ایک خاتون زائر کے مطابق:

امام حسین علیہ السلام کے لیے وقف شدہ مکانات

فائزه ساسانی خواه

مترجم: ضمیر رضوی

2020-10-17


25 اکتوبر 2018، جمعہ کے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم امیرالمومنین علی علیہ السلام کے حرم سے رخصت ہوکر اربعین کی پیادہ روی میں شرکت کرنے کے ارادے سے نجف شہر کے خارجی راستے کی جانب چل پڑے۔  کچھ ہی  دیر بعد ہم اس چوک پر پہنچے جہاں سے ہم ہر سال گزرتے تھے لیکن ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ دائیں طرف سے جائیں یا بائیں طرف سے؟

ہماری ایک ساتھی جو خرم شہر کی رہنے والی اور عربی زبان تھی، نے قریب کھڑے پولیس والے سے پوچھا کہ ہم کس طرف سے جائیں تو اس نے بائیں جانب اشارہ کیا۔

تھوڑا آگے وادی السلام قبرستان تھا ہم نے دور سے ہی وہاں کے مردوں کے لیے فاتحہ پڑھی اور اپنے راستے پر چل پڑے۔ وہ راستہ ہمارے لئے بالکل انجان اور نیا تھا، مجھے یقین تھا کہ ہم پچھلے سالوں میں وہاں سے نہیں گزرے تھے۔ ہم چلتے جا رہے تھے  مگر شہر کے خارجی راستے تک نہیں پہنچ پا رہے تھے لیکن راستہ بہت پاکیزه تھا۔ جن سڑکوں سے ہم گزر رہے تھے ان کی چوڑائی کم تھی لیکن وہ ان لوگوں سے بھری ہوئی تھیں جو کربلا کے راہی تھے اور لمحہ با لمحہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک شور و غل برپا تھا۔ گھروں کے سامنے استقبال شروع ہوا اور گھروں کے مالک خندہ پیشانی سے زائرین کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم جس گلی کوچے سے گزرتے وہاں کے اکثر گھروں کے دروازے زائرین کے لیے کھلے ہوئے تھے اور زائرین کے لیے واش روم، غسل خانے اور واشنگ مشینیں موجود تھیں۔

راستے کے شروع میں کچھ موکب(کیمپ) گرما گرم جلیبیوں اور سینڈوچز سے زائرین کا استقبال کر رہے تھے، کچھ موکب ٹھنڈا ٹھنڈا عمانی لیموں کا شربت دے رہے تھے اور کچھ قھوہ اور چائے پیش کر رہے تھے۔ تھوڑا آگے ہی ایک آدمی اپنی قیمتی گاڑی میں کیلے کے کارٹن رکھ کر کیلے بانٹ رہا تھا۔

چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں ہر سال کی طرح گلیوں اور سڑکوں پر کھڑے تھے اور زائرین کو پانی یا ٹشو پیپر پیش کر رہے تھے اور زائرین کے ہاتھوں پر عطر لگا کر انہیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان کے کپڑوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ کس معاشرتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں نے ان برسوں میں جو اربعین کی زیارت پر آئی ہوں تو میں نے دیکھا ہے کہ بچے اس راستے کا بنیادی اور اہم رکن ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ امیر ہیں یا غریب۔ انہوں نے اپنے بڑوں سے سیکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں وہ کچھ بھی نہیں ہیں اور انہیں خود کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے زائرین کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہے اور ان کے مطالبات کے سامنے عاجزی دکھانی ہے۔

جن لڑکیوں کے پاس سے میں گزرتی تھی انہیں ہیئر بینڈ یا کلپ کا تحفہ دیتی تھی اور فارسی زبان میں ان کا شکریہ ادا کرتی تھی۔ یہ تحفے ہمارے دو قریبی رشتہ داروں نے دیے تھے جو پیادہ روی میں شریک نہیں ہو پائے تھے۔

