۱۵ خرداد(۵جون) کے نوٹس کی اشاعت

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-3-13


ایک دن جناب سید علی نقی جلالی تہرانی کے گھر سے کہ جو فردوس کے واقع تھا مجھے بلایا اور کہا کہ پمفلیٹ چھاپوں۔ وہ پمفلیٹ کہ جو ۱۵خرداد کے بارے میں آیت اللہ بھبھانی کا تھا کہ جو<<ان ااشتراک دھراً عجباً>> سے شروع ہوا تھا کہ جس معنیٰ ہے کہ تعجب ہے اس بات پر کہ تونے جو کام کئیے ہیں تم دنیا میں واپس پلٹ کر آؤ گے؟۔

میں نے متن لیا اور دس ہزار چھاپ دئیے اور اپنے پیسے لے کر پمفلیٹ دے دئیے۔  اس کے پیسے ۳۲علمائے کرام نے مل کر ادا کئے تھے۔  پمفلیٹ لے کر میں جناب سید علی نقی کے گھر گیا اور کہا:  " جناب یہ لیجئے اپنے پمفلیٹ"  انھوں نے کہا:  " شریعت کے خلاف ہے۔ جاو اسکو خود ہی منتشر کرو۔  یہاں کیوں لائے ہو؟"  میں گیا اور ان کو منتشر کر دیا"  ۱۵ خرداد (۵جون)کے بعد فوجی حکومت تھی۔  میں گھر نہیں گیا۔  دولاب میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی کہ جس کے اطراف دیواریں بھی نہیں تھیں تیرہ چودہ دن میں اسی میں سویا گھر والوں کو بھی کچھ پتا نہیں تھا۔  ایک دن شہید عراقی اور جناب ابوالقاسم زمینی کے ہمراہ اپنی بہن کے جن کے شوہر جناب مھدی ایزدی تھے،  گھر سے جناب سید علی نقی تہرانی کو فون کیا۔  حکومت کو اطلاع ہوگئی۔  جناب سید علی نقی اور انکے بیٹے کو رات کو گرفتار کر لیا اور میدان خراسان لے کر آئے تاکہ ان سے ہمارے گھروں کا پوچھیں لیکن وہ ہمارے گھر نہیں جانتے تھے۔

ایک چالک فروش تھا کہ جو ہمیشہ اپنی دوکان میں سوتا تھا۔  اس سے پوچھا کہ ٹائل بیچنے والا کہ جس نام مھدی ایزدی ہے اسکا گھر جانتے ہو؟  اس نے کہا کہ ایک ٹائل فروش کا گھر ادھر ہے لیکن اسکا نام نہیں معلوم۔  وہ انکو جناب سید احمد ظاہر الاسلام کے گھر لے گیا،  وہ بھی پانی کے ٹینک میں چھپے ہوئے  تھے،  انہیں وہاں سے نکالا اور خوب مارا اور ان سے بھی جناب مھدی یزدی کے گھر کا پوچھا،  انھوں بتادیا۔  اس طرح ان کو جناب مھدی یزدی کاگھر مل گیا،  جناب مھدی نے بے ہوش ہونے کی اداکاری کی تو سپاہی پریشان ہوگئے اور انکو  سہارا دیا ان کے لئے پانی لائے تاکہ ان کی حالت بہتر ہوجائے۔  جناب مھدی کے گھر میں اسلحہ بھی تھا جس کو ان کی بہن نے بڑی ہشیاری کے ساتھ کنویں میں ڈال دیا تھا۔  انھوں نے غشی میں پڑے مھدی یزدی کو وہیں چھوڑا اورمیری بہن کو میرے گھر کی نشاندہی کرانے لے آئے۔  ہمارا گھر میدان خراسان میں کوچہ دارب میں تھا۔  ہم  گھر پر نہیں تھے۔  ایک ہوائی فائر بھی کیا اور سید علی تہرانی کو لے گئے۔  یہ پہلے سے معلوم تھا کہ سید علی بولیں گے:  "یہ مومنین میرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے یہ کام کیوں  کیا۔  میں نے کب کہا کہ یہ پمفلیٹ چھاپو؟"  انھوں نے سب چیزوں کا انکار کردیا تھا۔

سات آٹھ ماہ تک چھپے رہنے کے بعد ایک دن میں نے سوچا کہ ان معاملہ ختم ہوگیاہوگا۔  میں بازار آیا۔  لوہا بیچنے والوں میں سے ایک نے مجھے پکڑوا دیا؛  اس نے مجھے اس طرح آواز دی "جناب شہاب"  بس پھر کیا تھا انٹیلجنس کے افراد جو میری ٹو میں تھے،  مجھے ایکدم پکڑلیا۔  موسم سرد تھا برف باری ہورہی تھی۔  تھوڑی دیر میں وہ  مجھے تھانے لے آئے اور تفتیش شروع کردی۔  تفتیشی کمرے میں تفتیشی آفیسر نیک طبع،  حمدیان نور،  امینی اور خطائی تھے۔  میز پر پمفلیٹ کا ایک بنڈل پڑا تھا انھوں نے پوچھا:  " یہ تمہارا ہے؟"

میرے پاس کام کرنے والا ایک شخص بنام غلام علی تہرانی تھا کہ جسے میں نے پمفلیٹ کا ایک بیگ بھرکر دیا تھا کہ بیسٹمنٹ میں جاکر چھپائے۔  یہ وہ پمفلیٹ تھے جنہیں پہلے دن چھاپا گیا تھا،  ان میں دس اس بیگ میں تھے میں نے اپنی تحریک کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے انہیں رکھا تھا۔

