شاہ کے زمانے میں پرنٹ میڈیا


2022-2-12


پرنٹ میڈیا پرپہلوی حکومت کی سختیاں اورپابندیاں اسکی اپنےمختلف ادوارمیں مختلف رہیں تھی لیکن پرنٹ میڈیا کو دھمکیوں کا سلسلہ کم وبیش جاری تھا۔ چناچہ ۱۹اگست۱۹۵۳کی بغاوت کے بعد یہ جبری سیاست کا رویہ  جاری رہا اور پرینٹ  میڈیا پرہر دن دشوارہوتا چلا گیا۔

پہلے دس سال کا نتیجہ سیاسی بھونچال کی صورت میں تھا امام خُمینی کی سربراہی میں علماء  کی تحریک   اورانکے اشتہارات کا سامنا ساواک سے  ہوا چونکہ ۱۹۵۵میں سینسر کا قانون لاگو ہوچکا تھا جس کی  وجہ سے تمام  پرنٹ میڈیا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اخبارات ایک نئے مرحلے میں داخل  ہوچکے تھے کہ اسداللہ علم کہ جو وزیراعظم تھے (۱۹٦۲تا۱۹٦۳) انکے دورمیں ۸۰ قسم کےاخبارات اورمجلات اور ہفتہ وار رسالات شائع  ہوا کرتے تھے جن کو مختلف بہانوں سے   بند کر دیا گیا۔

ان دنوں اخبارات  جو سچی خبروں کا منبع ہوا کرتےتھے، صرف سرسری سی معلومات پرمبنی ہوگئے اور وہ بھی ساواک کی ایما پر شائع ہوتے اور خبریں املا شدہ ہوتیں۔ چناچہ جب آیت اللہ بروجردی کا ۱۹٦۱ میں انتقال ہوا، پرنٹ میڈیا پرساواک کی   حکومت تھی اورآیت اللہ کی دینی، علمی و اجتماعی شخصیت پرقلمکاروں ک لکھنے سے  روکا گیا۔ علماء کی تحریک اس سینسر کے قانون سے بہت  متاثر ہوئی، جوحکومت کے حق میں بیان کروانے میں ساواک کے ہاتھوں سخت دباؤ میں تھی۔

 



 
صارفین کی تعداد: 1837


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