میں نے سڑک پر ایک ایرانی موکب دیکھا جہاں لوگ چائے سے مہمان نوازی کر رہے تھے اور اونچی آواز میں کہہ رہے تھے: "اهلا و سهلا بزوار ابو سجاد...."  کتنا دل چاہ رہا تھا میرا یہ جملہ سننے کا۔ ایک خادم اسٹول پر کھڑا تھا اور زائرین کو قرآن کے نیچے سے گزار رہا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے خادم سے پوچھا کہ نجف ختم ہونے میں کتنا فاصلہ رہ گیا ہے، اس نے ہمارے ہاتھوں پر صاف پانی ڈالا اور کہا: " ابھی آگے بہت راستہ ہے!" لیکن راستہ اس قدر پاکیزہ تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے ہم جنت کے کسی ٹکڑے میں آگئے ہیں اور ہمارا دل نہیں مان رہا تھا کہ ہم جلدی اس سے دور ہو جائیں۔

موسم گرم تھا لیکن بادل چھائے ہوئے تھے۔ میرا دل ان موکبوں کے لئے تڑپ رہا تھا جو گرم دودھ، چائے اور قھوہ دیتے تھے۔ ان چیزوں کے چاہنے والے پچھلے سال سے کم تھے اور کبھی کبھار تو نہ ہونے کے برابر تھے، اس کے بجائے خوب کلاں، عمانی لیموں کے شربت، تازہ کینو کے رس اور تازہ اور ٹھنڈے پودینے کے شربت کے چاہنے والے زیادہ تھے۔

ہم نے کافی فاصلہ طے کر لیا تھا لیکن پھر بھی ہم ابھی تک شہر کے خارجی راستے تک نہیں پہنچے تھے۔ کبھی کبھار ہمیں رکنا پڑتا تھا تاکہ ہمارے ساتھی پہنچ جائیں۔ ایک بیمار جوان کی موجودگی نے ہماری رفتار کم کر دی تھی۔ لوگوں کے اژدھام کی وجہ سے ہمارے کچھ ساتھی کھو گئے تھے، ہم کافی دیر تک کھڑے رہے   پر وہ ہمیں نہیں ملے لیکن ہم جانتے تھے کہ وہ ہم سے پیچھے ہیں۔

نماز کا وقت تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ نماز پڑھیں گے اور پھر انہیں فون کرکے ملنے کی جگہ طے کر لیں گے۔ ہم ایک گھر میں داخل ہوئے۔ میں نے پردہ ہٹایا اور صحن میں داخل ہوگئی، صحن بہت چھوٹا تھا۔ اس کی لمبائی شاید دس میٹر اور چوڑائی شاید تین میٹر بھی نہیں ہوگی۔ اس کے آخر میں ایک نیا اور صاف ستھرا واش روم تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون انہیں دھونے میں مصروف تھی، جب اس نے ہمیں دیکھا تو مسکرا کر خوش آمدید کہا اور سلام کیا۔ ہم نے گرمجوشی سے اس کا جواب دیا۔ میں نے پرام کو جس پر ہمارا سامان تھا وہیں مین گیٹ کے پاس چھوڑ دیا اور ہم ہال میں داخل ہوگئے جو تقریباً نو میٹر کا تھا۔ ان سالوں میں، میں جتنے گھروں میں گئی تھی یہ ان سب سے چھوٹا تھا اور شاید اس پورے گھر کا رقبہ ساٹھ میٹر بھی نہیں ہوگا، لیکن مالک مکان نے گھر کی تمام سہولیات زائرین کو فراہم کی ہوئی تھیں۔

عمارت کے اندر دو نو میٹر کے کمرے، ایک چھوٹا اور روایتی باورچی خانہ اور ایک واش روم تھا اور دونوں کمروں کے بیچ میں دوسری منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں۔ ساتھ ہی ان لوگوں نے واشنگ مشین رکھی ہوئی تھی تاکہ جو چاہے اپنے کپڑے یا چادر دھولے۔

