سید حسن آیت کے بارے میں ایک دستاویزی فلم  نجی طور پر ریلیز کی گئی ہے، اس فلم کی ریلیز پر بعض لوگوں سے انٹرویوز کئے گئے جسمیں انہوں نے شہید آیت کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیاہے۔

 

کیا آپ نے یہ فلم دیکھی ہے ؟


بسم اللہ۔،۔،۔،۔،میں نے یہ فلم نہیں دیکھی صرف اس فلم کے بارے میں شائع ہونے والے مطالب مطبوعات ،انٹرویوز اور اظہار خیال کو پڑھا ہے۔ محترمہ مہرانہ صاحبہ جوکہ شہید آیت کی اہلیہ کی استاد تھیں جب ان سے اس فلم کے بارے میں رائے لی گئی توانہوں نے کہا میں 30سال سے خاموش ہوں اور میں نے ان سالوں میں آیت اللہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہااور اسی وجہ سے اب بھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی اور میں اس شرط پر ،اس جگہ آئی تھی کہ مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا اور نہ ہی میں کوئی انٹرویو دوں گی۔


میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ کے لحاظ سے وہ کون سے راز اور اسرار ہیں جنکو ظاہر کرنے سے یہ خاتون گریزاں ہیں؟


دیکھئے جناب ،میں نہ تو ان خاتون کو جانتا ہوں اور نہ ہی مجھے نیتوں کا حال معلوم کرنا آتاہے کہ میں بتا سکوں کہ ان کے ذہن میں کیا تھا،صرف اندازہ ہی لگا سکتاہوں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے پاس کہنے کو ہے اور کہہ دے تواسے اشتہار بازی اور ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں کہ زیادہ تر ایسے دعوؤں کے پیچھے کچھ خاص حقائق ہوتے نہیں ہیں مگر اگر کسی کے پاس بتانے کو کچھ ہے گرچہ کچھ غلطی ہی سرزد ہوگئی ہو،مگر اگروہ اور اسکا بتانا اور اقرار کرنا ملک کے مفاد میں ہوتو میرے خیال میں اسکو چھپانا نہیں چاہیے بلکہ ضرور بتانا چاہیے اور اگر کسی کے پاس ،کچھ ہوہی نہ بتانے کو تو اس کو ایسے الفاظ ادا ہی نہیں کرنے چاہیں لہذا میرے خیال میں تو ایسے جملوں کی پرواہ بھی نہیں کرنی چاہیے۔

جواد منصوری صاحب نے اس فلم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جب سن 1359میں اسفند کے مہینے میں بنی صدر نے امام خمینی ؒ سے فوج کی سربراہی کا ذمہ لے لیا تو آیت غصے سے کانپ رہا تھا اور کہتا تھا امام نے یہ غلطی کردی ہے اور کون خط لکھتاہے امام کو کہ وہ ایسا کریں ،،،،، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟


