ورلڈ کنفیڈریشن کے نمائندے پیام حسین رضائی

پیام حسین رضائی ،نمائندہ ورلڈ کنفیڈریشن اور بین الاقوامی تنظیم العفو کا،شاہ کے زمانے میں ایران کے قیدیوں سے ملاقاتی دورہ


2015-11-7


ورلڈکنفڈریشن کی پچاسویں سالگرہ کے جشن اور تقریب کے موقع پر طالب علموں اور  ایرانی طالب علموں کو جو بیرون ملک جمع ہوئے،سبکو میرا سلام،آپ سب سلامت رہیں  کہ آج آپکا آنا اس بات کی گواہی ہے کہ آپ لوگ طالب علموں کی اس تحریک کو زندہ  رکھیں گے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے سپرد کریں گے اور مجھے فخر ہے اس بات پرکہ آج میں خود کو آپ لوگوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں کچھ دوستوں اور رفیقوں نے میری زندگی کے بارے میں،مجھ سے کچھ معلومات طلب کی ہیں کہ مختصراَ ان کو بیان کررہا ہوں ،میں سن 1317میں ،اسفند ماہ کی 11تاریخ کو  دن 12بجے ،بمطابق 3مارچ 1939تہران کی گلی خیابان dی(جو کہ آب منگل کے نام سے مشہور تھی) میں پیدا ہوا۔
بچپن کے بعد ،ابتدائی اور پرائمری تعلیم تہران میں ہی حاصل کی اور چونکہ میرے والد فوج کے شعبے سے وابستہ تھے لہذا پھر کچھ دوسرے شہروں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور آخرمیں ریاضی کی چھٹی کلاس ،آبادان شہر کے ایک سیکنڈری اسکول سے پاس کی، کچھ عرصے بعد تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑہانے کیلئے جرمنی  چلاگیا اورماینس شہر کی گوتنبرگ یونیورسٹی میں ،معدن شناسی کے ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا،کچھ سمسٹرز کے بعد دوسرے شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض  سے علوم سیاسی کے کالج میں داخلہ لیا۔

مانیس یونیورسٹی میں داخلے کے ابتدائی دنوں میں ہی میں ،ماینس میں مقیم ایرانی طلباء کی تنظیم کا رکن بھی بن گیا یہ تنظیم ان دنوں نئی نئی تشکیل ہوئی تھی اور اسطرح سے طلباء و ایرانی طلباء کی ورلڈکنفیڈریشن کا رکن بھی بن گیا (اتحادیہ ملی) دسمبر کے اواخر اور جنوری 1963کے شروع میں شہر نوران سوئیس میں کنفڈریشن کے دوسرے جلسے میں ،اپنی ماینس کی تنظیم کی طرف سے بحثیت ناظر شرکت کرنے  کا موقع ملا اور اسکے بعد سے  تقریباَ ہر جلسے اور سیمینار میں،شہر ماینس کی تنظیم کے ناظر یا نمائندے کے طور سے ہی شرکت کرتارہا، جرمنی میں فیڈریشن کے پانچویں جلسے میں ،انتشارات و تبلیغات کا مدیر منتخب ہوا اور اسکے بعد متعدد بار فیڈریشن اور کنفیڈریشن کے جلسوں میں میرا ہی انتخاب ہوتا رہا البتہ  کنفیڈریشن کے دسویں جلسے میں جوکہ شہر کالسروہہ میں ہوا ،حسن ماسالی صاحب  اور فرامرزبیانی صاحب منتخب ہوگئے۔

