محل میں ٹارچر سن 42 سے شروع ہوا،

لطف اللہ میثمی سے، ان کی یادوں کے بارے میں گفتگو


2015-11-10


میثمی  صاحب ، براۓ مہربانی اپنی پہلی گرفتاری کے بارے میں اور آپ کو محل کی جیل میں کیوں رکھا گیا؟ اس بارے میں مختصرا بیان کریں۔

پہلی مرتبہ مجھے، سن 42 کی سردیوں کے آغاز میں، تحریک آزادی اور انکے رہنماؤں کی عدالتوں سے روابط رکھنے کی وجہ سے گرفتار کیا ، ہوا کچھ یوں کہ کچھ دوست، سیاسی اعلانات کا مجموعہ میرے لۓ لا رہے تھے کہ پکڑے گۓ اور ان کی گرفتاری باعث بنی کہ مجھے بھی گرفتار کیا گیا اور 42 کی سردیوں سے 43 کی گرمیوں تک قزل قلعہ جیل میں اور کچھ مدت کے لۓ عارضی جیل میں رکھا گیا۔

دوسری دفعہ مجھے، سن 50 کے موسم گرما کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے  والی گرفتاریوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ اس دوران، تحریک مجاہدین خلق شناسایی کے بہت سے کارکن اور رہنما گرفتار ہوۓ تھے کہ مجھے بھی پہلی شہریور کو گرفتار کر لیا گیا، اتفاق سے اس سے ایک رات قبل، ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا کہ جس میں ،میرا نکاح بھی ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔مگر اس رات منصور بازارگان کی خبر کے بعد مجھے اپنی گرفتاری کا بھی احتمال ہو چلا تھا لہذا اس تقریب کو روک دیا گیا مگر اس کے ایک دن بعد ہی مجھے شادی کے لباس میں گرفتار کر لیا گیا۔۔

پہلے قزل قلعہ جیل اور اس کے بعد اوین جیل میں منتقل کیآ ، عدالت نے اس کیس میں مجھے دو سال کی سزا سنائی جس میں سے ایک سال اوین کی جیل میں رہا، 51 کی گرمیوں میں محل کی جیل منتقل کردیا گیا، جہاں کافی مدت تک رہا اس زمانے میں سیاسی قیدیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر قیدیوں کو اوین، محل ، قزل قلعہ اور کچھ کو مختلف شہروں کی جیل میں منتقل کیا جاتا تھا۔ سن 52 میں اپنی سوا ختم ہونے کے بعد کچھ عرصے ایک گھر میں خفیہ پناہ لی یہاں تک کہ سن 53 میں، دستی ساخت کے بم کے پھٹنے کی وجہ سے میڑی آنکھیں خراب ہوگئیں اور دوبارہ گرفتار بھی ہوا، میری بینا‌ئی چلی گئی تھی اور 16 ماہ کی انفرادی جیل کاٹنے کے بعد مجھے محل کے زندان میں بھیج دیا گیا۔

 

اس سے پہلے، کیا صرف تحریک کے نمائندوں ، یعنی سیاسی قیدیوں کومحل کی جیل بھیجا جاتا تھا؟

محل کی جیل بظاہر رضا شاہ کے زمانے میں بنائی گئی اس سے پہلے 40 کی دہائی میں بعض سیاسی قیدیوں کو محل کی جیل لایا جاتا تھا جہاں تک میں جانتا ہوں عام لوگ بھی اسی جیل میں تھے جیسے نواب صفوی جو کہ کافی عرصے تک محل کی جیل میں رہے۔

لیکن سن 41 میں اصلاحات کے ریفرنڈم سے پہلے نیشنل فرنٹ اور تحریک آزادی کے رہنماؤں جیسے آیت اللہ طالقانی ، انجینئر اور تاجر و ڈاکٹر سنجابی کو بھی محل کی جیل لایا گیا مگر ان افراد نے اس کے خلاف بھوک ہڑتال کی اور اس کے علاوہ سن 42 کے خرداد کے بھی بہت سے گرفتار افراد اور علماء محل کی جیل لائے گۓ۔

 

پہلی مرتبہ جب آپ سن 42 میں گرفتار ہوۓ تو اس وقت سیاسی قیدیوں کی حالت اور جیل کے قواعد و ضوابط کیسے تھے؟