غلام علی، صبح قرآن پرھنے میں مشغول تھا کہ چھاپہ مارا اور اس پکڑ لیا اور اس سے پوچھا:  " شہاب کے پمفلیٹ کہاں ہیں ؟"  اس نے کہا:  " مجھے نہیں معلوم"  انھوں نے کہا:  "اس قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ کہ تم نہیں جانتے"  وہ قرآن کی جھوٹی قسم نہیں کھانا چاہاتا تھا،  اس نے بیگ کہاں ہے بتادیا"۔

پمفلیٹ کا بیگ میز پر رکھ کر مجھ سے کہا:  " یہ پمفلیٹ تمہارے ہیں ، ہمیں بتاؤ کے کہاں سے چھپوائے؟  پیسے کس نے دیئے ؟"  میں نے کہا:  "مجھے سوچنے دو"  میں نے سوچا ۱۰۰ سے ۱۵۰ تک تھے۔  اب میں کیا کروں،  میں نے کہا:  " یہ تو پمفلیٹوں کو کلکشن ہے جو ہم نے اپنی تحریک کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے رکھے ہیں۔"  مجھے مارا اور تفتیشی  افسر حمد یان نے کہا:  " تیرا کام تو بہت مشکل ہے۔"

میں نے کہا:  "اس کلکشن کا مجھ سے کیا تعلق۔  آپ لوگ جناب جنک طبع کو میرے ساتھ بھیجیں،  ہر گھر میں جاکر کہیں گے کہ میں شہاب ہوں کلکشن کے لئے وہ والا پمفلیٹ چاہیے،  وہ لوگ مجھے دیے دیں گے"  انھوں نے میری بات مان لی اور تمام پمفلیٹ جلا دیئے۔  صرف چند ایک کو باقی رکھا جو میرے کھاتے میں دال دیئے؛  جیساکہ وہ پمفلیٹ جو آیت اللہ بھبھانی کے متن پرمشتمل تھا اور جناب سید علی نقی تہرانی کے توسط سے میں نے چھاپا تھا اور ایک پمفلیٹ جوآزاد مسلمان کے نام تھا اور ایک پمفلیٹ جو امریکہ کی عوام کے نام تھا کہ جو بہت اہم تھا۔

یہ پمفلیٹ بھی عجیب تھا اس میں شاہ کے مظالم کومنطق اور دلائل سے  بیان کیا گیا تھا اس میں  لکھا گیا تھا:  "امریکی عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کو کہے کہ وہ شاہ کے مظالم کی حمایت چھوڑ دے تو ہم دو دن میں شاہ کو نمٹالیں گے"  اس پمفلیٹ کے بارے میں مجھ سے پوچھ گجھ کی۔ میں کہا:  "یہ میرا ہے۔ میں لوہا بیچتا ہوں اور اس کے پیسے میں خود ہی دیئے۔  اور اسکے پیسے میرے لئے کچھ نہیں۔"  جو بھی مجھ سے پوچھا گیا،  میں کہا:  "میں نے کیا ہے۔"  پوچھا:  "کیسے منتشر کیا؟" کہا:  "دس دس کرکے مسجد شاہ لے جاتا تھا وہاں چبوترے پر رکھ دیتا تھا۔  جب وہ ختم ہوجاتے پھر لےجاکر رکھ دیتاتھا"  دو دن مجھ سے تفتیش کی اور جب ان کی تفتیش مکمل ہوگئی تو مجھے ساواک کے آفس لے گئے۔  اس زمانے میں کوئی ایسا ادارہ نہیں بنا تھا جو ساواک اور پولیس مل کر کام کرے۔  اس وقت ساواک کا آفس فیشرآباد میں تھا۔  ساواک میں کچھ دیر بیٹھا تھا کہ لوگ میرا تماشہ دیکھنے آنے لگے۔  جیسا کہ کوئی عجوبہ دیکھ رہے ہیں۔  وہ زمانہ بھی عجب تھا میرے دوست سمجھے کہ اس کا جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کے تو ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے،  مسجدوں میں میری مشکلات کے حل کے لئے نماز اور دعائیں ہونے لگی کہ میں مارا نا جاؤں۔  ان کے درمیان چند بازار کے کاروباری افراد بھی تھے جو ساواک میں رضاکارانہ طور پر کام کررہے ہیں۔

بالآخرمیری آنکھیں بند کر کے گاڑی میں ڈال کر قزل قلعہ کے زندان لے گئےاور مجھے کال کوٹھری میں پھینک دیا۔  تھوری دیربعد مجھے احساس ہوا کہ کوئی سامنے کھڑا ہے اس نے کہا:  "ساتھی کیسے ہو؟"  میں نے کہا:  "ٹھیک ہوں،  کون؟"  کہا:  "میں بھمن ہوں۔  اہل قشقائی ہوں"  بھمن ملک سے باہرامام خُمینی کے طرفداروں کو پمفلیٹ دیا کرتاتھا۔  جب وہ ایران آیا تو آئیرپورٹ پر دھر لیا گیا۔ دو روز سے زیادہ قید میں رہا۔  تیسری صبح اسے پھانسی دے دی گئی۔

 

منبع: شهاب، احمد، خاطرات مرحوم حاج احمد شهاب، تدوین حکیمه امیری، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1382، ص 132 - 136.



 
صارفین کی تعداد: 1563


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