گھر میں موجود خواتین نے ہمیں سلام کیا اور بہت گرمجوشی اور مہربانی سے ہمارا استقبال کیا۔ پرانے لوگ کہتے تھے کہ انسان میزبان کے کھلے دل کی وجہ سے اس کے گھر جاتا ہے نہ اس کے کھلے دروازے کی وجہ سے۔ ایک دوسری ایرانی خاتون ہم سے پہلے وہاں تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ ہم نے وضو کیا اور صاف ستھری جانمازوں اور نئی نئی سجدہ گاہوں پر نماز پڑھی۔ مالک مکان کی بیٹی جو نو یا دس سال کی تھی اس نے صاف ستھرے اور خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اچھی طرح سے بال باندھے ہوئے تھے، وہ اپنی ہم عمر ایک ایرانی لڑکی جس نے کالی چادر پہنی ہوئی تھی، کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے عربی میں باتیں کر رہی تھیں، وہ کاغذ پر کچھ لکھ رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں۔ ایرانی لڑکی کو عربی زبان پر مکمل عبور  تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ خوزستان کی رہنے والی ہوگی۔ وہ اسی خاتون کی بیٹی تھی جو نماز پڑھ رہی تھی، میں نے اس کی ماں سے پوچھا: " آپ کس شہر سے ہیں؟" اس نے جواب دیا: "ہم اہواز کے رہنے والے ہیں۔"

جوان خاتون گھر سے نکلنے کے لیے تیار تھی لیکن اس کی بیٹی کا اپنی عراقی دوست کو چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کر رہا تھا اور اس کا دھیان اس کی لکھائی میں لگا ہوا۔ آخرکار کچھ مرتبہ آواز دینے کے بعد اس کی ماں نے اجازت دے دی اور مہمانوں اور میزبانوں نے مزید کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ مالک مکان کی بیٹی کے چہرے سے مسکراہٹ نہیں جا رہی تھی اور اس کے ذریعے وہ ہماری موجودگی سے ہونے والی اپنی خوشی کو ظاہر کر رہی تھی۔ میرا موبائل میرے ہاتھ میں تھا اس نے میرا موبائل لیا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں اس نے میرے موبائل میں وائی فائی کا پاسورڈ ڈال دیا جو کنیکٹ بھی نہیں ہوا۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہ لڑکی اپنی دوست کو کاغذ پر کیا لکھ کر دکھا رہی تھی!

میں نے دیکھا کہ اس نے عربی میں کچھ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور اس کے آگے اس کا فارسی ترجمہ لکھا ہوا تھا۔ لفظ "جوع" لکھا ہوا تھا لیکن اس کے سامنے کچھ نہیں لکھا تھا۔ میں نے قلم اٹھایا اور اس کا فارسی ترجمہ لکھ دیا۔ ان الفاظ میں اس نے "عصفور" یعنی چڑیا بھی لکھا ہوا تھا۔

عراقی کوشش کرتے ہیں کہ فارسی زبان سیکھ کر وہ ایرانیوں کے ساتھ بات چیت کریں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ انہیں کیا چاہیے اور انہیں کس طرح سے ان کا احترام کرنا ہے! پچھلے سال جب ہم پول نمبر 610 کے قریب موکب حبیب بن مظاہر اسدی میں مہمان ہوئے، مالک مکان کی ایک بیٹی تھی وہ ہاتھ میں ایک چھوٹی نوٹ بک لے کر مسکراتی ہوئی ایرانیوں کے پاس آتی تھی اور جو الفاظ ان کے مہمان استعمال کرتے تھے ان کا ترجمہ ڈھونڈنے کے لیے اس نوٹ بک کو دیکھتی تھی جس میں اس نے اچھی لکھائی میں لکھا ہوا تھا اور پھر وہ اپنی بات کو فارسی میں بیان کرتی تھی۔

