"زہرہ فرہادی"کی یادوں میں آپریشن "ثامن الآئمہ"(آٹھویں امام)

مترجم: ضمیر رضوی

2020-10-28


1981ء ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسکول کے ابتدائی دنوں کا ماحول میرے سر پر دوبارہ سوار ہو گیا تھا اور میں افسردہ تھی۔ اگر جنگ شروع نہ ہوئی ہوتی تو میری، فاطمہ فرہانیان، معصومہ رامہرمزی اور دوسری کچھ ہیلپر لڑکیوں کی جگہ ہائی اسکول میں تھی۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے میری زندگی کے اہم ترین اوقات اسکول میں گزرتے تھے۔ پچھلے سال تک میرے لیے موسم خزاں، "سیف" مارکیٹ سے اسکول کا بیگ، جوتے اور اسٹیشنری خریدنے، اپنی چادر، کوٹ اور پینٹ استری کرنے، جلدی مدرسے پہنچنے کی بے چینی اور بینچوں پر بیٹھنے کے شوق کے ساتھ شروع ہوتا تھا۔ ہر سال اگست کے آخری دنوں تک میں شدت سے انتظار کرتی تھی کہ ستمبر کا پہلا دن آجائے۔

لیکن اس سال کا موسم خزاں ہمارے لئے امام خمینی کے پیغام سے شروع ہوا۔ امام خمینی نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ "آبادان" کا محاصرہ ٹوٹنا چاہیے لیکن آپریشن شروع کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ 22 ستمبر سے آبادان پر عراقی حملہ شدت اختیار کر گیا تھا۔

22 یا 23 ستمبر کو میں کچھ لڑکیوں کے ساتھ شہر میں نکلی۔ گلی محلوں کی صورتحال ہمیشہ سے مختلف تھی۔ فوج کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ ٹینکس اور ملٹری پرسنل کیئرز بہت زیادہ نظر آرہے تھے۔ میں شہر کے مختلف مقامات پر اینٹی ائیر کرافٹ گنیں دیکھ رہی تھی۔ اسٹیشن آٹھ اور نو کے درمیان ایک بہت وسیع و عریض خالی زمین تھی اس میں بنکرز بنائے گئے تھے۔ کچھ جگہوں کو توپ-106 اور مارٹر کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ شہر میں جگہ جگہ ٹینک دکھائی دے رہے تھے۔ ان تبدیلیوں کو دیکھ کر ہمیں لگا کہ کوئی آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ گزشتہ روز سے اسپتال میں ہمیں الرٹ کر دیا گیا تھا۔

27 ستمبر کی رات کو اعلان کیا گیا کہ سب تیار رہیں، ممکن ہے آپریشن شروع ہو اور زخمیوں کو لایا جائے۔

میں اپنے کمرے میں گئی اور جوتوں، کوٹ اور اسکارف سمیت ہی سوگئی۔ رات کے قریب تین بجے میں خواتین کی انچارج کی آواز سے جاگی، وہ اعلان کر رہی تھی: "اٹھیں!  سب اپنی شفٹ پر جائیں-"

میں اپنے بستر سے اٹھی اور ایمرجنسی روم کی طرف دوڑی۔ میں نے ساری چیزیں تیار کیں، کینولا اپنے کوٹ کی جیب میں ڈالا اور ٹیپ اٹھا کر ٹرالی میں رکھ لیا تاکہ اگر کوئی زخمی آئے تو دیر نہ ہو۔

پہلا زخمی جو لایا گیا وہ آبادان کی سپاہ کا ممبر تھا۔ میں اس کے سرہانے گئی۔ وہ ایک جوان لڑکا تھا۔ اس کا نام "مالک حدپور سراج" تھا۔ میں نے اسے ٹیٹنس کا انجیکشن لگایا تاکہ اس کے زخم میں انفیکشن نہ ہو، پھر میں نے اسے ڈرپ لگادی۔ جب میں اس کے زخم کی مرہم پٹی کر رہی تھی تو میں نے اس سے پوچھا: " بھائی آپریشن ہو گیا ہے؟"

اس نے جواب دیا: "ہاں! ہماری فورسز آبادان- ماہ شہر ہائی وے کے آس پاس سے محاصرہ توڑنے آرہی ہیں۔"

میں نے پوچھا: "فرنٹ لائن کی کیا صورتحال ہے؟"

اس نے ہنستے ہوئے کہا: "  آپ فکر نہ کریں عراقیوں کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔"

