بے پردگی اورایک جیسے لباس کاقانون

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-2-20


رضا شاہ کے زمانے میں، یہ حکم دیا گیا تھا کہ سب کا لباس ایک جیسا ہونا چاہیے اور سب کو لباس اور پہلوی کیپ کا استعمال کرنا ہوگا۔ علما کو اس دستور سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ وہ عالم دین جو مجتہد اور واعظ تھے اور اگر ان کے پاس گورنمنٹ کی تصدیق ہوتی، تو وہ عمامہ پہن سکتے تھے، لیکن باقی افراد کو اپنا لباس تبدیل کرنا پڑتا تھا۔

اس زمانے میں، میں تقریباً ۳۷ سال کا تھا اور دوسرے بھائی اور امام خُمینی عمامہ لگاتے تھے، لباس کی تبدیلی کے لئے وہ ہمارے پاس بھی آئے۔ میرےپاس مرحوم جناب ضیاء عراقی اورشیخ عبدالکریم اور دیگر افراد جو اصفہان اور تہران میں رہتے تھے انکی جانب سے عمامہ لگانے کی اجازت تھی۔  میں نے اجازت نامہ انہیں دکھایا تو انھوں نے مجھےعمامے کا لائسنس دے دیا اس بنا پر کہ سید مرتضیٰ عالی جنابان ضیاء عراقی اور مرحوم شیخ عبدالکریم حائری یزدی سے اجازہ  اجتہاد کے حامل ہیں اور عمامہ لگا سکتے ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے کہ جسکا نمبر ۱۵۰ تھا اسکامتن کچھ اس طرح کا تھا: " ۱۵۰ نمبر کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے تصدیق کی جاتی ہے کہ جناب سیدمرتضیٰ ھندی ساکن خُمین کمرہ عالی جنابان  آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری اور آیت اللہ ضیاء الدین عراقی نجفی دامت برکاتہ اور اہل محلہ کی تصدیق  کے مطابق، ایک جیسا لباس پہننے کے قانون کے مادہ ۲ کی شق ۱ اور ۴ کے مطابق، عالم کا لباس پہننے کے مجاز ہیں۔ تاریخ ۰۴/۰۵/۱۹۳۰ مہر و دستخط۔

بعد میں ۱۹۳۵/۱۲/۰۱  کو اس اجازت نامہ کی توثیق کردی گئی۔ اس کے باجود ۱۹۳۵ تھا یا ۱۹۳٦ مجھے نہیں معلوم گلپائگان و خُمین کا فرماندار سلطان مصطفوی کاشانی  کےساتھ کشف کے لئے آیا اور مجھ سے کہا کہ آپ اپنا لباس تبدیل کریں۔

یہ تھا وہ ماجرا جس کے بعد میں نے عمامہ اتارا۔ جس زمانے میں بے پردگی کا قانون لاگو تھا، دو افراد ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے آپ لوگ کشف حجاب کے قانون کی پابندی کریں۔ کیونکہ حکومت سے ہمارے روابط اچھے نہیں تھے۔ کارندوں نےکہا: "۲۲ حکم آپ کے خلاف جاری ہوا ہے آپ عمامہ اتار دیں"۔ میرے چھوٹے ماموں جناب حبیب اللہ  نے اعتراض کیا اور کہا: "انکے پاس تو اجازت نامہ ہے"۔ انھوں  نے جواب دیا:  "حکم یہی ہے کہ آپ عمامہ اتار دیں"۔

افسر کہ جسکا نام مصطفوی تھا اور آیت اللہ کاشانی کا رشتہ دار تھا کہنے لگا: "آپ عمامہ اتاریں کیونکہ آپ بیمار ہیں (جبکہ میں بیمار نہیںتھا) لہذا آپ کشف حجاب کی تقریب میں نا آئیں۔ میں نے کہا: بہت اچھا،  میں راضی ہوں، عمامہ اتار دیتا ہوں۔