میری ساتھی دوست سلیمہ خانم، ام رضا، خرم شہر کی تھی اور اصالتاً کویتی تھی۔ اسے فارسی سے زیادہ عربی پر عبور تھا، وہ میزبانوں سے باتیں کرنے لگی۔ نماز پڑھنے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم گھر سے نکلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ہمارا اس گھر سے نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن ہمیں اپنے سفر کو جاری رکھنا تھا۔ نکلنے سے پہلے میں نے تبرک کی نیت سے کچھ مشہد کی ٹافیاں اور ہیئر بینڈ اپنے بیگ سے نکالے تاکہ یہ دے کر میزبان کا شکریہ ادا کر سکوں۔ اگرچہ وہ خلوص کے ساتھ زائرین سے محبت کرتے اور ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں، لیکن محبت کا جواب محبت ہونا چاہیے۔ سلیمہ خانم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور میری بھی عربی پچھلے سالوں سے کچھ بہتر ہو گئی تھی تو میں نے بھی ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور عربی میں کہا: " انشاء اللہ ہم آپ کی محبتوں کا جواب ایران میں دیں گے۔"

ساتھیوں کو فون کرنے سے پہلے ہی وہ ہمیں ایک گھر کے آگے مل گئے۔ ابھی تک انہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی اور وہ کہیں کھڑے ہونا چاہتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئے۔ وہاں خواتین دالیں وغیرہ صاف کر رہی تھیں۔

ہمارے دوستوں نے نماز پڑھی پھر ہم گھر سے نکل کر اپنے راستے پر چل پڑے۔ آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے اور معلوم ہو رہا تھا کہ جلد ہی بارش ہونے والی ہے۔ موسم گرم تھا اور ہم خوش تھے کہ سورج کی کوئی خبر نہیں ہے. آخرکار کئی گھنٹوں کی پیادہ روی کے بعد تقریباً ڈھائی بجے ہم شہر سے باہر نکل گئے اور ہائی وے پر پہنچ گئے وہ ہائی وے جسے دیکھنے کے لیے میرے روح تڑپ رہی تھی اور ایک سال سے میں اس لمحے کا اور اس ہائی وے پر چلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیسے خدا کا شکر ادا کروں کہ میں دوبارہ اس سفر پر آئی ہوں۔ پورا پیادہ روی کا سفر ایک طرف اور نجف سے کربلا کے لیے نکلنا ایک طرف۔ کھلے اور چوڑے راستے میں لوگوں کی بھیڑ اور اژدھام کی بات ہی کچھ اور تھی۔ آخری دنوں میں تہران میں قید نہیں تھی اور مجھے اپنی کیفیت سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ میں لمحے گن رہی تھی کہ سفر شروع ہو اور میں پول نمبر ایک پر پہنچ جاؤں۔ میری روح میرے جسم سے پہلے خود کو یہاں اس ہائی وے کے شروع میں پہنچا کر ٹہل رہی تھی اور انتظار کر رہی تھی کہ میرا جسم اس سے ملحق ہو جائے تاکہ دونوں مل کر طریق الحسین(راہ حسین) میں پیادہ روی کا آغاز کریں۔

" فراق کی مٹھاس وصل کے جوش سے کم نہیں

 اگر عشق منزل ہو تو راستے کی لذت کی کیا بات

اے عشق کوشش کر اور میرا ہاتھ تھام لے۔۔۔"

 چوڑی سڑک پر چلنا بہت آسان تھا تاحد نظر لوگ تھے جو دونوں سڑکوں پر چل رہے تھے۔ موکبوں نے راستے کے شروع سے ہی مہمان نوازی شروع کر دی تھی۔ خادم چائے، قھوے، ٹھنڈے شربتوں اور مختلف قسم کے کھانوں سے زائرین کی مہمان نوازی کر رہے تھے۔

اللہ کے فضل و کرم سے ایرانیوں کی تعداد نمایاں طور پر قابل دید تھی اور خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کا ساتھ زیادہ قابل دید تھا۔ کچھ فیملیز نے اپنے پانچ چھ سال کے بچوں کو پرام میں بٹھایا ہوا تھا تاکہ وہ جلدی چل سکیں اور بچوں کی خوش قسمتی کا بھی کیا کہنا کہ وہ کم عمری سے ہی اس راستے سے آشنا ہو رہے تھے۔

