فرسٹ کیپٹن ہوشنگ صمدی کی یادداشتیں

محمود فاضلی

2015-8-23


فرسٹ کیپٹن ہوشنگ صمدی کی یادداشتیں سید قاسم حسینی کی کوشش و کاوش سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔ کیونکہ بحری فوج کی بہت کم یادداشتیں منظر عام پر آئی ہیں اس لیے یہ یادداشتیں دوسری جنگ کی یادداشتوں سے منفرد ہیں۔ کیپٹن ہوشنگ صمدی جمہوری اسلامی ایران کے بحری فوج کے ایک دلیر اور اعلیٰ رینجرز ہیں جنھوں نے خرمشھر کی آزادی کے لیے ۳۴ مقاومت میں عظیم کارکردگی میں پیش کی ہے۔ یہ ایک دلیر شجاع، کفایت شعار اور ایران دوست افسر ہیں کہ جن کی راہنمائی میں رضاکارانہ فوج نے عراقی فوج کو خرمشہر میں خاک چٹا دی اور سرزمین ایران پر قبضہ کرنے والی فوج کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ ۲۹۹ صفحات کی کتاب ان کی آپ بیتی پر مبنی ہے جس میں ان کی آغاز زندگی سے لیکر خرمشھر کی آزادی یعنی ۱۳۶۱ ش تک بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرانقدر معیاری قابل تقدیر کتاب سورہ مہر پبلیکشنز کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ یہ کتاب ان رینجرز کے نام تقدیم کی گئی ہے کہ جنھوں نے خرمشھر کی ۳۴ روزہ جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور جن جانثاروں نے اپنے  خون کی سرخی سے فتح درج کروائی۔ اس کتاب میں اردبیل کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولنے سے لیکر اسکول کی شروعات اور پھر تہران ہجرت کی، میٹرک پاس کرنے کے بعد فوج میں ان کا داخلہ ہوگیا اور پھر ملٹری کالج میں ٹریننگ کے بعد تہران شیراز اور منجیل میں پوسٹنگ کے بعد ان کو بحری فوج میں منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد ان کا ٹریننگ  کے لی انگلستان کا سفر پھر تہران واپسی اور بوشہر منتقل ہونا، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد جنگ تحمیلی کے پہلے سال کے حیرت انگیز بحری فوج کے واقعات کو موضوع بحث قرار دیا گیا ہے۔

ان کی  زندگی کی یادداشتوں کا ایک حصہ جس میں ان کا لڑکپن، خاندان اور ابتدائی تعلیم موجود ہے بڑے سادہ اور سطحی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اور بعض واقعات کہ جو حکومت وقت کی پالیسیوں سے مربوط ہیں ان کی طرف بھی مختصر انداز میں اشارہ کیا گیا ہے۔ کیپٹن وزیر اعظم پیشہ وری کو اس طرح یاد کرتے ہیں کہ میں نے ابھی اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا کہ ۱۳۲۴ کا آذر بائیجان کے غافلہ کا واقعہ پیش آگیا اور جعفر پیشہ وری آذر بائیجان کا وزیر اعظم  بن گیا  روس کے بلوشیسٹ آئے اور انھوں نے اردبیل پر قبضہ کرلیا ہمارے گاؤں میں ایک خرمنگاہ (غلہ) تھی جہاں فوجی ایک صف میں کھڑے ہوجاتے اور ایک آدمی ان کے لیے ڈھول بجاتا اور باقی سب قدم تال کرتے تھے  میں اس پریڈ کو دیکھ کر محظوظ ہوتا تھا اور میرا دل چاہتا تھا کہ کاش میں بھی اس پریڈ میں شرکت کرتا اور مجھے یاد ہے کہ میرے والد ان کو لعنت ملامت کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ کافر اور دھریہ ہیں یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آذر بائیجان کو ایران سے الگ کردیں۔ پیشہ وری کے اہلکار کو میرے والد جو کہ زمین دار اور سرمایہ دار تھے ان سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ صرف ان سے کچھ گھوڑے لیتے اور پھر واپس کردیتے۔ اس دن اردبیل میں قتل و غارتگری کا بازار گرم تھا جب پیشہ وری کے اہلکار ایرانی حکومت سے ہار گئے اور روس میں پناہ لی۔ لوگ نیزہ اور لکڑیاں لے کر پیشہ وری کے طرفداروں کو گلی گلی میں ڈھونڈتے اور اگر کسی پر شک ہوجاتا تو چیخ پکار کرتے کہ اس کو پکڑلو یہ پیشہ وری ہے یا بلوشیسٹ ہے۔