سن 42 کے خرداد کے واقعے سے پہلے، جو بھی گرفتاریاں ہوتیں ان پر تشدد نہیں کیا جاتا تھا کوڑے بھی نہیں مارے جاتے تھے چاہے وہ ساواکی جیلیں ہوں یا شہری پولیس کی قائم کردہ جیلیں ہوں، مگر سن 42 خرداد کے بعد اذیتیں دی جانے لگیں اور تشدد بھی کیا جانے لگا طیب حاج اسماعیلی رضائی کو بھی اس واقعے کے بعد ٹارچر کیا گیا انجینئرعبودیت وہ پہلا فورسز کا آدمی تھا جسے پولیس جیل میں ٹارچر کیا گیا ،اور جب اسکو اس جیل میں لایا گیا جہاں آیت اللہ طالقانی ، انجینئر اور تاجران و ڈاکٹر شیبانی ،انجینئے سحابی و آغا محمد مہدی جعفری بھی تھے، تو انجینئر عبودیت نے ان کو اپنے اوپر ہونے والی اذیتوں اور تشدد کی تفصیل بتائی اور بعد میں اس ٹارچر کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی گئی جس کے بعد انکا میڈیکل چیک اپ ہوا اور اس کی رپورٹ آنے پر تشدد کی تائید ہوگئی۔

 

دوسری دفعہ جب آپ کو گرفتار کیا گیا تو آپ ذیادہ تر محل کی جیل میں ہی رہے اس دوران وہاں پر موجود گروپس ، جنگجو، اور دستوں کے درمیان، کیسے دستہ بندی کی گئی تھی؟

سن 51 کی گرمیوں میں مجھے اوین سے محل کی جیل منتقل کیا گیا اس زمانے میں سیاسی قیدی تیسرے اور چوتھے درجوں میں قید کۓ جاتے تھے، مجھے تیسرے درجے کی حوالات میں لیکر جایا گیا وہاں پولیس کا دفتر قائم تھا جو کہ آٹھ نمبر کے نام سے مشہور تھا پہلے وہاں لے جاکر مجھ سے تفتیش کی گئی پھر تیسرے درجے کے حوالات میں لائے جو کہ دو بڑے کمروں پر مشتمل تھا اور ایل (L) کی طرح بنا ہوا تھا جہاں دونوں طرف کمرے تھے اس کے ساتھ ٹی وی روم کتاب خانہ اخبارات اور کچن بھی موجود تھا۔

یہاں کے قیدی بتدریج لاۓ گۓ تھے جس میں تحریکوں کے کارکنوں میں، حیاتی تقی شہرام، بہمن بازرگانی، سعود رجوی، موسی خیابانی، فتح اللہ خامنہ ای، مہدی ابریشم چی، پرویز یعقوبی، منصور بازرگانی تھے جبکہ فدائیوں میں سے بہرام قبادی، رحیم زادہ اسکویی، اور دیگر تھے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ مجاہدین کی تعداد ستر تک ہو گی تھی جن مین سے کچھ ہلال احمر والے بھی تھے جو مقاومت کرنے کے جرم میں لائے گے تھے، نۓ آنے والے قیدیوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی تھی کہ کہاں اور کس کے ساتھ رہیں۔ بعض کمروں میں خاص سرگرمیاں ہوتی تھیں جیسے نوٹس بنانا، مختلف کلاسز کا انعقاد یا بغداد کے ریڈیو کی خبریں وغیرہ سننا۔۔۔۔

مجموعی طور پر دو گروہ یعنی مجاہدین اور فدائیان خلق ہی جیل میں زیادہ پاۓ جاتے تھے، لہذا جو کوئی ان میں سے ہوتا وہ ان کے خاص کمروں میں مقیم ہوتا، عراقی حاجی جو کہ اسلامی ممالک اتحادی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے، میرے زمانے میں حوالات نمبر چار میں تھے البتہ حوالات نمبر تین میں بھی میں نے نمک دانیوں اور گلاسوں پر لکھا دیکھا تھا، جیل کی اسلامی جمعیت۔۔۔۔

محل کی جیل میں ایک بڑی میونسپلٹی تھی، جس میں سارے قیدی چاہے وہ کسی بھی گروہ سے ہوں اس کا حصہ تھے جس کے کچھ اصول تھے جیسے نظریاتی تبلیغ ممنوع تھی یا وہ افراد جو ساواک کی مدد کر چکے تھے وہ اس میں شامل نہیں ہوسکتے تھے اس کے برعکس وہ افراد جو سرمایہ داری نظام کے خلاف اور مسلحانہ تحریک کے حامی ہوں ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔

 

