حصہ دوم

شہداء تبریز کے چہلم کا انعقاد اور معصومہ زارعیان کی شہادت

مترجم: محب رضا

2023-4-19


اگلی صبح، ہم مجلس میں شرکت کے لیے جامع مسجد گئے۔ سب سے پہلے جناب مصطفی سحرخیز نے تلاوت قرآن کی۔ لوگ بھی آتے رہے اور فاتحہ پڑھ کر جاتے رہے۔ کچھ لوگ رک بھی گئے۔ یہ ایک معمول کی مجلس کی طرح تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، اس طرح کچھ فائدہ نہیں۔ میں نے چند اشعار لکھے تھے جو بہت جاذب تھے اور اس سے پہلے مکتب اسلام میں شائع بھی ہو چکے تھے، ان اشعار کاآغاز اس شعر سے ہوتا تھا:

"بس اب اجالا ہے اور تاریک رات کا خاتمہ       بس اب اجالا ہے اور بیداری کا تقاضہ"

میں نے اپنے ایک دوست، جس کا نام سید محمود شہیم تھا، جو کہ قرآن مجید کا قاری تھا اور اس کی آواز بہت اچھی تھی، سے کہا: "کیا ہو سکتا ہے کہ تم کھڑے ہو کر یہ نظم پڑھ سکو؟ پھر ہم تمہیں فرار ہونے کا موقع دیں گے تاکہ اہلکاروں کو پتہ نہ چل سکے کہ یہ نظم کس نے پڑھی ہے۔"

اس نے قبول کر لیا۔

سید محمود نے بہت خوبصورتی سے اشعار پڑھے اور محفل میں کچھ جان آئی۔ پھر منصوبے کے مطابق ہم نے اسے مسجد سے باہر نکال لیا۔ مسجد کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ کسی اہلکار کو یہ پتہ نہیں چلا کہ اشعار کس نے پڑھے !کچھ وقت اور گزر گیا؛ بھر ہم نے دیکھا کہ شور و غوغا ہونا شروع ہو گیا اور چند نوجوان مسلسل کہہ رہے ہیں : "کیا گھر میں کوئی موت ہوئی ہے جو اس طرح بیٹھ کر فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں!؟ کیا آپکو پتہ ہے کہ تبریز میں کتنے شہید ہوئے ہیں، اور ہم ان کے لیے فاتحہ پڑھ کر رخصت ہو رہے ہیں؟!" جب میں نے دیکھا کہ ہنگامہ آرائی شروع ہو رہی ہے تو میں اٹھا اور آیت اللہ حق شناس اور آیت اللہ سید حسین آیت اللہی کے پاس گیا، جو ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے کہا: ’’جناب! مجلس میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس بارے میں کچھ کریں۔" شیخ ابراہیم حقدان بھی آ گئے۔ لیکن چونکہ ان کے بھائی اصفہان کے گورنر تھے اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ تقریر کریں۔ وہ دروازے پر کھڑے ہو کر ہی لوگوں کا استقبال کر رہے تھے، جو کہ اتنا ہی مناسب تھا۔ میں نے ان حضرات سے کہا: ’’اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں خود تقریر کروں۔‘‘ جناب حق شناس نے کہا: "تم، نہیں! اگر یہاں تمہیں تقریر کرتے پہچان لیا تو تمہاری تمام خفیہ سرگرمیاں ظاہر ہو جائیں گی اور تم اپنا انقلابی کام جاری نہیں رکھ سکو گے۔"

- ایسا کریں کہ استخارہ کریں۔ شاید اچھا آ جائے۔"

وہ اٹھ کر دوبارہ وضو کے بہانے پڑوس کےایک گھر گئے اور استخارہ کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور کہنے لگے: ’’اچھا نہیں آیا‘‘۔

میں نے دیکھا کہ مجلس میں کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے، میں پھر ان کے پاس گیا اور کہا: ’’جناب! کیا آپ کچھ تبدیلی کے ساتھ ایک بار پھر استخارہ کر سکتے ہیں؟"

"کیسی تبدیلی؟"

- "اس بات کا استخارہ کہ ہم  پولیس چیف سے تقریر کرنے کی اجازت لیں، دیکھتے ہیں کہ اچھا آتا ہے یا نہیں۔"

- "کیا اجازت دے دیں گے؟!"

