علی میرزا خانی کی یادداشتیں

ایسا شہید جو ۱۵ دن بعد جنگی محاذ پر واپس آگیا!

انصار بٹالین کے اراکین کی سالانہ نشست میں مجھے دفاع مقدس میں موجود اس بٹالین کے سپاہیوں سے  گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم ہوا۔ میں جس سے بھی کوئی واقعہ سنانے کا کہتا وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اپنی جان چھڑالیتا۔ لیکن جب وہ آیا تو  سب نے مسکراتے ہوئے اُس کا استقبال کیا۔ اُس کے اپنے دوستوں سے بات چیت کرنے کے انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ انصار بٹالین کے پرجوش سپاہیوں میں سے تھا۔ اُس کے ایک دوست نے اُس کا ہاتھ تھاما اور اُسے میرے طرف لے آیا۔ اُس نے کہا:...

وہ لمحات جو روح انگیز حیاتی کی یادوں کا حصہ بن گئے

ماہ شہر کے واحد ہسپتال میں جنگ کے ابتدائی ایام

روح انگیز حیاتی نے رضاکار افراد کی ضرورت کا اعلان سنتے ہی، خود کو اپنے شہر کے واحد ہسپتال تک پہنچایا اور وہاں امدادی سرگرمیاں انجام دیں۔ جو لوگ آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران صوبہ خوزستان کے ایک چھوٹے سے اور ساحلی شہر میں رہائش پذیر رہے وہ جانتے ہیں کہ ماہ شہر نے فوجیوں کی امداد میں، خاص طور سے زخمیوں کی بحالی اور اُن کے ابتدائی علاج میں اہم کردار اد کیا ہے۔

زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – پہلا حصہ

زبانی تاریخ، ثقافتی تبادلے کا دوسرا نام

یادوں کی جمع آوری ایک اہم کاوش ہے اگر یہ کام فعال اور بامقصد انٹرویوز کے ذریعے انجام پائے تو اسے "زبانی تاریخ" کہا جاتا ہے۔

آیت اللہ فیض گیلانی کی یادیں

مدرسہ فیضیہ پر حملہ اور امام خمینی (رہ) کی دوسری مرتبہ گرفتاری

آیت اللہ فیض گیلانی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد انقلاب اسلامی کی عدالت میں مصروف کار رہے اور ۶ سال کے عرصے تک انتظامی عدالت کی سربراہی کے عہدے پر فائز رہے۔ یہ گفتگو ۴ مئی سن ۱۹۹۳ ءکو انجام پائی

حجت الاسلام مہدوی خراسانی سے بات چیت

۵ جون سے ۱۱ فروری تک

آیت اللہ حکیم کیلئے ایصال ثواب کی مجلس میں، آیت اللہ مروارید زیب منبر ہوئے اور اُس مجلس میں انھوں نے بہت جوشیلی تقریر کی جو اُن کے خلخال جلا وطن ہونے کا سبب بنی۔ اسی اثناء میں حوزہ علمیہ قم کے اساتید نے بھی ایک بیان جاری کیا اور اُسے منبر سے پڑھا گیا کہ آیت اللہ مکارم نے اُس بیان کے بارے میں کہا ہوا تھا کہ امام کی عظمت کے بارے میں جو بھی لکھیں میں اُس پر بغیر پڑھے دستخط کردوں گا۔ وہ منبر بھی بہت مؤثر رہا۔

وہ پر جو مجھے خدا نے عطا کئے

سیدہ زہرا سجادی کی زندگی اور جدوجہد کی داستان

سن ۱۹۸۹ء؛ حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے ۲۵ دن بعد۔ سن ۱۹۸۹ء میں ہمیں دو بھاری صدموں کو جھیلنا پڑا، پہلا حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت اور اُس کے ۲۵ دن بعد ایکسیڈنٹ کا واقعہ اور میرے شوہر کی شہادت۔ یہ بھی بتادوں کہ میرے شوہر اس پہلے گروہ کا حصہ تھا جنہوں نے آکر مقام معظم رہبری سے بیعت کی۔

"مہناز فتاحی" کتاب "پناہگاہ بی پناہ" اور اُس کی تحریری کیفیت کے بارے میں کہتی ہیں

میں خود ہی اسناد تلاش کرنے پر مجبور تھی

میں یادداشت لکھنے کی عادی ہوں۔ میں بچپن سے اپنی یادداشتیں لکھتی ہوں، میں نے جنگ کے زمانے کی یادیں بھی لکھی ہیں، لیکن محال ہے کہ میں نے کوئی کتاب لکھی ہو اور اُس کیلئے تحقیق انجام نہ دی ہوں۔

عباس جہانگیری اور دفاع مقدس کی یادیں ۔ دوسرا اور آخری حصہ

سیکنڈری اسکول کے شہداء کی شب

ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کے خبر نگار کی انجینئر عباس جہانگیری کی گفتگو کے پہلے حصے میں بات یہاں تک پہنچی تھی کہ انھوں نے بتایا تھا کہ وہ دفاع مقدس کے محاذوں پر کس طرح گئے اور اسلام آباد میں ہونے والے ایک جہادی کیمپ سے لیکر و الفجر ۲ آپریشن کے بعد حاج عمران کی بلندیوں تک پہنچے۔ البتہ اس پوری داستان میں، راوی کے ساتھ ہونے والے مفید ہائی اسکول کے طالب علموں کا بھی ان یادوں میں نمایاں کردار رہا ہے۔ دوسرا اور آخری حصہ جس میں جناب جہانگیری کی گذشتہ یادیں ہیں پیش خدمت ہے، مطالعہ کیجئے۔

عباس جہانگیری اور دفاع مقدس کی یادیں ۔ پہلا حصہ

جہادی کیمپ سے لیکر حاج عمران کی بلندیوں تک

جب میں نے رابطے کیلئے فون کیا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی جلدی اُن سے ملاقات ہوجائے گی۔ لیکن جب میں نے اپنے کام کے بارے میں بتایا تو  بہت ہی جلدی مجھے ملنے کا وقت دیدیا۔ موسم خزاں کی ایک شام میں اُن کے دفتر گیا۔ ہم نے تقریباً ۴ بجے اپنی گفتگو کا آغاز کیا  اور جب میں اُن کے پاس سے اٹھا تو  رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ میں وقت گزرنے کی طرف بالکل متوجہ ہی نہیں تھا۔ ہم نے صرف مغرب کی نماز کیلئے وقفہ کیا تھا۔ ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کے خبرنگار کی...

دفاع مقدس کے سپاہی اوریونیورسٹی میں علمی انجمن کے رکن، بہزاد آسایی کی یادوں کے ہمراہ – آخری حصہ

مفید اسکول کے ساتھی

میں شناخت کیلئے تقریباً ہر رات قورہ تور نہر اور آہنگران پہاڑ کے کنارے جاتا تھا۔ میں دن کے وقت علاقے پر نظر ڈالنے جاتا اور راتوں کو بھی میں تقریباً سترہ سے بیس ہزار قدم چلتا۔ میں ٹیلوں، نہروں، کھیتوں اور مائنز کے دو تین میدانوں سے گزر کر عراقیوں تک پہنچتا۔ میں ہر رات مختلف جگہوں پر جاکر ایک ایک جگہ کو چیک کرتا کہ فوجیں کہاں سے گزر سکتی ہی۔ ہم وہاں پر موجود فوج کے ساتھ رات کا کھانا کھاتے اور پھر چل پڑتے اور صبح کے نزدیک واپس آجاتے۔ اس درمیان ہمارے ساتھ مختلف واقعات پیش آتے
6
...
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