ماہ رمضان کے واقعات سے ایک ٹکڑا

حمید رضا امینی، دبستان شاہد دہقان
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-5-6


یہ واقعہ ماہ رمضان المبارک ۱۹۸۸ کا ہے۔ یہ واقعہ عراق کے شہر موصل کے کیمپ میں پیش آیا جس نے اس ماہ کی برکت اور اس کے معجزہ کو سب پر واضح کیا۔ ماہ مبارک کی ۱۹ویں تاریخ تھی۔ میں اور چند جوان  جو قرآن اور شریعت مقدس کے حکم پر روزہ سے تھے۔ اس سال ہمارے پاس وسائل بہت کم تھے جو کچھ میسر تھا اسی پر گذر اوقات ہو رہی تھی۔ میرے دوستوں میں سے ایک نے کہا کہ میری ماں ہر سال ۲۱ویں شب ماہ رمضان کو حلوے پر نذر دلاتی تھیں والدہ کے انتقال کے بعد سے یہ نذر میرے ذمہ ہے۔ اب جب کہ میں یہاں ہوں میں بہت ہی مضطرب ہوں میری خواہش ہے کہ اپنی والدہ کی نذر کو پورا کروں۔ میں نے بجھے چہرے کے ساتھ دوست کی جانب نگاہ کی اور کہا کہ خداوند متعال بزرگ ہے ان شاء اللہ تمہاری نذر ادا ہو جائے گی۔ میں کچھ گھنٹوں غور و فکر کرتا رہا یک دم میرے ذہن میں  تندوری روٹیوں کا خیال آیا۔ ہمیں روز ہر فرد کے لئے وہ دو روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ کہا جائے تو وہ برگر کے بن جیسی ہی ہوتی تھیں مگر جوان کہتے تھے کہ روٹیاں نہیں اینٹیں ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ ہمارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ اس نے کہا چند ہی ہوں گی۔  میں نے اس سے کہا میں تمہیں مشکل میں نہیں ڈالوں گا۔ خود ہی روٹیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور ان درمیان جو آٹا تھا وہ انتہائی موٹا اور سخت تھا میں نے گلاس کے پیندے سے اس کو کوٹا ۔ میرا دوست حیران پریشان کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ متحیر تھا کہ میں نے کس طرح آٹا بنا لیا ہے۔ اس نے کہا باقی چیزوں یعنی گھی چینی وغیرہ کا کیا ہوگا؟  میں نے مسکرا کر کہا: دفتری حلوا ئے نذر بنے گا۔ اس نے کہا دفتری کیا ہے؟ میں نے کہا باقی چیزیں دفتر کے باورچی خانہ سے لیں گے خدا اس کو قبول فرمائے۔ باورچی خانہ عراقیوں کے پاس تھا اور وہ روز صرف زندہ رہنے کی مقدار کے مطابق سوکھی روٹیاں دیا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی غذا کی تیاری کے لئے جو آٹا گوندھا تھا اس کو کو کھڑی کے پاس پھیلا دیا تاکہ اگلے دن تک خشک ہوجائے۔  گلاس سے کوٹنے کی وجہ سے روٹیاں واقعی آٹے میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ ہم اگلے دن صبح باورچی خانہ کی جانب گئے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا تم دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر باورچی خانہ کے باہر ہنگامہ  اور شورشرابہ کرو تاکہ نگہبان کی توجہ تمہاری جانب ہو اور میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر باقی چیزیں لا اسکوں۔ بالاخر میں نے جس طرح بھی بن پڑا باقی چیزیں بھی جمع کیں۔ یہ بھی ایک معجزہ ہی تھا کہ میں کیسے وہاں داخل ہوا۔ وہاں پر لڑکے افطاری بنانے میں مشغول تھے۔ افطاری بھی کیا تھی پیاز کا پانی اور ابلے ہوئے بینگن وہ بھی بغیر نمک کے، خدا کسی دشمن کو بھی ایسا کھانا نصیب نہ کرے۔ المختصر میں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور باورچی خانہ کے ایک کونہ میں حلوہ بنانے میں مصروف ہو گیا۔  وہ جو کہتے ہیں ناں کہ حلوہ کی شکل سی بن گئی تھی ، ہمارا حلوا بھی ایسا ہی ہو گیا تھا۔ ہمیں تعجب اس بات پر تھا کہ حلوہ میں سے جو خوشبو اٹھ رہی تھی وہ کہاں سے آئی تھی؟ آخری مرحلہ میں جب حلو ے کو بھون رہے تھے تاکہ اس کا رنگ حلوے جیسا ہوجائے تو عراقی ہماری جانب متوجہ ہوگئے۔ ہم سے کہا: یہ کھانا یہاں ممنوع ہے۔۔ میرا دوست ڈر گیا کہ اس کی نذر برباد نہ ہوجائے۔ میں نے کہا یہ افطار کے لئے ہے۔ اس کے ساتھ ہم بینگن ملائیں گے تو ہمارے ہاں کا بینگن کا سالن تیار ہو جائے گا۔ عراقی حیران  ہوکر یہ سوچ رہے تھے کہ شاید ہم بینگنوں کے بھگونوں میں اپنا حلوہ ملائیں گے۔ ایک عراقی نگہبان نے تو عربی لہجہ میں یہ تک کہا کہ  مزیدار مزیدار۔۔۔۔ وہاں موجود لڑکے یہ سوچ کر کہ عراقی سمجھ نہیں پائے بلکہ ہمارے روزمرہ کے مطابق ہم نے انہیں الو بنادیا، ہنسنے لگے۔ حلوہ وہ بھی کیمپ میں ایک بہت بڑی بات تھی۔ میرا دوست خوش تھا کہ اس کی نذر ادا ہوگئی ہے۔ اس دن کے بعد سے قیدیوں کے کھانے میں ایک چیز کا اور اضافہ ہوگیا تھا اور مزیدار حلوہ تھا۔ یہ سب امام علی السلام کی نذر اور ماہ مبارک رمضان کی برکات میں ایک تھا۔ میرا دوست بہت خوش تھا۔  اس نے وہیں منت مان لی کہ اگر ہم آزاد ہوگئے تو ماہ رمضان کی ہر اکیسویں شب کو اسی رات اور اسی معجزہ کی نیت سے ، ایران میں اسی طرز پر حلوہ بنا کر نذر کیا کرے گا جیسا ہم نے قید کے دونوں  میں بنایا تھا اور اس سے لوگوں کو افطار کرائے گا۔  ان شاء اللہ۔

