بهبودی ۔

انقلاب کے بارے میں کمزور و ضعیف کتابوں کو نقد کے زریعے بند کیا جانا چاہیے۔


2015-8-6


خبر رساں ایجنسی ابنا کیادب  انقلاب اسلامی کے دفتر کے سر پرست  سے گفتگو

بھبودی ۔ ۔انقلاب کے بارے میں کمزور اور ضعیف کتابوں کو نقد کر کے بند کردینا چاہیے/ سن ۱۹۸۱ کے عشرے میں کتابوں کا نظریاتی ہونا طبیعی تھا ۔

ہدایت اللہ بہبودی ،ایک انقلابی اسلامی تاریخ نگار ہیں ،ایک نشست میں کہ جو کتاب و انقلاب اسلامی کے عنوان سے تھی خبر رساں ایجنسی ابنا کے ٹاک روم میں انھوں نے کہا ،اگر اسلامی انقلاب کے وسیع موضوع پر متوازی کام ہو تو کو ئی مشکل نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا حسن سامنے آئے گالیکن ضعیف کتابوں کی جولانی کو نقد کے ذریعے سے روکنا ہوگا ہر چند نقد کی اجازت نہیں مگر کوشش کرنا چاہیے کہ اس کی جانب قدم اُٹھے ۔

خبر رساں ایجنسی ابناء شعبہ تاریخ و سیاست،جناب بہبودی عرصہ دراز سے اسلامی انقلاب کے ادب کے دفتر میں مشغولِ کار ہیں ، انھوں نے اسلامی انقلاب کی تاریخ نگاری پر قلم اُٹھایا اور بہت سی کتابوں کی تصنیف کیں لیکن ان کتابوں میں ایک کتاب شرح اسم کا اپنا ہی مقام ہے کیوں کہ یہ مقام معظم رہبری کے نام سے مزین ہے اس کتاب کی ریسرچ بتا تی ہے کہ اس کتاب پر سخت محنت کی گئی ہے ،لچکدار رویہ ،علم کے روشن چراغ ،ان کی تاریخ انقلاب اسلامی سے  دلبستگی نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ان سے انقلاب اسلامی کی تاریخ نگاری کے بارے میں سوال کریں ۔

سوال: جناب بہبودی صاحب ،پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ سیاسی داستانیں ،اسلامی انقلاب کے واقعات پر کیا اثر ڈالتی ہیں ؟

جواب: ہمارے ملک میں داستان نویسی بہت قدیم ہے ،لیکن قبل اس کے یہ عام لوگوں کے لئے ہو ملک کے بڑے افرد کے لئے مختص ہے جو ٹھیک بھی ہے ،گذشتہ زمانے میں لوگوں کے زریعے سے یادوں کو  محفوظ کرنے کا کو ئی وجود نہ تھاشاید اس مسئلے کا تعلق شرح خواندگی سے ہے اور یہ کہ لوگ بغیر تعلیم یافتہ ہوئے اپنی یادوں کو نہیں لکھ سکتے تھے ،پڑھنے سے میری مراد اسکول اورماحول دونوں ہے ،لیکن انقلاب کے بعدملک میں  ایک تبدیلی آئی ہے،اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ ظاہر ہے،لوگوں نے انقلاب کی صورت میں اپنی یادوں کو چھوڑا،اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرتا چلوں کہ اس موضوع سمجھنا  بہت ہی اہم ہے کیوں کہ لوگوں نے خود اس اتفاق کو اپنے ہاتھوں سے انجام دینا چاہا ،اسے محفوظ سمجھا؟ میرے خیال میں پہلی بار تاریخ معاصر میں استقلال کا کلمہ  لوگوں کے لئے پسندیدہ ہوا یہاں تک کہ انھوں نے اس کے تحفظ کی  خاظرہر کام انجام دیا ، اپنی جانوں کا نذرانہ تک دیا ہم نے اس انقلاب کے لئے ۱۹۶۳ سے ۱۹۷۸ء تک تقریباً پانچ ہزار شہید دیئے جو اتنے بڑے انقلاب ۱۹۷۸ کے لئے کم ہیں  اگر تمام انقلابی تحریکوں میں قتل ہونے والو ں کی تعداد کا دیکھا جا ئے جیسے الجزایر کی تحریک کہ جس میں دس لاکھ افرد قتل ہوئے اور دوسری انقلابی تحریکوں کو دیکھیں کہ جو کامیاب تو نہ ہوئیں لیکن بہت سے لوگ قتل ہو ئے ۵۰۰۰ شہید اسلامی انقلاب کے لئے کہ جو تحریک ١۵ سال چلی ہو یہ ایک عجیب بات ہے لیکن انھیں لوگوں نے انقلاب کی حفاظت کے لئے تحمیلی جنگ میں ۲۲۰ ہزار شہید دیئے میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ عوام تحفظ  انقلاب کے لئے  کہ جس میں وہ اپنے استقلال کی صورت دیکھتے ہیں اس بات کا مصمم ارادہ کر لیں کہ فدا کاری اور جانثاری کے علاوہ کچھ راہیں اور ہیں کہ جن سے انقلاب کو تحفظ دیا جا سکتاہے اور وہ ہے اس انقلاب کو لکھنا اور اس کے حوادث کو محفوظ کرنا ،اسی وجہ سے ابتداء میں وہ افراد کہ جنھوں نے اس واقعے کو دیکھا تھا اور جو اس انقلاب میں لڑنے والے تھے ان کی داستانوں کو تحریر کرنا شروع کیا اور پھر اس کے بعد عوام میں گئے اور ان واقعات کو جمع کرنا شروع کیا اور انھیں تحریر کے قالب میں ڈھالا یہی وہ مقام تھا کہ جہاں تاریخ شفاہی نے ہماری مدد کی اور ان واقعات اور آپ بیتیوں کو جمع کیا جاسکا البتہ تحقیقی ادراروں اور ان تنظیموں نے  کہ جو تاریخی مطالعات و تحقیقات انجام دیا کرتی تھیں اس سلسلے میں بہتر کردار ادا کیا اور انقلابیوں کی یاد داشتوں کو محفوظ کیا۔

