شام کی داستان

یادوں بھری رات کا ۳۱۰ واں پروگرام – تیسرا حصہ

مقالہ نویس: مریم رجبی

مترجم : محسن ناصری

2020-09-02


 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۱۰  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۳ جنوری ۲۰۲۰ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں حجت الاسلام و المسلمین علی شیرازی، مرتضی سرہنگی اور مجید یوسف زادہ نے اپنے واقعات بیان کرتے ہوئے حاج قاسم سلیمانی اور شام میں دفاع کے بارے میں بتایا۔

مجید یوسف زادہ پروگرام کے تیسرے راوی کہتے ہیں " میں دو سال سے شام جانے کا مشتاق تھا۔ بہت سے عسکری عہدیداروں سے گفتگو اور ملاقاتیں کی اور کوشش کرتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ میری زوجہ کا شام سے تعلق ہونا میرے لیے ایک امتیازی نکتہ ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی اور میری زوجہ کا اہل شام ہونا میرے لیے شام جانے میں بہت ہی مشکل اور رکاوٹ بنا۔ میں نے ایک لشکر کے سردار سے ملاقات کی اور کہا " حاجی میں کیا کرو؟  سردار نے کہا " وہاں جاؤ اور دوست تلاش کرو اور ان کے ساتھ ہوجاؤ۔ میں نے سوال کیا "کہاں جاؤں؟"۔ کیا خدا کی بارگاہ پر جاؤں اور التماس کرو؟ کیوں کہ شام کوئی چھوٹی موٹی جگہ نہیں ہے مجھے کوئی راستہ بتائیں۔ اتفاق سے ان کو اُسی ہفتے ایک مشن دیا گیا اور وہ شام چلے گئے وہاں جانے کے بعد انہوں نے مجھے درست نشان دہی کی۔ میں جنگ کے دوران اپنی نسبت کی وجہ سے شام زیادہ جایا کرتا تھا۔ میری زوجہ کے اہل خانہ کا گھر داعش کے ٹھکانوں سے صرف ۴ کیلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب حزب اللہ لبنان قصیر نامی علاقے میں داخل ہوئے اور وہاں دو مہینے تک لڑائی میں شدت آگئی تو ہم اس مقام سے بہت نزدیک تھے۔ ہم لبنان کے زمینی راستے کے ذریعے شام میں داخل ہوا کرتے تھے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کے نزدیک ہوٹل ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔ اکثر ہوٹل اور مسافر خانے حزب اللہ کے جوانوں کے مسکن اور رہائش گاہ میں تبدیل ہوچکے تھے جو کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ شام جہاد کے لیےآئے ہوئے تھے۔ کوئی بھی جگہ نہیں بچی تھی بہت ہی مشکل سے ایک جگہ تلاش کی اور ٹھہرگئے۔ مغرب کی نماز کا وقت تھا میں نے ارادہ کیا حرم جاؤں اور نماز پڑھ کر فیملی کے پاس واپس چلا جاؤں۔ جب نماز ختم ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ سردار حاج قاسم سلیمانی ڈیپلومیٹک کوٹ پینٹ میں ملبوس وہاں موجود ہیں۔ سردار ایک خاص ہیبت رکھتے تھے۔ حاج محمد جعفر اسدی جو کہ "ابو احمد" کے نام سے معروف تھے شام میں تمام افواج کے کمانڈر تھے۔ حاج قاسم سلیمانی مستحب نماز پڑھ رہے تھے۔ میں ابو احمد کے نزدیک گیا اور ان سے دعا سلام ہوئی انہوں نے مجھے جواب دیا اور پوچھا " میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ "۔ میں نے کہا " آپ کے دو منٹ لینا چاہتا ہوں"۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا " آپ کو یاد ہے جنگ کے زمانے میں ایک بچہ جو جنگ پر جانے کے لیے بس میں سوار ہوا کرتا تھا اور جب اس کو اتار دیا جاتا تھا وہ اس بات پر بہت رویا کرتا تھا؟"۔ کہنے لگے " جی"۔ میں نے کہا " آج میں اس بچے کی طرح ہوں جو حرم گیا اور گریہ و زاری کے بعد آپ کی خدمت میں آیا ہوں تاکہ مجھ کو آپ میدان جنگ میں اپنے ساتھ لے چلیں"۔ ابواحمد ہنسے لگے اور مجھ سے پوچھا " کیا کرتے ہو اور کون ہو؟"۔ میں نے جواب دیا سپاہ پاسداران میں تھا، اطلاعات کا کام کیا کرتا تھا"۔ میں نے اپنے تجربات ان کو بیان کیے اور بتایا کہ فلاں سردار نے بھی آپ کے لیے ایک خط دیا ہے۔ انہوں نے کہا " ٹھیک ہے ابھی جاؤ اور کل فلاں وقت آنا"۔  