مسعود کیمیائی کے ساتھ ، نماز جمعہ کی ویڈیو ریکارڈنگ کی یادیں

کاش وہ ریکارڈنگز (کیسٹیں) موجود ہوتیں۔۔

شیریں حلالی سے گفتگو

2015-11-7


بہروز رضوی نے، ریڈیو کی یادگار آواز۔ ان کی اس میڈیا میں آمد اور اس کو بہتر بنانے میں، نماز جمعہ میں آیت اللہ طالقانی کے فرمان پر مبنی، چند پروگراموں کی ریکارڈنگ کے بارے میں گفتگو کی یہ وہ پروگرام تھے جو مسعود کیمیائی نے ریکارڈ کۓ تھے۔ مہر نیوز ایجنسی، ثقافت و آرٹس کا شعبہ : ریڈیو اور ٹی وی کے میزبان، بہروز رضوی  نے سن 1347 میں زندہ یاد شاہ رخ نادری کی آفر پر، بحیثیت میزبان ، ریڈیو میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

ان کی داستان گوئی" مستند ایران"، رات کے قصے اور حافظ کس اشعار پڑہنا، ریڈیو سامعین میں بہت مشہور ہوۓ جبکہ ان کی اداکاری کو فلموں میں بھی بہت سراہا گیا اور ان کی فلمیں" نجات پانے والے"، آبادان والے"، غصے کی آگ"، " اٹارنی" ، زندگی کا موقع"  بہت پسند کی گئیں۔انہوں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ انقلاب کے آغاز کی وہ رپوٹنگ جو نماز جمعہ میں اس نظام کو بہتر بنانے کے لۓ بیان کی گئی تھی اس وقت موجود نہیں اور اس رپوٹنگ کا اب نہ ہونا اس بات کا باعث بنا کہ آج ہمارے درمیان میں یہ دوستانہ گفتگو انجام پا رہی ہے۔

 

رضوی صاحب آپ، ذندہ یاد شاہ رخ نادری کی آفر پرریڈیو آۓ لہذا یہ بتائیں کہ یہ آفر کس طرح کی گئی؟

 میں ان نوجوان فنکاروں میں سے تھا جو رامسر کے تربیتی کیمپ کے مقابلے جیتے تھے یہ کیمپنگ سالانہ ہوتی تھی اور میں نے اس کے تین کورسز میں شرکت کی تھی پہلے سال صحافت نگاری ، دوسرے سال فن بیان اور تیسرے سال تھیٹر کی اداکاری کے متعلق کورسز کراۓ گۓ تھے، جس کے بعد میں نے تھیٹر کے اداکار کے طور پر مقابلوں میں شرکت کی اور جس سال فن بیان کے مقابلے میں جیتا اسی سال ریڈیو سے ایک با صلاحیت جوان کی حیثیت سے مجھے ملازمت کی آفر ہوئی۔ اس سال میں نے نظم " عجیب صبر خدا کا ہے، اگر میں اس کی جگہ ہوتا۔۔۔" پڑہی تھی اور اسی میں جیتنے کی وجہ سے نادر صاحب نے مجھے ریڈیو میں کام کی پیشکش کردی، البتہ اب مجھے صحیح سے یاد بھی نہیں ہے کہ پروگرام "جمعہ بازار" کے لۓ کی تھی یا  "نوجوانوں" کے لۓ، مگر یہ بات بتانا چاہوں گا کہ اس کام کی ابتداء غیر ارادی طور پر اس وقت ہوچکی تھی جب میں پرائمری اسکول میں پڑہا کرتا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور اسکول کے صحن میں ایک تقریب ہوئی تھی جس میں میں نے نظم پڑہی تھی اس وقت مجھے معلوم بھی نہ تھا کہ میرا یہ کام میرا ہنر بن جاۓگا۔

 