بہر حال اس کام کو میں ایک تحریک کے عنوان سے جانتاہوں کہ جس نے مسلط کی گئی جنگ میں بڑا روشن کردار ادا کیا اور انقلاب کے دوران اس تحریک نے کم کام کیا بہر حال یہ ایک یاد داشت نویسی کی تحریک ہے ہم تیس سالوں سے اس کے ساتھ تھے اور آج تک  ہیں جیسے جیسے یہ تحریک آگے برھ رہی ہے اتنا اس میں نکھار آرہا ہے یعنی وہ کتابیں کہ جو ان پانچ چھ سالوں میں شائع ہوئیں ہیں آپ ان کتابوں کو دیکھیں اورہ وہ کتابیں کہ جو ۱۹۸۰ء  کی دہائی میں منتشر ہو ئی تھی ان کو دیکھیں بہت فرق ہے یعنی کہ یہ آثار بھی جوان اور کامل ہو گئے ہیں اور ان  کے مطالب میں گہرائی اور پھیلاو آگیا ہے یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ جو ہمارے انقلاب نے پائی اور ہمارا انقلاب محفوظ ہو گیا ،اس سے قبل ہم اس بات پر خون روتے تھے کہ آخر کیوں ہمارے بارے میں دوسرے لکھیں  خوش بختی یہ ہے کہ وہ واقعہ کہ جو ہمارے اپنے ہاتھوں رونما ہوا ہے ہم اس کے بارے میں خود ہی تحریر کریں اور یہ ایک مثبت نکتہ ہے ۔

یہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ امریکہ اور چند ایک یورپی ممالک  میں انقلاب اسلامی کی تاریخ نگاری کا کام شروع ہو چکا ہےاور سلطنت کے طلبگار اور دیگر پارٹیوں نے وہ افرد کہ جنھوں نے انقلاب کے خلاف کام کیا ان کی روداد کو لکھنا اور جمع کر نا شروع کر دیا ہے اور ان کی کتا بیں چھپ چکی ہیں ،لیکن خوش بختی سے ان سب کاموں کے باوجود ہم ان سے آگے ہیں کہ کیوں کہ انقلاب کے لانے والے انقلاب کے مخالفین سے اعداد و شمار کے حساب سے ناقابل تقابل ہیں علاوہ بر این ہمارے پاس اس تایخ نگاری کی اسناد اور دلائل اور ثبوت  ان سے زیادہ اور معتبر ہیں اگر چہ پہلے ہمارا کردار صرف مصرف کی حد تک تھا لیکن اب ہم ان منابع کی بنا پر اس ماجرے میں داخل ہیں اور یہ ایک مثبت پہلو ہے اور اس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے

بہر حال یاداشت ، سندوں کے ساتھ انقلاب اسلامی کے بارے میں  لکھنے اور گفتگو کا ایک منبع اصلی ہے ۔

سوال: آپ نے اپنی گفتگو کے درمیان اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ خاطرات کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار نے ترقی کی ہے اور آج اچھی صورت حال ہے ،اگر ہم ۸۰ کی دہائی سے آج تک کی جمع آوری جو شائع ہو چکی ہے کی کیفیت کے لحاظ سے ریسرچ کریں آپ کی نگاہ میں ان کتابوں میں اور ۲۰۰۰ء کی دہائی میں چھپنے والی کتابوں میں نظریاتی ہم آہنگی ہے ؟

ہم نے جنگی یاداشتوں اور انقلاب کی یاداشتوں کی تدوین میں دو مرتبہ چھان پھٹک کی ہے جتنا ہم واقعہ کے نزدیک ہوتے ہیں اتنا ہم اپنے آثار میں شعار زیادہ دیکھتے ہیں اور جتنا اس واقعے سے فاصلہ ہوتا ہے اتنا ہی اپنے کاموں میں غور و فکر اور شعور زیادہ دیکھتے ہیں  ان دونوں باتوں کا ہونا عام سی بات ہے ایک طبیعی امر ہے یعنی اگر آپ دیکھیں وہ افراد جو اس پہلے دور میں تھے اس دور کو نظریاتی دور کہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ  ان تعبیروں کے ساتھ کام کو چھوٹا کر کے بیان کریں ،میں اس کو قبول نہیں کرتا ،میں اس دور کو طبیعی سمجھتا ہوں ،وہ آثار اب ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاشرہ کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہو سکتاہے کہ اس زمانے میں جو داستان اس زبان میں  لکھی گئی ہو وہ اس زمانے میں کو ئی کشش نہ رکھتی ہو ،لیکن میری نظر میں کو ئی مشکل نہیں وہ داستان بھی اس ملک کاتاریخی ادب ہے اور اپنی جگہ قابل قبول ہے ۔

اس زمانے میں لکھی گئی داستانیں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ ہم آج کی نگاہ سے جب ان کو دیکھیں اور اپنے ماضی کو دہرائیں تو اس بات کا احساس کریں کہ ان آثار میں عیب ہے ،کمی ہے اور قبل اس کے کہ ہم واقعات کو پڑھیں مصنف کے احساسات کی تصویر ہمارے سامنے آجا تی ہے ،لیکن میں اسے عیب نہیں سمجھتا بلکہ یہ اس وقت کا تقاضا تھا اور طبیعت کا جز تھا  ،اس سب کے باوجود یہ سب آثار  انقلاب اسلامی کی اسناد و منابع ہیں دستاویزات کی شناخت کے ساتھ ان سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر ، یادواره نهضت اسلامی تا ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء چهره انقلاب ، جو اصفہان سے انقلاب کے شروع  میں شائع ہوئی جب آپ اس کتاب کی ورق گردانی کریں گے تو اس بات کا بخوبی اندازہ کرلیں گے کہ اس میں نظریاتی باتیں بھری پڑی ہیں  لیکن اس کتاب میں جو واقعات موجود ہیں ہو سکتاہے کسی اور کتاب میں موجود نہ ہوں یعنی ان بعض واقعات کے لئے یہ کتاب سند ہے ،ہم کتاب کے اس حصے سے جس میں شعار اور صرف نعرے ہیں استفادہ نہیں کریں گے لیکن واقعات اس میں سے لیئے جا سکتے ہیں اور اس سے استناد کیا جا سکتا ہے زمانے کے گذرنے کے ساتھ ہم شرح حوادث سے نزدیک ہو ئے ہیں ایک مکمل سفر ہے ،گذشت زمان کے ساتھ آثار پر ہمارا غورو فکر کرنا زیادہ ہوا ہے اسی وجہ سے شعار اور نعرے بازی اور نظریاتی باتیں کم ہو تی ہیں اب اس نکتے کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ ۲۰۱۰ء کی دہائی میں کہا جا سکتاہے کہ ایسی کو ئی کتاب نہیں جس میں اوئل انقلاب کی فضاہو ۔