میں اس سوال کے جواب میں دو،تین نکات بیان کرنا چاہوں گا پہلا نکتہ تو یہ کہ یہ کوئی بری بات نہیں ہے کہ یہ کہیں امام خمینی نے غلطی کردی ہے،کیونکہ امام خمینی کوئی معصوم توتھے نہیں ہمارے اور آپ کے جیسے انسان تھے اور انسان خطا کرسکتا ہے لہذا امام خمینی بھی غلطی کرسکتے ہیں البتہ یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے لیکن ان سے غلطی سرزد نہ ہو ایسا کوئی بھی نہیں کہتا،دوسرا نکتہ یہ کہ ہمیں دراصل ولایت فقہیہ کو سمجھنا چاہیے کہ دراصل ولی فقیہ کا مطلب ہے کیا؟ ولی فقیہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ایک سپر پاور ہے اور اسکے آگے کوئی حق نہیں رکھتا کہ بولے یا اسکے اوپر اعتراض کرے بلکہ اسکے برعکس یہ آزادی دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ولی فقہیہ نے غلطی کی ہے تو بجائے اسکے کہ شوروغل مچائے یا اسکے خلاف نعرے بازی کرے،اس صحیح بات کو جو اس کے مطابق قانوناَ،شرعاَ یاعرفاَ درست ہے ولی فقہیہ تک پہنچائے اور ولی فقہیہ بھی عوام کی اس رائے کو قبول کرے اور ایسے راستے ہموار کرے کہ عوام اسکے ساتھ روابط برقرار رکھ سکیں ،عوام کی رائے سننے کے بعد اب ارادہ کرنا ولی فقہیہ اور رہبر کا کام ہے وہ چاہے تو اپنی رائے کو بدل لے اور اس رائے کا انتخاب کرے جو عوام کی طرف سے موصول ہوئی ہے اور چاہے تواپنی رائے پر قائم رہے،کیونکہ اس وقت جو ذمہ داری اسکے کاندھوں پر ہے اور جسکا وہ جواب دہ ہے کوئی اور نہیں،عوام کی ذمہ داری اپنی رائے کو پہنچانا اور اپنی رائے کا اظہار ہے اور وہ لوگ جو اختلاف راۓ رکھتے تھے اور اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اسے رہبر اورولی فقہیہ تک پہنچاچکے تھے اب رہبر کا فیصلہ ان کی رائے کے خلاف ہونے پر بھی یہ ان کا قانونی شرعی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنے رہبر کی رائے کا احترام کریں۔ اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف اورآیت صاحب کے اس جملے کی جانب تو بتاتا چلوں کہ اسوقت صرف آغا آیت ہی نہیں بلکہ ان کے جیسے کئی اور لوگ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ امام نے غلط کیا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بہت سارے لوگوں نے امام خمینی ؒ کو یہ پیغامات بھجوائے تھے کہ آپ ایسا نہ کریں یہ غلط ہے مگر جب دیکھا کہ امام خمینیؒ اپنے فیصلے پر قائم ہیں تو وہ خاموش ہوگئے تھے اورمجھے نہیں یاد کے امام خمینی ؒ کے یہ فیصلہ سنانے کے بعد آیت نے شوروغل کیا ہویا میڈیا میں یا لوگوں میں امام خمینیؒ کی مخالفت کا بیان دیا ہو اور اگر کچھ لوگوں کے گروہ یا مجمع میں انہوں نے امام خمینیؒ کے بارے میں ایسے جملات(جملے) ادا کئے تو کچھ لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا کوئی عیب اور گناہ نہیں جو آغا آیت نے کردیا ہو، دوسرانکتہ یہ تھا کہ آغا منصوری نے جو ان جملوں کو ادا کیا تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان جملوں سے ان کا مقصد آغا آیت کی تعریف کرنا تھا یا ان پر تنقید کرنا چاہتے تھے۔۔۔

 


تو کیا جواد منصوری صاحب کا مقصد یہ تھا کہ آیت صاحب ،امام خمینی سے بھی بالاتر اور سمجھدار تھے؟

اگر ایسا ہے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ صرف یہ ایک مسئلہ نہیں تھا بلکہ دیگر مسائل میں بھی ایسا ہی تھا کہ امام خمینی سب سے الگ اور آگے تھے اور انہوں نے کچھ ایسے فیصلے کئے جو اس وقت لوگوں کی سمجھ سے باہر تھے مگر بعد میں یہ بات سب پر عیاں ہوگئی کہ امام ہی صحیح تھے لہذا ایسے مطالب کا اخذ کرنا بھی صحیح نہیں اور فوراَ ان کی تصحیح ہونی چاہیے۔
 

جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہے وہ کہتے ہیں،اس فلم کا ٹریلر ،ڈاکٹر سید محمود کاشانی کے ان جملوں سے شروع ہوتا ہے کہ :کون ہے جو آیت کو دھمکی دے؟ جسکے بعد علی محمد بشارتی کا جواب آتا ہے بنی صدر،،،،تو کیا واقعی ان کو بنی صدر کی طرف سے دھمکی ملی تھی ؟

