یادوں بھری رات کا ۳۱۶واں پروگرام (پہلا حصہ)

تکفیری دہشت گردوں کی اسارت میں پیش آنے والے چند واقعات

الناز درویشی

مترجم : محسن ناصری

2021-01-16


یادوں بھری رات کے ۳۱۶ویں پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں اسیر ہونے والے " مصطفی بیدقی" اور دفاع مقدس کے مجاہد " جناب سردار علی ولی زادہ" نے شرکت کی اور اپنی مجاہدانہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو بیان کیا۔ اس پروگرام کو ۲۷ اگست ۲۰۲۰ء کو آپارات ویب سائٹ کی جانب سے نشر کیا گیا۔ اس پروگرام کی میزبانی کے فرائض جناب داود صالِحی انجام دے رہے تھے۔

اس پروگرام کے پہلے مہمان جناب " مصطفی بیدقی" تھے جو شام زیارت کے مقصد سے جانے والے ۴۸ ایرانی اسیروں میں سے ایک تھے۔ جن کو شام پہنچتے ہی تکفیری دہشت گردوں نے گرفتار کرلیا تھا۔ ان کی اسارت ۱۶۸ روز پر مشتمل رہی۔ جس کے دوران پیش آنے والے واقعات کو آپ نے اس پروگرام میں بیان کیا۔

جناب مصطفی بیدقی اپنی داستان کا آغاز کچھ اس طرح کرتے ہیں:

۴ اگست ۲۰۱۲ء اور ماہ مبارک رمضان کی ۱۵ تاریخ تھی کہ ہم نے شام کے شہر دمشق کی جانب حرکت شروع کی۔ جب دمشق ائیرپورٹ پر پہنچے تو قرار یہ پایا تھا کہ سب سے پہلے حرم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضے کی زیارت کریں گے اور پھر دمشق شہر کی جانب حرکت کریں گے۔ دمشق ائیرپورٹ سے زینبیہ کے راستے میں کچھ چورنگیاں موجود ہیں، بس کے ڈرائیور نے پہلے ہی دہشت گردوں سے ہم آہنگی کررکھی تھی کہ ان میں سے کسی ایک چورنگی پر بس کو روک دے گا اور بس کا دروازہ کھول کر رکھے گا۔ میں جو کہ بس کی ابتدائی سیٹوں پر موجود تھا، میں نے مشاہدہ کیا کہ ہماری بس کو چند گاڑیوں نے گھیرے میں لے لیا ہے جس میں مسلح افراد موجود ہیں۔ ان مسلح افراد نے بس کو محاصرے میں لیا اور پھر بس میں داخل ہوگئے۔ حملہ آوروں نے ابتداء سے ہی مسافروں کو مارنا شروع کردیا اور کہا کہ تمام مسافر اپنے موبایل فون ان کے حوالے کردیں اور اپنے سروں کو سیٹوں کے درمیان جھکائے رکھیں۔ یہ تمام امور ایک افغانی مترجم کی جانب سے ہم تک منتقل کیے جارہے تھے۔ جو کہ فارسی زبان ہونے کی وجہ سے ہم تک احکام منتقل کررہا تھا، اُس کے بعد ائیرپورٹ سے دمشق کے راستے میں ابو محمد نامی شخص راستہ شناس کے عنوان سے ہمارے ساتھ ہوا۔

