دین کی خدمت میں فلم

مترجم: محسن ناصری

2020-09-02


پہلوی حکومت کے زمانے میں مومن اور مذہبی گھرانے کے افراد سینما اور ٹیلی ویژن پر اخلاقی بدحالی کے باعث فلم اور ڈراموں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ سینما جانا اور ٹی وی پروگرام دیکھنا مذہبی گھرانوں کے لیے کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان گھرانوں میں ٹی وی کی خریداری انتہائی معیوب عمل سمجھا جاتا تھا اور مالی مشکلات بھی ٹی وی کی خریداری میں رکاوٹ کی بڑی وجہ تھی۔ جب ان گھرانوں کے بچے کلاس کے دوست احباب کو فلم اور ڈراموں کے متعلق گفتگو کرتے دیکھتے تھے تو محرومی کا احساس کیا کرتے تھے اور یہ رویہ ان کے اندر منفی افکار کو جنم دیا کرتا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر بہشتی رفاہ اسکول میں تقریر کررہے تھے اور انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے کو اسی موضوع سے مخصوص کرتے ہوئے نوجوانوں کی جانب اشارہ کیا جوکہ ان جوانوں کی فکر میں بڑی تبدیلی ایجاد کرنے کا باعث تھا۔ حاضرین محفل کے ساتھ طویل اور مفصل مباحثوں اور میٹنگز کا مقصد اس بات پر زور دلانا تھا کہ کسی بھی طور پر اس حساس مسئلہ کو حل کیا جائے اور ان خاندانوں کی اس مشکل کو حل کیا جائے۔ شہید بہشتی نے اس مسئلے کے حل کے لیے مذہبی اور اخلاقیات کے دائرے میں بنائی جانی والی فلموں پر اسرار کیا۔ یہی اسرار باعث بنا کہ ایک ادارہ بنایا جائے اور بعض احباب نے اس عمل کے لیے اپنے ذوق و شوق کا اظہار کیا اور اس ادارے کا نام " دین کی خدمت میں فلم نامی کمپنی" کی بنیاد رکھی گئی۔

ابتداء میں وزارت فلم و ہنر کی فلموں کا انتخاب کیا اور نامناسب مناظر کو حذف کرکے پیش کیا جانے لگا۔ جب اس کام میں مہارت حاصل کرلی تو آہستہ آہستہ خارجی فلموں کی خریداری کی جانے لگی ابتدا ء میں جنگ پر فلمائی گئی فلموں کو پیش کیا جانے لگا۔ انتہائی مہارت سے فلم کے اندر جہاد پر مبنی قرآنی آیات کو بیان کیا جاتا تھا جن میں سے ایک " سوره‌ آل عمران کی ۱۶۹ ویں آیت، وَلا تَحْسَبَنَّ قُتِلوُا فی سَبیلِ‌اللهِ أمْواتاً اَحْیاءً عِنْدَ، رَبَّهِمْ یَرْزَقُون " لیکن یہ عمل پہلوی حکومت کو بالکل بھی پسند نہیں آیا اور اس کام میں انہوں نے مشکلات ایجاد کرنا شروع کردیں۔ حجت الاسلام رفسنجانی نے مجھ سے کہا ان فلموں کو صرف وہاں چلائیں جہاں مطمئن ہو کہ لوگ اس فلم کو پسند کریں گے۔ ایک روز قم میں مقیم ایک دینی طالب علم ہمارے پاس آیا جس کو حال ہی معلوم ہوا تھا کہ ہم مذہبی فلمیں بنا رہے ہیں تو وہ ہم سے تقاضا کرنے لگا کہ ہم اس کے ساتھ قم چلیں اور مذہبی فلم کی نمائش کریں۔ ہم نے بھی اس کی فرمائش کو قبول کرلیا اور فلم کی نمائش کا وعدہ کرلیا۔ اس وقت میں حکومتی عہدیداروں کی طرح لباس پہنا کرتا تھا اور میں نے اپنا ظاہری حلیہ بھی ان جیسا ہی بنایا ہوا تھا۔ ٹائی لگا کر جایا کرتا تھا اور اپنے لیے ٹیلی ویژن سینٹر سے ایک پاس بھی حاصل کرلیا تھا جس کے باعث با آسانی اپنا کام انجام دیا کرتا تھا اور کسی کو مجھ پر شک بھی نہیں ہوتا تھا۔ جنگ پر مبنی بیرونی فلم کو فارسی میں ترجمہ کرنے کے بعد قرآنی آیات کے ساتھ پیش کیا جانا دینی طالب علموں کو اس قدر پسند آیا کہ ان پر وجد طاری ہوگیا۔ میں چاہتا تھا کہ فلم کی نمائش کے بعد فوراً ہی اس جگہ کو ترک کردوں لیکن طالب علموں نے میرا گھیراؤ کرلیا اور اس قدر سوالات کیے کہ میرا نکلنا مشکل ہوگیا۔ پوچھنے لگے " کہاں سے آئے ہیں؟"۔ میں جواب دیا کرتا تھا " تہران کی وزارت فلم و ہنر سے آیا ہوں "۔  ان کا اسرار تھا کہ اس قسم کی فلم دوبارہ بھی پیش کی جائے۔ میں نے بھی دوبارہ فلم لگانے کا وعدہ کرلیا اور اپنا ساز و سامان اٹھا کر وہاں سے چلتا بنا۔ میرے جانے کہ بعد وہاں ساواک (پہلوی خفیہ ایجنسی) کے جاسوس فیضیہ مدرسے میں آئے اور بڑی تعداد میں طالب علموں سے پوچھ گچھ کرنے لگے اور بہت سے افراد کی تفتیش کرنے کے ساتھ میرا پتہ اور تفصیلات مانگنے لگے۔ طالب علموں نے کہا ہم تو بس یہی جانتے ہیں کہ وہ وزرات ہنر سے آئے تھے۔ ساواک کا دوسرا سوال یہ تھا مجھے کس نے دعوت دی تھی۔ بہت سے طالب علموں کو گرفتار کرکے لے گئے اور دو دن تک حراست میں رکھا۔ اس چالاک اور ہوشیار جوان نے کہا " ہماری ان سے کوئی آشنائی نہیں تھی انہوں نے اچھی فلم کی نمائش کی تو ہم نے بھی دوبارہ نمائش کی فرمائش کردی اور نہ ہی ہمارے پاس ان کے گھر یا دفتر کا کوئی ایڈریس موجود ہے"۔ ساواک کے نمائندے ان کے جوابات سے ناامید ہوکر وہاں سے چلے گئے۔

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 2288



http://oral-history.ir/?page=post&id=9427