دست خدا

محمود فاضلی

2015-8-6


قاسم علی زارعی

انتشارات:سورہ مھر

چاپ اول:۲۰۱۴

کتاب ’’دست خدا‘‘ ایک فوجی افسر جناب قاسم علی زارعی اور انکے دوست شھید الحاج ستار ابراھیمی کے یادگار واقعات پر مبنی ھے۔ زارعی اس کتاب میں اپنے اور اپنے جنگی ساتھیوں کے واقعات کو فصیح انداز میں بیان کرتے ہیں اس کتاب میں دفاع مقدس کے دوران اسد آباد کے فوجیوں کی قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ س کتاب میں کچھ حصہ ہمدان کے دفاع مقدس کی تاریخ پر مشتمل ہے۔  انھوں نے اپنے یادگار واقعات کا آغاز اپنی جوانی کے دور سے کیا انھوں  نے اپنی جوانی اپنے آبائی گاؤں ولی آباد (اسد آباد) میں ایک سادہ چرواہے کی صورت میں گذاری ۔  اسکے بعد مزدوری کی غرض سے تہران آگئے۔آپکی خواہش تھی کہ دفاع مقدس میں کسی بھی صورت شریک ہوں اسی عزم کو لئے نوجوانی ھی میں لباس جنگ زیب تن کیا اور جنگ کے ہولناک ماحول میں آپہنچے ۔انھوں نے مختلف مقامات جیسے مرصاد ، حسن آباد ، چھار زبر کی چھاؤنی ،نزدیک پل ذھاب اور دوسرے مقامات جہان جنگ کا ماحول گرم تھا  جھاد کیا ۔وھاں انھیں اچھے برے دن دیکھنے کو ملے ۔جنگ کی نشانیاں آج بھی جو باقی ھیں جیسے بڑے بڑے محل ، اُونچے اُونچے پہاڑی علاقوں میں تعمیر شدہ گھر ،پکی اینٹوں کے بنائے گئے مکانات پر آج بھی گولیوں اور بمباریوں کے نشانات ،دریائے الوند کی کیچڑ چند دنوں کو نہیں  بلکہ کئی سالوں کی داستان کو بیان کر رہی ہے۔       

  مصنّف نے اپنے واقعات کو اسی طرح بیان کیا جس طرح انکی بیٹی نےانسےاپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ’’بابا اپنے واقعات مجھ سے ایسے بیان کریں کہ میں بھی اُن واقعات کو اپنی دوستوں سے بیان کرسکوں‘‘۔

    الغرض مصنف نے اپنی داستان کا آغاز اپنے آبائی گاؤں ولی آباد ،سن ۱۹۷۹ء کے موسم گرما اور اپنے کھیت سے کیا اور اسکو تین حصّوں میں بیان کیا ۔پہلا حصّہ راوی کا جنگ میں ایک عام رضا کار کے عنوان سے اور دوسرا حصہ سن ۱۹۸۴ میں انکی انصار بریگیڈ میں فعّالیت سے مربوط ھے، اور کتاب کا آخری حصہ میں انکی اُن  سرگرمیوں سے مربوط ھے  جو لشکر کے ساتھ تعاون کے حوالے سے تھیں۔ جبکہ اس کتاب میں زیادہ تر واقعات شہید ستار ابراھیمی اور ان کی شہادت کے ساتھ مخصوص ہیں جنکی زیر نگرانی ۱۵۵ رضاکار تھے اور جو زارعی کے براہ راست سپہ سالار تھے۔اس کتاب  میں زارعی نے وہ واقعات جو داریوش گل محمدی سے ، جو کسی مورچہ میں مأمور تھے ،کمسن شہید جعفر یعقوبی  جو دھماکہ خیز جال کی زد میں آیا،بارودی سرنگ، خاردار تاروں کا تذکرہ ،شھر خسروی اور شہید الحاج ستار ابراھیمی کے واقعات تک پہنچتے ہیں،  کو  پڑھنے والے کے سامنے پیش کیا ہے۔

