کمبل والی ماں اور بیٹی!

مترجم: ضمیر علی

2020-09-28


(سن 1973) میں نے (مشترکہ کمیشن کے جیل میں) تقریباً 16 دن تک بدترین اور وحشت ناک ترین اذیتیں برداشت کیں،  لیکن ابھی تک میں نے افسران کو کوئی اہم اور کام کی بات نہیں بتائی تھی،  اور یہ چیز افسران اور تفتیش کاروں پر بہت ناگوار گزررہی تھی۔  اسی لیے انہوں نے ایک گھناؤنا، غیر انسانی اور شیطانی کام انجام دیا،  میری دوسری بیٹی "رضوانہ" کو جس نے ابھی ابھی جوانی میں قدم رکھا تھا اسے گرفتار کر کے جیل میں میرے پاس لے آئے۔  ان کا خیال تھا کہ ایسا کرکے اور مجھ پر ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ڈال کر وہ میری مزاحمت کو کچل دیں گے اور مجھے منہ کھولنے پر مجبور کردیں گے۔  کیا کہنا ان کی خام خیالی کا!

رضوانہ "رفاه" اسکول کی طالبہ تھی اور اسکول کے دوسرے طالب علموں کے ساتھ مل کر آرٹ اور گروپ ورک کرتی تھی۔  اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر عراق ریڈیو پر نشر ہونے والے نغموں اور نظموں کو جمع کر کے ایک ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔

یہ ڈائری میری گرفتاری کے بعد گھر کی تلاشی کے دوران افسران کے ہاتھ لگ گئی اور انہیں میری بیٹی کو گرفتار کرنے کا بہانہ مل گیا۔

پہلی رات یہ ماحول رضوانہ کے لئے بہت ڈراؤنا اور وحشت ناک تھا،  وہ مسلسل کانپ رہی تھی اور اس کے ہاتھ مسلسل میرے ہاتھوں کو دبا رہے تھے۔  میں بھی اس سے کچھ کم ڈری ہوئی نہیں تھی،  لیکن میرے لیے ضروری تھا کہ میں اپنی بیٹی کی ہمت بندھانے کے لئے اپنے آپ کو مضبوط اور حالات پر غالب دکھاؤں تاکہ وہ اس تشدد کے سامنے جو آنے والے دنوں میں ہونے والا تھا،  ڈٹی رہے اور ہمت نہ ہارے۔  افسران نے خود کشی اور پھانسی لگانے کو روکنے کے بہانے سے ہمارے سروں سے چادریں چھین لی تھیں۔  میرے لیے یہ بات بہت واضح تھی کہ اس کام سے ان کا اصلی مقصد  اس پردے کو اتارنا تھا جو ایک مسلمان اور مومن خاتون کی علامت ہوا کرتا ہے اور ہمارے حوصلے کو توڑنا تھا۔ اس لیے ہم چادر کے بجائے اپنے پاس موجود فوجی کمبلوں کو پردہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔  اس گرمی کے موسم میں ہمارا عمل افسران کے لئے بہت حیرت انگیز تھا،  وہ ہمارا مذاق اڑانے اور طنز کرنے کے لئے ہمیں "کمبل والی ماں" اور "کمبل والی بیٹی" کہہ کر پکارتے تھے۔

کمیشن کے جلادوں نے اپنے گھناؤنے کاموں کو جاری رکھتے ہوئے ہمارے سیل میں کچھ  چوہے چھوڑ دیئے تھے،  جن سے میری بیٹی ڈر جاتی تھی، سہم جاتی تھی اور مجھ سے لپٹ کر چیخیں مار کر روتی تھی۔  صبح تک چوہے سیل میں گھومتے رہتے تھے اور در و دیوار سے اوپر نیچے آتے رہتے تھے۔

ان حالات میں مجھے اپنی بیٹی کو تسلی دینی تھی  لیکن وہاں نصب شدہ مائیکروفونز اور ان لوگوں کے ہماری باتیں سننے کے ڈر کی وجہ سے ہم سروں پر کمبل لیتے تھے اور سونے کے بہانے سے میں  اسی حالت میں اس سے آہستہ آہستہ دھیمی آواز میں باتیں کرتی تھی تاکہ وہ جان لے کہ کیا ہو رہا ہے۔

