تفتیشی کمرے میں

مترجم: زوار حسین

2020-12-27


1970ء کا سال ان شکایتوں اور رپورٹس کی وجہ سے جو میرے خلاف ساواک کو دی گئیں تھیں میری گرفتاری کا سال تھا ۔

گرفتاری کے بعد مجھے اپنے باس کے پاس لے گئے جو ایک عالیشان کمرے میں بیٹھا تھا جس میں قیمتی اور خوبصورت صوفے ترتیب سے لگے ہوئے تھے کمرے کے آخر میں ایک بڑی سی  میز موجود تھی جس کی پیچھے وہ باس بیٹھا تھا ۔ اُس نے ساواکی آفیسرز کی طرح حسب معمول نفسیاتی پریشر ڈالنے کے لئے اپنے سر کو جھکائے کچھ کاغذات میں مصروف ظاہر کیا میں بھی اپنے معمول کے مطابق اس کے ردعمل میں ایک آرام دہ صوفہ پر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو ایسی چیزوں میں مصروف ظاہر کیا جس سے اس کی طرف بے توجہی ظاہر ہو۔

جب اس نے یہ دیکھا تو سر بلند کیا اور کہا کہ آپ کون ہیں؟ البتہ وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا کیوں کہ میں اس جیسوں کے لئے انجانا نہیں تھا۔ میں نے اسے جواب دیا۔ کہتا ہے: اچھا! جناب خامنہ ای آپ کہاں تھے؟ اس کے اس انداز سے مجھے لگا کہ اس کی معلومات میرے بارے میں ناقص تھیں کیوں کہ یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں فراری تھا اور میری مشہد واپسی کا انہیں پتہ نہیں چلا اور انہیں اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ میں علیحدہ گھر میں ہوتا ہوں اور وہ سمجھ رہے تھے کہ میں والد کے گھر میں رہتا ہوں۔ اس ظالمانہ اور خونخوار نظام کا یہ اطلاعاتی سسٹم تھا اور ان کی انٹیلی جنس معلومات اس طرح کی تھیں۔

توہین و توبیخ سے اس نے گفتگو شروع کی میں کبھی اسی طرح غصہ میں جواب دیتا اور کبھی اس کی باتوں کی طرف توجہ کئے بغیر خاموشی اختیار کرلیتا اسی درمیان ایک تفتیش کار ایک بھاری فائل کے ساتھ اندر داخل ہوا اور باس کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا ۔

اس کے سامنے فائل کھولی، اور اپنی انگلی سے اس کے صفحات پر موجود مشخص جگہوں کی طرف اشارہ کرنے لگا۔  باس سر ہلا ہلا کر یہ دکھاوا کر رہا تھا کہ وہ بہت غصہ میں ہے۔ تفتیش کار اور باس کی اس ڈرامہ بازی کا مطلب واضح تھا کہ وہ ڈر اور خوف پیدا کریں ، پھر باس نے سر اٹھایا اور غصے سے کہا : لے جاؤ اسے۔

مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں ساواک کے کچھ افراد ایک دائرے میں کھڑے تھے۔

انہوں نے مجھے دائرے کے بیچ میں  کھڑا کیا اور الزامات اور توہین آمیز کلمات کی بوچھاڑ کر دی میں اس طرح کا ایک تجربہ پہلے کر چکا تھا اس بار میں ان کا سامنا کرنے اور ان کا بھرپور جواب دینے کے لئے بہتر طور پر تیار تھا۔ البتہ ابھی تک جسمانی اذیتیں نہیں دی گئیں تھیں۔

مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ایک ساواکی جس کو "نشاط" کے فرضی نام سے پکارتے تھے اور وہ  کرنل کے درجہ پر تھا البتہ سول کپڑوں میں رہتا   مجھ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے : آپ لوگ چاہتے کیا ہو؟ تمہارے خیال میں تم کیا کر سکتے ہو ؟ ذرا دیکھو ملک حسین نے کیا کیا ہے ؟ اگرچہ وہ کمزور ہے اور اس کے پاس اتنی قدرت بھی نہیں اس نے ایک دن میں پانچ ہزار فلسطینی مارے ہیں جب کہ ہم اپنی قدرت اور اقتدار کی طاقت سے پانچ ملین آدمی بھی آسانی سے مار سکتے ہیں۔