اسی وقت، کشف حجاب کی تقریب سالار محتشم کے گھرمنعقد ہو رہی تھی۔ میں نے کہا: "علما کو اس تقریب میں نا لے جاؤ، علما احترام رکھتے ہیں"۔ اس نےکہا: اس کےعلاوہ چارہ نہیں آناپڑےگا۔  میں نے کہا:  آقامیرزا مہدی، بڑےاور ہم سےبڑےعالم ہیں ان کو تو نا لے جاؤ، لوگوں میں انکا ایک خاص احترام ہے۔  اس نے کہا: جب آپ لوگوں کےساتھ یہ کام  ہو رہا ہے تو پھرکوئی فرق نہیں پڑتا کہ میرزامہدی ہو یا کوئی اور۔

جب میں حالات نازک دیکھے تومیں اپنے مرحوم ماموں کےگھرچلاگیا۔مرحوم میرزاعبدالحسین احمدی جومیرےماموں  تھےایک با شہامت انسان تھے۔ وہاں بھی کاندرےاپہنچےاورکہا: "جشن کشف حجاب میں چلو"ماموں سادہ لوح تھے۔  کہنے لگے:  "قرآن لیکرآؤمیں استخارہ دیکھوں" میں نےکہا:  "ماموں جان وہ ہمیں زبردستی لےجارہےہیں اورآپ استخارہ کررہے ہیں۔"  کارندوں نے کہا: "ہم دوسروں کےپاس جارہے ہیں،  تم لوگوں کوواپسی میں لےجائیںگے۔"

کارندے چلےگئےمیں نےماموں سےکہا: "ہم خودچلتےہیں۔" سالارمحتشم کےگھرکی جانب جارہےتھے۔جب کارندےپلئےتوانھوں نےماموں کونہیں دیکھاوہ ہماری ہی تلاش میں تھے۔  ہم اسی گلی میں چلےگئےجہاں سے سپاہیوں  کی آوازیں آرہی تھی۔  وہ کہہ رہے تھے کہ کہاں بھاگے جارہے ہو؟  میں نے کہا:"ہم  محتشم سالارکےگھرہی جارہے ہیں۔" پھراسکےبعدانھوں نے ماموں کوایک کوٹ اورایک پہلوی کیپ دیا کہ عمامہ اورعبااتاردیں اوریہ پہلوی لباس پہن لیں۔  ہم نےجتنااصرارکیا:  کہ ایساناکرو یہ غلط ہے درست نہیں۔  مگرانھوں نےایک ناسُنی۔  میں نےکہا:  انکاشماربڑےعلمامیں ہوتاہے یہ کام ناکرو۔  ہم صادق خان کےگگھرجارہےہیں،  تم لوگ کشف حجاب کی تقریب میں جاوہمیں کیوں پریشان کررہے ہو۔  انھوں نے کہا:  ایساہرگزنہیں ہوسکتا۔  وہ لوگ ہمیں زبردستی سالارمحتشم کےگھرلےگئےجہاں یہ فحش تقریب ہورہی تھی۔

جب ماموں اس تقریب میں واردہوئے، تو انھوں نے کسی قسم کی رکاوٹ کے بغیر رضاخان اور سالار محتشم کو انواع اقسام کے فحش کلمات سنائے اور انھوں  نے ہمیں انکے انھیں کلمات کےساتھ تقریب میں داخل  کیا۔

حوض کےساتھ، کرسیاں لگی تھیں اور تاجر اور علما پہلوی کیپ اورکوٹ پہنے بیٹھےتھے۔ عورتیں بغیر چادر بدن چھپائے وہاں موجود تھیں۔

 

منبع: خاطرات آیت‌الله پسندیده برادر امام خمینی (ره)، خاندان امام خمینی، گوشه‌هایی از تاریخ معاصر ایران، به کوشش محمد جواد مرادی‌نیا، تهران، سازمان تبلیغات اسلامی، حوزه هنری، شرکت انتشارات سوره مهر، 1381، ص 104- 99



 
صارفین کی تعداد: 1386


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