مگر میری اہم ترین ذمے داری جوکہ میری سیاسی زندگی کا اعزاز ہے وہ مشکل حالات  اور خطروں میں میرے کنفیڈریشن کے ساتھی مجاہدین کا مجھ پراعتماد ہے جوکہ میری استقامت اور ہمت و حوصلے کا سبب بنا،ان کا یہ اعتماد اور بھروسہ باعث بنا کہ میں خود پر اور اس راہ پر فخر کرتا ہوں، سب سے پہلے ،میری نمائندگی میں ہی ایک ٹیم سن 1969 میں ایران گئی جسکا مقصد ورلڈ کنفیڈریشن کی جانب سے جمع کی ہوئی امداد کو خراسان،فردوس اور قائن کے زلزلہ زدگان ،تک پہنچانا تھا اور اتفاق سے اس سفر میں زندہ یاد،پروفیسر ڈاکٹر ہیلڈمن کالسروہہ شہرمیں پیش کی تھی اسی سفر کی وجہ سے کنفیڈریشن کے روابط اسوقت کی ایرانی شہنشاہی حکومت سے استوار ہوئے اور فروغ پائے۔

یہاں ایک مسئلے کی نشاندہی اور کچھ خدمات کو یاد کرنا نہایت ضروری ہے کہ اسکولوں اور درسگاہوں کی تعمیر نو کا کام کنفیڈریشن کے انجینئر کاظم حبیبی کو دیاگیا تھا اور یہ کنفیڈریشن کی طرف سے فردوس شہر کے باسیوں کیلئے تحفہ تھا کہ خدا اسکا اجرکاظم حبیبی کو دے۔

مگر میری نمائندگی میں تہران کا دوسرا سفر میرے پہلے سفر سے بالکل مختلف تھا اس سفرمیں ہمیں سیاسی قید خانوں اور جیلوں میں جاناتھا اور قیدیوں پر گئے تشدد کی تحقیق کرنا تھا۔ ہمیں اس دورے میں بین الاقوامی تنظیم العفو کی حمایت شہر ویانا سے حاصل ہوچکی  تھی لہذا میں سن 1349مہر ماہ کی 17 تاریخ کو بمطابق سن 1970 اکتوبر کو ،ڈاکٹر ہیلڈمن کے ساتھ تہران پہنچا اور تہران کی مرمر ہوٹل میں قیام کیا اسی رات مجھے ساواک کی طرف سے ٹیلی فون موصول ہوا جس میں مجھے کافی دھمکیوں کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ ہم دو تین قیدیوں کو ہوٹل لارہے ہیں آپ ان سے انٹرویو کریں اور واپس یورپ لوٹ جائیں فطری بات تھی کہ میں انکار کرہی نہیں سکتا تھا ،اسکی دوسری رات  کے بعد ہم وزارت اطلاعات گئے اور آزمون صاحب کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں سارا  معاملہ بتایا مگر انہوں نے بھی ساواک کی پیش کش کو قبول کرنے کی بات کی اور اسطرح ہم تقریباَ ہر دن وزارت اطلاعات کا چکر لگاتے رہے اور ہر دفعہ ہمیں وہی جواب ملا اور پھر ہر رات وہی دھمکیوں دالے فون موصول ہوئے۔