سوال: وہ افرد جنھوں نے تاریخ انقلاب پر لکھی جانے والی کتابوں پر تنقید کی ہے کہ وہ کتابیں جو شائع ہو تی ہیں وہ تاریخ دانی کے کسی طریقہ کار پر نہیں ہیں یعنی تاریخ کے جمع کرنے کے جو اصول ہیں ان اصولوں پر یہ کتاب نہیں ہے ،آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟

جواب: یہ اعتراض ٹھیک ہے ،ہم تاریخ نگاری کے اصولوں کی پابندی کے لحاط سے اس کے مطلوبہ دور میں نہیں ہیں ۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس تاریخ نگاری کے سارے وسائل موجود ہیں،ہم سارے اصولوں پر مسلط ہیں ،میں پھر کہہ رہا ہوں کہ ہم ابھی منابع کے دور میں ہیں ،ناکہ تحریر کے دور میں ابھی ہم جمع آوری کے دور میں ہیں ،اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہاتھ بھرا ہوا ہے تو ہمارا ہاتھ منابع سے بھرا ہے اور یہ منابع تاریخ لکھنے کی ایک سیڑھی ہے ایک بنیادہے جس کے ذریعے سے اوپر چڑھا جا سکتاہے ممکن ہے کہ یہ منابع ۲۰۱۰ء  کی دہائی یا انقلاب کے سال کی تاریخ نویسی کے سال ہوں ،انقلاب کی صورت میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے تاریخی منابع ملک میں ہی ہیں اور یہ میری نگاہ میں خوش آیند ہے خوش نصیبی سے ہم نے انقلاب کی تاریخ کے منابع وافر مقدار میں بنالیئے ہیں جو انقلاب کی تاریخ لکھنے کے لئے کافی ہے اب محقیقین اور مورخین کا کام ہے کہ وہ ان منابع سے عہد تفسیر و تحلیل کو قائم کریں اور ان منابع سے مستند اور دقیق چیزیں نکالیں ۔

اب بھی ہمارا ہاتھ اتناخالی نہیں ،انقلاب اسلامی کی تاریخ کے بارے میں اچھی کتابیں ہیں جن میں اچھا کام ہوا ہے ،ابھی تو ہم منابع کے فروانی کے دور میں ہیں آئندہ سالوں میں ہم اسلامی انقلاب کی تاریخ کے تحریری دور میں داخل ہو ں گے ۔

سوال: تاریخ  معاصر کی وہ کتابیں کہ جو دوسرے ممالک میں چھپتی ہیں وہ کتابیں ہماری کتابوں پر اثر انداز ہو تی ہیں ؟

ان کتابوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا نہ وہ ہمارے منابع ہیں جو ہم نے بنائیں ہیں انھیں بغیر پڑھے نہیں گذر سکتے ہیں اور نا ہم ان کی کتابوں سے چشم پوشی کر سکتے ہیں، بہر حال کچھ نایاب قسم کی چیزیں دنوں میں موجود ہیں ان کتابوں کو دیکھنا ضروری ہے اور ان کی ترکیب سے سچائی سامنے آسکتی ہے یعنی جب ان کے مطالب اور ہمارے مطالب ملائیں جائیں گے تو سچائی سامنے آئے گی جو مورخ کے مدنظر ہے وہ سامنے آئے گا ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیوں کہ وہ لوگ ہمیں اچھے نہیں لگتے اس لئے ہم ان کے منابع کو نہیں دیکھیں گے اور نا ہی وہ ایسا کہہ سکتے ہیں ان موراد میں تعصب کا کو ئی عمل دخل نہیں ہے ہمیں ہر منبع کو دیکھنا ہے دوسری جانب ان کے منابع ہیں یہ صرف ہم نہیں ہیں جن پر تعصب کا الزام ہو بلکہ وہ اس میں پیش پیش ہیں ۔

اس حال میں جو تاریخ نگاری میں جانا چاہتا ہے مطالب کو ان سے بالا ہوکر اپنائے اور دونوں گروہ کے منابع کو ساتھ رکھ کر تحقیق کرے تو وہ اس حقیقت تک پہنچ جا ئے گا جس کا وہ خواہاں ہے ۔

سوال: انقلاب کی زبانی تاریخ کی تکمیل کے لئے بعض بچے کچے پہلوی سرکار کے افرد کی جانب رجوع کرنا آپ کی نگاہ میں کیسا ہے ؟

اگر ممکن ہو تو یہ ایک اچھا کام ہے ،وہ کام کہ جو حسین دھباشی نے انجام دیا ہے اور خوش بختی سے اس کتاب کو قومی لائبریری نے شائع بھی کیا ہے ایک قیمتی کام ہے ،دھباشی نے سفر کیا کہ جو بہت ہی سخت تھا امریکہ گئے اور ان بعض افرد سے ملے کہ جو پہلوی سرکار کے مہرے تھے ان سے انٹرویو کئے اور اُس گفتگو کا لب لباب شائع ہوا یقیناً یہ ایک اچھا اثر ہے اور قابل استفادہ اورہماری تاریخ نگاری کی تکمیل کا راستہ ہے ۔