سیاسی قیدیوں اور مختف گروہوں کے درمیان پایا جانے والا عملی اور نظریاتی اختلاف کیسے ظاہر ہوتا تھا؟

محل کی جیل مرکزی جیل کی حیثیت رکھتی تھی تمام سیاسی قیدیوں کو مختلف جیلوں سے وہاں لایا جاتا تھا ہر قیدی کہ کچھ نہ کچھ مسائل ہوتے جو اس قیدی کے ساتھ اس جیل تک آتے اور گروپنگ کا سبب بھی بنتے نئے لانے والے قیدیوں پر کئے گۓ ٹارچرکی وجہ سے وہ اپنی استقامت اور توانائی کھوچکے ہوتے جس کی وجہ سے باقی قیدی ان کو مسترد کر دیتے اس کے علاوہ اگر نیا قیدی کسی گروہ سے سابقہ تعلق نہ رکھتا ہوتا تو اس کو اپنے گروپ میں بھرتی کرنے کیلۓ مختلف گروپس میں رقابت شروع‌ ہوجاتی۔۔۔۔

اس کے علاوہ مذہبی اور غیر مذہبی گروہوں کے بھی، دوسرے گروہوں کے ساتھ مسائل تھے جیسے نجس اور پاک ہونے کا مسئلہ کہ پہلے ہم بھی اس مسئلے کو اتنا نہ جانتے تھے اور فدائیوں اور دوسرے غیر مذہبیوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔

ایک مسئلہ آئیڈیالوجی کا بھی تھا اور بعص اوقات مذہبی شخصیتی اور نفسیاتی اختلافات شدید جھگڑوں کا سبب بنتے تھے اور چھوٹے مسئلے بڑے بن جایا کرتے تھے مثلا جو عمر رسیدہ تھے وہ پرسکون اور آرام دہ ماحول چاہتے تھے جبکہ جوان زیادہ سرگرمیوں اور شور شرابے میں مشغول رہتے تھے اور یہی وجہ ان کے درمیان کدورتوں کو جنم دیتی۔

 

روزمرہ کی کیا سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں؟

ہم ہمیشہ ظہرین و مغربین کی نمازیں باجماعت ادا کرتے ہر دفعہ کوئی ایک پیش امام ہوتا اور دو نمازوں کے درمیان کوئی ایک دعا اور قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑہتا دعائے افتتاح بھی مل کر ہی پڑہا کرتے تھے جیل سے باہر بھی ان دعاؤں اور نمازوں کا چرچہ تھا اور یہ خبریں ہمارے گھر والوں اور علماء تک بھی پہنچ جایا کرتیں تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کچھ کام تھے جیسے شہداء کیلۓ تقریبات کا انعقاد ، قصیدہ خوانی، جیل کے اندرونی کاموں کی تقسیم اور عدالتوں میں پیشی کے وقت اپنا نکتہ نظر پیش کرنا وغیرہ بھی سکھایا جاتا تھا، پولیس کی جانب سے قرآن اور نہج البلاغہ و معمولی کتابوں پر کوئی پابندی نہ تھی البتہ مجہول مفہوم رکھنے والی کتابوں کو پرکھاجاتا تھا، جیل کے کاموں کی بھی تقسیم بندی تھی اسی طرح عمومی حمام میں بھی ہفتے میں ایک بار ہماری باری آتی تھی سب ساتھ جاتے اور اسی دن کپڑے بھی دھوتے جیل میں امن تھا ناشتہ اور دوپہر و رات کا کھانا بھی ملتا تھا صبح اور شام کی ورزشیں اور ٹیبل ٹینس وغیرہ کا بھی انتظام تھا گرم اور ٹھنڈے پانی کا بھی انتظام تھا اور اخبارات سے بھی آگاہی تھی۔