آپ کے اس سوال کا جواب بھی دو طرح سے دیا جاسکتا ہے ایک یہ کہ بنی صدر،منافقین کے گروہوں اور دوسرے ضد انقلابی گروہوں کا آپسمیں گٹھ جوڑ اور اتحاد تھا اور یہ سب ایک ہی تھے اگر آپکویاد ہو تو جب 7تیر اور 30خرداد کا واقعہ رونما ہوااور منافقین کی طرف سے مسلحانہ جنگ(مسلح جنگ)کا اعلان ہوا تو بنی صدر غائب ہوگیا اور بعد میں رجوی کے ساتھ ایران سے فرار ہوگیا اور پیرس چلاگیا اور بعد میں رجوی سے ہی اپنی بیٹی کی شادی بھی کردی تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے اور اگر اس حوالے سے دیکھیں توا ن معنیٰ میں بشارت کا یہ جملہ بالکل ٹھیک ہے کہ بنی صدر جو ان تمام گروہوں کا سردار تھا۔اسی گروہ نے یہ کام کیا ہے یعنی بنی صدر نے کیا ہے۔۔۔اسکے برعکس اگر میں کہوں کہ نہیں ایسا نہیں تھا اور خودبنی صدر ہی ان کو مارنا چاہتا تھا اور یہ اس اکیلے کی دھمکی تھی تو جو کوئی ایسے جملے اداکرتا ہے وہ اسکی دلیل اور ثبوت لائے۔۔۔لہذا اصولی طور پر یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ دھمکی منافقین کی طرف سے دی گئی تھی۔


محمود کاشانی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ حسن آیت کی شہادت،دہشت گردی کے تحت نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی اور سازش کے ذریعے ان کو قتل کیا گیا ہے مگر کس نے یہ قتل کروایا یہ نہیں معلوم (ظاہر نہیں کیاگیا) تو آپ اس دعوے کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

محمود کاشانی کے بارے میں ایک بات بتاتا چلوں کیونکہ میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں اور وہ کافی عرصے تک جمہوری اسلامی تنظیم میں میرے ساتھ تھے اور میرا ان سے کافی ملنا جلتا تھا وہ ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں مگر اکثر ایسے جملے بول جاتے ہیں جنکاکوئی ریفرنس نہیں ہوتا لہذا اگر اس حوالے سے دیکھیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ بھی انہوں نے اپنے ذاتی خیال کی بناء پر ادا کیا ہو اس کے ساتھ ساتھ آپکو بتاتا چلوں کہ میں شروع سے ہی مصدق کے خلاف تھا اور میں نے ہمیشہ اسکے مخالف لکھا میں تنظیم کی مرکزی کمیٹی کی شوریٰ میں تھا اور اس تنظیم کے اخبار کیلئے کبھی کبھی آرٹیکلز بھی لکھا کرتا تھا البتہ ہر تحریر پہلے آغا بہشتی دیکھا کرتے اور بعد میں وہ چھپنے کو جاتی ایک دفعہ اسی اخبار میں میری نظر سے ایک ایسا مقالہ (آرٹیکل) گزرا جو مصدق کے حق میں اور آیت اللہ کاشانی کے خلاف تھا مجھے بڑاتعجب ہوا کہ اسے اخبار میں کیسے چھاپ دیا گیا جبکہ تحریر چھپنے سے پہلے چیک بھی کی جاتی ہے میں بیٹھا اور میں نے بھی ایک مقالہ مصدق کے خلاف اور آیت اللہ کاشانی کے حق میں تحریر کردیا اور کافی تفصیلی تحریر کیا اور اسے لے کر آغا موسوی کے پاس گیا اور ساتھ ان سے اعتراض بھی کیا کہ اخبار میں ایسا آرٹیکل کیسے چھپ گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ تومصدق کے خلاف ہی نہیں ہیں جبکہ آیت اللہ کاشانی پر کافی اعتراضات کرتے ہیں،بہر حال میرا آرٹیکل بھی اخبار میں چھپ گیا اور اسی انداز سے چھپا جیسا وہ پچھلا آرٹیکل چھپا تھا.

