ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اٹھائیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2022-12-10


علی کی اس تعارفی تقریب کے ایک ماہ بعد خواتین کا عالمی دن تھا جس کی مناسبت سے ایک محفل ترتیب دی گئی جس سے خطاب مجھے کرنا تھا۔میں نے جونہی اردو  زبان میں تقریر شروع کی سب کے منہ حیرت سے کھلے رہ گئے ۔ ہندوستان  میں گذارے ہوئے آٹھ سالوں کا ثمر تھا کہ مجھے اردو بہت اچھی طرح آتی تھی۔ سامعین میں حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات پائے جاتے تھے۔ میں نے انقلاب اور ایران سے تقریر کا آغاز کیا اور پھر عورت کا معاشرے میں مقام اور حجاب کے متعلق گفتگو کی۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے مگر پاکستانیوں کا پردہ ہمارے پردے سے بہت مختلف تھا ۔ گھر سے باہر کامل حجاب ہوتا تھا مگر گھر کے اندرنا محرم رشتہ داروں کے سامنے حجاب کا تصور نہ تھا۔ محفل ختم ہوئی تو سب نے مجھے گھیر لیا کہ میں نے اردو کس طرح سیکھی۔ خانہ فرہنگ کا ڈرائیور حبیب سب سے زیادہ حیران تھا، وہ ایک تن و مند  اور مہربان جوان تھا جس کے چہرے پر باریک سی مونچھیں تھیں اور یہاں مہدی کا بڑا بھائی بن گیا تھا فارسی بولتا تھا مگر اردو لہجہ میں، سارے ہجوم کو چیرتا ہوا وہ میرے نزدیک آیا اور کہا:

-محترمہ ہم سے اپنی زبان میں ٹھیک سے گفتگو نہیں ہوتی اورما شاء اللہ آپ اردو میں تقریر کرتی ہیں۔

وہ لوگ حیران ہونے میں حق بجانب تھے کیونکہ ہم ایک ماہ سے خانہ فرہنگ میں تھے لیکن گھر کی صفائیوں نے فرصت ہی نہ دی تھی کہ کسی سے کوئی میل ملاقات کرتے، سو کوئی نا جانتا تھا کہ ہمیں اردو زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔محفل کے اگلے دن سے خانہ فرہنگ آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ ہر مرد جو علی سے ملتا یا جو عورتیں  مجھ سے ملنے آتیں ان کے زیادہ تر سوالات ایران، انقلاب، شیعت اور اس کے احکام کے بارے میں ہوتے ۔ انقلاب اسلامی ایران نے شیعوں میں خود اعتمادی کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ یہ گہرا اثر جو پاکستان نے انقلاب ایران سے قبول کیا تھا اس کے پیش نظر لوگوں کے سوالات میرے لئے غیر معمولی نہ تھے۔ بعض اوقات لوگوں کو کوئی کام نہ ہوتا پھر بھی وہ  صرف اس شوق میں کہ خانہ فرہنگ میں ایک ہم زبان موجود ہے، ملاقات کو چلے آتے۔ اللہ کے یہ بندے بہت محبت والے تھے کبھی خالی ہاتھ نہ آتے اور مجھے خجل کر دیتے تھے۔  لوگوں کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ خانہ فرہنگ ملتان کا جو مقام و مرتبہ ہونا چاہئے تھا وہ اس کو آج تک نہ مل سکا تھا، محافل اور مجالس احسن طریقے سے برپا نہیں کی جاتی تھیں لہٰذا کشش اور جاذبیت سے خالی ہوا کرتی تھیں۔ خانہ فرہنگ میں ہونے والی تعلیمی  کلاسیں بھی نچلے درجہ کی ہوا کرتی تھیں سو  ان سے بھی کچھ حاصل حصول نہ تھا۔

میرے مہمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور روز شاید تین تین مرتبہ میرے پاس مہمان ہوتے تھے جس کے سبب گھر کے کام  کاج کا حرج ہوتا تھا کیونکہ بچوں کی پڑھائی کو مجھے دیکھنا تھا، گھر کے کام بھی میری ذمہ داری تھے ان کے ساتھ یہ طولانی ملاقاتیں جن کے باعث علی بھی کبھی کبھی زچ ہو جایا کرتا۔ وہ دن میں صرف ایک بار دوپہر کے کھانے اور چائے پر ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ اگر اس وقت میرے پاس کوئی عورت ملنے آئی ہوتی تو بیچارے کا ہمارے ساتھ مل بیٹھنے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہتا۔یہ حالات کچھ دن تک تو چلے لیکن کچھ دن بعد مجھے علی کے محرر زہیر سے کہنا ہی پڑا  کہ بھیا میرے ملاقاتیوں کے لئے بھی اوقات مقرر کردو تاکہ میں خانہ فرہنگ کے کاموں کے ساتھ گھر کے کاموں اور بچوں کو بھی دیکھ سکوں۔

خانہ فرہنگ میں ہونے والی یہ ملاقاتیں  رنگ لانے لگیں اور خانہ فرہنگ کے نئے انچارج کی آمدہ کا شہرہ ، شہر بھر میں ہو گیا۔ علی منصوبہ بندی کے تحت ملتان آیا تھا سو اس کے پاس ہر  مذہبی اور ثقافتی مناسبت کے لئے تفصیلی پروگرامز موجود تھے۔ ہمارے ملتان آنے کے دو ماہ بعد ہی ہفتہ دفاعِ مقدس تھا جس کے لئے علی نے اچھا خاصہ اہتمام کیا تھا۔ ہفتہ دفاع مقدس میں جو کوئی بھی خانہ فرہنگ آتا  اس کو  صحن میں لگائی گئی تصویری نمائش سے گذر کر آنا پڑتا  اس کے بعد وہ کانفرنس ہال میں پہنچتا۔  علی  نمائش کے مسلسل چکر لگاتا رہتا اور زیادہ تر تصاویر کے بارے میں خود توضیح دیا کرتا تھا اور لوگوں کے تاثرات کو بغور سنتا تھا۔ وہ خانہ فرہنگ کی تقاریب و محافل اور اپنے منصوبوں کے بارے میں کہتا تھا :

اس لحاظ سے کہ یہ تصویری نمائش خانہ فرہنگ  میں انجام دیا جانے والا پہلا کام تھا بہت کامیاب رہا۔

وہ اکیلا تھا اور تمام کام اس کے کندھوں پر تھے حتیٰ کہ خریداری بھی وہ خود ہی کیا کرتا تھا  اس طرح وہ محدود رقم سے بخوبی استفادہ کرتا تھا اور اطراف و جوانب کے حالات سے بھی آگاہ ہوجاتا۔ علی نے ملتان میں بھی ہندوستان کی طرح ، اپنے کاموں کے لئے کوئی حد بندی نہ کی تھی ۔ تقریب کے آغاز سے پہلے وہ بھی دوسرے مزدوروں کے ہمراہ بھاگ دوڑ میں مصروف ہوتا تھا آخری وقت میں گھر آتا لباس تبدیل کرتا اور یوں خانہ فرہنگ کا انچارج بن جاتا ۔ اگر کبھی خانہ فرہنگ کی مرمت وغیرہ کرانی ہوتی تو وہ سارا  دن مزدوروں کے سر پر کھڑا ہوکر کام کرواتا



 
صارفین کی تعداد: 909


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