قاسم علی زارعی اپنی  کتاب کے بارے میں کہتے ھیں :ِ ’’اس کتاب کو لکھنے کی فکر سن ۱۹۹۹ء میں اُبھری کہ اُن جگہوں کا احوال بیان کروں جہاں جنگ ھوئی ۔اور میں نے احساس کیا کے کہ ان غیرتمند اور بہادر شھداء  اور رضاکاروں کی حقیقت کو بیان کرنا ضروری ھے کہ جو اُس دفاع مقدس میں گمنام ھو کر رہ گئے ۔پڑھنے والا اس کتاب کو کہیں سے بھی پڑھے گا ،پڑھنے کیساتھ ساتھ خدائی امداد و تقدیر الٰہی کا احساس کریگا چونکہ مجھے یقین  ھے کہ دست خدا جنگ کے ہر لمحے میرے ساتھ تھا۔میں نے کوشش کی ھے کے واقعات کو سچائی کیساتھ بیان کروں،حتیٰ غلو اور مبالغہ آرائی سے پرہیز کروں ۔لھٰذا شجاعت ،بہادری یہاں تک کہ میں نے جنگ کے دوران، اپنے خوف و وحشت میں مبتلا ہونے کو  بھی صداقت اور پوری سچائی کیساتھ بیان کیا ھے۔ تاکہ مخاطب کیلئے میرا بیان مؤثر ھوسکے۔وہ واقعات آج بھی میرے لئے تازہ ہیں جب بھی ان واقعات کو سوچتا ھوں تو   دل سے آہ نکلتی ھے اورمیری آنکھوں سے آنسو جاری ھوجاتے ہیں۔ میرے گھر والے بھی میرے ان واقعات میں کھو جاتے ھیں ۔یوں سمجھ لیں کہ میں اپنے تخیلات کے سمندر کی موجوں میں ڈوبنے کا عادی ھوگیا ھوں۔

   اسی کتاب میں کہیں ذکر ھوا ہے کہ : ’’رضا کا گریہ اتنا درد ناک تھا کہ سب کی نیند اڑجاتی تھی اور اسے خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ اس نے تمام رضاکاروں کو نمازِ شب کیلئے بیدار کردیا ھے۔میرا دل چاہتا تھا کہ اس کے عشق حقیقی کو جو تنہائی میں امڈ آتا تھا قریب سے دیکھوں اور عاشقی کی رسم اسی سے سیکھوں۔ گویا وہ چار یا پانچ سالہ بچے کی طرح تھا جس سے کوئی خطا ھوگئی ھو اور اسے سرزنش کرنے کیلئے ماں کی گود سے جدا کردیا گیا ھو جبکہ وہ اپنی ماں سے کسی صورت جدا ھونا نہیں چاھتا تھا،عاشق خدا رضا اس بات سے راضی نہ تھا کہ اسکی عاشقانہ گفتگو ہمارے کانوں سے ٹکرائے ۔رضا کی نماز شب تمام ھونے کو تھی اورمیں اذان صبح کی آوازکیساتھ رضا کے سجدہ کی حالت میں صبوح قدّوس کے ورد کی طرف بھی متوجّہ تھا لھٰذا آھستہ آھستہ میں نے خود کو مسجد تک پہنچایا اور نماز صبح کے لئے آمادہ ہوگیا۔