ملاقات کے دن سب کے نام لئے جاتے اور سب باری باری ملاقات کو جاتے، غرضیکہ اتنا مصروف رہتے کہ گھر والوں کو خط لکھنے کا ثائم بھی نہ ملتا، جیل کے عجیب ہی ہنگآمے تھے مطالعہ کتب ہوتا مگر جو قیدی جوان تھے وہ زیادہ معلومات نہ رکھتے تھے، وہ چیز جو اس جیل میں پولیس والوں کی غنیمت لگتی وہ ان کے سگریث کے کاغذ تھے جن کو کھول کر ان کے آگے پیچھے چوالیس لائنیں لکھ لی جاتی تھیں اور چالیس صفحات ہونے کی صورت میں ہم اس کو بائنڈ کر لیا کرتے تھے ایک ریڈیو تھا جو صرف تہران کیچ کیا کرتا تھا کچھ برادران نے اس میں کچھ تبدیلیاں کر دیں جس کے بعد وہ بی بی سی اور ریڈیو بغداد بھی کیچ کرنے لگا تھا، جیل کے عجیب ہی ہنگامے تھے جس میں نہ گھر والوں کی یاد آتی اور نہ جنسی مسائل جنم لیتے تھے، صرف استقامت اور جنگ کی سوچیں تھیں جبکہ سب سوچتے تھے کہ جیل میں فارغ اوقات زیادہ ملتا تھا مگرہمیں دوسرے کاموں کی فرصت نہ تھی۔

 

حراست کے دوران سیاسی قیدیوں کے گھر والوں کے کیا حالات تھے؟ کیا گھر والے ملنے آتے تھے؟

ملاقات کا دن گھر والوں کے لۓ بہت دشوار دن ہوتا تھا وہ لوگ صبح جلدی آجاتے اور شدید گرمی میں دھوپ میں لائن لگا کر کھڑے رہتے، یہاں تک کہ ظہر یا پھر اسکے بھی بعد انکی باری آتی، ہمارے درمیان ایک آدمی مقرر ہوتا جو ایک بلیٹن کی صورت میں جیل کی خبروں کو تیار کرتا جسکو ہم اپنے اپنے گھر والوں سے بیان کرتے البتہ کبھی پولیس والے ہماری سیاسی گفتگو سن لیتے تو ہماری شکایت ہوجاتی مگر بہت سے خاندان اسی کام پر مقرر تھے کہ جیل کی خبروں کو باہر پہنچاتے مثلا پھلوں اور مٹھائیوں کو ان آخبارات میں لپیٹ کر لایا جاتا جو اہم ہوتے بعض اوقات خربوزوں کو کاٹ کر ان کے اندر کچھ چھپا کر پہنچایا جاتا کبھی گھر والے رہائی کے لۓ ذیادہ کوششیں کرتے تو ذیادہ ملاقاتیں ہوجاتیں۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ جب میں گرفتار ہوا تو میری ماں اور بھکئی نے میری رہائی کے لۓ بہت کوششیں کیں اور بہت سے علماء سے بھی ملاقاتیں کیں مختصرا قیدیوں کے گھر والے بہت رنج اور تکالیف اٹھاتے۔

 

تفتیش کے بعد، جب حوالات میں منتقل کیا جاتا تو قیدیوں کا سیاسی قیدیوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوتا ؟ اور اعتراضات کی صورت میں آپ لوگوں کا ردعمل کیا ہوتا تھا؟

ابتدا‌ئی گرفتاری اور تفتیش کے دوران زیادہ تر تشدد ہوتا تھا سن 50 کے بعد یہ قدرے کم ہوگیا تھا، جب حوالات میں منتقل کردیا جاتا تھا تو سب کچھ نارمل ہوجایا کرتا تھا، محل کی جیل میں آنے سے قبل میں نے بھی ایک بھوک ہڑتال میں شرکت کی تھی جس کے باعث پولیس نے قیدیوں کی شرائط منظور کر لیں تھیں ۔۔

سرگرمیاں جو ہم انجام دیتے ان کا رد عمل ایسا ہوتا کہ پولیس والے اندر حوالات میں آکر پوچھ گچھ کرتے اور جن پر شک ہوتا انکو اٹھا کر ساتھ لے جاتے کبھی کبھی ایسی تحریریں ہاتھ لگ جاتیں جو متنازع ہوتیں مگر زیادہ سختی نہ کرتے کہ کہیں ساواک کی جانب سے ان پر نا اہلی کا الزام نہ لگ جائے ہماری شکایتیں بھی نہیں کرتے تھے۔ بعض اوقات بغیر اس خوف کے کہ ہم پر پابندیاں لگ جائیں گی، با آواز بلند قصیدہ خوانی کرتے کیونکہ اس کا سب کو شوق تھا۔ مختصرا یہ کہ جیل کے زیادہ تر قاعدے قانون ہم قیدیوں کے نفع اور حق میں ہی تھے کیونکہ پولیس خود ان قوانین کی رعایت نہیں کرتی تھی۔

مہدی فاتحی

ماخذ: مہر نامہ، شمارہ 27 آذر 1391صفحات 111-112

 



 
صارفین کی تعداد: 3912


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