کتاب "ایران میں ماموریت"

محمود فاضلی

2015-8-23


انقلاب اسلامی ایران کے مطالعاتی اور تحقیقاتی منابع میں ان کتابوں کو خاص اہمیت حاصل ہے جس میں انقلاب اسلامی کو دیکھنے والوں کی مدد سے ان کی آپ بیتیاں لکھی گئی ہیں۔ اس طرح کے آثار ان ایرانیوں کی مدد سے جنھوں نے انقلاب میں رول ادا کیا ہے (اب چاہے وہ حکومت پہلوی سے وابستہ ہو یا اس کے مخالف ہو یا غیر ایرانی ہو) منظر عام پر آچکے ہیں۔ ایسے آثار نے پہلوی دوم خاص طور سے اس حکومت کے آخری سال کی پول کھول دی ہے۔ ان کتابوں میں سے ایک کتاب ویلم سولیوان کی بھی ہے جو "ماموریت در ایران" کے نام سے موجود ہے۔

یہ کتاب خاص توجہ اور اہمیت کی حامل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں مصنف کا کردار اور اس کی موقعیت انقلاب ایران کی تبدیلیوں میں اہم معلومات تک پہنچاتی ہے۔ اس کے برخلاف کہ مصنف حکومت پہلوی دوم کے متعلق تحلیلی اور انتقادی نظر رکھتے ہیں اور خاص طور پر اقتصادی اور ثقافتی امور میں ان کی نظر نمایاں ہے اس ۳۱۶ صفحات کی کتاب کے مثبت اور منفی نکات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان منفی نکات میں آپ بیتی لکھنے کے قوانین کی رعایت نہ کرنا ہے اور یہ کتاب بھی اس سے محفوظ نہیں۔

سولیوان کی آب بیتیاں بعض نواقص اور کمزوریاں رکھتی ہیں۔ مترجم نے ان کی طرف پیشگفتار میں اشارہ کیا ہے لیکن کچھ حد تک امریکا کہ ایران میں ڈھکی چھپی پالیسی کو آشکار کرتی ہیں اور اس کے ضمن میں دو ملکوں کے درمیانی روابط اور امریکا کی آخری جدوجہد پہلوی حکومت کو بچانے کے لیے اور امریکا کہ ناکامی کو بیان کرتی ہے۔ ریچرڈ ہلمز کے استعفیٰ دینے کے بعد سے تہران میں امریکی سفیر کی پوسٹ ۱۳۵۴ آذر   بمطابق دسمبر ۱۹۷۶ تک خالی تھی اس لیے کارٹر حکومت کو جلدی تھی کہ کسی دوسرے سفیر کو معین کیا جائے۔

سولیوان کو اتنی فرصت بھی نہیں مل سکی کہ وہ نئی جگہ جانے سے پہلے کچھ دن چھٹیوں پر جائے اور آرام کرسکے۔ اس کو ۲ فروردین ۱۳۵۶ با مطابق ۹ اپریل ۱۹۷۷ء کو ایران میں امریکا کا سفیر معین کیا گیا ۔ اس نے  ۸ جون ۱۹۷۷ء کو ایسے حالات میں تہران  کا چارج سنبھالا جب محمد رضا پہلوی نے امریکی جمہوریت پسندوں کی کامیابی کے لیے جو سرمایہ کاری کی تھی وہ شکست سے دوچار ہوگئی اور پھر سوالیون نے ۱۴ جون ۱۹۷۷ء کو شاہ کے سامنے بعنوان امریکی سفیر اپنا اختیار نامہ پیش کیا جب وہ تہران آیا تو ۵۶ سال کا تھا، اس زمانے میں امریکی سفارت خانے کی وسیع و عریض فعالیت تھی۔ سفارت خانے کے کارکنان کی تعداد فوجیوں کو ملا کر دو ہزار لوگوں پر مشتمل تھی۔ جو اپنے خاندانوں کو ملا کر پانچ ہزار تک بن جاتے تھے۔ جب اس نے تہران کا چارج سنبھالا تھا تب ۳۵ ہزار سے زیادہ امریکی ایران میں مشغول کار تھے۔