ٹاور کی بلندی سے ان علاقوں میں رضاکاروں کا جوش ولولہ دیکھنے کے قابل تھا جہاں انہیں فتح نصیب ھوئی۔ بعض رضاکار تعمیر شدہ حفاظتی اور اجتماعی مورچوں میں تھے۔ جو کھانے کی سپلائی پر مأمورتھا وہ ایک  سے دوسرے مورچے میں جاتا اور سب کے درمیان بسکٹ سینڈویچ اور پانی کی بوتلیں تقسیم کرتا تھا اور لوگ نہ چاہتےھوئے بھی ایک ایک اُٹھالیتے۔ان میں سے ایک پیکٹ میں نے بھی اٹھا لیا۔ پانی اس قدر گرم اور بد مزہ تھا کہ میری حالت بگڑگئی ۔اور ویسے بھی میری  کھانے کی تڑپ ہی مٹ گئی تھی کیونکہ کسی عراقی کا  جنازہ ھم سے چند قدم کے فاصلے پر ہی پڑا تھا ۔  میں نے اپنے دوستوں کو تلاش کیا تو سلیمان اسدی اور علی رضا عسکری کو پہلے ہی مورچہ میں پایا ،انکو دیکھتے ہی خوش ہوگیا اورسکون کا سانس لیا۔

    دوسرے حصہ میں مصنّف کے اپنے واقعات ھیں:طے یہ پایا کہ کل سے مریم کیساتھ خاندان والوں کے یہاں چکر لگانا شروع کرونگا مگر مریم کا غم و غصہ جانے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سب بے چین تھے اوروہ ہر لمحہ اسی مسٔلہ کو موضوع بناتی اور تمام باتوں کے پیچھے وہی بات ھوتی تھی جو کہہ نہیں پاتی تھی ۔ایک روز  اس نے کہہ ہی دیا کہ جب تم نہیں تھے تو میری زندگی بے معنی تھی۔یہاں میری ماں نے ھوشیاری کیساتھ زباں کھولی اور کہا تمام عزیز و اقارب میں اتنی طاقت نہیں ھے اسکو سنبھالیں  اور کہا :قاسم اپنے بچوں کی فکر کرو ۔میں نے تعجّب سے کہا میرے بچے؟ میرا تو ایک ہی بچہ ہے آخر کار مریم ھنس پڑی اور کہنے لگی ایک ھے اور دوسرا راستے میں ہے میں حیرت زدہ ہوکر بولا مگر نسیبہ تو چار مہینہ ہی کی ھے ۔امّی بولیں تمھارے باپ نے خواب دیکھا ھے بات گھماؤ نہیں اب کہ خوبصورت بیٹا ھے۔ تو میں نے کہا بس تو پھر اللہ نے چاہا تو اسکا نام کمیل رکھوںگا۔

   اس کتاب میں الحاج ستار ابراہیمی کی سادہ زندگی اور انکی دلیری کو بیان کیا گیا ہے۔زارعی نے اس کتاب کے آخری حصہ کو اس طرح بیان کیا :اس دور کی یادیں تمام ھونے کیساتھ ساتھ اس جلد میں دفاعی جنگ ، قصر شیریں کے علاقوں سے میرا ذھن اس جانب مبذول ھوا تو کتاب دست خدا لکھی۔ اسی طرح میرا دل جو بات نہیں کہی جاسکتی اسے بھی کہنے کے لئے بیقرار ھے۔اور اسی طرح میرا دل شھر ماووت اور بیت المقدس ۲ کے آپریشن میں الجھا ہوا ہے جو گردہ رش اور اسکے اطرافی علاقوں میں ھوا تھا کہ جہاں ہم پل سیدالشہدا عبور کرکے پہنچتے تھے ۔ میرا پریشان دل جب بھی شھر حلبچہ پہنچتا ھے تو اس دل کی دھڑکن اس شہر پر چھائی خاموشی میں گُم ہو جاتی ہیں، اور میرا دل اس مظلوم بچہ کے لئے جو اپنی ماں کی آغوش میں ابدی نیند سویا ھوا ھے  اور ان جواں سالہ بچّیوں کے جان دینے کی وجہ سے کہ جو ابھی شادی کی عمر کو نہ پہنچی  تھیں شدت سے کُڑرھا ھے ۔اور میرا دل پہلی بار ’’شنام‘‘ کی بلندیوں پر  اپنے شھر کے پانچ شھداء کی ہڈیّوں کی تلاش کے لئے تڑپ رہا ہے اور ۵۹۸ نمبر قرار داد کے منظور ہونے کے تھوڑے عرصہ بعد ان شھداء کی یاد میں خون روتا ھوں کہ جنکا بدن ٹکڑے ٹکڑے ھوگیا تھا۔ سات سال کے بعد جب میرا دل خسروی کی سرحد پر دوبارہ پہنچا تو وہیں رہ گیا تاکہ ۱۹۹۷ میں اپنے پھپھی زاد بھائی جو قید سے رہا ہوکر آیا تھا اسکے استقبال کو بڑھوں۔  ایک مرتبہ پھر خدا مجھے سہارا دے تاکہ بلند پایہ کے افسران کو دیکھ سکوں جو اس مرتبہ  افسوسناک حالات میں،پھٹے ھوئے جوتے پہنے ، دست بستہ کھڑے ہیں اور حسرت کے ساتھ ہماری اور جو ھمارے پاس ہے اسکی جانب نظر کررہے ہیں۔اس دن سے میرا دل اسکی تلافی کرنے کیلئے بیقرار ھے ۔ خدا مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں قلم دے  تاکہ دست خدا سب کیلئے ایک لمحہ کیلئے روشن ہو جو خدا سے مدد کے امیدوار نہیں ہیں۔لیکن مجھے آج بھی لوگوں کے درمیان قلم دینا چاہیے اور ان دنوں سے کہتا ھوں اور لکھتا ھوں تاکہ شاید میرے ٹوٹے ھوئے اور بے قرار دل کے لئے مرھم اور ھر ایک شخص جو میرا عزیزھم وطن  ہے اسکے لئے موثر گھونٹ ھو جس سے پیاس بجھائی جا سکے۔