ہم کو ابتداء میں "جرمانا" نامی علاقے میں لے جایا گیا اور بعد میں ایک چھوٹے سے شہر جس کا نام "بیت نائم" تھا، منتقل کردیا گیا۔ میں تمام راستے کوشش کرتا رہا کہ سڑک کے کنارے نصب سائن بورڈ کو پڑھتا چلوں  تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ ہماری بس ایک عمارت نما جگہ پر رُکی، جس کا ظاہر پارکنگ تھا۔ اس کے بعد ہمیں اس جگہ پر ایک ایک کر کے بس سے اتار کر ایک کمپاونڈ میں منتقل کردیا گیا۔ جب ہم کو اس کمپاونڈ میں منتقل کیا جارہا تھا تو ہمیں ایک صف کی صورت میں گزارا گیا جس کی دونوں جانب دہشت گرد موجود تھے اور یہ دہشت گرد کبھی تاروں سے بنے چابک مارتے ، کوئی اینٹ ہاتھوں میں لے کر ہمارے سروں پر ماتا تو کوئی لاٹھی سے ہمیں پیٹتا، خلاصہ جس کے ہاتھ میں جو ہوتا ہمیں اس سے تشدت کا نشانہ بناتا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتا تھا۔ عمارت کے دروازے پرایک طویل قامت شخص جس کے شانے چوڑے اور انتہائی غصہ کے عالم میں موجود تھا اس کا نام ابوعدی تھا بعد میں معلوم ہوا وہ ایک سعودی شہری ہے۔ میرے کوٹ پر " یا زینب سلام اللہ علیہا" کا بیج تھا، جیسے ہی ابوعدی کی نظر اس پر پڑی تو گویا وہ غیظ کے عالم میں مجھے  دیکھ کر کہہ رہا تھا " ابھی تمہاری خاطر کرتا ہوں "۔ ہمیں ایک ہال میں مخصوص فاصلے سے بٹھایا گیا اور تقریباً دو گھنٹوں تک بدترین تشدد کیا گیا۔ جو جسمانی اور نفسیاتی دونوں اعتبار سے ہمارے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا۔

خاطر تواضع کے بعد ہمارے پاس جو کچھ بھی موجود تھا یعنی گھڑی ، انگوٹھی، جوتے، کوٹ، بیلٹ وغیرہ سب کچھ ہم سے لے لیا اور یہ لوگ اس قدر نادیدہ اور پست تھے کہ وہیں پر آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ اس کے بعد ہمیں حکم ہوا کہ اپنا نام اور والدین کا نام بتائیں، میرا خیال تھا اس کا مقصد پاسپورٹ کی تصدیق کرنا ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے اور ہم تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکے ہیں۔ یہ دہشت گرد کچھ ناموں کی نسبت زیادہ حساس تھے جن میں " علی ، حسن و حسین و مہدی شامل تھے۔ جس کا نام ان میں سے کوئی ہوتا یا اس کے والد کا نام ان ناموں پر ہوتا تو اس کو دوسرے افراد کی نسبت ۱۰سے ۱۵ طمانچے زیادہ کھانے پڑتے۔ ہمیں اس وقت اندازہ ہوا کہ ہمیں آج امیرالمومنین علیہ السلام کی محبت کا تاوان ادا کرنا ہوگا۔

ہمارے گروہ میں ارومیہ شہر سے تعلق رکھنے والا سیّد بزرگ بھی موجود تھا جو کہ میرے برابر میں ہی بیٹھا تھا مجھ سے کہنے لگا " یہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں۔۔؟"۔ اس وقت خداوند کا لطف ہوا اور میری زبان سے کچھ اس طرح کے جملے جاری ہوئے " اگر کوئی اپنے آپ کو حضرت زہرا صدیقہ سلام اللہ علیہا کا وارث سمجھتا ہے تو یہ طمانچے اس کا ارث ہیں"۔ میرے ان جملات کی سرگوشی دوستوں کے درمیان ہونے لگی جو ہمارے لیے ہمت اور حوصلے کا باعث بنی اور ہم ان مشکلات کو تحمل کرنے کے قابل بنے۔ بی بی دو عالم کا نام ہمارے لیے ظلم و جور سے مقابلے کا باعث بنا اور جب بھی کسی نے طمانچہ کھایا تو کبھی اپنا سر نہیں جھکایا۔ کئی گھنٹے اسی تشدت کے عالم میں ہم پر گزرے یہاں تک کے ان دہشت گردوں میں سے ایک ابوحمزہ نامی دہشت گرد داخل ہوا اور انتہائی بے ادبی کے ساتھ سوال کرنے لگا کہ تم میں سے کون ہے جو امام خمینیؒ کا چاہنے والا ہے۔۔۔؟ عجیب و غریب بات تھی اور خداوند اس عمل پر ہمارا گواہ ہے کہ اس قدر تشدّد اور زدکوب کے بعد بھی تمام دوستوں نے اپنے ہاتھ بلند کیے۔ ہمارے اس عمل نے ان کے وجود میں خوف کو ایجاد کردیا اور اس خوف کے عالم میں انہوں نے اپنے ہتھیار ہم پر تان لیے۔