داستان گو اپنی آپ بیتی حادثہ سیاھکل کے بارے میں سرسری طور پر بیان کرتے ہیں کہ ۱۳۴۹ بہمن کو خبر ملی کہ کچھ شرپسندوں نے سیاھکل علاقہ کو نا امن کردیا ہے یہ بات بعد میں سمجھ آئی کہ فدایی خلق ایران نامی گروہ نے سیاھکل میں مسلح بغاوت کی ہے اور سیاھکل کی چوکی کو مسخر کرلیا ہے۔ باغی تحریک کو کچلنے کے لیے زمینی فوج کو معین کیا گیا، فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سیاھکل کے اطراف لے جایا گیا، جاسوسوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کمیونسٹوں کی کمین گاہ کا پتہ لگا لیا اور پھر آپریشن کرنے والی بٹالین آگئی اور کچھ دنوں کے اندر بغاوت کو کچل دیا گیا ، کچھ باغی قید کرلیے، انھوں نے اس واقعہ کو ایک پیراگراف میں مختصر بیان کیا ہے اور ان کو شرپسند اور باغی عناصر کے القاب سے یاد کیا ہے۔

کتاب کے بعض حصوں کو فرسٹ کیپٹن صمدی کے کارناموں نے پرکشش بنا دیا ہے۔ خرم شہر کی کچھ یادداشتوں کے بارے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ "بحری رینجرز" کے سب سے پہلے جنگجو تھے کہ جنھوں نے تیسری خردار کی صبح بعض کشتیوں اور بعض تیرتے ہوئے خرمشھر پہنچ گئے اور دشمن کو ۱۹ مہینے قابض ہونے کے بعد بھی عقب نشینی پر مجبور کردیا اور وہ خون جو اس سرزمین پر گرا تھا اس کا انتقام لے لیا۔ سب کی حالت عجیب تھی جب رینجرز خرمشھر کے ساحل پر پیر رکھتے تو سب سے پہلے خرمشھر کی زمین کو چومتے اور تقریباً سب کوشی کی وجہ سے اشک بہا رہے تھے۔ چاروں طرف گولیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ بہت زیادہ عراقی فوجی قتل ہوگئے تھے اور بعض زخمی یا ایرانیوں کے قیدی بن گئے تھے میں مشرقی ساحل پر کھڑا اشک بار آنکھوں سے یہ سارے مناظر دیکھ رہا تھا۔ جو لگ مشرقی ساحل پر تھے سب رو رہے تھے۔ اس سرزمین میں داخل ہونے کے لیے  کہ جہاں میرا لشکر پارہ پارہ ہوگیا تھا میں بے چین تھا۔ خرمشھر کا پل ٹوٹ گیا تھا اور ہم مجبور تھے کہ ندی کو عبور کرکے داخل شھر میں وارد ہوں، اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا میں اچانک خیالات کی وادیوں میں کھو گیا اور چار آبان ۱۳۵۹ کی خطرناک اور غمناک رات یاد آگئی کہ جس میں ہمیں عقب نشینی کرنی پڑی تھی۔ تمام شہیدوں کی جگہ خالی تھی جنھوں نے اپنی شہادت کے ذریعہ ۲۴ روزہ جنگ کو کامیاب بنایا تھا میری آنکھوں سے آنسور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے لیکن یہ سب  خوشی کے آنسو تھے۔