اس کی اس بات سے مجھے بہت زیادہ تعجب ہوا کیونکہ جو عدد اس نے کہا تھا بہت ہی مبالغہ آمیز تھا جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ یا بہت ہی احمق اور دھوکہ میں پڑا ہے یا یہ چاہتا ہے کہ مجھے دھوکا دے دونوں صورتوں میں اس کی مفلسی ظاہر ہو رہی تھی۔

یہ ایک نکتہ تھا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس طرح کی گفتگو ایک طالب علم جس کے پاس قلم اور منبر کے علاوہ کچھ نہیں سے نہیں کی جاتی۔ ہاں اگر میں لاکھوں افراد کی کسی منظم تحریک کا رہبر ہوتا اس وقت پانچ ملین افراد کے قتل کی دھمکی دینا بنتی تھی لیکن جب میں ایسی (کہ صرف قلم و منبر پر اختیار ہے) حالت میں ہوں تو اس شخص کی گفتگو کا تنہا مطلب یہی ہے کہ وہ خود مجھ سے بہت ہی کمزور ہے اور حقیقت میں یہ لوگ شخیصت کے حوالے سے اور منطقی لحاظ سے بہت کمزور لوگ تھے  کمزور بھی اور پاگل بھی۔  ایک پاگل ہوسکتا ہے اچانک آپ پر حملہ کردے آپ کو نقصان پہنچا دے۔ ساواک کے نوکروں سے اس وجہ سے بھی خوف بھی محسوس کر رہا تھا کہ یہ لوگ انتہائی کمزور اور پست و ذلیل ہیں۔

میری جیبوں کو چیک کیا انہیں کوئی خاص چیز نہیں ملی۔ وہ لوگ کمرے سے نکل گئے اور میں ایک گھنٹہ تنہا تھا اس کے بعد ان میں سے ایک آیا اور کہا : آ جاؤ ۔

مجھے ایک گاڑی پر سوار کیا جو ایک اور عمارت کی طرف روانہ ہوئی ۔ جب میں اس عمارت میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ وہی جیل ہے جس میں مجھے تین سال پہلے رکھا گیا تھا۔ میں نے اس کی سفید دیواروں سے اس جگہ کو پہچانا؛ یہ وہی جگہ تھی جسے ہم نے سفید ہوٹل کا نام دیا ہوا تھا بالاخر ہم نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے اور بقول مولانا روم " کرم‌ نما و فرود آ، که خانه خانه‌ توست"

مجھے جیل کی ایک کوٹھڑی میں ڈالا گیا جس پر تجربہ کار اور سنجیدہ سارجنٹ مقرر کئے گئے تھے یہ لوگ جیل کے باہر کھڑے تھے اور نئے آنے والے قیدی سے اپنے انداز میں محبت اور احترام کا اظہار کر رہے تھے البتہ جیل کا دروازہ بند تھا اور مجھے اس سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

   چند دن گزرنے کے بعد ، اسلام اور مشکلاتِ تمدن نامی کتاب کا ترجمہ مکمل کرنے کا خیال آیا ، میں نے تین چوتھائی حصہ اپنی تیسری جیل میں مکمل کیا تھا اور ایک چوتھائی حصہ میں نے اپنے بھائی (سید ہادی) کے ذمہ لگایا اپنے بھائی سے ترجمہ مانگا جو ترجمہ بھائی نے کیا تھا اس پر نظر ثانی کی تاکہ سابقہ ابواب  سے الگ نہ لگے بعد میں کتاب کا آخری باب جو مخصوص انداز بیان اور مغربی تہذیب پر جو یلغار کی گئی تھی اس وجہ سے ایک مضبوط باب تھا اس کا ترجمہ کیا اور بہترین دیباچہ بھی اس کتاب کے شروع میں لکھا اور اس میں  جدید اصطلاحات استعمال کی تھیں اور ان تازہ اور جدید اصطلاحات کو باقی متن سے جدا کرنے کے لئے کوماز کے درمیان لکھا ۔ کتاب کے پہلے صفحہ کی سیٹنگ کی اس کام پر تقریبا ایک مہینہ لگا پھر تمام کام اپنے بھائی (سید ہادی) کو سونپ دیا اور جہاں سے چاپ کروانا ہے اس کا نام بھی بتا دیا۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1861



http://oral-history.ir/?page=post&id=9657