حصہ اول

شہداء تبریز کے چہلم کا انعقاد اور معصومہ زارعیان کی شہادت

مترجم: محب رضا

2023-4-19


حصہ اول

شہداء قم کے چہلم پر ہم کچھ بھی نہ کر سکے، بہرحال یہ گزر گیا اور تبریز کے شہداء کا چہلم آ گیا۔ آیت اللہ سید حسین آیت‌اللهی نے مجھے خود فون کیا اور فرمایا: "اٹھو اور میرے پاس آوَ" میں بھی بلا تاخیر ان کے گھر پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا: "چاہے کچھ بھی ہو جائے، جہرم میں تبریز کے شہداء کے چہلم کے مراسم منعقد ہونے چاہیں۔" پھر ہم اکٹھے آیت اللہ حق شناس کے گھر گئے۔ آیت اللہ حق شناس کے گھر پر منصوبہ بندی ہوئی کہ تبریز کے شہداء کا چہلم کیسے منایا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ تبریز کے شہداء کے چہلم کا جلسہ،  9 فروردین )پہلے ایرانی مہینے کی ۹ تاریخ( کو جہرم کی جامع مسجد میں منعقد کیا جائے گا اور اس سلسلے میں خوب تشہیر کی جانا چاہیے۔

 فروردین کی 9 تاریخ کو، آیت اللہ حق شناس اور آیت اللہ سید حسین آیت اللہی کے طے کردہ منصوبے کے مطابق، جب ہم تبریز کی شہید عوام کے چہلم کو منانے کے لیے جامع مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ حکومتی اہلکاروں نے مسجد کے دروازوں پر تالے لگا دئیے ہیں اور مسجد بھی فوجی اور پولیس کے دستوں کے گھیرے میں ہے۔ چنانچہ میں تنہا ہی آیت اللہ حق شناس کے گھر کی جانب پلٹا تاکہ پوچھ سکوں کہ اب کیا کرنا چاہیے اور ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ کیونکہ اگر مسجد کے دروازے بند ہوں، تو زورآزمائی کا ہونا لازم تھا اور بہت سے لوگوں کے مارے جانے کا خدشہ تھا۔ ان کے گھر کی جانب جاتے ہوئے میں عدالت کے پاس سے گزرا، جہاں میرا بھائی، بہزاد مہربان، جہرم کی عدالت میں ملازم تھا۔ میں نے سوچا کہ  مجھے چاہیے کہ بہزاد کے ساتھ اٹارنی جنرل کے پاس جا کر اس سے بھی بات کروں۔ میں نے اندر جا کر بہزاد کو سارا احوال بتایا، اس نے پوچھا: "تم کیا بات کرنا چاہتے ہو؟"

"چاہتا ہوں کہ جاوَ اور اسے بتاوَں کہ تبریز میں بھی اسی طرح مسجد کا دروازہ بند کیا تھا اور پھر لوگ خاک اور خون میں غلطاں ہو گئے تھے۔ لہٰذا سبق حاصل کریں اور مسجد کے دروازے کو بند نہ کریں۔"

"کیا اس طرح ہو سکتا ہے کہ تم اندر جاوَ اور اس سے بات کرو؟! میں تو نہیں کر سکتا۔"

"میں خود کر لوں گا۔"

میں اٹارنی جنرل کے دفتر میں داخل ہوا اور ایک جانب کھڑا ہو گیا کہ وہ اپنے مؤکلوں کے کام سے فارغ ہو جائے۔ پھر میں نے جہرم کے اٹارنی جنرل کو تمام احوال کی وضاحت کی۔ اس نے کمرے کا دروازہ بند کردیا اور میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ’’ہمیں خفیہ ہدایت ملی ہے کہ پولیس چیف جو کہے اس پر عمل کریں، میرے پاس خود کوئی اختیار نہیں ہے۔" میں نے جواباً کہا: "بس پھر خداحافظ! میں نے سوچا تھا کہ آپ کے پاس کوئی اختیار ہوگا، اس لیے آیا اور آپ سے بات کی۔ میرا یہاں آنے کا مقصد، آپ پر حجت تمام کرنا تھا تاکہ خدانخواستہ اگر لوگوں پر کوئی مشکل آئے تو آپ لاعلمی کا اظہار نہ کریں، کیونکہ تبریز میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ مسجد کے دروازے بند کر دئیے تھے اور اس کا نتیجے یہ ہوا تھا کہ کچھ لوگ مارے گئے تھے۔"

پھر میں آیت اللہ حق شناس کے گھر کی جانب چلا۔ جب میں ادھر پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ جمع تھے تاکہ آقا ان کے لیے ذمہ داری واضح کریں۔ آیت اللہ سید حسین آیت اللہی اور آیت اللہ حاج نمازی بھی جہرم کے پولیس چیف (کرنل کمال تصاعدی) سے ملنے گئے تھے تاکہ اس سے بات کریں اور کہیں کہ مسجد کے دروازے کھول دے۔ کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹے اور بتایا کہ ان کی پولیس چیف سے بات چیت ہو گئی ہے اور طے پایا ہے کہ لوگ آرام اور خاموشی سے مسجد میں جائیں، قرآن و فاتحہ پڑھیں اور پھر آرام سے اس جگہ کو خالی کر دیں۔