ریڈیو میں ایسی کیا بات ہے کہ آپ نے 45 سال سے خود کو اسی سے وابستہ رکھا ہوا ہے؟

ریڈیو ایک پر اسرار اور دلفریب جگہ ہے، جہاں ریڈیو اپنے سامعین کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے وہ صرف سنتے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ایسا رابطہ ہے جہاں وہ آواز کےسہارے نہ صوف سنتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں اس کو سوچتے ہیں اور اپنے ذہنوں کو  وسعت دیتے ہیں، ریڈیو اپنے سامعین کو بہت کچھ سکھاتا ہے ، میں بچپن سے ہی ریڈیو سے انسیت رکھتا تھا مگر یہ معلوم نہ تھا کہ ایک دن اسی میں ملازمت کروںگآ کیونکہ میں انجینئرنگ کررہا تھا اور سمجھتا تھا کہ ایسے کام صرف تفریح کے طور پر ہی کۓ جاتے ہیں لہذا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا ریڈیو پر آنا اتفاقا ہے اور نادری صاحب کی دعوت کے بعد ہی میں نے پہلی دفعہ ریڈیو اسٹیشن میں قدم رکھا اور یہاں کے ماحول کودیکھا

 

آپ نے ریڈیو کو ایک پر اسرار اور دلفریب جگہ کہا ہے تو کیا آپ کی مراد یہ ہے کہ  ریڈیو آواز کے ذریعے ہی تصویر اور ماحول بناتا ہے؟ اور سامعین کو تخیلات پر مجبور کرتا ہے؟

جی بالکل کیوں کہ میرے خیال میں، ٹی وی کے برعکس ریڈیو صرف آواز سے اپنے  سامعین سے رابطہ استوار کرتا ہے جبکہ ہو سکتا ہے کہ کبھی ٹی وی پر دکھائی جانے والی تصویر دیکھنے والے کو اس حقیقت سے دور کردے ریڈیو کا پراسرار ہونا اس وجہ سے بھی  ہے کہ وہ صرف آواز کی مدد سے سامعین کے ذہن میں سارا خاکہ بناتا ہے جس میں ارد گرد کا ماحول، کرداروں کے چہرے اور خدوخال سامعین خود بناتے ہیں اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ آواز تصویر سے ذیادہ تاثیر رکھتی ہے جیسے بقول شاعر صرف آواز ہی ہے جو باقی رہ جاۓ گی۔۔۔ اور بالکل ایسا ہی ہے کہ میں خود محمد رضا مانی فر کی آواز کا دیوانہ تھا وہ پروگرام رات کا قصہ کیا کرتے تھے اور میں خود بھی کوشش کرتا ہوں کہ ان کو کاپی کروں اور  ان کا انداز اپناؤں

 

انقلاب کے آغاز میں نماز جمعہ کی رپوٹنگ اور اس زمانے میں ہونے والی رپوٹنگ کی  خصوصیات بتائیں اور یہ بتائیں کہ اس زمانے میں نماز جمعہ کی رپوٹنگ کے حوالے سے آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

 وہ ایک ایسا انقلابی دور تھا کہ جس نے ریڈیو کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا وہ دن یاد آتے ہیں کہ جب میں نماز جمعہ کی ریکارڈنگ کے لۓ تہران یونیورسٹی جایا کرتا تھا اور آغا طالقانی خطبہ ختم کرکے نماز شروع کرتے تو جب سورہ کی تلاوت کے وقت ہر طرف خاموشی ہوتی اور امام جمعہ کی ہلکی سی تلاوت کی آواز آرہی ہوتی تو میں اس خلاء کو اپنی آواز اور جملوں سے پر کرتا البتہ یہ کام اس طرح احتیا ط سے ہوتا کہ نماز کی معنویت اور نماز گزاروں کو کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی خلل نہ پڑے نمازی کافی دور تک پھیلے ہوتے۔

 

یہ جملے اور رپوٹنگ، معنویت اور انقلابی جذبے سے پر ہوتی اور ہمارے جذبات کی عکاسی کرتی، سوچتا ہوں کہ کاش وہ ریکارڈنگ آج بھی موجود ہوتی اور میں ان کو دوبارہ سن پاتا تو کیا پروگرام ریکارڈ نہیں ہوتے تھے؟