ہمارے پاس سر کھجانے کا بھی وقت نہیں تھا۔ کمروں کے علاوہ ایمرجنسی روم اور راہداری میں بھی بیڈ لگائے گئے تھے۔ صبح 6 بجے تک مسلسل زخمی لائے جارہے تھے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور ہیلپرز سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ ہر نرس اور ہیلپر ایک بیڈ کا انچارج تھا، لیکن جب میرا کام ختم ہو جاتا تو میں دوسرے بیڈ پر چلی جاتی تھی اور زخمیوں کے کام کرنے لگتی تھی۔ ٹیٹنس کا انجیکشن لگانا، ڈرپ لگانا، خون روکنا اور زخموں کی مرہم پٹی کرنا ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ "سھیلا افتخارزادہ" بھی تیزی سے ایک بیڈ سے دوسرے بیڈ پر جارہی تھی اور زخمیوں کے کام کررہی تھی۔ کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک تھی۔ ان میں سے ایک جوان لڑکا تھا جس کے دماغ پر چوٹ آئی تھی۔ جب میں اس کے ابتدائی کام کر رہی تھی تو اس کے دماغ کے سفید ٹکڑے میرے ہاتھ پر گرے، ایسا لگا جیسے کسی نے میرا دل نکال لیا ہو۔ اس کا جسم کمزور ہو گیا تھا۔ ایمرجنسی ڈاکٹر نے اس کی نس ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے نہیں ملی، اس کی نس ہی نہیں تھی۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا: "میں اس کے پیر سے نس ڈھونڈ سکتی ہوں-" اور میں کامیاب ہوگئی۔ ڈاکٹر نے حیرت اور سراہنے والی نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے یہ کام ایک نرس سے سیکھا تھا۔ اس زخمی کو جس کی حالت تشویشناک تھی اسے ریکوری روم میں لے جایا گیا تاکہ زخمیوں کو لے جانے والی بس کے آنے اور اسے آئل کمپنی کے اسپتال جہاں نیورو سرجن تھا، منتقل کیے جانے تک اس کا خاص خیال رکھا جائے۔

ایمرجنسی روم، وارڈز یہاں تک کہ راہداریاں بھی زخمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ایمرجنسی روم اور راہداریوں کے بیڈ بھی ان زخمیوں کے لیے کافی نہیں تھے۔ میں ایک بیڈ سے دوسرے بیڈ پر جا رہی تھی اور کبھی زمین پر بیٹھ کر زخمیوں کی مرہم پٹی کر رہی تھی۔

 آمد و رفت کے دوران میری نظر ایک نوجوان لڑکے پر پڑی جس کی کمر، کولہوں اور ٹانگوں کو بری طرح نقصان پہنچا تھا اور اس کا بدن اور کپڑے خون میں لت پت تھے۔ میں حیران تھی کہ ڈاکٹر اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں!  اس کے زخم اتنے گہرے تھے کہ میری اس کے سرہانے جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں اپنے کاموں میں لگ گئی۔ ایک زخمی ایمرجنسی کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ میں اسے جانتی تھی۔ ان کا نام "عبود زادہ" تھا۔ میری ان کی "اہلیہ عصمت حبیب زادہ" سے جان پہچان تھی۔ وہ "مکتب قرآن و عصمتیہ" میں کام کرتے تھے اور میں نے انہیں خرم شہر کی مذہبی تقریبات میں دیکھا تھا۔ میں انہیں ٹیٹنس کا انجیکشن لگانے آگے بڑھی۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا: " بہن آپ مجھے ہاتھ نہ لگائیں!"

میں نے تھوڑا سوچا اور کہا: " ٹھیک ہے۔ میں آپ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی۔"

میں نے ایک میل-نرس کو آواز دی: " بھائی آپ ان کا انجکشن لگا دیں-"

میں دوسرے زخمی کے پاس چلی گئی، میں نے ٹیٹنس کا انجکشن اور ڈرپ لگانے کے بعد اس کے زخم کی مرہم پٹی کی اور اسے فوراً وارڈ بھیج دیا۔ میں اسی بیڈ کی طرف واپس آئی جہاں کچھ دیر پہلے "عبود زادہ" لیٹے ہوئے تھے۔وہاں ایک زخمی اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ میں سمجھی کہ "عبود زادہ" کو منتقل کر دیا گیا ہے اور مجھے دوسرے مریض کے آنے کا پتا نہیں چلا! میں اسے ویکسین لگانے کے لیے آگے بڑھی تو وہ میری طرف مڑا۔ وہ صاحب عبود زادہ تھے! میں چونک گئی، اس سے پہلے کہ میں کوئی ردعمل دیتی وہ غصے سے چلانے لگے: " کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ مجھے ہاتھ مت لگاؤ؟!" میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا: "معاف کیجیے!  ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔" اور معاملہ ختم ہوگیا۔ اتنے زخمی لائے جا رہے تھے کہ وہاں رش ہوگیا تھا اسی لیے میں سمجھی کہ کسی دوسرے زخمی کو اس بیڈ پر لٹایا گیا ہے۔