سوال: تاریخ معاصر کے بعض تحقیقی اداروں نے پہلوی سرکار کے کچھ افرد سے انٹرویو لیے لیکن یہ انٹر ویو انقلابیوں کے انٹرویو ز کی مانند پورے شائع نہیں ہو ئے آخر یہ محدودیت کیوں ہے ؟

جواب: اہم یہ ہے کہ یہ باتیں محفوظ ہو گئیں ،شاید ققت کا تقاضا یہی ہو کہ تمام تر انٹرویو شائع نہ ہوں لیکن زمانے کے گذرنے کے ساتھ وہ موقع بھی آئے گا کہ ان کے تمام کلمات سے فائدہ اٹھایا جا ئے ،تمام باتیں کہ جو مخالف کی ہوں یا موافق کی ہو ں سب کی سب درست یا غلط نہیں ،اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ سماج کی ضروریات ان بعض کلمات کے کہنے کی اجازت دے  اور بعض کی اجازت نہ دے ۔

وہ ممالک کہ جو اپنی شفاہی تاریخ کو محفوظ کئے ہوئے ہیں اور محفوظ شدہ اسناد کو شائع کر رہے ہیں وہ بھی اس طرح کے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں ۔مثلا ایک تعریف کی جا تی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ۳۰ سال کے بعد وہ اپنی اسناد کو عام کر دیتے ہیں لیکن جب وہ دستاویزات کو عام کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے بعض پوشید ہ ہیں اور انھیں شائع نہیں کرتے میں  نےجب ایک ریسرچ کے سلسلے میں  ایک غیر ملکی محفوظ شدہ دستاویزات کی جانب رجوع کیا تو دیکھا کہ بعض صفحات بالکل سیاہ ہو چکے ہیں اور یہ بات اس کی جانب اشارہ ہے کہ اس وقت کی حکومت نے یہ کام کیا ہے اور ان کی تشخیص یہ تھی کہ یہ دستاویزات باہر نہ جائیں پس یہ محدودیت صر ف ہمارے ہاں نہیں ہے ،بہت سے ممالک میں مصلحت کی بنا پر محدودیت کو انجام دیا جا تا ہے

سوال: سیاسی روداد نویسی پر نقد کتاب کی کیفیت کو کتنا معیاری  کر تی ہے ،آپ کی نگاہ کیا ہے ؟

بہت مدد کرتی ہے اگر چہ یہ بات بہت تکراری ہے کہ نقد اگر مشفقانہ ہو اور دوسری جانب قبول بھی ہو تو یقیناً قابل رشد ہے اور تحقیق میں مددگار ہے خوش بختی سے ابھی تاریخ شفاہی کے شعبے میں ہم نے یہ کام انجام دیا ہے اور اس میں پیشرفت بھی ہوئی ہے یعنی جس طرح سے ہم نے عمل کے میدان میں ترقی کی ہے اسی طرح نظریہ پردازی میں بھی پیشرفت کی ہے  اور ایک اچھا مقام حاصل ہوا ہے ،

یہ ایک اہم مسئلہ ہے اورتاریخ شفاہی کے میدان میں  یونیورسٹیز کے لئے ایک نئے شعبے کی تاسیس کا مقدمہ ہے ۔

سوال: اسلامی انقلاب کی سیاست کے واقعات کو دستاویزات کے ساتھ محفوظ کرنا ،تاریخ نگاری کی کیفیت کو بڑھانے کے لئے کتنا موثر ہے ؟۔

جواب:  جو فرد بذات خود اس میدان میں قدم رکھتا ہے اس کے لئے  پہلی دستاویز ات  یہی ہیں ،یہ سند مختلف شکل کی ہو سکتی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ورق ہو جس کا تعلق ساواک سےہو جسے انھوں نے کسی سیاسی فرد کے تعقب کے دوران لکھا ہو اور جسے بعد میں انھوں نے محفوظ کیا ہو ،یہ ایک سند شمار ہو تی ہے ،اسی طرح کسی شخص کی بات جو اس نے کسی فرد کے بارے میں کہی ہو یا کسی واقعے کو بیان کیا ہو اور کسی جگہ یہ بات محفوظ ہو گئی ہو ، یہ بھی ایک سند ہے ،اخبارات میں کسی واقع کے بارے میں کو ئی خبر آئی ہو یہ بھی ایک سند ہو گی  وہ حادثات جو کسی ایک جگہ پر ہو ئے ہوں اور جن لوگوں نے اس حادثے کو دیکھا ہے وہ عام افرد یا دکاندار تھے پتھارے دار تھے ان کی بات بھی سند ہو گی کیوں کہ انھوں نے اس حادثے کو دیکھا ہے ،اسی طرح سے گولی کا نشان یہ بھی ایک سند ہے ،یہ سب اسناد میں شمار ہو تے ہیں ان تمام چیزوں کو مورخ کی نگاہ سے دور نہیں ہو نا چاہیے محقق ان سب کو دیکھے اور ان کی جانب متوجہ رہے ،اسی طرح ہم ایک بہت بڑی فیلڈ میں ہیں کہ جہاں کوئی بھی چیز سند بن سکتی ہے ،لیکن ہماری اصطلاح میں  سندایک ورق ہوتا کہ جس میں اس حادثے یا اس واقعے کے بارے میں کچھ لکھا ہو۔

سوال: آپ نے مقام معظم رہبری کی سوانح حیات بنام  شرح اسم  تحریر کی ،کہ جو ہمارے بحث سے بے ربط نہیں ،اس کتاب کی تالیف میں آپ کو کس حد تک اسناد و دستاویزات تک دسترس تھی ؟