وہ خوفناک رات بہت مشکل سے گزری۔  صبح وہ ہم دونوں کو تشدد اور تفتیش کے لیے لے گئے۔  ہمارے سروں پر کمبل تھے اسی لیے مضحکہ خیز ہنسی اور طعنے شروع ہوگئے "کمبل والا پردہ!" "کمبل والی ماں!" "کمبل والی بیٹی!" "کمبل والی کمبل والی!" و۔۔۔ کہاں ہے وہ خمینی جو آئے اور آکر تم لوگوں کو تمہارے سروں پر پڑے کمبلوں کے ساتھ نجات دے و۔۔۔"  مختصر یہ کہ انہوں نے ہمیں بہت ستایا اور ہمارا بہت مذاق اڑایا۔  ان حالات میں ہم ان کے لئے کٹھ پتلیوں کی مانند تھے!!  پھر تشدد شروع ہوا بجلی کے جھٹکے اور کوڑے۔۔۔

جب انہیں اپنے کاموں اور وحشی پن سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا تو انہوں نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا۔  کچھ لمحوں بعد رضوانہ کی دل دہلا دینے والی چیخ و پکار ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔  میں کانپ رہی تھی، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور چلانے لگی۔  میں نے اللہ سے پناہ مانگی اور رضوانہ کے لیے اس کی بارگاہ سے ان ساری مشکلات اور درندگی  میں صبر و تحمل کی التجا کی۔  اس تمام تر تشدد کے باوجود رضوانہ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔  میرے لئے بھی سب کچھ ختم ہو چکا تھا اور میں خدا سے شہادت طلب کر رہی تھی۔

آہستہ آہستہ میرے زخموں اور چوٹوں میں انفیکشن ہونے لگا اور پورے سیل میں اس کی بدبو پھیل گئی یہاں تک کہ افسران بھی اس سیل میں کھڑے نہیں ہو پاتے تھے۔

 ہماری مزاحمت کی وجہ سے افسران غصہ میں تھے، ایک رات آئے اور درندگی کے ساتھ رضوانہ کو اپنے ساتھ لے گئے اور میری آہ و پکار اور التجا کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، اب  مجھ میں مزید طاقت نہیں بچی تھی۔

میں ایک ایک لمحہ پریشانی اور الجھن میں گزار رہی تھی۔  میرے لئے بہت مشکل اور کٹھن وقت تھا۔  میں اس 1.5×1 میٹر کے سیل میں بے چینی اور بے قراری کے ساتھ ادھر اُدھر  ہو رہی تھی اور وقتاً فوقتاً دروازے پر موجود دراڑ کے چھوٹے  سے سوراخ سے راہداری کو دیکھ رہی تھی۔

کسی آنے جانے والے کا پتہ نہیں چل رہا تھا،  کسے لے گئے ہیں؟!  کسے لائے ہیں؟!

ہمیں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا!

میں سانپ کے کاٹے کی طرح تڑپ رہی تھی، اس رات میں بالکل بھی نہیں سوئی مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ لوگ جانوروں والا کام نہ کر ڈالیں۔  میں ڈر رہی تھی لرز رہی تھی اور ٹوٹ کر بکھر رہی تھی۔۔۔ رضوانہ کی دل دہلا دینے والی چیخ و پکار کی آوازیں رک نہیں رہی تھیں۔  رات کی خاموشی سے بھی چیخ و پکار کی آوازیں کہیں نہیں پہنچ رہی تھیں۔  اچانک ساری آوازیں بند ہو گئیں۔۔۔

الہی کیا ہوا؟!  مجھ پر خوف طاری ہوگیا۔  خوف سے میری سانسیں بند ہونے لگیں اور دل کی دھڑکن بھی بند ہونے لگی۔

