فوجی عدالت میں مقدمہ کی پیروی

فوجی عدالت میں دفاع

مترجم: زوار حسین

2021-01-16


میرا کیس (آیت اللہ سید علی خامنہ ای) اس جیل میں (مشہد ۔ 1963ء عیسوی) فوجی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ فوجی عدالت چھاونی کے درمیان تھی اور جتنا عرصہ میں جیل میں رہا میرا اس عدالت میں آنا جانا رہا ، یا عدالت مجھے سوالات کے جوابات کے لئے طلب کرتی یا میں کسی نہ کسی مسئلہ کی وجہ سے عدالت میں شکایت کرتا جس وجہ سے عدالت جا کر اس شکایت پر سوالات کے جواب دینے پڑتے۔ میں نے شکایت کی کہ مجھے کیوں ضمانت پر رہا نہیں کیا جا رہا؟ جب کہ قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ میں نے شکایت کی کہ کیوں مجھے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کی اجازت نہیں ؟ انفرادی زندان میں رکھنے پر اعتراض کیا جب کہ مجھ سے تفتیش وغیرہ مکمل ہوگئی تھی۔ ۔ ۔  مجھے علم تھا کہ عدالت کے بس میں نہیں کہ میرا کوئی بھی تقاضا پورا کر سکے ، لیکن میرا ارادہ یہ تھا کہ ان کے غیر قانونی کاموں کے مقابل، میں اپنے ردعمل کا اظہار کروں ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جج نے میری درخواست کے جواب میں مجھ سے کہا : مجھے ساواک سے پوچھنا پڑے گا۔ البتہ یہ بات غیر ارادی طور پر اس کی زبان سے نکلی تھی اور میں نے ان الفاظ کو اس کے خلاف استعمال کیا اوراُس کی اس بات پر تعجب سے کہا :یہ کیسے ممکن ہے کہ عدالت ساواک کے زیر اثر ہو؟ اس نے فوراً اپنی بات تبدیل کی اور ساواک کے چیف کی تعریف و تمجید اور فضائل سنانا شروع کردیئے۔

فیصلہ کا دن معین ہوگیا۔ میں نے اپنی فائل کو دوبارہ مطالعہ کرنے کے لیے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے میرے پاس لانے درخواست کی۔ عدالت کی طرف سے میرے لئے ایک وکیل تعیین کیا تھا ، لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ صرف خانہ پوری کے لئے ہے اور عدالت کے فیصلہ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔ میں نے اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے  30 صفحات کی تحریر تیار کی تھی۔ 

فیصلہ کے دن کمرہ عدالت میں داخل ہوا، رئیس،  دو جج اور وکیل صفائی موجود تھا۔ یہ سب فوجی تھے اور فوجی نشان ان کے سینے اور کندھے پر لگے تھے اور فوجی ٹھاٹ باٹھ کے ساتھ صدر محفل میں براجمان تھے۔ میں نے اپنی صفائی میں پیش کی جانے والی تحریر کو مضبوط اور پختہ لہجے سے بیان کیا۔ یہ دستاویز بھی میں نے سابقہ دستاویز کی طرح جیل میں آمادہ کی تھیں  اور دقیق انداز میں قانون کی مختلف شقوں کی طرف اشارہ کیا اور اسے منطقی انداز میں تدوین کیا گیا تھا۔

انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ایک دینی طالب علم سے ایسی گفتگو سنیں گے یا اس کی طرف سے ایسا ردعمل آئے گا کیوں کہ ان کے ذہن میں جو دینی طلاب اور علماء کی تصویر تھی وہ بہت جہالت اور عقب ماندگی پر مشتمل تھی۔ میں نے عدالت میں موجود افراد کے چہروں سے اندازہ لگا لیا کہ وہ میری حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور پرمعنی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں ،عدالتی کاروائی میں وقفہ کے دوران انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار کیا اور مجھے شاباش دی اور میرے الفاظ اور معانی کے انتخاب اور اپنی صفائی میں میرے انداز بیان کی بہت زیادہ تعریف و تمجید کی۔

عدالتی کاروائی کے بعد مجھے کہا گیا کہ کمرہ عدالت سے باہر انتظار کروں۔ میں بے چینی سے فیصلہ کے انتظار کر رہا تھا۔   فیصلہ کا دن اور قیدیوں سے ان کے عزیز و اقارب کی ملاقات کا دن اتفاقاً ایک ہی تھا۔ میرے رشتہ دار میری ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے اور جیل کے باہر منتظر تھے۔ عدالت کیوں کہ چھاونی کے درمیان تھی اور مین داخلی دروازہ سے دور تھی ، میرے رشتہ دار ظہر تک میرے منتظر رہے کچھ چلے گئے تھے اور کچھ ابھی انتظار کررہے تھے ، البتہ فیصلہ ہوچکا تھا ، لیکن اسے خاص قسم کے اوراق پر ٹائپ ہونا تھا اور پھر عدالت میں موجود افراد اور ملزم کے سامنے پڑھا جانا تھا۔ میں فیصلہ کا انتظار کر رہا تھا۔

دفتری ٹائم ختم ہوچکا تھا اور عدالت کے افراد میں سے کوئی ایک فرد باہر آیا اور ایک فیملی کو دیکھا جو اپنے قیدی کے انتظار میں ہیں ، اسے پتہ چلا کہ یہ میرے رشتہ ہیں تو اس نے میری آزادی کا فیصلہ ان کو بتایا۔ اس طرح میرے خاندان والے مجھ سے پہلے میری آزادی کے فیصلہ سے آگاہ ہوچکے تھے۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 3220



http://oral-history.ir/?page=post&id=9699