ایک خاتون زائر کے مطابق

اربعین کی پیادہ روی کے انتظامات میں خواتین کا کردار سادہ لیکن پاکیزہ مکانات

فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: ضمیر رضوی

2021-01-12


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کار طے شدہ دن آپہنچا تھا۔ 25 اکتوبر 2016ء کو صبح 11 بجے ہم اربعین کی پیادہ روی میں شرکت کرنے کے ارادے سے نجف شہر سے باہر نکلے۔ ہمارے علاوہ دوسرے لوگ بھی شہر سے نکل رہے تھے۔ کچھ گھنٹوں کی پیادہ روی کے بعد ہم شہر کے خارجی راستے اور پول نمبر 1 پر پہنچے۔ سڑک تین حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی۔ دو سڑکیں پیادہ روی کے لئے تھیں اور ایک سڑک گاڑیوں کے آنے جانے کے لئے۔ شور و غل مچا ہوا تھا۔ پیادہ روی کی سڑکوں پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ہمارے ساتھ ساتھ وہاں تقریباً ہر قوم و ملت کے لوگ آئے ہوئے تھے ہندوستانی پاکستانی سے لے کر لبنانی، ایرانی، عراقی، آذربائیجانی، ترک، کینیڈین وغیرہ وغیرہ، جتنا ہم آگے بڑھتے جا رہے تھے رش اتنا زیادہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ تھوڑا سا آگے ہی ایک پل تھا جس پر اور زیادہ رش تھا۔ یہ سب لوگ اپنی کمروں پر بستے اور ہاتھوں میں پرچم لیے بغیر کسی تفریق کے ایک ہی سمت میں چلے جا رہے تھے۔ یہ ہجوم دیکھ کر میری ایک عجیب سی کیفیت ہو گئی اور کچھ لمحوں کے لئے میں سکتے میں آگئی۔ مجھے یزید کے دربار میں جناب زینب (س) کا خطبہ یاد آگیا، بی بی نے یزید سے خطاب فرمایا تھا: " خدا کی قسم! نہ تو ہماری یاد کو کبھی مٹا پائے گا، نہ ہمارے وحی کے چراغ کو بجھا پائے گا اور نہ ہمارے مقام و منزلت کو کوئی نقصان پہنچا پائے گا!" موکب(کیمپ) پہلی سڑک کے دائیں جانب لگے ہوئے تھے اور ان پر چائے پانے میسر تھا۔ سڑک پر جگہ جگہ کچھ جوان کھڑے تھے اور بلیک کافی پیش کر رہے تھے۔ ایک ٹھیلے والا کنارے پر جھنڈے بیچ رہا تھا۔ کچھ کیمپ اسٹالز یا ہمارے صلواتی اسٹاپوں کی طرح تھےجو کوئلے والی چائے دے رہے تھے اور کچھ خدام بڑی کیتلیوں میں چائے بنا رہے تھے۔ دوسری  طرف سڑک کے بیچ میں اسٹولوں پر بڑے بڑے تھالوں میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔ کچھ کیمپوں کے مالک اونچی آواز میں کہہ رہے تھے: "اهلا و سهلا بزوار ابو سجاد"۔ کیمپ مالکان کے علاوہ جس سے جو کام ہو سکتا تھا وہ کر رہا تھا۔ دو عراقی جوان اسٹول پر کھڑے تھے اور زائرین کے سروں پر عرق گلاب چھڑک رہے تھے۔ ایک ایرانی جوان عالم دین اسٹول پر کھڑے تھے ایک قرآن ان کے دائیں ہاتھ میں تھا اور ایک ان کے بائیں ہاتھ میں اور وہ زائرین کو قران کے نیچے سے گزار رہے تھے۔ جگہ جگہ پانچ چھ سال سے بارہ سال تک کی چھوٹی چھوٹی بچیاں کھڑی تھیں کچھ ہاتھوں میں عطر کی شیشیاں لیے زائرین کے ہاتھوں یا کپڑوں پر عطر لگا رہی تھیں اور کچھ ہاتھوں میں جگ گلاس لیے زائرین کو پانی پلا رہی تھیں۔ پانی کے صاف نہ ہونے، بیماری کے امکان اور کئی لوگوں کے ان گلاسوں سے پانی پینے کی وجہ سے ہم ان سے پانی نہیں پیتے تھے لیکن ہم بچیوں کے بوسے لیتے تھے اور ہماری ایک ساتھی انہیں رنگین کڑے دے رہی تھی۔ قدم قدم پر چھوٹے چھوٹے بچے اکھٹا ہوتے تھے اور جمع ہو کر زور زور سے آواز لگاتے تھے:  لبیک یا حسین! بعض جگہوں پر کیمپوں میں سے عربی نوحوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں بہت پرسکون اور چاک و چوبند تھی۔ ہم چل نہیں رہے تھے بلکہ اڑ رہے تھے، ہم جنت کی طرف جا رہے تھے۔ سڑک کے شروع سے تا حدِّ نظر سڑک کے بیچ میں موجود پولوں پر داعش سے جنگ کے شہداء کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ ہم نماز اور دوپہر کے کھانے کے لئے رکے۔ میری سوچ اور سنی ہوئی باتوں کے برعکس واش روم بہت صاف ستھرے تھے اور نلوں میں پانی بھی ٹھیک ٹھاک آ رہا تھا۔ ہم نے پلاسٹک کے نیلے خیمے کے نیچے نماز ادا کی اور دوپہر کے کھانے میں ہم نے مچھلی کھائی۔ سب کے نماز پڑھنے اور دوپہر کا کھانا کھا کر جمع ہونے میں کچھ دیر لگ گئی۔ تقریباً دوپہر کے تین بجے ہم پھر روانہ ہوئے۔ پول نمبر 14 کے قریب قافلہ سالار نے رکنے کا حکم دیا اور کہا: " آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور اب ہمیں مناسب جگہ ڈھونڈنی چاہیے۔" ہماری تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کیمپ یا گھر ڈھونڈنا مشکل تھا، سارے زائرین تھک چکے تھے۔ ہم پچھلی رات ہی نجف پہنچے تھے اور مردوں کے ہوٹل ڈھونڈنے اور ہمارے جگہ لینے میں کچھ دیر ہوگئی تھی۔ ہم صرف ایک گھنٹے کے لئے مولا علی ع کے حرم جا پائے تھے اور پھر ہوٹل واپس آ گئے تھے۔ مردوں نے عراق کی سرزمین پر پہنچنے سے پہلے صبح سے رات تک "چذابہ" بارڈر تک ڈرائیونگ کی تھی اور ہم نے رات چذابے میں ہی گزاری تھی۔ گزشتہ روز بھی ہم صبح سے رات تک نجف کے راستے میں تھے۔ نجف کے ارد گرد ٹریفک بہت زیادہ تھا اور شہر میں داخل ہوتے ہوتے رات ہو گئی تھی۔ ڈرائیور نے ٹریفک اور پیدل زائرین سے بچنے کے لئے معمول کے راستے کو چھوڑ کر ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور نجف اشرف پہنچنے میں ہمیں تقریباً سات گھنٹے لگ گئے تھے۔ اسی لیے قافلہ سالار نہیں چاہتا تھا کہ ہم اس دن زیادہ چلیں اور اس کا ارادہ تھا کہ سورج ڈھلنے سے پہلے وہ کوئی مناسب کیمپ یا گھر ڈھونڈلے۔ لیکن مجھ میں تڑپ تھی، تھکن کے باوجود میں چاہتی تھی کہ میں اور چلوں۔ میں اتنی تھکی ہوئی نہیں تھی کہ ٹھہر جاؤں۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ پورے سال کے انتظار کے بعد میں پیادہ روی میں شرکت کر سکتی ہوں۔ میں 2013ء اور 2014ء میں اربعین کی زیارت کے لئے کربلا آئی تھی لیکن میں نے پیادہ روی میں شرکت نہیں کی تھی۔ 2013ء میں ہمارا ہوٹل پیادہ روی کے روڈ کے ساتھ واقع تھا جب پیادہ روی کرنے والے زائرین ہمارے سامنے سے گزرتے تھے تو میں حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتی تھی اور آرزو کرتی تھی کہ کاش میں بھی ان کی طرح پیادہ روی میں شرکت کر پاتی، لیکن ہم انجمن حج و زیارت کے کاروان کے ساتھ آئے تھے اور پیادہ روی میں شرکت کرنا ہمارے پروگرام میں نہیں تھا۔ ہم قافلہ سالار کے مناسب جگہ ڈھونڈنے تک چائے بانٹنے والے اور نوحےچلانے والے ایک کیمپ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ لوگ اسی طرح سے اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ چند لمحوں بعد میری نظر قافلہ سالار پر پڑی جو دوسری طرف 19، 20 سال کے لڑکے سے بات کر رہا تھا، وہ لڑکا اسے اپنے گھر کی دعوت دے رہا ہے۔ قافلہ سالار نے اس کی دعوت  قبول کر لی اور ہمیں اشارہ کیا کہ ہم ان کے ساتھ چلیں۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ اس لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی آنکھ پر رکھا اور کہا: "علی عینی" یعنی آپ کے قدم سر آنکھوں پر اور اس نے وائی فائی کا بھی نام لیا یعنی اس کے گھر میں انٹرنیٹ بھی موجود تھا۔ وہ گھر کی تمام سہولیات تفصیل سے ہمیں بتا رہا تھا تاکہ ہم وہاں جانے میں دریغ نہ کریں۔  گھر کیمپوں کے پیچھے ایک گلی میں تھا۔ ہمارے ایک ساتھی جو تیسری بار اربعین کی پیادہ روی میں شرکت کر رہے تھے کہنے لگے: "پچھلی گلیوں میں جو گھر ہیں وہ آرام کرنے کے لیے بہتر ہیں کیونکہ وہاں نوحوں کی آواز نہیں آتی اور آنے جانے والوں کا بھی پتہ نہیں چلتا۔" اس گلی کا روڈ خراب تھا۔ ہم قافلہ سالار کی تجویز کے مطابق بیگوں کے علاوہ پرام بھی لے کر آئے تھے تاکہ بیگوں کو ان پر رکھ کر آسانی سے چل سکیں۔ سب پرام کو آہستہ آہستہ چلا رہے تھے تاکہ اس اونچے نیچے راستے سے اس کے پہیے خراب نہ ہو جائیں۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ ہم کس گھر میں ٹھہریں گے لیکن میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہ گڈھوں سے بھری گلی ہے تو گھر بھی ویسا ہی ہوگا! گھر اسی گلی کے آخر میں واقع تھا اور قریب ہی تھا۔ خواتین کی رہائشگاہ مردوں سے الگ تھی، مردوں کو سامنے والے گھر میں جگہ ملی۔ طے پایا کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے میں اور ایک دوسری خاتون اندر جائیں گے اور دیکھیں گے کہ گھر رہنے لائق ہے یا نہیں اگر مناسب ہوا تو باقی لوگ بھی آجائیں گے۔ ہم نے دروازے پر پڑا پردہ ہٹایا اور صحن میں داخل ہوئے جو نسبتاً چھوٹا تھا۔ بائیں جانب کچھ خواتین  روٹیاں پکا رہی تھیں۔ ہم نے سلام کیا اور اندر چلے گئے۔ وہاں نو میٹر کا باورچی خانہ تھا۔ کچھ خواتین اور لڑکیاں سلاد بنانے میں مشغول تھیں۔ ساری خواتین اور لڑکیوں نے لمبی لمبی کالی قمیضیں اور اسکارف پہنے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں بھی سلام کیا، انہوں نے جواب دیا۔ ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی نے مسکرا کر ہمیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم اس کے پیچھے گئے۔ پتلی سی راہداری کے آخر میں سیڑھیاں تھی جو دوسری منزل پر جانے کا راستہ تھا۔ ٹیڑھی میڑھی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے ہم اوپر چلے گئے۔ ہم تینوں کے علاوہ دوسری منزل پر اور کوئی نہیں تھا۔ وہ بچی بڑی بے تابی سے ہمیں پوری عمارت دکھا رہی تھی۔ گھر نیا بنا ہوا نہیں تھا لیکن صاف ستھرا تھا۔ بیچ میں ایک بڑا ہال تھا۔ واش روم اور غسل خانہ عمارت کی بائیں جانب تھا اور ایک چھوٹا باورچی خانہ دوسری طرف تھا۔ جو ایک چھوٹے کمرے کی طرح بنایا گیا تھا تاکہ زائرین اسے استعمال کر سکیں۔ ہال کے آخر میں چھت پر جانے والی سیڑھیوں کے نیچے اچھی طرح سے کمبل بستر وغیرہ تہہ کر کے رکھے ہوئے تھے۔ ہال کے علاوہ دو نو نو میٹر کے کمرے ایک ساتھ تھے۔ سب کچھ بہت اچھا تھا، اتنا صاف ستھرا گھر! اور ہمیں کیا چاہیے تھا؟ صرف ایک بنیادی مشکل تھی اور وہ زیادہ اور آڑھی ٹیڑھی سیڑھیاں تھیں۔ ہمارے قافلہ سالار کی والدہ جو سارا وقت ویل چیئر پر تھیں وہ ان سیڑھیوں سے اوپر نہیں آسکتی تھیں۔ ہم اسی کشمکش میں تھے کہ وہاں رکیں یا نہ روکیں۔ میری ساتھی نے مجھ سے کہا: " ہم یہاں نہیں رہ سکتے کیونکہ ہمارے ساتھ جو  بزرگ خاتون ہیں وہ ان سیڑھیوں سے اوپر نہیں آسکتیں۔" میں نے اس لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور سر ہلا کر اسے سمجھایا کہ ہم یہاں نہیں رک سکتے۔ اس لڑکی کو بہت مایوسی ہوئی اور اس نے ایک عجیب پریشانی اور حسرت کی نگاہ سے ہمیں دیکھا! گویا ہم اس کا گھر خریدنے یا کرائے پر لینے آئے تھے اور وہ سمجھ رہی تھی کہ ہم اسے ضرور پسند کرلیں گے اور اب اس کی توقع کے برخلاف ہمیں گھر پسند نہیں آیا! میرے دل میں کچھ ہوا! میرے خیال میں اس لڑکی نے سوچا کہ زائرین امام حسین ع نے ہمیں اہل نہیں سمجھا۔ میں نے اپنی ساتھی سے کہا: " بہتر ہوگا کہ ہم اس صورت حال پر قافلے والوں کے ساتھ تبادلہ خیال کریں دیکھتے ہیں ان کی کیا رائے ہے؟! شاید وہ رکنے کے لئے تیار ہو جائیں۔" طے پایا کہ فیصلہ ہونے تک میں وہیں رکوں گی۔ چند لمحوں بعد میری ساتھی واپس آئی اور اس نے کہا: " کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم یہی رکیں گے۔ بزرگ خاتون نے کہا ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔"  اس کا مطلب ہم ایک بزرگ لیکن ہم آہنگ خاتون کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ مکان مالک کی بیٹی کو جب پتہ چلا کہ ہم رکنے والے ہیں تو اسے بہت خوش ہوئی۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ مجھے عربی نہیں آتی! پہلی بار جب میں اربعین کے سفر پر آئی تھی تب سے مجھے زبان کی مشکل تھی۔ 2014ء کے اربعین میں جب ہم آئے تھے تو ہم کربلا کے "ھدی الوالی" ہوٹل میں رکے تھے۔ اس ہوٹل میں ہمارے علاوہ لبنانی زائرین بھی تھے۔ ایک دن صبح ناشتے کے وقت ان میں سے کچھ لوگوں نے  ہمارے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے کی اجازت لی۔ وہ بہت چاہتے تھے کہ ہم ایک دوسرے سے بات چیت کریں لیکن بہت مشکل سے بات چیت ہو پارہی تھی۔ میں اپنی بات سمجھانے کے لیے انگلش اور عربی کو ملا رہی تھی! کئی سال پہلے مسلسل کچھ سمسٹر زبان کی کلاس میں جانے کے باوجود استعمال نہ ہونے کی وجہ سے میں کئی الفاظ اور گرامر بھول گئی تھی۔ میں اوپر گئی اور سیڑھیوں کے نیچے موجود بستروں میں سے ایک کمبل اٹھا لائی  اور کمرے کے ایک کونے میں بچھا دیا تاکہ میری اور میری دو ساتھیوں کی جگہ واضح رہے۔ سارے کمبل نئے اور ڈیزائن والے تھے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ انہیں سال میں صرف اسی وقت زائرین استعمال کرتے ہیں اور اہل خانہ پورا سال انہیں استعمال نہیں کرتے۔ میری باقی ساتھیوں نے آکر جگہ لے لی۔ پھر میں مطمئن ہوئی۔ ابھی بھی میرا دل گھر سے باہر اٹکا ہوا تھا اور جو کچھ میں نے صبح سے لے کر اس لمحے تک دیکھا تھا میں اس بارے میں سوچ رہی تھی۔ میرا دل کیا کہ میں نیچے جاؤں اور باورچی خانے میں جا کر میزبانوں کی مدد کروں۔ باورچی خانے میں جاتے ہی میں نے دیکھا کہ بیسن گلاسوں، طشتریوں اور برتنوں سے بھرا ہوا ہے اور خادماؤں کو انہیں دھونے کی فرصت نہیں ملی تھی۔ ہمارا تو نہ یہاں گھر تھا اور نہ کوئی کیمپ کہ ہم زائرین امام حسین ع کی خدمت کر پاتے کم سے کم جو کام ہم سے ہو سکتا تھا وہ مالک مکان کی مدد تھی۔ میں نے دو دن پہلے اہواز سے اور خاص طور پر چذابے پر اور اس کے بعد عراقی سرزمین پر داخل ہونے سے نجف تک اور اس لمحے تک دیکھا تھا کہ کس طرح ہر چھوٹے بڑے سے جو کام بھی ہو پارہا تھا وہ زائرین امام حسین ع کے لیے کر رہا تھا! یہ استقبال اور مہمان نوازی یہاں سے شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ چذابے  سے شروع ہوئی تھی۔ چذابے کے مہربان اور مہمان نواز لوگوں نے بھی بالکل عراقیوں کی طرح اپنی تمام تر سہولیات زائرین اربعین حسینی کے لئے فراہم کر رکھی تھیں۔ بارڈر کے قریب سڑک کے بیچ میں وہ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور زائرین سے چائے پینے کھانا کھانے اور ان کے کیمپوں میں آرام کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔ میں اپنی رنگین چادر پہن کر نیچے گئی۔ خواتین اور لڑکیاں ابھی بھی سلاد بنانے میں مشغول تھیں۔ یقیناً وہ اندازہ لگا رہی تھیں کہ رات تک ان کے پاس بہت زیادہ مہمان آئیں گے۔ مجھے شرم آ رہی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے اپنی مدد کرنے دیں گی یا نہیں؟ میں نے ان میں سے ایک سے فارسی میں کہا: "میں آپ لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔" اور میں بیسن کی طرف چلی گئی! انہیں سمجھ نہیں آیا کہ میں کس لیے وہاں کھڑی ہوں، وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ پہلے میں نے برتنوں کو ترتیب سے رکھا اور پھر گلاسوں کو دھونا شروع کیا اور آٹے والے برتنوں کو میں نے آخر کے لئے چھوڑ دیا کیونکہ انہیں دھونے میں دیر لگنی تھی۔ میں برتنوں کو ترتیب سے رکھنے میں مشغول تھی کہ وہی مہربان اور محبت والی لڑکی جس نے زائرین کے رکنے کی جگہ دکھائی تھی، ایک پچاس سال سے اوپر کی خاتون کو لے کر آئی کہ شاید وہ سمجھ سکے کہ میں کیا چاہتی ہوں! اس خاتون نے مجھ سے پوچھا: "شای؟"(چائے؟) میں نے کہا: "لا!"(نہیں!) اس نے کہا: "مای؟"(پانی؟) میں نے جواب دیا: "لا!" میں نے برتنوں کی طرف اشارہ کیا اور بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ میں برتن دھونا چاہتی ہوں۔ وہ لوگ مان نہیں رہے تھے۔ انہیں فارسی نہیں آتی تھی صرف "آرام" کا لفظ آتا تھا۔ ایک لڑکی نے کہا: "آنٹی آپ آرام!"  میں نے جواب دیا: "إنی أحب خدمة لزوار الحسین علیه السلام!"(مجھے زائرین امام حسین ع کی خدمت کرنا اچھا لگتا ہے!) یہ سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے ان کے لبوں پر رضامندی کی مسکراہٹ دکھائی دینے لگی پھر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ میں برتن دھونے میں مشغول ہو گئی۔ پانی گرم تھا اور چکنائی والے برتنوں کو دھونے کے لئے بہت اچھا تھا۔ کچھ دیر بعد وہاں کچھ ایرانی خواتین زائر آئیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں رنگین چادر پہنی ہوئی تھی اور عراقی خواتین کو دیکھا کہ وہ لمبے لمبے عربی لباس پہنی ہوئی تھیں۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ یہ ایرانیوں کا گھر ہے یا عراقیوں کا؟! پھر انہوں نے پوچھا۔ میں نے جواب دیا: "یہ عراقیوں کا گھر ہے اور ہم بھی آپ کی طرح زائر ہیں۔" زائرین میں سے ایک لڑکی نے پوچھا: "یہاں غسل خانہ ہے؟" میں نے کہا: " ہاں اوپر والی منزل پر ہے اور آرام کرنے کی جگہ بھی بہت اچھی ہے۔" میں نے برتن دھونے کو چھوڑ کر انہیں راستہ دکھایا۔ آہستہ آہستہ زائرین پہنچ رہے تھے۔ ایرانی اور عراقی۔میں ایرانی زائرین کے لیے مترجم کا کردار ادا کر رہی تھی اور انہیں سیڑھیوں تک لے کرجا رہی تھی۔ گھر والی خواتین مہمانوں میں کوئی تفریق نہیں کر رہی تھیں۔ کچھ عراقی خواتین جو آ رہی تھیں وہ ان کے چہروں کے بوسے لے رہی تھیں۔ مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ وہ لوگ ان کے رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ ان کے ہم وطن ہیں اور شاید گزشتہ سالوں میں بھی وه اس گھر میں آچکے ہیں۔ بوڑھی خواتین باورچی خانے میں خادماؤں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں وہ سگریٹ پی رہی تھیں اور ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے تھکن محسوس ہو رہی تھی لیکن میرا دل نہیں مان رہا تھا کہ میں برتنوں کو دھونا چھوڑ دوں اور زائرین کی خدمت کے اس سنہری موقع کو گنوا دوں۔ وہ لڑکی دوبارہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی: "آنٹی آپ آرام!" میں نے کہا: " میں مغرب کی نماز پر رک جاؤں گی۔"  میری نظر صحن پر پڑی۔ روٹیاں پک چکی تھیں اور خواتین چولہوں پر چکن فرائی کرنا چاہتی تھیں۔ وہ سب تقریبا ایک ہی عمر کی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ بہنیں ہیں؟ پڑوسنیں ہیں؟ دیورانیاں جیٹھانیاں ہیں یا سوتنیں؟ ان کا ایک دوسرے سے جو بھی رشتہ تھا وہ بہت ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔ گھر کے تمام چھوٹے بڑے ارکان گھر کو چلا رہے تھے اور اگر خواتین اور لڑکیوں کی مدد نہ ہوتی تو یقیناًکیلے مرد اتنے بڑے پروگرام کو نہیں سنبھال سکتے تھے۔ گھر کے دروازے پر پردہ پڑا ہوا تھا اور ہر تھوڑی دیر میں ایک ادھیڑ عمر آدمی جو کالا جبہ پہنا ہوا تھا صحن میں آتا تھا اور خواتین سے باتیں کرتا تھا، شاید وہ مہمانوں کے استقبال اور رات کے کھانے کے بارے میں ہم آہنگی کر رہا تھا۔ گلاس اور برتن دھل چکے تھے اور اب اسٹیل کے برتنوں کی باری تھی جن پر روٹیوں کا آٹا لگا ہوا تھا اور ان کی دھلائی آرام آرام سے اور مشکل سے ہورہی تھی۔ برتن دھونے کے بعد میں صحن میں آئی۔ روٹیوں کا تندور ہٹا دیا گیا تھا اور روٹیوں کا کچھ پتہ نہیں تھا لیکن تلی ہوئی چکن اب بھی بڑے بڑے فرائنگ پینوں میں موجود تھی۔ میں نے موبائل سے اس فرائڈ چکن کی تصویریں کھنچیں اور اوپر چلی گئی۔ راہداری سے گزرتے ہوئے میری نظر پہلی منزل پر موجود ایک کمرے پر پڑی۔ اس کا سامان بہت سادہ تھا۔ مکان مالکن  کی سلائی مشین ہاتھ کی تھی اور کمرے کے قالین بھی بہت سادہ تھے۔ پہلی منزل پر کمرے مہمانوں سے بھر چکے تھے اور کتنی اچھی بات تھی کہ ہم جلدی آ گئے تھے۔ اذان کے بعد میں نے نماز پڑھی اور راستے کی اور اس گھر کی جو تصویریں میں نے لی تھیں وہ وائی فائی کے ذریعے اپنے گھر والوں کو بھیج دیں اورانہیں اپنی خیر خیریت بھی بتا دی۔ مہمان نہا رہے تھے اپنے کپڑے اور چادریں واشنگ مشین میں دھو رہے تھے۔ عام طور پر خواتین اپنے گھر کے سامان کے لیے بہت حساس ہوتی ہیں، انہیں ان سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور انہیں اچھا نہیں لگتا کہ ہر کوئی ان کے گھر کے سامان کو ہاتھ لگائے۔ لیکن یہاں ان عمومی زنانہ حساسیتوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ میں انتظار کر رہی تھی کہ گھر والوں میں سے کوئی آئے اور آکر دیکھے کہ یہ پردیسی مہمان ان کے گھریلو سامان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، لیکن میزبان یہ پوچھنے نہیں آتے تھے کہ تم ہمارے گھر کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ یا وہ یہ نہیں کہتے تھے: " کمبل اور گدوں کا خیال رکھو، قالین پر کوئی چیز مت گراؤ، ہر چیز واشنگ مشین میں مت ڈالو، پانی ضائع مت کرو وغیرہ وغیرہ۔ میں یہ سب کچھ بہت غور سے ملاحظہ کر رہی تھی۔ میرے لیے یہ بہت عجیب تھا کہ کوئی اپنا گھر اس طرح سے کسی دوسرے کے حوالے کر دے جسے وہ جانتا بھی نہ ہو! زائرین کا چائے پینے کا دل چاہ رہا تھا اور چونکہ میں خادماؤں کی دوست بن گئی تھی لہذا انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں جا کر چائے لے آؤں۔ میں نیچے گئی اور میں نے کہا: "شای موجود؟"(چائے ہے؟) تو انہوں نے کہا کہ چائے رات کے کھانے کے بعد آئے گی۔ نیچے میری چادر گندی ہو گئی تھی۔ میں نے اسے ہاتھ سے دھو کر صحن میں رسی پر پھیلادیا۔ آس پاس کے کسی گھر سے مجلس کی آواز آ رہی تھی۔ مکان مالک صحن میں آیا ہوا تھا اور خواتین سے باتیں کر رہا تھا۔ صحن کے ایک کونے میں پلیٹوں میں سبزیاں اور الگ برتنوں میں ہر شخص کے لئے کیلا، نارنگی اور سیب رکھا ہوا تھا۔  میں نے میزبانوں کی مدد کی اور ہم سیڑھیوں تک سینیاں لے کر آئے تاکہ دوسرے لوگ انہیں اوپر لے جا سکیں۔ جب ہمارا کام ختم ہو گیا تو ہم اوپر چلے گئے۔ ہم نے دستر خوان بچھایا اور اس پر سلاد اور سبزیاں رکھ دیں ہر آدمی کو ایک پلیٹ چاول، چکن اور پھلوں کی ایک پلیٹ دی جارہی تھی۔ ان لوگوں نے مہمان نوازی کے لیے اپنی پوری ممکنہ کوشش کی تھی۔ چکن کے علاوہ پالک گوشت بھی تھا! ایرانی کھانا! امام حسین ع کے خادموں نے ایرانیوں کی بہترین مہمان نوازی کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ دسترخوان پر  پانی کے دو جگ بھی رکھے گئے تھے لیکن گلاس نہیں رکھے گئے تھے۔ ایرانی زائرین نے جگ کو ہاتھ نہیں لگایا لیکن دو عراقی زائرین نے جگ سے پانی پیا۔ رات کے کھانے کے بعد ہم نے ان کی مدد کی اور دسترخوان سمیٹا۔ پھر میری ہمت نہیں ہوئی کہ میں ان کی مدد کرنے نیچے جاتی۔ زائرین ایک دوسرے سے بات چیت کرنے میں مصروف تھے۔ ایک خاتون جو ایک ادھیڑ عمر خاتون اور ایک لڑکی کے ساتھ تھیں انہوں نے بتایا کہ ہم گذشتہ ہفتے عراق آئے ہیں۔ ہم نے پہلے نجف کی زیارت کی پھر کربلا گئے وہاں ہم نے جی بھر کر زیارت کی اور پھر دوبارہ ہم نجف واپس چلے گئے اور اب ہم پیدل کربلا جا رہے ہیں! میری نظر میں ایسا کرنا صحیح نہیں تھا۔ عراق کے لوگ گزشتہ چند سالوں میں داعش کے ساتھ جنگ میں الجھے ہوئے تھے اور خاص حالات سے گزر رہے تھے، اربعین پر عراق میں بہت رش ہوتا ہے تو عراق میں اتنا ٹھہرنا سہی نہیں تھا، ہر چیز مفت ہونے کی وجہ سے سفر کو طولانی نہیں کرنا چاہیے! پرانے لوگ کہتے تھے مہمان ایک دن کا ہوتا ہے یا دو دن کا۔ میں گفتگو میں مشغول تھی کہ میں نے دیکھا وہ لڑکی جو میری دوست بن گئی تھی وہ اوپر آئی اور مجھے آواز دینے لگی: "خانم! شای!"(آنٹی! چائے!) چائے کی ٹرے اس کے پاس نہیں تھی! یعنی آئیں نیچے چلتے ہیں۔ میں گئی۔ چائے کی ٹرے تیار نہیں تھی تو میں اوپر واپس آ گئی اور اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی، پھر میں نے دیکھا کہ لڑکیاں ٹرے اور گلاس اوپر لے کر آئیں اور میرے سامنے لا کر رکھ دیے۔ وہ کیتلی بھی لائی تھیں اور انہوں نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا یعنی آپ چائے نکال لیں۔ میں حیران رہ گئی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ چونکہ میں خود چائے لینے آئی تھی تو میں خود چائے نکلنا چاہ رہی تھی۔ میرے لیے یہ بات بہت عجیب تھی! بہت عجیب!  وہ لوگ چاہتے تھے کہ زائرین امام حسین ع کی خواہشات جس طرح سے بھی ہو سکے پوری کریں۔ ان کی مہمان نوازی سے زیادہ ان کی گرم جوشی اور پیار محبت کا سلوک ہمارے دلوں میں گھر کر رہا تھا!" میں یہاں دیکھ رہی تھی کہ دلوں کا ایک ہونا زبانوں کے ایک ہونے سے زیادہ خوشی کی بات ہے!" میں نے چائے نکالی اور ایک لڑکی نے چائے کی ٹرے دوسرے مہمانوں تک بڑھا دی۔ رات کے کھانے اور چائے کے بعد آہستہ آہستہ مہمان سونے لگے۔ گھر والے یا خاندان والے جن کی تعداد بھی کم نہ تھی ایک کمرے میں جمع ہوگئے اور گھر کا زیادہ تر حصہ زائرین کے لیے چھوڑ دیا۔ تقریباً گیارہ بجے تازہ تازہ آئی ہوئی تین ایرانی خواتین کے  شور شرابے سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ وہ دونوں دوسروں کی پروا کیے بغیر ایک دوسرے سے اور اپنے پاس بیٹھی گھر کی ایک لڑکی سے زور زور سے باتیں کر رہی تھیں۔ میزبان کو ان کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں اور ایرانی لڑکی ہنس رہی تھی۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ یہ ہنسی شاید بے وجہ تھی، لیکن یہ ہنسی اس عرب زبان لڑکی کو غلط فہمی میں مبتلا کر سکتی تھی، میں نے انہیں تنبیہ کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا! آہستہ آہستہ زائرین کی آوازیں بلند ہونے لگیں کہ چپ ہو جاؤ! تم نے ہمارا سکون برباد کر دیا ہے! ہمیں اپنے قافلے کے مردوں کے ساتھ رات ڈیڑھ بجے نکلنا تھا۔ ہم ایک بجے اٹھے۔ سب سوئے ہوئے تھے۔ ہم نے بغیر شور کیے تیاری کی، خادماؤں کے کمرے سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ مجھے بہت دکھ ہو رہا تھا۔ ہم ان کا شکریہ ادا کیے بغیر اور انہیں الوداع کہے بغیر وہاں سے جارہے تھے۔ آہستہ آہستہ ہم سیڑھیوں سے نیچے آئے۔ کچن کے دروازے کے پاس عربی جبہ پہنے ایک آدمی سویا ہوا تھا۔ مجھے وہ مکان مالک لگ رہا تھا جو خواتین کی دیکھ بھال کیلئے وہاں سویا ہوا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہو رہا تھا کہ میرے پاس کوئی چھوٹا سا تحفہ بھی نہیں ہے جو ان کی محنتوں مشقتوں کی قدردانی اور شکریہ کے طور پر وہاں رکھ کر چلی جاؤں۔ ہم گھر سے باہر نکل آئے اور مردوں کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ موسم ٹھنڈا تھا۔ وہی لڑکا جو ہمیں دعوت دے کر گھر پر لایا تھا وہ دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ بڑی محبت کے ساتھ اصرار کر رہا تھا کہ ہم صبح تک وہاں رکیں اور ناشتہ کرکے جائیں۔ وہ اس طرح اصرار کر رہا تھا جیسے ہم اس کے دوست یا رشتہ دار ہیں۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑے تاکہ رات کے وقت جب سڑک خالی ہوتی ہے اور موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو راہ حسین ع میں اپنی پیادہ روی کو جاری رکھیں۔ یہ عبارت شہید قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور تمام شہداء مدافعین حرم کے نام جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی جانوں کی حفاظت کی۔

سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3338



http://oral-history.ir/?page=post&id=9693