جو زخمی ایمرجنسی میں لائے گئے تھے ان میں ایک عراقی بھی تھا جس کی ایک ٹانگ کٹنے والی تھی۔ میں نے اسے ٹیٹنس کا انجکشن لگایا اور ڈرپ لگائی اور اس کے پیر پر ایک اسٹرل پٹی باندھ دی۔ اسی دوران میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کیمرے سے ایمرجنسی روم کی ویڈیو بنائی جا رہی تھی۔ ان لوگوں میں سے ایک لڑکا معراج شہداء کا تھا۔

قیدی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور میں اسے ہاتھ نہیں لگانا چاہتی تھی۔ میں نے قینچی سے اس کی پٹی کھولی۔ جیسی ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے میرا ہاتھ چومنے کے لئے اپنا منہ آگے کیا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا: "شکریہ شکریہ۔ میں خمینی کا پناہ گیر ہوں ۔۔۔  میں مسلمان ہوں۔"

اس کا کام ایک مرہم پٹی سے ہونے والا نہیں تھا بلکہ اس کا آپریشن ہونا تھا۔ اسے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ ہمارے پاس پہلے بھی فرنٹ لائن سے عراقی زخمی آتے تھے۔ سیکورٹی اور عدم اعتماد کی وجہ سے قیدیوں کی نگرانی کی ذمہ داری بسیجیوں پر تھی اور وہ خواتین ہیلپرز کو ان کے کمرے میں آنے جانے نہیں دیتے تھے۔

میں ایمرجنسی روم سے باہر چلی گئی۔ اسپتال کی ایمبولینسز، فوج کی بکتر بند گاڑیاں اور  اور پک اپ ٹرکس مسلسل آ جا رہے تھے۔ عملہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ زخمیوں کو لے جانے کے لیے خصوصی بس آئی۔ ایک اسٹریچر پر زخمی لیٹا ہوا تھا اور ہیلپر اسٹریچر کو آگے سے پکڑا ہوا تھا میں اس کے ساتھ مل کر اسٹریچر کو بس کے پاس لے گی۔ میں اسٹریچر کو بس میں چڑھانا چاہتی تھی لیکن کام کی شدت اور کمزوری کی وجہ سے میرے ہاتھوں میں جان نہیں تھی اسٹریچر گرنے والا تھا اور اس کے ساتھ زخمی بھی۔ مجھے لگا کے زخمی نے اپنا توازن کھو دیا ہے اور وہ گرنے والا ہے۔

میں نے کہا: "کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پھسل جائے اور سر کے بل زمین پر گر پڑے۔" اتنے میں ایک دوسرا ہیلپر آیا اور اس نے میری مدد کی اور بڑی مشکل سے ہم نے زخمی کو بس میں چڑھایا۔

جب میں بلڈنگ میں واپس گئی تو ایک ہیلپر نے مجھے آواز دی اور کہا: " ڈاکٹر حسنی کو آپ سے کام ہے۔"

مجھے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اس ہنگامی صورتحال میں اسپتال کے ہیڈ کو مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے؟!

میں ڈاکٹر حسنی کے آفس کی طرف گئی،  دروازہ کھٹکٹایا اجازت لی اور کمرے میں داخل ہوگئی۔ میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔

میں نے کہا: "ڈاکٹر آپ کو مجھ سے کام تھا؟"

ڈاکٹر حسنی نے بڑی نرمی سے جواب دیا: " جی! ایمرجنسی کے لوگوں نے آپ کی شکایت کی ہے!"

میں نے حیرت سے پوچھا: " میری شکایت؟ آخر میں نے کیا کیا ہے؟!"

انہوں نے کہا: "میل-نرسز کا کہنا ہے کہ یہ خاتون یعنی آپ کینولا اور ویکسینز جیب میں رکھ لیتی ہے اور ہمیں کوئی کام نہیں کرنے دیتی اور خود جلدی جلدی کام کرتی رہتی ہیں!"