خدا ہم سب کو ماہ نزول قرآن میں اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں رکھے۔ تما اسیر جو عراقیوں کی قید میں ہیں ان سب رہائی عنایت کرے۔ تمام جاں بازوں اورزخمیوں کو شفائے کاملہ اور عاجلہ عنایت کرے اور ہمارے رہبر کو طویل عمر عنایت کرے۔ ان تمام اساتید اور بزرگوں کی زحمات کو قبول کرے جنہوں نے اپنی تمام توانائیوں کو بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لئے وقف کر دیا ہے۔

 

 

~۱۹۸۸ کے ماہ رمضان  کی شب ہائے قدر۔ و من اللہ التوفیق۔ جانباز علی رضا امینی۔

۔ موصل کی چھاؤنی عراق: کیمپ نمبر ایک ۔ قیدیوں کی تعداد: ۱۴۱۔   چھاؤنی کے کل قیدی: ۸۵۰[1]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


[1] معدنی، طاہرہ، قطرہ ای از اوقیانوس (سمندر کا ایک قطرہ)  دفاع مقدس کے دوران ماہ رمضان میں سپاہیوں کے واقعات۔ ناشر: انتشارات امیر محمد ص ۴۳، سال ۲۰۰۵



 
صارفین کی تعداد: 712


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