بالآخر دسویں دن ،شہر کے اطلاعات کے آفس سے دوآفیسر ہمارے پاس ہمارے کمرے میں آئے اورکہنے لگے کہ ملک کی صورتحال اور بدامنی کے باعث آپ پہلی فلائٹ سے  ایران سے واپس چلے جائیں ،جسکے بعد ڈاکٹر ہیلڈمن مجھ سے بولے کہ اب ہماری گرفتاری کے امکانات بڑھ گئے ہیں، اسکے بعد انمیں سے ایک افسر ہوٹل میں ہی ڈاکٹر کے پاس رک گیا اور دوسرا مجھے لیکر ایئرپورٹ کی جانب لے جانے کیلئے نکلا اس نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور ہم روانہ ہوگئے ہم ایئر پورٹ سے تھوڑا ہی دور تھے اور ایئرپورٹ پہنچنے ہی والے تھے  کہ ساواک کی ایک گاڑی نے ہماری گاڑی کو روک لیا اور مجھے اتارکر اپنی گاڑی میں بٹھالیا اور گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا،پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ قزل قلعہ جیل ہے،اسی رات ڈاکٹر ہیلڈمن کو بھی اسی طرح ایئرپورٹ لے کر گئے اور ان کو بیرون ملک بھیج دیا گیا اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا یہ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جیل میں ،ایک تفتیشی ٹیم میرے انتظار میں تھی جو سب تقریباَ تین چار لوگ تھے وہ لوگ مجھ سے تفتیش کرنے لگے میں نے بھوک ہڑتال کردی کیونکہ یہ تفتیش بہت سخت  تھی اور مسلسل 37 گھنٹوں تک جاری رہی تھی،مگر مجھے اسکے بعد وہاں سے نکال کر ایک تنگ اور چھوٹے کمرے میں لے آئے جہاں مجھے باقی قیدیوں سے الگ ،تنہا قید  کردیا،کچھ دنوں میں یہ خبر پوری جیل میں اور جیل کے باہر پھیل گئی کہ کنفیڈریشن کے نمائندے کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس خبر کا پھیلنا تھا کہ کنفیڈریشن کے اراکین  کی طرف سے ایران میں اور ایران سے باہر حتٰی یونیورسٹیوں میں احتجاج اور ہنگامے  شروع ہوگئے ،ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے صحافی اور نمائندے مجھ سے بات کرنے اور میرا انٹرویو لینے کے لئے بے تاب تھے اور ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ تقریباَ ہفتے میں دو تین بار،تیمسار مقدم اور پرویز ثابتی مجھ سے بات چیت کرنے آتے  لیکن گفتگو کا نتیجہ وہی ہوتا وہ چاہتے تھے کہ میں قبول کرلوں اور میں انکار کرتا رہتا تھا۔

اب وہ وقت آچکا تھا کہ ساواک کیلئے حالات پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہاتھا ایک دن تیمسارمقدم نے آکر کہا وزیراعظم تم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا مجھے ان  سے کوئی بات نہیں کرنی اسکے کچھ گھنٹوں کے بعد ہی مجھے عمومی حوالات میں  منتقل کردیا ،جہاں زندہ یاد اور داریوش فروہر بھی قید تھے جب میں نے ان کو سارا معاملہ بتایا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ " ہویدا سے بات کرناصحیح ہے کیونکہ  دوسروں کی زبان سے سننے کے بجائے بہتر ہے وہ تمھارے منہ سے کنفیڈریشن کے  نظریات سنیں،دوسرے دن جب تیمسار آیا تومیں نے اسے بتایا کہ میں ملاقات کیلئے راضی ہوں وہ چلاگیا اور بعد میں مجھے پیغام پہنچایا کہ کل شام 6بجے ملاقات ہے دوسرے دن مجھے وزیراعظم کے محل لے جایا گیا اس نے جب مجھے دیکھا تواچھا استقبال کیا اور مجھے گلے سے لگایا اور ہنستے ہوئے بولا کہ یہ ہیں حسین رضائی صاحب کہ جنکی وجہ سے دن رات مجھے ٹیلی فون اور ٹیلی گراف موصول ہورہے ہیں،جس پر تیمسار کے جواب سے پہلے ہی میں بول پڑا کہ سب کمیتوں کو ناپنے والے  ایساہی کیا کرتے ہیں اور معاملے کی کیفیت کی فکر نہیں کرتے۔۔۔۔