دو عراقی جوان ایک اونچی سیڑھی پر بیٹھے ہوئے تھے اور موبائل سے زائرین کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ ہم پول نمبر دس تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ گئے لیکن کچھ دوستوں کی درخواست پر ہم وہاں رک گئے۔

ہمارا ایک دوست اپنے بھائی کے ساتھ آیا ہوا تھا اس کا بھائی ذہنی معذور تھا اور اس کی کمر میں درد ہو رہا تھا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اور اس سے زیادہ پیدل نہیں چل سکتا تھا۔ اسے حق بھی تھا۔ ہم صبح کے ایک بجے سے دوپہر کے دو بجے تک چلے تھے اور ابھی پول نمبر 10 تک ہی پہنچے تھے۔ جبکہ اگر ہم اسی راستے سے آئے ہوتے تو اس وقت تک ہم کم سے کم سو پول پار کر چکے ہوتے۔ رات کو ہم ان عراقی دوستوں کے گھر رکنے والے تھے جن سے ہمارے خوزستانی اور عرب زبان ساتھیوں کی گذشتہ سفروں کے دوران دوستی ہوئی تھی اور یہ دوستی ان سالوں تک جاری تھی۔ وہ لوگ نجف کے شیعوں میں سے تھے اور ان کا بھائی داعش کے ساتھ جنگ میں شہید ہوا تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے مالک مکان سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ آج رات ہم ان کے مہمان ہوں گے۔

میرا اور ہماری ایک دوست کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ ہم گاڑی کے ذریعے راستے طے کریں۔ ہم ایک سال سے ان لمحات کی تمنا کر رہے تھے! طے پایا کہ وہ لوگ گاڑی سے جائیں گے اور ہم اگر ہو سکا تو وہاں ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ ہمارے ساتھی اس روڈ کے پاس گئے جہاں سے گاڑیاں گزر رہی تھیں اور ہم اپنے راستے پر چل پڑے۔

نجف سے کربلا کے راستے میں خاطرخواہ حد تک صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جا رہا تھا۔کچرا پھینکنے کے لئے بہت سارے پھلوں کے خالی ڈبے، بالٹیاں اور پلاسٹکیں کونوں کناروں میں نظر آ رہی تھیں۔ اس کے علاوہ لوگوں نے رضاکارانہ طور پر راستے صفائی کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی تھی۔

پول نمبر پچاس کے بعد بوندا باندی شروع ہوگی۔ بارش نے اس گرم موسم میں ایک خیالی اور دیدنی منظر بنا دیا تھا۔ عورتیں مرد، چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان، عراقی اور غیر عراقی اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے تھے اور کربلا کی جانب بڑھ رہے تھے۔ بارش جو لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی، کی وجہ سے ہوا ٹھنڈی ہوگئی تھی اور سڑک کا گردوغبار بھی بیٹھ گیا تھا۔ شام کے چھ بجے کے آس پاس ہم پول نمبر 175 پر پہنچے۔ دوستوں تک پہنچنے کے لئے دیر ہو چکی تھی۔ ہم رکنے کے لیے جگہ کی تلاش میں تھے۔ ہم تھکے ہوئے تھے کہاں جاتے۔ ہم نے سنا تھا کہ زیادہ لوگوں کی وجہ سے رات میں مشکل سے جگہ ملتی ہے۔ ہم ناامیدی کے ساتھ اپنے سامنے موجود ایک موکب میں گئے۔ امام بارگاہ کا رقبہ تقریبا ً30 میٹر تھا اور زائرین سے بھرا ہوا تھا لیکن پھر ہماری عرب زبان دوست نے مالک مکان سے بات کی اور اس نے ہمیں چھوٹا کمرہ دے دیا۔ اس کمرے میں کمبل وغیرہ تھے لیکن زمین پر قالین نہیں بچھا ہوا تھا۔ ہم نے انہی میں سے ایک کمبل زمین پر بچھایا اور اس پر بیٹھ گئے۔