راوی (داستان گو) اپنے اندرونی احساس کی اس طرح تشریح کرتا ہے اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں جو سب سے تلخ خبر سنی وہ خرمشھر کا ہمارے ہاتھ سے نکل جانا تھا اور میں یہ جانتا تھا کہ خرمشھر اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور ہمارا تسلط صرف ساحلی سڑک اور جنگی میدان پر باقی ہے البتہ کچھ رینجرز اور رضاکارانہ فوج خرمشھر کے مختلف حصوں میں چھتوں اور گلیوں میں برسر پیکار تھی۔ لیکن اب ایک بڑے لشکر اور تازہ دم فوج کے سامنے مقاومت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب وہاں ہمارا رکنا صرف ہم سے شہید اور نقصان مانگ رہا تھا۔ عراقیوں نے ۹۰ فیصد شہر پر قبضہ کرلیا تھا۔ رینجرز اور رضاکار فوج کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ نہیں تھی۔ آپریشن کرنے والی فوج اور  لوگ بھی تھکے ہوئے تھے اور ان میں جنگ کا حوصلہ بھی نہیں تھا، یہ تمام اسباب اس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ خرمشھر کو خالی کر دیا جائے تاکہ مناسب وقت پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ کیا جائے اور دشمن کو بھگایا جاسکے۔ ان تمام تحلیلوں اور عقلی تدبیروں کے باوجود مجھے ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا اور میرا دل کچھ اور کہہ رہا تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے مبھوت اور فکرمند ہوگیا تھا۔

خرمشھر کی جنگ میں بوشھر کے بحری رینجرز کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا ہم تقریباً ۶۰۰ لوگ خرمشھر میں آئے تھے جس میں ۷۶ شہید ہوچکے تھے اور تقریباً ۳۰۰ فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ یعنی ۶۰۰ میں سے ۲۷۶ فوجی زخمی اور شہید ہوگئے تھے اور حقیقت میں یہ خون اور جانی نقصان کا جواب گو کون ہوتا؟ میں ان جوانوں کو یاد کرنے لگا جو اس ایک مہینے میں پھول کی طرح بکھر کر رہ گئے تھے جب میں ہوش میں آیا تو میری داڑھی آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔ اور اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ یہ تلخ خبر اپنے سے بڑے افسران تک پہنچا دوں ، جو اب بھی جنگ میں مصروف تھے۔ میں یہاں پرمناسب سمجھتا ہوں کہ ایک تلخ موضوع کی طرف اشارہ کروں تاکہ یہ تاریخ میں ثبت ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ خرمشھر کو خالی کرنے کا حکم تین مھر ۱۳۵۹ کو کس نے صادر کیا تھا؟

اور انھوں نے اس کتاب کہ حصہ میں تاکید کی ہے کہ  بعض تاریخی اور یادداشتوں کی کتابوں میں میرے بھائیوں اور بہنوں نے مجھے (ہوشنگ صمدی) خرمشھر کے تخلیہ کا اصلی مھرک بیان کیا ہے اور یہاں تک کچھ داستانیں لکھنے والوں نے کہا کہ صمدی نے خود عقب نشینی کا حکم صادر کیا تھا۔ تو میرا سوال ان سے یہ ہے کہ میرا عہدہ اس جنگ کے زمانے میں کیا تھا جو میں اتنا بڑا حکم صادر کرتا، میں اور میرے ماتحت   رینجرز جنوب کی آپریشن فورس کی نظارت میں لڑ رہے تھے اور ہم ان کے تابعدار اور ان کے فرمان کے مطیع تھے ہم خود سے کوئی بھی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے اور اگر میں خودمختاری کرتا تو مجھے عقب نشینی کے بعد قید کردیا جاتا یا مجھ پر کیس چلا کر مجھے پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیاجاتا جبکہ میری اعلیٰ عہدہ پر تقرری اور ترقی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ میں نے خودمختاری نہیں کی تھی اور اپنے اوپر والوں کے احکامات پر عمل کیا تھا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4173


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