نماز جمعہ، براہ راست نشر کی جاتی تھی البتہ کبھی اس کی ریکارڈنگ بھی کی جاتی تھی مگر اب معلوم نہیں کہ وہ کیسٹیں کدہر ہیں مگر اس زمانے میں نماز جمعہ بہت اہم اور انقلاب کا عکس ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ مسعود کیمیا جیسے لوگ جو کہ فلموں اور ڈراموں کے ماہر ڈائریکٹر مانے جاتے تھے نماز جمعہ کی ریکارڈنگ میں ہدایت کار(ڈائریکٹر) کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔

 

آپ نے انٹرویو میں کہا کہ آپ ڈبنگ نہیں کر سکتے جبکہ اس عرصے میں آپ نے دستاویزی فلموں کی صدا کاری یعنی نریشن کی ہے؟

وہ کام جو میں نے کیا ہے ڈبنگ سے قدرے مختلف ہے اور نہ میرا کام ڈبنگ سے کمتر  ہے اور نہ ہی ڈبنگ میرے کام سے کمتر۔۔۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ میں اسماعیلی صاحب، مقامی ولی زادہ اور دوسرے ماہروں کی طرح ڈبنگ نہیں کرسکتا میں نے ہمیشہ ان سے سیکھا ہے اور امام علی سیریل میں بھی ابن عباس کا کردار کیا ہے مگر اس کی ڈبنگ میں بہرام صاحب نے میری کافی مدد اور رہنما‌ئی کی ، ڈبنک کا کام، اس طرح بولنے سے مختلف ہے اور لوگ غلط سمجھتے ہیں کہ جس نے فلم میں اچھا بول لیا وہ اچھی ڈبنگ بھی کرواسکتا ہے۔

 

آپ کے نزدیک تمام ریڈیو چینلز میں سے کونسا چینل سب سے بہتبر ہے؟

ریڈیو ثقافت اور ریڈیو تہران۔۔۔

 

کیوں؟

کیونکہ ایک ثقافتی ہے اور ایک تہرانی( مزاح اور طنز کے طور پر بولے)۔۔ یہ ایک مشکل سوال ہے، کیونکہ کسی ایک کو جننا مشکل ہے تمام چینلز ہی اچھا کام کررہے ہیں بعض اوقات کچھ ریڈیو کے ّپروگرومز مسئولین اور مینیجرز کے تحفظات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں مگر میرے خیال میں اس کام کو اتنا مشکل نہیں بنانا چاہیۓ اگرچہ یہ بھی ریڈیو کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

 

آپ نے ریڈیو پر ملازمت سن 1347 میں شروع کی لہذا یہ بتائیں کہ انقلاب کی کامیابی  نے میڈیا پر اور آپ کے کام پر کتنا اور کیسا اثر ڈالا؟

میں اس زمانے میں ریڈیو میں زیادہ سرگرم اور فعال نہ تھا صرف ہفتے میں ایک دن جایا کرتا تھا ، سینئرز اس زمانے میں زیادہ دوستی نہیں کرتے تھے اس زمانے میں تو سارے شعبوں میں ریڈیو ٹی وی اور سینما بہت فعال تھے اور میڈیا اس انتظار میں تھا کہ انقلاب کے بعد ان کو بہت ذیادہ اہمیت دی جاۓ گی اور اگر دیکھا جاۓ تو انقلاب سے پہلے اس وقت کی ثقافت اور ہنر کو دکھانا کوئی گناہ نہ تھا مگر یہ سب ماہر لوگ حکومت کی تبدیلی کے بعد نظر انداز کردیۓ گۓ تھے پھر احمد شیشہ گران وہ شخص تھے جنہوں نے ذمہ دار افراد کی توجہ اس طرف دلائی اور بہت سارے ماہرین کو ریڈیو لے کر آۓ مسئولین نے بھی منصفانہ طور پر ان لوگوں کو ملازمتیں دیں اور اگر کوئی شخص طاغوت کے زمانے میں مجبورا دربار میں پروگرام کرنے گیا ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ضد انقلابی ہے کیونکہ کیا کوئی جرات رکھتا تھا کہ ان کی دعوت کو  رد کرسکے۔

 

ریڈیو کے مستقبل کے بارے میں آپ کی کیا خواہش و آرزو ہے؟

 میری آرزو ہے کہ ریڈیو، ریڈیر رہے۔

 


                                                                             

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 4002


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