یدُ اللہِ فوقَ ایدیھم

اسارت کے تمام عرصے میں ہمیں تین مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا گیا اور اس تمام مدت میں ہمیں ۷ شہر اور ۱۴ مختلف مقامات پر منتقل کیا گیا۔ بعض مقامات پر ہم ایک جگہ جمع کر دیے جاتے تھے اور کبھی جدا جدا قید کیے جاتے تھے۔ ان کے پاس ہمیں قید کرنے کے لیے زندان موجود نہیں تھے تو وہ ہمیں انڈرگراؤنڈ، بیسمنٹ یا حیوانات کے اسطبل میں رکھا کرتے تھے۔ اس دوران ان دہشت گردوں میں ایک شخص موجود تھا جس سے ہم کسی حد تک بات چیت کرسکتے تھے اور وہ ہماری بات سمجھتا تھا۔ ہم نے اس سے سوال کیا کہ ہمیں یہاں کیوں لائے ہو تو اس نے جواب میں کہا " یہ جگہ شامی فوجیوں کو ٹارچر کرنے کے لیے مخصوص ہے اور ان افسروں کا یہاں لایا جاتا اور وہ افراد جن سے ہمیں کچھ خاص اعترافات کروانے ہوتے ہیں ان کو اس مقام پر منتقل کرتے ہیں۔۔۔" اس جیل کا نام ابوغریب تھا۔

ابوغریب جیل میں ساتواں روز پہنچا تو ابو الناصر الشمیر نامی کمانڈر ہمارے پاس آیا تاکہ خوف و ہراس ایجاد کرکے ہم سے اعترافی بیان لے سکے۔ ہم دوستوں میں ایک نے ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے کہا " پروردگار اپنی مدد کو ہم تک پہنچا"۔ اس کے جواب میں ابو الناصر نے کہا کہ " تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی اگر تمہاری دعا قبول ہونی ہوتی تو تم قید نہ ہوتے تم مجوس اور کافر ہو اور اللہ کی رحمت تمہارے شامل حال نہیں ہوگی"۔ جس وقت ابو الناصر یہ باتیں کررہا تھا میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ ۱۴۰۰ سال پہلے حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کو اس کے ظلم کا کیا جواب دیا تھا۔ حضرت زینب سلام علیہا کی مدد سے میرے وجود میں جو حالت ایجاد ہوئی تھی اس نے مجھے حوصلہ دیا کہ اس یزید وقت کو جواب دے سکوں۔۔ میں نے بلند آواز ہوکر کہا " یدُ اللہِ فوقَ ایدیھم"۔ جب میں نے یہ جملے کہے تو ابو الناصر شدید غصے میں آگیا اور ساتھ ہی اس پر خوف بھی طاری ہوگیا۔ اسی اثناء میں وہاں ایک شامی جنگی طیارہ آن پہنچا دہشت گرد سمجھے کہ یہ جہاز بمباری کے ارادے سے آیا ہے اور وہ سب خوفزدہ ہو کر فرار ہونے لگے۔