جواب: اس کتاب کی تالیف میں بہت ساری اسناد سامنے تھی میری کوشش تھی جو کچھ اس شخصیت کے بارے میں مشہور ہے اس کو حآصل کر وں،دو طرح کی اسناد اس مسلئے میں موجود تھیں ایک اسناد کاغذی اور دوسری زبانی تھی کچھ اسناد تھی کہ جو پہلوی سرکار کے زمانے میں لکھی گئیں اور کچھ زبانی تھی کہ جو بعد میں کتابی صورت میں لکھی گئی ،پہلی سند جو ہمارے اس عظیم ہیرو کے بارے میں ملی وہ شنشاہی فوج سے ملی اسی طرح جاسوسی کے دفاتر سے جو اس وقت باقی رہ گی تھی ،ہمیں ملی ،یہ سند قابل توجہ تھی کیوں کہ یہ مخالفین کے ہاتھوں سے لکھی ہو ئی تھی اس میں کچھ ہونا طبعی سی بات تھی حکومت کی جانب سے اس میں الزامات تھے نہ کو ئی فضیلت ،ہماری اسناد کا دوسرا منبع گفتگو اور ان کی آپ بیتی تھی جو مقام معظم رہبری نے خود بیان کی تھیں ،میں نے خود اس گفتگو کو بار ہا پڑھا اور اس بات کی جانب متوجہ ہوا کہ بیان کرنے والا اپنی بڑائی بیان کرنے سے دور ہے   بہرحال مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ دونوں طرح کی اسناد کو حاصل کروں البتہ کچھ ایسے افراد تھے جو ان کے بارے میں اپنی یاد اشتیں رکھتے تھے ،اس تیسری قسم کی اسناد کے لئے میں نے اپنی کمر کس لی، اسی وجہ سے کتاب نے ایک بند فضا میں رشد کیا ،اگر میں تیسری قسم کی اسناد کی جانب جاتا تو بہت سے افرد سے ملنا پڑتا اور اس کتاب کی خبر عام ہو جاتی اور اس کام کے لئے موانع پید اہو جا تے جن کی تعداد بہت تھی ،لہذ ا میں نے چند ہی لوگوں سے گفتگو کی کیوں کہ جس کے بارے میں لکھنا تھا وہ اس مملکت کی اول شخصیت تھی لہذ بہت سے لوگ ا س پر بات کرنے کو تیار نہ تھے یہی ہمارا ضعف تھا کہ ہم اس کتاب کے لئے جتنے افرد سے ملنا چاہتے تھے نہیں مل پائے اگر وہ لوگ چاہتے تو کچھ کہہ دیتے لیکن انھوں نے نہیں کہا لیکن کاغذی اسناداور خود رہبر کی گفتگو  کے حوالے سے میں پُر تھا اور شاید کتاب کی کامیابی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ رہبر کے بارے میں  پہلوی حکومت کی اسناد موجود تھیں، ان دونوں اسناد کے طفیل ہم اپنے ہیرو کی حقیقت سے قریب ہوگئے۔

سوال: محصولاتی کتاب کی روایت میں پہلے شخص اور تیسرے شخص کے لئے مفر د کا فعل استعمال کیا گیا ،اس کے انتخاب کی کیا دلیل ہے ،سیاسی خاطرات کی روایت کا یہ طریقہ کیا ہے ؟۔

جواب: افعال کے اس کھیل کا مقصد اس زمانے کو بیان کر نا تھا کہ جس زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے ،میں اس بارے میں ناچار تھا کہ ایک فعل ماضی بلکہ بیشتر افعال سے استفادہ کروں ،اگر آپ نے دقت کی ہو تو دیکھیں کہ میں نے ماضی بعید ،سادہ اور ماضی نقلی سے استفادہ کیا ہے اور یہ صرف اس لئے کہ قاری مانوس ہو جائے کہ یہ واقعہ کس زمانے میں ہوا ہے  ۔

سوال: اس کتاب سے پہلے سید قطب کی کتاب رہبر کی شخصیت کو اتنا نہ ابھار سکی اس کتاب کا اس سلسلے میں بڑا کردار ہے جبکہ سید قطب کی کتاب میں رہبر کی ثقافتی سرگرمیوں کا تذکرہ  بہت زیادہ ہیں ،اس کتاب کے غیر مانوس رہنے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے ؟

جواب: وہ بات جو رہبر کے لئے اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلوی حکومت سے جنگ ان کا اپنا انتخاب تھا جس کا انھیں  جیل ،عقوبت خانہ ،ٹارچر ،گھر سے دوری کی صورت میں تاوان دینا پڑا ،لیکن انھوں نے ثقافتی جد وجہد بھی کی ،انقلاب سے پہلے ان کی زندگی اس طرح کی تھی جسے کسی بھی طور معمول کی زندگی نہیں کہا جاسکتا ایک ایسا شخص جس کی زندگی عام نہ ہو گھر سے دور معاشرے سے دور ہمیشہ اس فکر میں رہے کہ نا جانے انھیں کب گرفتار کر لیا جا ئے گا ،لیکن ان پریشانیوں کے باوجود بھی وہ ثقافتی مسائل کو بھی اہمیت دے یہ غیر معمولی ہے ،جب قاری اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے عجیب احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے رو برو ہے کہ جس کے پیچھے اتنے خطرات ہیں لیکن وہ ثقافتی سرگرمیوں میں بھی مشغول ہے اور اس شخص کی  شخصیت انھی خطرات میں نمایاں ہوتی ہے اگر انھیں فرصت ملتی تو یہ ثقافتی مسائل کی گروہ بندی کرتے ،البتہ اس نکتے کی جانب بھی اشارہ ضروری ہے کہ امام خمینی ؒکی تحریک کے درجہ اول کے پیرو اور بھی تھے لیکن رہبر کے وجود میں اس پیروی نے رنگ بھر دیا وہ تفسیر اور شرح نہج البلاغہ کے جو انھوں  نے دی ہے اب تک اہمیت کی حامل ہے ، اسی زمانے میں انھوں نے ایک اہم کتاب صلح امام حسن علیہ السلام کا ترجمہ کیا یا سید قطب کی کتاب پر بحث کی ،اس طرح کے کام انسان کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں جبکہ آپ مشہد کے ایک گاوں میں  چھپ کر زندگی گزار رہے تھے اس خوف کے ساتھ  کہیں ایجنسیاں ان تک نہ پہنچ جا ئیں اپنے وقت کو ضائع کئے بغیر اپنے ناتمام ترجموں  میں اپنے وقت کو صرف کیا ،یہ طریقہ کار قاری کی نگاہ میں انھیں قیمتی بنادیتا ہے۔

