مدرسہ کی دادیاں

راوی: خانم زہرا درویشی

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-5-13


اسکولوں  میں حجاب پر پابندی عائد ہوچکی تھی اور لڑکیاں مجبور تھیں کہ اسکول کا یونیفارم ہی پہنیں۔ میرے والد سخت مذہبی انسان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں کہ میری بیٹیاں اس حال میں تعلیم حاصل کریں۔ اسی وجہ سے جب میری عمر  اسکول جانی کی ہوئی  تو انہوں نے مجھے اجازت نہیں دی کہ میں اسکول جا سکوں۔ تین چار سال کے بعد زینب نے اس معاملہ میں قدم اٹھایا اور اس کی ضد نے والد صاحب کی رائے کو تبدیل کر دیا۔ باوجود اس کے کہ میں (زہرا درویشی) زینب سے بری تھی مگر ہم دونوں کو ہی پہلی کلاس میں داخلا ملا۔

اسکول کے پہلے دن میرے والد ہمارے ہمراہ اسکول آئے اور پرنسپل سے کہا کہ میری بیٹیاں چادر اوڑھ کر اسکول آئیں گی اور کسی کو ان پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ پرنسپل نے بھی اس کو قبول کرلیا۔ ابھی کچھ دن ہی گذرے تھے کہ اسکول کا چپڑاسی ہماری کلاس میں آیا اور ہماری چادریں چھین کر ایک تھیلے میں بھریں اور کہا کہ میں ان چادروں کو جلا رہا ہوں اور یہ آخری مرتبہ ہے کہ  تم لوگ چادر پہن کر  اسکول آئی ہو آئندہ کوئی چادر پہن کر نہ آئے۔

اس دن ہم بغیر چادر کے اسکارف پہنے گھر پہنچے جب ہمارے والد نے ہمیں دیکھا تو غصہ سے سیخ پا ہوگئے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’پرنسپل نے ہماری چادریں چھین لی ہیں۔‘‘ اگلے دن والد صاحب خود اسکول آئے اور پرنسپل سے جھگڑنے لگے کہ تم نے کس حق کی بنیاد پر میری بیٹیوں کے سر چادر چھینی ہے؟ تمہیں بچوں کی تعلیم پر دھیان دینا چاہئے نہ کہ ان کی بے حجابی پر۔

والدہ صاحبہ کے اصرار کے بعد والد صاحب نے ہمیں دوبارہ مدرسہ بھیج دیا لیکن جن دنوں میں کوئی خاص جشن وغیرہ ہوا کرتا تھا اس سڑکوں پر ہجوم ہوتا تھا اس دن ہمارے والد ہمیں مدرسہ جانے سے روک دیا کرتے تھے۔ ۱۹۷۸ ء کے اوائل میں ایک مولانا جن کا نام رفیعی تھا اپنے گھر والوں سمیت  ہمارے اپنی سیاسی اور ثقافتی تبلیغ کے سلسلہ میں ہمارے گھر تشریف لائے۔ جب  محترمہ رفیعی بیگم نے ہمیں دیکھا کہ ہم سر پر رومال باندھ کر چادر اوڑھ رہے ہیں تو انہوں کہا کہ میں تم لوگوں کے لئے مقنعہ سی دیتی ہوں اس طرح تم لوگ  کلاس میں سکون سے بیٹھ سکو گی۔

انہوں نے میرے اور زینب کے لئےدو مقنعہ سی دئیے۔ اس صبح کو میں اور زینب بہت خوشی  خوشی اسکول گئے۔ اسکول کے اسمبلی کے وقت ایک استاد چلایا: ’’ اوہ ہو۔۔ مدرسہ کی دادیوں ادھر آؤ میں بھی تو دیکھو  کہ کیا مسئلہ ہے۔‘‘ سارے بچہ ہنسنے لگے۔ میں اور زینب دونوں ڈر تے لرزتے استاد کے پاس گئے۔ اس نے پوچھا: ’’ یہ  کس نے سی کر دی ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہمارے گھر ایک خاتون مہمان ہیں۔ انہوں نے سی کر دی ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’بہت بڑی غلطی کی ہے۔ فضول کام کیا ہے۔ آخر تم لوگ اسکول کے قوانین  کو اپنے پیروں تلے کیوں روندتے ہو؟ روزانہ ایک نیا ڈرامہ بن کر اسکول آجاتی ہو۔ کل سے میں نہ دیکھوں کہ اس حالت میں تم لوگ اسکول آئی ہو۔‘‘

اگلے دن امام خمینی کے حکم پر ہڑتال تھی۔ ہمارے والد بھی گھر پر ہی تھے اور لوگوں کو بھی کام پر جانے سے منع کر رہے تھے۔  ہم بھی مدرسہ نہیں گئے تھے۔ ہرمز کا علاقہ روحوں کی بستی معلوم ہوتا تھا۔

ہڑتال ختم ہوئی تو ہم  اسکول پہنچے۔ اسکول کی پرنسپل شمر کی طرح سیڑھیوں پر کھڑا چلا رہا تھا : ’’ اب یہ کیا مذاق ہے تم لوگ اسکول کیوں نہیں آئی تھیں؟ ‘‘ ہم نے جواب دیا: ’’ ہمارے والد نے کہا تھا کہ خمینی نے ہڑتال کرنے کو کہا ہے سو ہم ہمیں گھر میں رہنا چاہئے۔‘‘ پرنسپل نے کہا: ’’ یہ بڑوں کی باتیں ہے اس سب سے تمہارا کیا لینا دینا؟‘‘

چوتھی کلاس تو ہم نے کسی نہ کسی طرح سختیوں  میں کاٹ کر گذار دی مگر اس کے بعد ہم ستمبر کے مہینہ سے یعنی نئے تعلیمی سال سے اسکول نہ جاسکے اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دوبارہ سے تعلیم کا آغاز کیا۔[1]

 

 

 

 

 

 

[1] حوالہ: بہبودی، انسیہ، ماہم بودیم (ہم بھی تھے)۔ ہرمز کی خواتین کی زبانی انقلاب کی داستان صفحہ ۱۰۵۔ ناشر سورہ مہر، سال ۲۰۲۰



 
صارفین کی تعداد: 796


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