 

اس پورے واقعے کا مطلب کیا ہے؟

اسکا مطب یہ ہے کہ گرچہ آغا موسوی مصدق کے طرفدار تھے اور میرے افکارات کے مخالف،مگر ہمیں کھلے دل سے دوسروں کے افکارات اور خیالات کا خیر مقدم کرنا چاہیئے اور ہمیں کوئی حق نہیں کہ جو کوئی ہمارے خیالات اور افکارات کے برعکس سوچے اسکو اللہ اور رسول کا مخالف جان کر کافر اور مرتد جانیں اب جبکہ بات جمہوری اسلامی تنظیم کے اخبار اور اسکے سیاسی دفتر کی آہی گئی ہے اور آپ نے آغا موسوی کا بھی ذکر کردیا ہے تو کچھ گفتگو ان کے بارے میں بھی ہوجائے۔ شجوتی صاحب کہتے ہیں کہ صبح جب آیت کو قتل کیا گیا تو وہ کچھ شواہد لے کر مجلس شوریٰ جانا چاہتے تھے او روہ سب شواہد آغا موسوی کے خلاف تھے لیکن اس سے پہلے ہی ان کو قتل کردیا گیا جواد منصوری صاحب نے یہ بھی بیان دیا کہ وہ کچھ ایسے ثبوت جمع کررہے تھے جنکے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ موسوی سے لڑنا، شاہ سے لڑنے سے زیادہ مشکل ہے ۔میں آیت صاحب کو کافی اچھی طرح سے جانتا تھا وہ بھی اسی تنظیم کے رکن تھے ہماری آپس میں کافی ملاقات اور بات چیت ہوتی رہتی انہوں نے کبھی بھی میرے سامنے اسی کوئی بات نہیں کی جس میں ان ثبوت یا شواہد کا ذکر ہو یا کوئی ایسی مشکوک بات جس سے مجھے یہ شائبہ تک ہو لہذا میں ایسی کسی بات کو نہیں مانتا۔


آپ نے بتایا ،آغا بہشتی بھی مصدق کو معتبر مانتے تھے ایسا کیسے تھا؟

آغا بہشتی ،میر حسین موسوی اور کچھ اور لوگ تھے جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے تحریک آزادی سے زیادہ رابطے میں رہتے تھے اور تحریک آزادی مصدق اور اسکے طرفداروں کی تھی مگر میں یہ واضح کرتا چلوں کہ وہ لوگ اس تحریک کے رکن نہیں تھے اور یہ جملے جو آپ نے کہے کہ وہ مصدق کے طرفدار تھے ایسا کیسے تھا تو میں کوئی بھی بات بغیر دلیل کے بیان کروں ہوا کچھ اسطرح سے تھا کہ جب آرٹیکل چھپنے والا معاملہ پیش آیا تھا تو میں نے اسکی شکایت آغا بہشتی سے بھی کی تھی کیونکہ وہ اسوقت مدیر اعلیٰ تھے تو جب سارا معاملہ ان کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے کچھ اسطرح کے الفاظ ادا کئے:مصدق ایک معتبر انسان ہے اور آیت اللہ کاشانی کو بھی ہم مانتے ہیں مگر ان دونوں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں ،میں نے اصرار کیاکہ اس معاملے کو ایسا ہی نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ یہ تحقیق ہونی چاہئے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے جس پر انہوں نے بہت ٹھنڈے انداز سے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اسی دفتر میں ایک علمی تحقیق کا انعقاد کرتے ہیں جو اس سلسلے میں سارے شواہد اکٹھا کرکے تحقیق کرے گی اور نتیجہ آتے ہی تنظیم کے حوالے کردیاجائے گا اورپھر ہم اسی کے مطابق اپنی رائے دیا کریں گے اور تحقیق شروع کردی گئی مگر ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ اس تحقیق کا باقاعدہ آغاز ہوتا امام خمینی نے مصدق کے خلاف بیان دے دیا جس کے بعد آغا بہشتی نے کہا اب کسی تحقیق کی ضرورت نہیں اور نتیجہ آگیا اور جب امام نے کہ دیا تو اب تحقیق کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔

اب آپ اس بات سے بھی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگ کتنے روشن فکر اور کھلے دل ودماغ کے مالک تھے نہ اپنی ہوائے نفس کے پیروکار تھے اور نہ دلوں میں کینہ اور بغض رکھنے والے۔ آپ بھی جمہوری اسلامی تنظیم کے مرکزی اراکین میں سے تھے اور دفتر سیاسی کے رکن بھی تھے ہر خصوصی جلسے میں شرکت بھی کرتے ہوں گے تو کیا مظفر بقالی کے بارے میں بتائیں گے کہ ان کے آیت کے ساتھ کیسے روابط تھے؟

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہماری تنظیم کے بہت سارے افراد،مظفر بقالی کے ساتھ،سابقہ تعلقات رکھتے تھے اور ان کی ورکنگ پارٹی کا حصہ بھی تھے اور یہ بات سب کو معلوم ہے مگر جب آیت ،جمہوری اسلامی تنظیم کا رکن تھا، کیااسوقت بھی وہ مظفر بقالی کا پیروکار تھا یا ان کا دوست تھا کہ نہیں یہ باتیں تنظیم میں ڈسکس ہی نہیں کی جاتی تھیں مگر یہ بات اصولی طور پر واضح اور عیاں تھی کہ آیت ،ایک زمانے میں مظفر بقالی اور ان کی ورکنگ پارٹی سے علیحدہ ہوچکا تھا۔


یہاں یہ بات بھی بتانا چاہوں گا کہ آغا آیت کا مزاج ذرا تیز تھا اور وہ بہت جذباتی تھے اور بعد میں جب ایک کیسٹ والا واقعہ پیش آیا جس پر آغا موسوی نے ان کی مذمت کی توان کو بہت ناگوار گزرا اور وہ آغا موسوی کے شدید خلاف ہوگئے کیونکہ آغا آیت کی یہ عادت تھی کہ اگر کسی سے الجھ پڑتے تو پھر اس معاملے کو ختم نہ کرتے اور وہ معاملہ پھر بہت عرصے تک چلتا لہذا یہ باتیں بھی تنظیم میں زیر بحث آنے لگیں یہاں تک کہ جب انتخابات کی بات آئی تو آغا آیت کو موسوی صاحب کے وزیر خارجہ بننے پر بھی شدید اختلاف ہوا اور انہوں نے اعتراض کیاجس پر آغا بہشتی نے ان کو سمجھایا کہ آپ کو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ہم سب کے پاس انتخاب کرنے کا حق ہے اور ووٹنگ کے بعد اگر یہی نتیجہ نکلا تو ہم سب کو اسے تسلیم کرنا ہوگا آپ آغا موسوی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں لہذا ان کے خلاف ووٹ دیں مگر اس طرح کی باتیں کرنا مناسب نہیں او راگر آپ پھر بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو اس تنظیم کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں پھر آپ آزاد ہیں جو چاہیں کہیں کیونکہ جب تک آپ تنظیم کا حصہ ہیں تنظیم کے اصول وقوانین کا لحاظ رکھنا ہوگا اور قانون کے مطابق آپ کسی نمائندے کی بے حرمتی نہیں کرسکتے جس کے جواب میں آغا آیت نے کہا ،مجھے یہ سب نہیں منظور اور میں ان کے خلاف بولوں گا بھی اور ووٹ بھی ڈالوں گا ان کی اس بات پر آغا بہشتی ناراض ہوئے اور بولے اگر آپ ایسا کریں گے تو میں مدیر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے آکو سزادوں گا اور اس تنظیم سے خارج کردوں گا۔