صبح کے 4 بجے میں اب بھی پرکٹی مرغی کی طرح اپنے آپ کو سیل کے در و دیوار پر مار رہی تھی۔۔۔ میں نے دروازے کی زنجیر کی آواز سنی۔۔۔ میں سیل کے دروازے کی طرف لپکی۔  دو پولیس والے اسے زمین پر گھسیٹتے ہوئے لا رہے تھے۔  زمین پر گھسٹتا ہوا وہ گوشت کا ٹکڑا رضوانہ! میرے کلیجے کا ٹکڑا ہے۔  میں نے اپنی پوری طاقت سے دروازہ پیٹا اور  اتنا چلائی کہ عرش کے کنگورے لرز اٹھے۔  جو چیز بھی میرے ہاتھ میں آتی میں اسے کاٹ لیتی تھی،  میں اس قدر چلائی کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس بدترین جیل میں کوئی میری آواز  سن کر جاگا نہ ہو۔  جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اس پر پانی کی بالٹیاں  ڈال رہے ہیں اور اس کے باوجود اسے ہوش نہیں آرہا تو میں پاگل ہوگئی  میں اپنا سر،  جسم، مکے اور لاتیں ہر جگہ ہر چیز پر مار رہی تھی۔  مجھے لگتا ہے میرے منہ سے خون اس لیے نکل رہا تھا کہ میری زبان کٹ گئی تھی۔۔۔۔۔ مجھ میں مزید چلانے اور ہلنے کی طاقت نہیں تھی۔ میں اس سوراخ میں سے اپنی بیٹی کے بے جان جسم کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

وہ لوگ صبح 7 بجے آئے اور اس کے بے جان جسم کو ایک کمبل میں ڈال کر لے گئے۔  رضوانہ کے جسم سے اس کی روح نکل جانے اور اس کے مر جانے کا تصور مجھے مارے ڈال رہا تھا  گویا اگر میری جگہ کوئی پہاڑ بھی ہوتا تو ریزہ ریزہ ہو جاتا۔  میں ہر چیز اٹھا کر بری طرح سے دروازے پر مار رہی تھی اور چلا رہی تھی: "مجھے بھی لے جاؤ! میں اپنی بچی کے پاس جانا چاہتی ہوں!  تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے؟قاتلو! مجرمو!!! ۔۔۔"  اسی کشمکش میں تلاوت قرآن کی خوبصورت آواز نے مجھے منجمد کردیا: "وَٱسْتَعِینُواْ بِالصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ  وَإِنَّهَا لَکَبِیرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلْخَٰشِعِینَ"۔

اس بھڑکتے ہوئے تندور پر ٹھنڈا پانی پڑا،  اتنی خوبصورت آواز میں تلاوت کی جا رہی تھی گویا خدا  خود مجھے مخاطب کرکے گفتگو کر رہا تھا  اور مجھے صبر اور نماز کی دعوت دے رہا تھا۔  میں زمین پر بیٹھ گئی، مجھے ہوش آیا اور سمجھ میں آیا کہ گزشتہ رات سے اب تک کیا ہوا ہے۔  وہ آواز آیت اللہ ربانی شیرازی کی تھی جو بہت رقت آمیز تھی اور مجھے دلاسہ دے رہی تھی۔  وہ بھی میری طرح گزشتہ رات سے صبح تک سوئے نہیں تھے،  اور صبح ہونے تک نماز اور قرآن پڑھ رہے تھے لیکن ان کی آواز اس چیخ و پکار میں  سنائی نہیں دے رہی تھی اور میں اس لمحے تک ان کی آواز نہیں سن رہی تھی۔  مرحوم ربانی شیرازی کا سیل میرے سیل سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا وہ سب انہوں نے بھی دیکھا تھا۔  اسی طریقے سے تقریبا دس دن گزرے تھے کہ اچانک جس معجزے کا مجھے انتظار تھا وہ رونما ہوگیا،  وہ لوگ رضوانہ کو واپس لے آئے لیکن ٹوٹی پھوٹی اور مرجھائی ہوئی حالت میں،  اس کی کلائیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا وہ زخمی تھی اور ان سے خون نکل رہا تھا۔  میں نے اس کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس قیامت کی رات کے بعد بے ہوشی کی حالت میں اسے  پولیس ہسپتال لے گئے تھے اور وہاں اس کے ہاتھوں کو بیٹھ کے ساتھ زنجیروں سے باندھا ہوا تھا اور وہاں ایک مسلح پولیس والا بھی تعینات تھا۔  وہ لوگ دن میں صرف ایک مرتبہ اس کے ہاتھ کھولتے تھے اور اسے واش روم لے کر جاتے تھے۔


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 2104



http://oral-history.ir/?page=post&id=9465