 ہماری دو گھنٹے کی ملاقات چار گھنٹوں تک چلی ہماری گفتگو کا اہم حصہ یہ تھا کہ  شاہ کی طرف سے پیش کش کی گئی تھی کہ میں ،جس شعبے کا چاہوں وزیرمنتخب ہوسکتاہوں میں نے کہا اچھا میری بھی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ وزیراعظم اور کابینہ  کے دوسرے وزراء کنفیڈریشن منتخب کرے گی ،میری اس بات پر ھویدا (وزیراعظم )غصے میں آگیا اور چلاکر کہنے لگا کہ تم کنفیڈریشن والے تو بس تخریب کاریوں کیلئے ہی بنے ہو،تعمیری کام تم لوگوں کے بس کی بات نہیں،میں نے کہا ،پس آپکی توقعات یہ ہیں کہ ہم آپ کی کابینہ میں آپ کی طرح لوگوں کی خدمت کریں توا یسا ناممکن ہے، میٹنگ کے آخر میں وہ بولا:میں جانتا ہوں کہ تم لوگ ،ایران اور ایرانیوں کو پسند کرتے ہو اور ان سے محبت کرتے ہو مگر تم لوگوں کی راہ غلط ہے ،میں نے کہا اورہمارے نزدیک آپکا راستہ غلط ہے۔ اس میٹنگ کے بعد، خبر نگاروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد،باہر میرا انٹرویو  لینے کیلئے جمع ہوچکی تھی ،مگر افسوس صرف لوموندا اخبار نے اس خبر کو صحیح نشر کیا ،جس پر ساواک کو گراں گزرا اور انہوں نے شور مچایا ،اسکے بعد مجھے اوین کی جیل میں منتقل کردیا اور اکیلا قید رکھا اس دوران ساواک کے بہت سے نمائندوں نے مجھ سے ملاقات کی جو سب بغیر کسی مثبت نتیجے کے ختم ہوگئیں بالآخر  اردیبھشت مہینے کے آخر میں یا خرداد 1350کے شروع میں ایک افسر میرے پاس،ایک مخصوص رجسٹر شاہ کی طرف سے لے کر آیا اور صفحہ کھولا اور بولا:کنفیڈریشن کو غیر قانونی قراردیا جاچکا ہے تو کیا تم اس تنظیم سے مستعفی ہوجانا چاہوں گے میں نے بھی لکھ دیا کہ نہ صرف یہ کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا بلکہ اس تنظیم ،کنفیڈریشن کا حصہ ہونا میرے لئے اعزاز کی بات ہے جب اس نے میرا لکھا ہواجواب دیکھا تو بولا یہ صفحہ خود شاہ پڑہیں گے لہذا سوچ لو پھر جیل کی انتظامیہ  میں سے ایک کو بلاکر کہا،چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر جیسے ہی حیسن رضائی صاحب اپنا ارادہ بدلیں تو مجھے اطلاع کرنا میں دوسرا صفحہ لے کر آجاؤں گا اور  مجھے بھی سمجھانے لگا کہ اس استعفے دینے کی صورت میں رہائی ورنہ سزا کے  طور پر دس سال کی قید ہے،میں نے کہا تم صفحہ لانے کی زحمت نہ کرنا میرا فیصلہ یہی ہے اور تبدیل نہ ہوگا،اسکے کچھ عرصے بعد مجھے عارضی جیلوں میں بھی قید رکھا گیا اور اس کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا میں نے وہاں بیان دیاکہ میں اس عدالت  پر اعتراض کرتا ہوں اور جو وکیل میرے لئے مقرر کیا گیا ہے میں اسے نہیں مانتا ہوں آٹھ سال قید کی سزا مجھے سنادی گئی ،ایک ماہ بعد عدالت نے مجھے بدامنی پھیلانے کے جرم میں دس سال کی سزا سنادی اور ایک اپیل دائر کرنے کا حق دیا جس پر میں  نے لکھا اس عدالت کو جاننے اورپہچاننے کے بعد میں کوئی اپیل دائر نہیں کرنا چاہتا۔ اسکے بعد مجھے قصر کے زندان نمبر 3لیکر گئے او ردوسال بعد سب سیاسی قیدیوں کو نمبر8میں ایک ساتھ قید کردیا گیا،دن ،ہفتے ،مہینے اور سال گزرتے رہے اس دوران میں  اپنے ساتھی قیدیوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھتا رہا جن کو لے جاکر یا تو گولی سے مار کر ہلاک کردیا جاتا یا تشدد کیا جاتا اس حد تک وہ بے چارے شہید ہوجاتے لیکن وہ تمام پابندیوں اور سختیوں کے باوجود ،فتح اور آزادی کی اس امید کو نہیں دبا سکے،بالآخر فتح کادن آیا اور جیل کی سلاخیں ٹوٹ گئیں اور دیواریں ڈھے گئیں،میں آٹھ سال  اورایک ہفتے کی قید کاٹ کر جیل کی سلاخوں سے باہر آیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4170


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