سوال: جب آپ اسناد جمع کر رہے تھے تو کیا ایسی اسناد نظر آئیں کہ جو دوسری اسناد سے ٹکرارہیں تھیں ،اب جب ہم انقلابیوں کی داستانیں پڑھتے ہیں اور موجودہ افرد سے پوچھتے ہیں تو بڑا فرق ملتا ہے کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا؟

جواب: ایسا ہی ہے ،جو بھی تاریخ معاصر کے میدان میں داخل ہوتا ہے تو اسے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک واقعہ  چند پہلوں سے نظر آتا ہے ہر شخص نے اپنی فکر کے مطابق ان تعبیرات کا استعمال کیا ہے اس بات کا امکان ہے کہ  کسی سند یا کسی واقعہ سے وہ تبدیل ہو جا ئے ،اب یہاں سے محقق کا کام شروع ہو جاتاہے وہ اسناد کی شناخت کے ذریعے اس بات کو پہچان سکتا ہے کہ کون سی بات درست ہے یہ مہارت کتاب کو چار چاند لگا سکتی ہے یہ وہ چیز ہے جو محقق کو اس سلسلے میں  جستجو سے نزدیک کر سکتی ہے اور اس کی دریافت میں اسے چند تعبیر اور تفسیر کے روبرو کر سکتی ہے اس وقت کو ئی چارہ نہیں کہ کہ جب حقیقت تک رسائی نہیں ہو رہی ہو تو اسے چاہیے کہ دونوں باتوں کو نقل کرے ،لیکن سند شناسی ایک ایسا اہم کام ہے جس کی مہارت بہرحال محقق کو ہونی چاہیے۔

سوال: آپ کی ایک کتاب کہ جس کانام سفر بہ قبلہ تھا کہ جو ۱۹۹۱ ء میں شائع ہو ئی مقام معظم رہبری نے اس کے حاشیے میں لکھا کہ ،،یہ کتاب اجمالی ،شیرین باروح اور ہوشمندی کے ساتھ لکھی گئی ہے ،، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ،، شرح اسم ،، مقام معظم رہبری کو کتنی پسند آئی ہو گی ؟

جواب: اس  سوال کے جواب سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی کلیات کی جانب اشارہ کر دوں اور وہ یہ کہ اگر یہ کتاب مورد توجہ قرار پائی ہے تو اس سے پہلے یہ جان لیں کہ یہ کتاب مصنف کی کوشش اور عرق ریزی کی جانب اشارہ کرتی ہے   یہ توجہ  کتاب کی شخصیت سے مربوط ہے ،اگر میں اسی کتاب کو کسی اور شخصیت کے بارے میں اسی طرح لکھتا تو یہ بات طبیعی ہے کہ اتنی مورد توجہ قرار نہیں پاتی لہذا اس کتاب کی مشہوری شخصیت کی وجہ سے ہے یعنی وہ لوگ جو رہبر کی جانب متوجہ ہیں اس کتاب کی جانب بھی متوجہ ہوئے نا کہ اس کے مصنف نے اس کتاب میں تاریخ کو ادبی رنگ میں ڈھالا ہے ،سفر بہ قبلہ بھی یہی ہے کیوں جناب زیارت خانہ خدا نہیں کر سکتے ان کا دل اس زیارت کے لئے تنگ ہے وہ اس زیارتی سفر پر نہیں جا سکتے  اور اور اس طرح سے جس طرح سے وہ چاہیتے ہیں ایک حج تمتع نہیں کر سکتے دل چاہتا ہے کہ جائیں لیکن نہیں جا سکتے ایک حسرت ان کے دل میں ہے اور جب یہ کتاب ان کے سامنے پیش ہو ئی تو یہ حسرت اور بڑھ گئی لہذا انھوں نے اس طرح کے کلمات تحریر فرمائے ،شاید کتاب کی روش اور طریقہ کار نے انھیں اس ردّعمل پر مجبو ر کیا ہو  لیکن مجھے یقین ہے وہ حسرت کہ جو ان کے دل میں ہے کہ وہ ایک ایسے حج پر جائیں  یہ حسرت سبب بنی کہ اس طرح کے کلمات کتاب کو پڑھ کر بیان کریں۔

سوال: شرح اسم لکھنے کو کسی نے کہا تھا یا آپ نے خودہی کہا کہ ایسی کتاب چاہتا ہوں ۔؟

جواب: مجھ سے کہا گیا اور میں نے نہیں چاہا کہ کسی طرح اس عظمت کو ہاتھوں سے جانے دوں یا تو میں روشن فکروں کی مانند کہتا کہ نہیں میں یہ کام نہیں کر سکتا مجھے حکومت سے کوئی سرکار نہیں ،خود کو ان سے دور رکھتااور سن ۶۰ء کے عشرے والی باتیں دہراتا یا یہ کہ میں اسے قبول کر لیتا البتہ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے  لئے نہیں ، منصف کے لئے جو لایا جاتا ہے وہ اسکا اسم ہے اس کی تعریف ہے اور حق تالیف ہے ،کہ جو کتاب لکھنے کے بعد آتا ہے ،اس کتاب کو لکھنے سے پہلے میرا نام یہی تھا اس کتاب کے چھپنے کے بعد میرے نام میں کو ئی فرق نہیں آیا ،دوسری جانب میری مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ حق تالیف لیکر مجھ میں کو ئی مالی تحول آتا میں نے اس کتاب کے لکھنے کو قبول کیا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھ پر مقام معظم رہبری کامعنوی قرض ہے اور میں چاہتا تھا کہ اس قرض کو ادا کیا جا ئے  اور اس بات کی امید کرتا ہوں کہ کچھ تو قرض اداہوا ہوگا ۔

سوال: شرح اسم میں کسی بھی قسم کی بناوٹ اور تکلف سے کام نہیں لیا گیا ہے کیا اس قاری کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے ؟