بہرحال یہ معاملہ اسطرح ہواکہ 7تیر کو ہی آغا بہشتی شہید ہوگئے اور ووٹنگ اسکے بعد انجام پائی اورآغا موسوی وزیر خارجہ بن گئے ،اورآغا آیت نے بھی اپنے کہے پر عمل کیا یعنی آغا بہشتی کی بات نہ مانی اور اسی طرح آغا موسوی کے خلاف بہت اعتراضات کئے،یہاں تک کہ مرکزی جلسے میں بھی بہت باتیں کیں جو سب کی سب آغا موسی کے خلاف تھیں یہاں پر میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر آغا آیت کے پاس کوئی ثبوت ہوتے تو انہوں نے اس مرکزی جلسے میں ان کو کیوں پیش نہیں کیا جبکہ وہ مرکزی جلسہ ان ثبوتوں کو پیش کرنے کی سب سے مناسب جگہ تھا اور اگر وہ چاہتے توان دلائل او رثبوتوں کے ذریعے ہمیں قائل کرسکتے تھے کہ ہم آغا موسوی کو ووٹ نہ دیں. یہاں ایک بات اور بتانا چاہوں گا کہ ایک دن میں اسی سلسلے میں آغا بہشتی کے پاس گیا اور ان سے آغا آیت کے روئیے کے بارے میں بات کی اور پوچھا کہ آپکی کیا رائے ہے کہ ان کا رویہ بہت سوں کیلئے اذیت کا باعث ہے آپ اس سلسلے میں کیا اقدام کرسکتے ہیں؟ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم اپنی تنظیم کے پہلے مرکزی جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھے یہ سن 1360 کی بات ہے جسکی گرمیوں میں طے تھا کہ ہمارا تنظیمی جلسہ منعقد ہوگا جہاں اہم امور کا فیصلہ اور اہم انتخابات ہوں گے۔ لہذا آغا بہشتی نے مجھ سے کہا ابھی تو تنظیم کیلئے یہ جلسہ بہت اہم ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ فی الحال آغا آیت کے بارے میں کوئی اقدام نہ کیا جائے جب یہ جلسہ ہو اور سارے اراکین ،تنظیمی ساتھی اور دوست اس جلسے میں جمع ہوں توآپ لوگ آغا آیت کے اس رویئے پر بات کریں تاکہ جو آگاہ نہیں ہیں آگاہ ہوجائیں اور اگر لوگ ان کو ووٹ نہیں دیں گے تو وہ خودبخود رکنیت سے خارج ہوجائیں گے یہ صحیح راستہ ہے اور ہمیں اسی کا انتخاب کرناچاہیے اوراس فیصلے کو ابھی خود یک طرفہ انجام دینے کے بجائے تمام اراکین اور ووٹنگ پر چھوڑ دیا جائے اس ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوگیا کہ واقعی یہی درست راستہ ہے لہذا میں بھی خاموش ہوگیا۔