   اس کتاب کی اھم بات یہ ہے کہ تمام جنگی واقعات تاریخ کیساتھ بیان کئے گئے ہیں تاکہ ہر معاشرے کے لئے قابل استفادہ ھوں ۔اسی طرح مطالعہ کرنے والے کا ان واقعات سے ایک گہرا ربط برقرار ھو سکے اسی وجہ سے مناسب واقعات کی توصیف کی گئی ہے۔ کتاب ’’دست خدا‘‘ میں انقلاب اسلامی کے جنگی میدانوں کے تذکرے کے ساتھ دفاع مقدس کے جوانوں میں سے ایک جوان کی زندگی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ ناقابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دفاعی جنگ کی ابتداء سے ہی ملت ایران نے محسوس کر لیا تھا کہ ہمارا ملک اور انقلاب اسلامی بہت بڑے خطرہ سے دوچار ہے۔  ابتداء ہی سے اس دفاعی جنگ میں یکسوئی اور یکجہتی دکھائی دی۔ زارعی اپنے واقعات کو بغیر مبالغہ کے تحریر میں  لیکر آئے ہیں اسی لئے  ان کے واقعات  دل موہ لینے والے اورپُر کشش ہیں۔

کتاب دست خدا ۴۹۶ صفحات اور ۳۲ فصلوں پر مشتمل ہے کہ ان میں سے بعض فصول کے نام یہ ہیں :’’مضمون،تحریک ضد انقلاب، دفاعی جنگ کا آغاز،حاجی قربان کی خبر شہادت،تشکیل فائیل،رضا کاروں کی تربیت کا آغاز، بھشت بریں، مراسم تشیع جنازۂ شھدائے قراویز،روزِ قدس، ھمدان کی بمباری وغیرہ‘‘۔کتاب کے اختتام پر مصنّف نے ایران و عراق کی اس دفاعی جنگ کی اُن تصاویر سے استفادہ کیا ہے جو جنگ کیساتھ مربوط ہیں اور یہ تصاویر حقیقی اور قابلِ دید ہیں یہ تصاویر ہی ہیں  جوآج بھی  دفاع مقدّس کے واقعات انکے لئے بیان کررہی ہیں جنہوں نے ان ایّام کو قریب سے دیکھا ھے اور یہی وہ لوگ ہیں جو شھداء کی یادوں اور انکے واقعات کو زندہ رکھنے کا باعث ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 4267


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