پاکستان میں اربعین حسینی 2020

مقالہ نویس : سیدہ نگہت رضوی

مترجم : محسن ناصری

2020-10-17


اس سال پاکستان میں اربعین امام حسین علیہ السلام کا کچھ اور ہی رنگ تھا کیوں کہ اس سال شیعان حیدر کرار علیہ السلام اور سلفی و وھابی فکر کے حامل افراد میں تصادم کی صورتحال پیش آئی تھی۔

 پاکستان کے علماء نے تاکید کی تھی کہ تمام شیعان امیرالمومنین علیہ السلام  اس سال اربعین کے جلوس میں بھرپور شرکت کریں کیونکہ اربعین سے ایک ہفتے پہلے ہی وھابی و سلفی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے بعض صحابی رسول اکرم (ص) کی حمایت میں تین روزہ ریلی نکالی گئی جس میں یزید لعنۃ اللہ علیہ کی حمایت میں نعرے بازی کی گئی اور یزید زندہ باد کے نعرے لگائے گئے اور اہل بیت علیہم السلام کی توہین بھی کی گئی۔ ریلی کے دوران مشتعل افراد نے راستے میں آنے والے امام بارگاہ پر پتھراؤ کیا اور ساتھ ہی شیعہ کافر کے نعرے لگائے اور علم حضرت عباس علیہ السلام  کی توہین کی۔

ان تمام شرائط کے پیش نظر شیعہ علماء نے تاکید کہ تمام مومنین اس سال اربعین کے جلوس میں شرکت کریں۔

الحمد للہ اس سال اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر کوئی بھی شیعہ گھر پر نہیں رہا اور ہر مومن نے جلوس میں شرکت کی۔ لوگوں نے دور اور نزدیک کے علاقوں سے جلوس میں شرکت کی اور مجلس عزا میں شامل ہوگئے۔ علماء نے کفن پہن کر جلوس میں شرکت کی۔ شیعان حیدر کرار علیہ السلام کا یہ اقدام عزاداری کے دشمنوں کے چہرے پر ایک زبردست اور محکم طمانچہ ثابت ہوا۔

جلوس کے راستے میں مومنین نے موکب قائم کیے ، جہاں عزاداران امام حسین علیہ السلام کی خدمت کی جارہی تھی۔ ان موکب میں مومنین کو کھانا ، پھل اور مختلف مشروبات پیش کیے جارہے تھے۔ اس سال جلوس میں شیر خوار طفل سے لے کر کُہن سال بزرگ افراد نے بھی شرکت کی۔ ہر سن و سال کے افراد اربعین امام حسین علیہ السلام  میں شامل ہو کر یزیدیت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کراچی کی ۷۳ سالہ تاریخ میں کبھی مومنین کی اتنی بڑی تعداد نے جلوس میں شرکت نہیں کی تھی۔ یہ جلوس ہر سال امام بارگاہ شاہ نجف سے شروع ہوکر گرومندر چورنگی پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور اس جلوس میں کچھ افراد جو اپنے آپ کو قبیلہ بنی اسد سے منسوب کرتے ہیں امام حسین  (ع) حضرت علی اکبر (ع) ، حضرت قاسم(ع) اور حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے تابوت نکالتے ہیں۔

 


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2404



http://oral-history.ir/?page=post&id=9506