ہم وضو کرنے کے لیے کمرے سے باہر نکلے۔ ایک ایرانی فیملی جنہیں آدھی رات کو نکلنا تھا دوسری منزل پر جانے والی زینے کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ گھر کا رقبہ نسبتاً بڑا تھا لیکن دوسرے کئی گھروں کی طرح سادہ تھا۔ مالک مکان دنیا کی رنگینیوں سے گزر چکی تھی اور اس نے خود کو، اپنے خاندان کو اور اپنی زندگی کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے نام اور یاد کو زندہ رکھنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔

ہم صحن میں گئے جو بہت چھوٹا تھا۔ اس کا زیادہ تر حصہ زائرین کے لیے بیت الخلاء اور حمام بنانے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ وہاں دو نئی واشنگ مشینیں تھیں جو زائرین کے لیے مختص تھیں۔ زائرین اپنے کپڑے دھونے میں مصروف تھے۔ میں نے اپنی چادر دھوئی اور ڈرائر میں ڈال دی اور اس کے بعد رسی پر پھیلا دی۔ صبح سے ہم جس گھر میں بھی داخل ہوئے تھے اس کے آرکیٹیکچر کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور ان دنوں امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہر اضافی جگہ کو استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ساری تبدیلیاں سال کے صرف 20 دن یا ایک مہینے کے لیے! ان سالوں میں یہ منظر دیکھنا میرے لیے معمولی بات نہ بنی تھی اور نہ بن سکتی تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ میں کس قدر اصلی اور حقیقی زندگی سے پیچھے ہوں۔ ان مناظر کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ میرا دل چاہتا تھا کہ چہلم کے دنوں میں عراقیوں کی مہمان بنوں اور ان سے زندگی کا سبق سیکھوں۔ ہم دوبارہ کمرے میں واپس آئے اور نماز پڑھی۔ مالک مکان ایک ادھیڑ عمر کی خاتون تھی جو ہمیں اکیلا نہیں چھوڑ رہی تھی۔ اسے جب بھی موقع ملتا تھا تو وہ ہمارے پاس آتی تھی اور میری دوست سے باتیں کرتی تھی۔ رات 9 بجے کے بعد مہمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، بچے جا رہے تھے اور آ رہے تھے اور گھر کے باہر ٹھہرے ہوئے مرد زائرین کے لئے کمبل وغیرہ لے جا رہے تھے۔ مالک مکان کبھی کبھار آتی تھی اور ایرانی زائرین اور اپنی گفتگو کا ترجمہ کرنے کے لیے میری دوست کو ساتھ لے جاتی تھی۔ ہمارے لیے رات کا کھانا لایا گیا لیکن ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ ہم کھانا کھائے بغیر ہی سو گئے۔ ہم نے ایک دن کے حساب سے زیادہ راستہ طے کیا تھا۔ گزشتہ سالوں کے برعکس کہ ہم آدھی رات تک پیادہ روی کرتے تھے تھکاوٹ کی وجہ سے ہم نے صبح کی نماز تک آرام کیا۔

مالک مکان خاتون اپنی کئی بچوں کے ساتھ باورچی خانے میں سوئی ہوئی تھی۔ صبح کی نماز کے بعد ہم چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ چلنے سے پہلے ہم نے میزبان کو کچھ تحفے دیے جن میں کچھ ہیئربینڈ، مشہد کی ٹافیاں اور کچھ سوکھا ہوا پودینہ شامل تھا، انہوں نے ہمارا بہت شکریہ ادا کیا اور ہم نے بھی ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور ہم گھر سے باہر آگئے تاکہ سفر عشق حسین علیہ اللام، میں ایک اور صبح کا آغاز کریں۔


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 1938



http://oral-history.ir/?page=post&id=9507