جواب: اس جواب کی بازگشت پچھلے سوال کے جواب کی جانب ہو گی کہ جب کہا کہ ۸۰ء کی دہائی نظریاتی ہے اور اس کے بعد وہ ماحول نظر نہیں آتا ،ہم ابھی کسی اور دور میں ہیں ہمارے مخاطب پچھلے مخاطبین سے فرق رکھتے ہیں ،ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم زبان اور ادب کا اس طرح انتخآب کریں کہ معاشرہ کے بیشتر افرد اس بات کو سمجھ سکیں نا ایک گروہ ، البتہ پر تکلف لکھنا میری عادت نہیں ،شاید اگر اس کتاب کو میرے علاوہ کو ئی اور لکھتا تو پُر تکلف ، نپے تلے انداز سے ،پورے جاہ و حشم کےساتھ اس کتاب کو لکھتا لیکن نا میرا انداز ایسا ہے اور نہ میں اس طرز تحریر پر اعتقاد رکھتا ہوں اور نہ ہی زمانے کی ضرورت ہے ۔

سوال: کس طرح سے تاریخ نگاری کے اداروں میں بے کار کام یا تکراری کام بلکہ کبھی گرا ہوے کام کو روکا جا سکتاہے ؟ فی زمانہ اتنے محققین کے ہوتے ہوئے تاریخ انقلاب کے کچھ ایسے آثار دیکھنے میں آتے ہیں کہ تحریر کے لحاظ سے اچھے نہیں ہیں ،جو واقعات ا س میں ذکر ہیں ان میں سے بعض مبہم ہیں اور کسی واقعے کے بارے میں اس کی معمولی سی تحلیل دیکھنے میں آتی ہے ؟ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب: آپ کے سوالوں کو دو طرح سے دیکھا جا سکتاہے ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم خود تاریخ کو جمع کرنے کے درپے تھے اور خود ہی لکھنا چاہتے تھے دراصل ہم نقطہ صفر پر تھے ،آپ فرض کریں کہ ۸۰ ء کی دہائی میں ہمارے پاس کتنے  تعلیمی  تجربہ کا ر مورخ تھے  کہ جو آگے بڑھتے اور تاریخ انقلاب کو لکھتے ؟اس بنا پر اس انقلاب نے ہمیں یہ موقع دیا کہ ہم خود کو آزمائیں ، اگر یہ کتابیں کہ جن کا ذکر آپ نے کیا ہے جن میں نقص ہے یہ اسی آزمائش کے دور کی ہیں اور میری نگاہ میں یہ طبیعی ہے، لیکن کچھ دہایوں کے بعد بھی اگر ہم یہ غلطی کریں اور اپنے سرمایے کو جلائیں  تاریخ نگاری کے طریقہ اور اصولوں کی رعایت نہ کریں تو حق آپ کے ساتھ ہے کیوں ایسی کتابیں چھپتی ہیں اگر شائع کرنے والوں کو روکا جا ئے تو بہتر ہے ۔

یہ جو آپ نے تکراری کام  کی جانب اشارہ کیا تو یہ نہیں کہا جاسکتاکہ تمام ادارے کہ جو تاریخ میں تحقیق کرتے ہیں وہ سب کے سب آئیں اور اپنے سارے پرگرام کو سامنے رکھیں اور کہیں کہ ہم ان اشخاص کے بارے میں اور ان واقعات کے بارےمیں کام کر رہے ہیں اور آپ ان کاموں کو انجام نہ دیں   میری نظر میں بعض تکراری کام کرنے میں کوئی مشکل نہیں ،ایک شخصیت  کے  بارے میں یا ایک واقعے کے بارے میں صرف ایک ادارے کو  کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ محقق کی طرز تفکر   کی بنا پر کام ہو نا چاہیے مثال کے طور پر مشروطہ کے بارے میں کتنی کتابیں لکھی گئیں ؟ ہر فکر کے فرد نے اس بارے میں کتاب لکھی یہ پھیلاو انتشارات پر اعتراض لاگو نہیں کرتا اگر انقلاب اسلامی کی تاریخ کے میدان میں تکراری کام ہو تو یہ کام کا حسن ہے لیکن کتابوں کے ضعف کے بارے میں حق آپ کے ساتھ ہے ۔

جو اعتراضات آپ نے کئے ہیں اگران نقائص  کے ساتھ کتابیں شائع ہو رہیں ہیں تو نقد ہو نا چاہیے تاکہ اس فساد کو روکا جا سکے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس طرح کی کتابیں فنی تر ہوں لیکن اگر ایک موضوع پر کئی ادارے کام کریں تو میری نگاہ میں کو ئی مشکل نہیں۔

سوال: مکرر کاما ہوتا ہے تو وقت کا ضیاع ہوتا ہے اس وقت کو ان لوگوں کی یاداشتوں کو محفوظ کرنے پر صرف کرنا چاہیے جو ابھی اس انتظار میں ہیں کہ ان کی  بات بھی محفوظ ہو ،پہلا پراجیکٹ اعلیٰ افرد کی یاداشتوں  کا تھا کہ جو مکمل  ہو گیا ،وہ افرد کہ جو متوسط ہیں جیسا کہ علی اکبر پرورش جو فوت ہو گئے اور ان کی یادداشت محفوظ نہ سکی ،اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب: آپ نے درست کہا، جب حضرت امام خمینی ﴿رہ﴾ نے انقلاب اسلامی کے مرکز کو سید حمید رحانی کے سپر دکیا اگر آپ کو یاد ہو تو انھوں نے کہا تھا کہ ان لوگوں کی تلاش کرو اور تاریخ انقلاب کو ان کی زبان سے حاصل کر واس عظیم انسان کے افکار اب بھی بے نظیر ہیں حتیٰ وہ تاریخ انقلاب میں اس بات کے معتقد تھے اس تاریخ کو معاشرہ کے لوگوں سے لو اور اس بارے میں آپ کی بات درست ہے کہ ہم سب سے پہلے بڑے افرد کے پاس گئے اور ان کی یاد داشتوں کو محفوظ کیا اور بہت کم ان افرد کے پاس گئے کہ جو متوسط تھے جبکہ جنگ میں اس کے برعکس ہو ا،تاریخ جنگ میں متوسط افراد نے اپنے واقعات بیان کیئے کمانڈرز اور جرنل رینک کے افرد نے کو ئی گفتگو نہیں کی جنگی واقعات میں جنگ میں جانے والوں ،لڑنے والے اور گرفتار ہونے والے زیادہ تر مورد توجہ قرار پا ئے ،لیکن انقلاب میں اس کا الٹ ہوا ،جنگ میں ایسا ہو اکہ جنگ پر جانے والوں کی سنی گئی لیکن انقلاب کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ۔