میں نے جواب دیا: " تو وہ بھی اپنا کام کرتے رہا کریں۔ میرا ان سے کیا لینا دینا؟

ڈاکٹر صاحب، جو زخمی ہمارے پاس لائے جاتے ہیں ان کا زیادہ خون بہہ چکا ہوتا ہے ہم کام میں دیر نہیں لگا سکتے!"

ڈاکٹر حسنی نے بڑے احترام سے کہا: " کسی طرح سے آپ ان معاملات کو سلجھالیں۔ وہ بھی محنت کرتے ہیں۔"

میں نے کسی کے ہاتھ سے کام چھیننے کا سوچا بھی نہیں تھا۔

میں نے کہا: " جی ٹھیک ہے! مجھے ویسے بھی ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا: "کوشش کیجیے کہ سارے کام اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں!"

میں نے ان سے وعدہ کیا اور ایمرجنسی روم میں واپس آ گئی۔ ایمرجنسی روم اور راہداریاں زخمیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ انہیں ایمرجنسی روم کی دیوار کے ساتھ زمین پر لٹایا ہوا تھا۔

ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو ہاتھوں، پیروں اور پیٹ پر زخم لگے تھے۔ چلتے وقت میں محتاط رہتی تھی کہ کہیں ان کا ہاتھ یا پاؤں نہ کچل دوں۔ ایک زخمی کو لایا گیا اس کی حالت بہت تشویشناک تھی۔ اس کا سینہ اور پیٹ زخمی تھا۔ اس کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ جو ڈاکٹر اس کے پاس آیا تھا اس نے معائنہ کرنے کے بعد کہا: " اسے چھوڑ دو اس کا کام تمام ہو گیا ہے! دوسرے زخمیوں کے پاس جاؤ!" یہ کہہ کر وہ بیڈ سے دور ہو گیا۔

مجھے اس کی یہ بات اچھی نہیں لگی میں اس کے پیچھے گئی، اس کو بلایا اور کہا: "ڈاکٹر صاحب ٹھیک ہے اس کی حالت اچھی نہیں ہے لیکن اب بھی اس میں جان باقی ہے، وہ سانس لے رہا ہے! ہو سکتا ہے اس کے لیے کچھ کیا جا سکے۔"

ڈاکٹر زخمی کے سرہانے واپس آیا۔ کچھ لمحے نہیں گزرے تھے کہ وہ شہید ہو گیا۔

دوپہر کو تقریباً تین بجے ہم باری لگا کر جلدی جلدی گئے کھانا کھایا، نماز پڑھی اور واپس آئے۔

رات 8 بجے تک زخمی لائے جارہے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ صبح سے اس وقت تک تقریبا ڈھائی سو سے تین سو زخمی لائے جا چکے تھے۔ توپوں اور دوسرے ہتھیاروں کی فائرنگ کی آوازیں کم ہو چکی تھیں۔ آپریشن ثامن الائمہ(آٹھویں امام) کی کامیابی کی خبر اسپتال میں گردش کر رہی تھی اور آبادان محاصرے سے آزاد ہو چکا تھا۔ آبادان کے محاصرے اور خرم شہر پر دشمن کے قبضہ کے ایک سال کے غم کے بعد ہمیں زخم دل سے نجات ملی۔ وہ ہمارے لیے اچھی اور ہمارے دشمنوں کے لیے تلخ رات تھی۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی، ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، ہم فخر محسوس کر رہے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ آبادان ایک سال کے مشکل دنوں اور راتوں کے بعد خوشی اور مسرت دیکھ رہا تھا۔

مغرور بعثیوں کی ذلت اور رسوائی کا خیال غیر اختیاری طور پر انسان کو جوش دلارہا تھا اور خوشی کی چمک سب کی آنکھوں میں دکھائی دے رہی تھی۔ شہیدوں کا خون رنگ لے آیا تھا اور ہم بعثیوں کو اپنی سرزمین سے کئی کلو میٹر پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پورا شہر خوشی سے پرجوش تھا۔ اللہ اکبر کی آوازیں شہر میں گونج رہی تھیں۔ ہر جگہ بعثیوں کی ہار اور فرار ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہماری فورسز بتا رہی تھیں کے بعثیوں نے بہت ساری جنگی غنیمتیں چھوڑی ہیں اور انہیں اپنا ذاتی سامان تک لے جانے کا موقع نہیں ملا۔

اس شہر کے محاصرے کا ٹوٹنا ہمیں یہ خوشخبری دے رہا تھا کہ خرم شہر کی آزادی بھی ممکن ہے۔ صرف ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ دن ہم کب دیکھیں گے؟


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2267



http://oral-history.ir/?page=post&id=9535