رضا شاہ نے ۱۳۵۵  کے امریکی انتخابات میں ۱۲۰ ملین ڈالر اپنے سفیر اردشیر زاہدی کے ذریعے امیرکی جمہوری پسندوں تک پہنچائے تاکہ جمی کارٹر کا رقیب جرالڈ فورڈ کامیاب ہوجائے۔ شاہ کی اس مدد نے دیموکریٹ پارٹی کو آگ بگولہ کردیا (برژینسکی) نے زاہدی کے اس کام کو مایہ ننگ قرار دیا۔

سوالیون نے ایران آنے سے پہلے سایرویس ونس جو اس وقت امریکا کا وزیر خارجہ تھا، اس سے ملاقات کی اس ملاقات کے بارے میں وہ لکھتا ہے میں نے اپنی اس پہلی ملاقات میں ونس سے پوچھا کہ میرے انتخاب کی وجہ کیا ہے وہ بھی ایک ایسے ملک میں کہ جس کا مجھے کوئی تجربہ نہیں رہا تو وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ تمہارے انتخاب کی وجہ سیاسی تجربہ ہے اور تمہارا تجربہ ان حکومتوں میں زیادہ  جو ڈکٹیٹر اور مطلق العنان زمامداروں کے ذریعہ چلتی ہے۔ سولیوان اسی طریقہ سے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کے ساتھ اپنی ملاقات کو یوں بیان کرتا ہے: کارٹر نے ایران کا قابل اعتماد ہونا امریکا کے لیے اور ایران کی اسٹرٹیجک اہمیت کو بیان کیا اور اس طرح کارٹر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ایران کو خلیج فارس کے منطقہ کا ایک مہم رکن قرار دیتے ہوئے ایران اور امریکا کے بارے میں مسائل کا تذکرہ کیا۔

سولیوان نے اس کتاب میں انقلاب کی اساسی معلومات بہم پہنچائی ہیں اور سولیوان ایران کے سلسلے میں برژینسکی (جمی کارٹر کا خاص مشیر) سے اختلاف نظر رکھتا تھا اور برژینسکی نے اس کے اتھامات کو قبول نہیں کیا۔ سولیوان اور برژینسکی کے نظریاتی اختلاف کے بارے میں جنرل ہایزز (جمی کارٹر کا بھیجا ہوا فوجی جنرل) نے اپنے خاطرات کی کتاب متعدد مطالب کو ذکر کیا ہے۔

سولیوان نے امریکا پلٹ کر جانے کے بعد اپنے سبکدوشی کے زمانے میں اپنے تہران کے چارج کے بارے میں مفصل شرح دی ہے جس میں اس نے شاہ سے اس کی ملاقاتیں ، مخالفان اور انقلابی ٹیم کی فعالیت اور امریکہ وزیر خارجہ کے دستورات، ایران اور امیرکی روابط اور شاہ کے سقوط کو بیان کیا ہے۔ کیونکہ کتاب اس کے مشاہدات اور سماعت کی بنیادوں پر لکھی گئی ہے اس لئے امریکہ کی نظر اور اس کی نتیجہ گیری انقلاب اسلامی کے بارے میں کیا تھا سمجھا جاسکتا ہے۔ کتاب کا بیشتر حصہ سولیوان کا ایران میں دو سالہ قیام پر مبنی ہے جس میں اس نے دو سال کے درمیان اس کے ملاقاتیں اور ایران کے واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ ویلیام سوالیوان ۹۰ سال کی عمر میں  واشنگٹن کے نواحی علاقے میں اس دنیا سے چل بسا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہ کتاب ۱۳۷۵ میں محمود طلوعی کے ذریعہ فارسی  زبان میں ترجمہ ہوئی اور علم پبلیشرز نے اس کو نشر کیا۔

۲۔ زیادہ معلومات کے لیے "ریچرڈ ہلمز" ملاحظہ کریں۔

۳۔ ایران کی خارجہ پالیسی پہلوی کی حکومت کے دوران "عبد الرضا ہوشنگ مہدوی، ناشر البرز، ص ۴۶۲۔

۴۔ آخرین سفر شاہ" ویلیام سوکران، عبد الرضا ہوشنگ مہدوی، ص ۲۶

 



 
صارفین کی تعداد: 4485


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