تقریباً ۵۰ دن تک ہم کو "زملیکا" نامی جگہ پر ایک انڈرگروانڈ  احاطے میں رکھا  گیا جہاں ۳۰ سیڑھیاں اترنا پڑتی تھی۔ وہاں پر ایک ٹوائلٹ( بیت الخلاء) بھی تھا۔ ۱۹ دنوں بعد ہی  بیت الخلاء کا گٹر بھرنے لگا اور شدید تعفّن اٹھنے لگا اور وہاں سانس لینے میں بھی اذیت ہونے لگی۔ اس جگہ کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ بدبُو کی وجہ سے یہ تکفیری نیچے نہیں آتے تھے اور ہم ان دنوں ان کے تشدد سے محفوظ رہے۔ عید قربان آن پہنچی، ان دہشت گردوں میں سے ایک ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم لوگ خود ہی گٹر کھولو۔ ہم کو اوزار لا کر دیے اور دوستوں نے گڑر کھولا تو یہ ملعون کہنے لگا یہ تمہاری عید کا تحفہ ہے۔ یہ جگہ کاملا ًتاریک تھی جس میں شب و روز کا پتہ نہیں چلتا تھا اور ہمیں ۲۴ گھنٹوں میں صرف ایک موم بتّی دی جاتی تھی تاکہ اس جگہ کو روشن کرسکیں۔ عید قربان سے لے کر عید غدیر میں ۱۰ دن کا فاصلہ ہے تو میں نے تجویز دی کہ ان دس دنوں میں مولا امیرالمومنین علیہ السلام سے متعلق کوئی بھی حدیث یا قول یا واقعہ اگر کسی کو یاد ہو تو بیان کرے اور ہم ان دنوں میں جشن کرسکیں۔ پورے دن میں ہماری غذا ایک پلیٹ ابُلا ہوا جُو ہوتا جس میں سے ۵ افراد کھاتے تھے۔ پینے کے لیے، وضوء اور طہارت کے لیے صرف ایک گلاس پانی دیا جاتا تھا۔ ہم پانی کو پینے کے لیے رکھ لیا کرتے تھے اور وضوء کی جگہ تیمم کیا کرتے تھے۔

ایّام محرم و عزائے امام حسین علیہ السلام

عزادری امام حسین علیہ السلام بھی ایک عجیب و غریب خصوصیت رکھتی تھی۔ جیسے ہی ماہ محرم آیا ہمیں آپس میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ جب زملیکا پر بمباری شروع ہوئی تو وہاں کی بجلی منقطع ہوگئی۔ بجلی کی فراہمی کے لیے انہوں نے جنریٹر لگائے ہوئے تھے جس کی آواز میں ہماری عزداری کی صدا پتہ نہیں لگتی تھی۔ جب پانچ محرم ہوئی تو ہم نے حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان کئے۔ ہمارے ایک دوست نے ایسے ہی کہا کہ مجھے مجلس کے بعد پلائے جانے والی چائے یاد آرہی ہے۔ کچھ دیر میں دیکھا کہ ایک تکفیری آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک کیتلی تھی میں نے سوچا کہ یہاں تو کوئی جگہ نہیں کہ کیتلی دھوئی جائے۔ اس نے کہا " آؤ اِسے لے لو"۔ میں نے سوچا شاید دھونے کے لیے کہہ رہا ہے لیکن جب ہاتھوں میں لی تو دیکھا بھری ہوئی تھی۔ اسارت کے زمانے میں دوستوں نے بہت سے خواب دیکھے ہمارے ایک دوست  آقا جوادی نے خواب دیکھا کہ ہم مولا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جارہے ہیں۔ اس دن سے ہم میں جس کو جس قدر زیارت عاشورہ یاد تھی وہ پڑھتا تھا۔ اس زیارت کی برکت سے ہمیں ۲۸ صفر امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے دن رہائی نصیب ہوئی۔ رہائی سے پہلے ابو الناصر الشمیر ہمارے پاس آیا۔ اس کی حالت سے واضح تھا وہ ٹوٹا ہوا ہے اور اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ابو الناصر ہر ایک قیدی کو گھور کر دیکھنے لگا۔ تو اُسی دوست نے دوبارہ کہا "  پروردگار اپنی مدد کو ہم تک پہنچا"۔ لیکن آج ابوالناصر کا ردعمل پہلے کی نسبت بہت مختلف اور حیران کُن تھا۔ وہ شخص جو ہمیں مجوس اور کافر خطاب کررہا تھا اور کہہ رہا تھا تمہاری دعا مستجاب نہیں ہوگی، وہ کہنے لگا " تم لوگوں کی دعا خدا نے سُن لی ہے، تم لوگ نیک افراد ہو تم لوگ نورانی ہو ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔۔" ابو الناصر محبان امیرالمومنین علیہ السلام کے عقیدے کے سامنے شکست کھا چکا تھا جو کہ ایک خوبصورت لمحہ تھا۔۔۔


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3316



http://oral-history.ir/?page=post&id=9706