سوال: تاریخ کے محقق کے لئے ایک مشکل اسناد و دستاویزات تک پہنچنا ہے کیوں کہ یہ مختلف جگہوں پر ہیں ، اگر تمام اسناد اور دستاویزات ایک جگہ جمع ہو جا ئیں  تو یہ مشکل حل ہوجا ئے اور سب کی دسترس میں رہے آپ کیا کہتے ہیں ؟۔

جواب: بجافرمایا ،جیسا کہ کاربار ی افرد کہا کرتے ہیں کہ حق گاہک کے ساتھ ہے اس مدت میں حق محقق کے ساتھ ہے  جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دستاویزات تک رسائی مشکل ہے تو یقیناً وہ درست کہتے ہیں ۔ اس مشکل کی کچھ وجوہات ہیں ﴿١﴾ کچھ اداروں نے ابھی دستاویزات کو عام نہیں کیا ہے جیسا کہ محکمہ پولیس نے ابھی اپنی دستاویزات کوعام نہیں کیا ہے   سارے ادارے اس سلسلے میں آپس میں ارتباط میں ہیں وزارت اطلاعات خارجہ سے لیکر عدلیہ تک سارے ادارے  ﴿۲﴾ اگر دستاویزات عام بھی ہو گئیں  تو اس سے استفادہ نہیں کیا جا سکتافرض کریں کہ امور خارجہ نے قاچار کے دور کی دستاویزات عام کردیں لیکن ایک محقق ١۲۷۵ ہجری  کے سال کو دیکھنا چاہتا ہے اور کسی خاص شخص کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہے وہ اسناد کے روم میں جاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس ڈھیر میں وہ اپنے مد نظر اسناد کو کہاں ڈھونڈے ۔

اس کمی کو ضرور پورا ہونا چاہیے لیکن یہ سب ثبوت ایک جگہ جمع ہوں یہ ہماری ترجیح نہیں بلکہ ہمارے ترجیح محقق کو اسناد کی فراہمی ہے اب یہ ایک جگہ سے حاصل ہو یا دوسری جگہ سے حاصل ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ۔ہم ایک ایسے طریقہ کار کی فکر میں ہیں جس سے محقق کو آسانی ہو تاکہ وہ دستاویزات تک رسائی حاصل کر لے ،اگر چہ ہمارے قانون میں اسناد کو ایک جگہ جمع کرنے کی جانب صراحت سے اشارہ ہوا ہے اور اس ذمہ داری کو بعض ملکی اداروں نے انجام دیا ہے اور بعض ادارے اس امر میں کام نہیں کر رہے لیکن قومی دستاویزات کاادارہ ان سب باتوں کی توانائی نہیں رکھتا ،قومی محفوظ شدہ دستاویزات کے ادارے میں اسناد کا ایک انبار ہے کہ اپنے مورد نظر اسناد  تک پہنچنا محقق  کے لئے آسان نہیں ۔

سوال: شائع ہونے والی دستایزات پر بعض ممالک کی نگاہ مثبت کیوں نہیں ہے ؟

جواب:  میری نگاہ میں ان آثار کی مخالفت کو ئی مشکل نہیں ہمیں اس بات کو نہیں سوچنا چاہیے کہ سب  کے سب موافق ہوں ،ہر کام کے کچھ مخالفین ہیں ،نزول وحی کے بھی مخالف تھے چہ برسد یہ زمینی کام ،وہ لوگ کہ جو کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے مخالفت اور موافقت کو ئی اہمیت نہیں رکھتی وہ  اپنے مدنظر مطالب کو کتابوں سے نکالتے ہیں اور اس سے استفادہ کر تے ہیں۔

سوال: بہبودی صاحب برائے مہربانی ابھی جو آپ  تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں ا ن کے بارے میں کچھ بتائیں ؟۔

جواب: آخری کام کہ جس کو میں نے انجام دیا ہے اور بہت ہی مشکلات کا سامنا کیا ہے وہ ،، روز شمار تاریخ معاصر ایران ،، کی پانچویں جلد تھی کہ جوتہران کی نمائشگاہ میں رکھی ہے ،دوسری کتاب کہ جو کچھ عرصے پہلے چھپی ہے ،، سفر بہ جزیرہ سوختہ ،، تھی کہ جو میرا جاپان کا سفر نامہ تھا ،ابھی میں امام خمینی ﴿رہ﴾ کی سوانح حیات لکھ رہا ہوں کہ جو مشکل ترین کام اور ذمہ داری ہے کہ جو میرے کاندھوں پر آئی ہے نہیں معلوم میں اس ذمہ داری کو نبھاپاوں گا یا نہیں ،ابھی کوئی اور عنوان پیش نظر نہیں ہے ، عمر ،طاقت اور منابع جو موجود ہیں اس سوال کا جواب دیں گے کہ یہ کتاب مکمل ہو گی یا نہیں لیکن میں اپنی سی کوشش ضرور کروں گا ۔

سوال: تاریخ نگاری انقلاب کی اچھی کیفیت کے لئے آپ کی کیا نصیحت ہے ؟

جواب: میں اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کو ئی نصیحت نہیں کر سکتا کیوں کہ میں کوئی پوسٹ نہیں رکھتا لیکن امام خمینی ﴿رہ﴾ کی ایک بات نقل کروں گا جو حسب حال ہے ،انھوں نے فرمایا ،، جو جہاں بھی ہے وہ اچھی طرح کام کر ے ،،اس کا نتیجہ یہ ہی نکلے گا کہ وہ ترقی کرے گا۔



 
صارفین کی تعداد: 4465


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