سن ۱۹۵۷ سے لیکر سن ۱۹۶۷ تک کے دستاویزات کے بارے میں

وہ دستاویزات جن کی تحقیق زبانی تاریخ کیلئے اہمیت کی حامل ہے

ایک وہ وقت بھی تھا جب پیغام رسانی کی واحد شکل کتاب ہی ہوا کرتی تھی۔ اور پھر رفتہ رفتہ اخبارات چھپنے لگے اور ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی منظر عام پر آگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب کے چھپنے کی تعداد اور موضوعات کے تنوع میں نمایاں کمی آگئی اور وہ سب کچھ جو کتاب کے اختیار میں تھا میڈیا کے دیگر نئے مصادیق کے ہاتھوں میں چلا گیا

تنہائی والے سال – سولہواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

مجھے آپ لوگوں سے زیادہ اذیت اور شکنجوں میں رکھا گیا ہے! چونکہ بعثی مجھ سے کہا کرتے: "تم تو عرب ہو، ہم سے کیوں جنگ کرتے ہو" اور وہ مسلسل مجھے سے اپنے ساتھ تعاون کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں

تنہائی والے سال – پندرھواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

ہم لوگوں کے درمیان کچھ کرنل تھے؛ ایک بحری افواج کے ڈاکٹر، کچھ پولیس کے آفیسرز او ر اسی طرح ایشیا کے نمبر ون ویٹ لفٹر جناب "علی والی" جو رضاکارارانہ طور پر محاذ پر آئے تھے۔ درجے والے کچھ پرانے لوگ بھی تھے جو افسر بن گئے تھے اور وہ تجربہ اور ڈیوٹی میں سینئر تھے۔ اُن میں سے ایک جو ساحلوں کی سیکیورٹی کے ادارے میں کام کرتے تھے، وہ باقی سب سے بڑے تھے اور اُن کا قد بلند تھا اور وہ دیکھنے میں لاغر نظر آتے تھے ، وہ علاقے سے گزرتے ہوئے پکڑے گئے اور قیدی بن گئے تھے

"چالیس ہزار بیٹوں" کے بارے میں ڈاکومنٹری

ہلال احمر کی زبانی تاریخ کی طرف ایک قدم

عراقی جیلوں میں قید ایرانی قیدیوں کی مظلومیت بھری داستان پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنائی گئی اور اس فلم کو نام دیا گیا: "چالیس ہزار بیٹے" اس فلم کی نمائش ۲۳ مئی ۲۰۱۸ کو ڈائریکٹر نور اللہ نصرتی کی موجودتی میں ایران کے سرکاری ارکائیو سنتر کے ڈاکٹر پرہام ہال میں کی گئی۔

تنہائی والے سال – چودھواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

دن ایک ایک کرکے گزر رہے تھے اور ہمارے پاس ایران کے حالات اور مسلط کردہ جنگ کی دقیق معلومات نہیں تھی۔ احمدی جسے تھوڑی بہت عربی آتی تھی، وہ کبھی کبھار نگہبان سے بات کرتا۔ وہ بتاتے کہ جنگ ابھی جاری ہے اور دونوں ملکوں کے وفود کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔ محاذ اور اسیروں کے بارے میں خبریں، وہاں پر موجود ایک شیعہ نگہبان سے دریافت کرلیتے تھے

تنہائی والے سال – بارہواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کئی دفعہ تکرار کرنے کے بعد، میں مجبوراً اپنے دائیں ہاتھ والے ہمسایہ کی طرف آیا اور اُس کے ساتھ بھی بالکل یہی عمل انجام دیا۔ یہ والا پڑوسی، یا تو جواب نہیں دیتا یا صرف دو چوٹیں لگا دیتا

تنہائی والے سال – گیارہواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

ہم دونوں کیلئے بہت ہی قیمتی معاملہ تھا۔ مجھے اطمینان ہوگیا کہ میں نے جو آوازیں سنی تھیں وہ ایرانی خواتین کی آوازیں ہیں۔ صدام اور اُس کے نوکروں سے کوئی چیز بعید نہیں تھی۔ جس کو پکڑ سکتے تھے، پکڑ لیتے تھے

"پزشک پرواز" نامی کتاب کی تقریب رونمائی

میں نے ایسی خوبصورتی کسی بھی تحریر میں نہیں دیکھی

خدا گواہ ہے کہ میں جانتا ہوں امریکا نہ جانے سے میرے ہاتھ سے بہت سی چیزیں نکل گئیں اور مجھے پتہ ہے کہ اگر میں چلا جاتا، بہت مختلف طرح کی خدمات انجام دے سکتا تھا، لیکن میں نے جنگ میں ایسی چیزیں دیکھی ہیں کہ تلخیوں کے باوجود اُس میں بہت سے حسین لمحات بھی پائے جاتے ہیں کہ کوئی بھی کتاب، ناول یا داستان مجھے وہ حسین لمحات نہیں دے سکتے

تین شہیدوں کی یاد میں کتابیں

فاو سے پرواز، یعقوب کی آنکھیں اور جنگ کی فرنٹ لائن

جیسے ہی گھر کے دروازے پہ لگی گھنٹی بجی، میں صحن کی طرف گیا , دروازہ کھولا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا، میں ایک لحظہ کیلئے ساکت ہوگیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ حاج قاسم (سلیمانی) رضا کے چند دوستوں کے ساتھ ہم سے ملنے آئے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔

تنہائی والے سال – دسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد دریچہ کھلا اور ایک ناشپاتی اور ایک جلی ہوئی سگریٹ میرے ہاتھ میں تھما دی۔ یعنی مجھے سمجھ لینا چاہئیے تھا کہ ماچس بالکل ممنوع ہے۔
...
7
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