مختصراً یہ کہ اس دن (9 فروردین) چہلم کی مجلس منعقد ہوئی۔ جناب آیت اللہ سید حسین آیت اللہی نے ظہر سے پہلے خطاب کیا اور عصر کے وقت جناب حاجی اصفہانی نے خوب جوشیلا خطاب کیا۔  پھر جب مجلس کے اختتام کا اعلان کرنے کا موقع آیا تو انہوں نے مجھے ایک خط پکڑایا اور کہا کہ تبریز کے شہداء کا چہلم کل ہے؛ اس بات پر توجہ کے ساتھ کہ اسفند کا مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے، اس لحاظ سے تبریز کے شہداء کا چہلم ۱۰ فروردین کو بنتا ہے، اور تمام شہروں میں لوگ دس تاریخ کو ہی مراسم منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے بھی اعلان کر دیا کہ غلط فہمی ہوئی ہے اور کل بھی اسی طرح چہلم کی مجلس ہوگی۔

اس رات، میں گھر پر تھا اور پرامید تھا کہ ہم کل بھی جامع مسجد میں مراسم کے انعقاد کے لیے جائیں گے، جب جناب آیت اللہی کا فون آیا اور انہوں نے بتایا: "پولیس چیف سے بات ہوئی ہے اور اس نے کہا ہے کہ ہم کل کسی صورت مجلس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

"آقا! ہم نے عوام میں اعلان کیا ہے۔ لوگ مسجد پہنچ جائیں گے، اجتماع ہوگا! اگر انہوں نے مسجد نہ کھولی اور اجازت نہ دی تو پتہ نہیں کیا ہوگا؟"

"اٹھو، ادھر پہنچو؛ اپنی گاڑی بھی لے آؤ۔"

میں انکی طرف چل پڑا، جب پہنچا تو وہ دروازے پر ہی کھڑے تھے۔ وہ گاڑی میں سوار ہوئے اور بولے:"جناب حق شناس کے گھر چلو"۔ جب ہم آقا حق شناس کے گھر پہنچے تو انہوں نے بھی یہی کہا: "مجھے بھی فون کیا ہے  کہ ہم آپ کو کل کسی بھی صورت مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

میں نے کہا: اب کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟"

میں نے آیت اللہ حق شناس سے بہت اصرار کیا کہ وہ پولیس چیف کو فون کریں اور اسے کہیں کہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ لوگ کتنے آرام سے آئے، فاتحہ پڑھی اور چلے گئے۔ اگر کل لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دیا گیا تو بڑا فتنہ ہو جائے گا، مار دھاڑ نہ ہمیں پسند ہے  اور نہ آپ کو۔

آقا نے اسے فون کیا اور بہت یقین دلایا کہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ پولیس چیف نے کہا: "اس شرط پر کہ جناب حاجی اصفہانی دوبارہ تقریر نہ کریں"۔ آقا نے فون بند کیا اور بولے:"پولیس چیف کو مطمئن کرنا ایک طرف۔ اب حاجی اصفہانی کو کون راضی کر سکتا ہے کہ تقریر نہ کریں؟"

جناب حاجی اصفہانی بھی اپنی بات پر قائم رہنے والے بندے تھے، انہیں راضی کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ میں نے کہا: "اگر آپ لوگ بہتر سمجھیں تو ہم سب ملکر انکے گھر چلتے ہیں اور بات کرتے ہیں، اور انکی رائے لیتے ہیں۔"

ہم، آیت اللہ سید حسین آیت اللہی کے ہمراہ، جناب حاجی اصفہانی کے گھر پہنچے۔ وہ تہہ خانے میں بیٹھے تھے۔ ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ کیا صورتحال ہو گئی ہے اور ہم کل مجلس کروانا چاہتے ہیں تو بنا کسی مقدمے اور ہمارے کچھ کہے بغیر وہ بولے: "یقیناً، مگر کل میں دوبارہ بات نہیں کروں گا، جناب آیت‌اللهی خود تقریر کریں۔" ہم بہت خوش ہوئے کہ انہوں نے خود ہی ایسا کہہ دیا۔ جناب آیت اللہی نے بھی کہا: "ٹھیک ہے، میں تقریر کروں گا۔"

ہم نکلنے ہی والے تھے کہ ہم نے حاجی اصفہانی کی بیگم کو دوسرے کمرے سے داخل ہوتے دیکھا، انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: "آپ ضرور بات کریں اور حکومت کے مظالم کو بے نقاب کریں۔" ہم اس ڈر سے کہ کہیں جناب حاجی اصفہانی کی رائے بدل نہ جائے، فوراً وہاں سے باہر نکل آئے۔

 

منبع: آقای مهربان: خاطرات غلامعلی مهربان جهرمی، تدوین وحید کارگر جهرمی، شیراز، آسمان هشتم، 1392، ص 118 - 131.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 746


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