- "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ میں جا کر ان سے کہوں گا کہ میں تقریر کرنا چاہتا ہوں۔"

انہوں نے جا کر استخارہ کیا اور وہ اچھا آ گیا۔ میں اٹھا اور ابراہیم جمالی کے ساتھ مسجد سے باہر آ گیا۔ ہم چوک پر پہنچے، جہاں  ہر سڑک پر بہت سے پولیس والے کھڑے تھے، ہم نے ان سے باری باری پوچھا کہ : "پولیس چیف کہاں ہے؟" لیکن انہوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔

ہم نے تمام جہرم کا چکر لگایا اور واپس بہارستان کے چوک پر پہنچ گئے، جہاں جامع مسجد واقع تھی۔ میں نے وہاں کھڑے افسروں میں سے ایک سے پوچھا: "آپ کے پاس جو یہ وائرلیس ہے، اس کے ذریعے کس سے رابطے میں ہیں؟"

- "پولیس چیف کے ساتھ۔"

- "اسی وائرلیس پر پولیس چیف کو بتائیں کہ مہربان، دوپہر سے پہلے جامع مسجد میں تقریر کرنا چاہتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟"

اس نے بات کی اور بتایا: "مرکز سے جواب ملا ہے کہ مسجد کے اندر ہمارا کوئی کام نہیں ہے۔ آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں، کریں۔ فقط ذمہ داری آپکی اپنی ہے۔ اگر کچھ بھی ہوا، تو یہ آپ کی ذمہ داری ہوگی۔"

ہمارے لیے یہی کافی تھا۔ ہم مسجد میں گئے اور جناب حق شناس کو بتایا کہ یہ بات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ آپ اپنے اختیار اور ذمہ داری سے کر لیں؛ اور اس کا مطلب ہے کہ اجازت ہے۔

جناب حق شناس نے کہا: بہت خوب! جاؤ بات کرو۔"

میں منبر پر چلا گیا اور عمومی طور پر جو کہنے کی ضرورت تھی، وہ بیان کر دیا۔ میں نے مولا علی علیہ السلام کی اس روایت کی وضاحت کی کہ " الیمین و الشمال مضله و الطریق الوسطی هی الجادَه...» اور کہا: "یہ عدل جو کہا گیا ہے اس کا مطلب نظم ہے۔ یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا۔ فریاد کی جگہ،حتماً فریاد کرنا ہے اور سکوت کی جگہ، سکوت اختیار کرنا ہے..."

پھر، میں نے لوگوں کو تبریز میں ہونے والے واقعے کے بارے میں بتایا کہ کسطرح افسران نے مسجد کے دروازے کو قفل کر دیا تھا اور تبریز کے پراسیکیوٹر نے بھی کہا تھا: "یہ باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔" میں نے اپنی تقریر میں پراسیکیوٹر کی اس دلیل کے بارے میں یہ بھی کہا: " تبریز کے پراسیکیوٹرصاحب! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی سرحدیں اتنی آزاد ہیں کہ کچھ لوگ بیرون ملک سے آکر اس طرح کے مظاہرے کرتے ہیں اور اس کے بعد لوگ مارے جاتے ہیں؟!"

 جب میں اپنی بات ختم کر کے نیچے آیا تو آیت اللہ حق شناس نے اپنا ہاتھ میری گردن میں ڈالا اور میری پیشانی کو بوسہ دیا۔ اسی روز عصر کے وقت، آیت اللہ سید حسین آیت اللہی نے تقریر کی۔ انکے خطاب کے بعد نصراللہ میمنہ نے قرارداد پڑھی، مجلس کے اگلے ہی دن انکو جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ قیدیوں میں "مسٹر قراردار" کے نام سے مشہور ہو گئے، جب انہوں نے قرارداد پڑھی تو مجلس ختم ہو گئی۔ اس کے بعد لوگ مسجد سے باہر نکلے اور مظاہرہ شروع کیا کہ جن میں معصومہ زارعیان، جہرم کی اولین شہید ہوئیں۔

 

منبع: آقای مهربان: خاطرات غلامعلی مهربان جهرمی، تدوین وحید کارگر جهرمی، شیراز، آسمان هشتم، 1392، ص 118 - 131.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 709


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