ملک کے حالات اور 7تیر کا واقعہ باعث بنا کہ ہمارا یہ مرکزی جلسہ ملتوی ہوگیا اور اگلے سال ہونا قرار پایا،آغا آیت کا بھی انہی گرمیوں میں قتل ہوگیا اور یہ مسئلہ دب گیا۔ میں نے اس سے پہلے ان یادوں کو کسی سے بیان نہیں کیا،آغا قتل ہوگئے اور اس دنیا سے کوچ کرگئے لہذا ب ہمیں ان کیلئے دعاگو رہنا چاہیے۔ مگر میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ کچھ افراد خاص مقاصد کے تحت اور پنی خاص دشمنیوں کی وجہ سے خاص شخصیات پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور بغیر کسی دلیل اور ریفرنس کے کچھ ایسی باتیں ان سے منسوب کرتے ہیں جو کسی حال میں بھی درست نہیں،میں نے اس لئے آپ کے ہر سوال کا جواب دیا ہے کہ میں چاہتا ہوں جو حقیقت ہے وہی باقی رہے اور تاریخ کا حصہ بنے،ہمیں ہمیشہ حق اور سچ بات کہنی چاہیے اگر آج بھی کسی کے پاس کوئی ایسی بات ہے جو آغا موسوی کے خلاف ہے تو وہ آئے اور بیان کرلے چاہے وہ بات اسکے اپنے حق میں ہو یا برخلاف کیونکہ اس معاملے میں بات شخصیت یا آغا موسوی کی نہیں بلکہ بات حق کو چھپانے اور حقیقت کو دبانے کی ہے۔


یہاں یہ بات ہم سب کو سمجھنی چاہیے کہ اگر کوئی انسان زمین پر گر جائے تو اسکو لاتیں نہیں مارنی چاہیے صرف اس بناء پر کہ وہ زمین پر گرا ہواہے اور آپ کھڑے ہوئے ہیں۔ میں اگر اس تنظیم کا رکن نہ ہوتا یا ان تمام معاملات کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا توکبھی بھی ان کو بیان نہ کرتا اور اگر میں نے خود آغابہشتی سے سوال نہ کیا ہوتا اور ان کا جواب نہ سنا ہوتا تومیں کسی سے سننے پر بھی اسکو بیان نہ کرتا میں نے یہ سب واقعات اور باتیں آغاآیت کے خلاف نہیں کی ہیں بلکہ صرف اس نیت سے تمام واقعات کو بیان کیاہے کہ ان لوگوں پر حقیقت واضح ہوجائے جو ان معاملات میں دروغ گوئی سے کام لیکر ،ان واقعات کو تحریفات کا نشانہ بنارہے ہیں میں نے یہ سب اسلئے بیان کیا ہے کہ میں ان لوگوں کو خاموش کروادوں جو حسد وبغض اور کینہ دلوں میں رکھ کر شخصیات کی جنگ لڑرہے ہیں اور ایسے الفاظ ادا کرتے ہیں جن کے خریدار صرف چند روز کے ہیں میں ان لوگوں کیلئے کہنا چاہتاہوں کہ برداران،خداہے ،قیامت ہے ،سوال ہیں جواب ہیں ،آپ خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ لہذا اپنے ہوائے نفس کی پیروی نہ کریں اور نہ ایسے اعتراضات اٹھائیں جو ملت کو نقصان پہنچائیں۔


اگر آغاآیت کے پاس ثبوت تھے توانہوں نے دفتر سیاسی میں جمع کیوں نہ کرائے ؟

جلسے والے دن جہاں سب موجود تھے کیوں نہ ان کا ذکر تک کیا؟ لہذاجان لیں کہ یہ سب جھوٹے دعوے ہیں ،کیونکہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ آغا آیت کے قتل کے بعد سے اب تک کسی کو وہ ثبوت نہیں ملے جبکہ ان کے قتل کی تحقیقات پولیس نے بھی انجام دیں اور اگر اب بھی کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں اورپیش کریں۔لہذا ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ حق کے طرفدار ہیں اور ان لوگوں پر حملہ نہ کریں جو اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں اور جو کوئی بھی اعتراض پیش آئے آمنے سامنے بیٹھ کر،گفتگو کی صورت میں اسے حل کریں تاکہ سامنے والا بھی آپ کے اعتراض کے مقابلے میں اپنے دلائل پیش کرسکے۔

 

مسیح مہاجری

مدیر اخبار جمہوری اسلامی



 
صارفین کی تعداد: 4434


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