ہم باہر آگئے اور اتنے میں قاسم سلیمانی  سے بھی سامنا ہوگیا۔ وہی ہمیشہ کی مسکراہٹ اور وہی دل موہ لینے والا اخلاق، میں ان کے نزدیک گیا اور ان کو گلے لگا لیا اور ان کو پیار کیا۔ میں نے حاج قاسم سلیمانی سے کہا ابو احمد سے میری سفارش کریں۔ وہ سب چلے گئے پھر میں ابو حُسین جو کہ ہیڈکواٹر کے انچارج تھے ان کے پاس گیا اور ان سے کہا " حاجی  مجھے پہچانتے ہیں؟"۔ کہنے لگے "نہیں"۔ میں نے مختلف واقعات کے حوالے دیے تاکہ یاد آجائے لیکن پھر بھی کہنے لگے :نہیں یاد آیا کون ہو۔ میں نے ان کو وہ خط دیا اور کہا میرا کام کر دیں۔ تو انہوں نے مجھ سے خط لیا اور اس کے نیچے لال قلم سے لکھ دیا " اے دیوانے بھائی؛ یہاں تک آگئے تم نے جہاد کا اجر حاصل کرلیا، خدا تم کو جہاد کا اجر دے گا اور تم اب جاؤ ابواحمد سے رابطہ کرو تاکہ جب بھی ضرورت محسوس کرے تم کو ایران سے بلا لیں"۔ ایک بار پھر مشکل حل نہیں ہوئی۔ ۲۰۱۶ء  میں ایک بار پھر شام جانے کی بیتابی بڑھ گئی کہ شام چلا جاؤں۔ میں اگر کسی کو پہچانتا تھا تو وہ صرف ابوحسین تھے، مجھے ابو حسین کے پاس بھیج دیا گیا۔ دمشق میں دو مقام بہت حساس تھے  جو کہ ہمارے لیے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے تھے۔ پہلا حساس مقام دمشق کا ائیرپورٹ تھا جس سے صرف ۵ کلومیٹر دور داعش موجود تھی اور دوسری اہم جگہ بجلی گھر تھا جس کے ذریعے فوجی بیس کو بجلی کی فراہمی کی جاتی تھی جس پر داعش نے جند بار حملے بھی کیے تھے۔ ہم نے ان بیسز پر طاقتور دوربین نصب کررکھیں تھیں جن کے ذریعے شب و روز تمام تر آمد ورفت کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ داعش ہم سے ۱۲ کیلومیٹر کے فاصلے پر تھی اور انہوں نے نزدیک ہونا شروع کیا یہاں تک کہ صرف  ۵ کیلومیٹر کا فاصلہ رہ گیا اور جھڑپ شروع ہوگئی،  داعش نے حملہ کردیا۔  عام طور پر داعش کی حکمت عملی یہ ہوا کرتی تھی کہ وہ ابتدا میں خودکش بمباروں کے ساتھ حملہ کیا کرتے تھے تاکہ راستہ کھل جائے اور وہ علاقے میں داخل ہوجائیں۔ اگر آپ نے " شہید محسن حججی" کے اسیر ہونے کی ویڈیو دیکھی ہوگی تو اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ابتداء  میں داعش ۵ خودکش گاڑیوں کے ساتھ حملہ آور ہوئے تھے۔ صرف ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر اگر ایسے دھماکے ہوں  تو انسان کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور بم دھماکے سے ایجاد ہونے والی امواج انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہیں۔ ہم  نے بھی اپنے علاقوں کے چاروں طرف دھماکہ خیز مواد نصب کیا ہوا تھا  اگر دہشت گردوں کی گاڑیاں وارد ہو تو دھماکے کی زد میں آجائے۔ صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا وہ ریلوے ٹریک تھا۔ داعش نے ایک خودکش بمبار کو ریلوے ٹریک کے ذریعے داخل کرنا چاہا لیکن دوستوں نے جوابی کاروائی کرکے یہ حملہ ناکام بنادیا اور وہ بیس میں داخل نہیں ہوسکے۔ لیکن بیس کے نزدیک آچکے تھے اسی دوران شامی فضائیہ کے ایک جنگی طیارے نے مدد کی اور بمباری کے ذریعے داعش کو عقب نشینی کرنے پر مجبور کردیا۔ ہم کچھ عرصے بعد حلب منتقل ہوگئے۔ جب ہم حلب  پہنچے تو شامی فوج کے توپ خانے داعش کے کنٹرول میں تھے۔ چار اطراف میں سے، تین اطراف دشمن کے کنٹرول میں تھیں۔ جبھۃ النصرہ یعنی وہی  القاعدہ بھی وہاں موجود تھی۔ یہ افراد کافی تربیت یافتہ اور ماہر تھے۔ بمباری کے دوران ان کا یک کمانڈر ہلاک ہوا جس کے لیے کہا جاتا تھا کہ یہ شخص ۱۸ سال کی عمر سے جنگ کررہا تھا۔ یعنی بوسنیا ہرزگووینا، چیچنیا ، افغانستان، عراق اور اب ۵ سال سے شام میں جنگ کررہا تھا۔ یہ لوگ جنگ کرنے میں بہت ماہر تھے ان کے نشانے باز ہدف کو تین گولیوں میں نشانہ بنا لیتے تھے۔ آپریشن کو دوپہر ، ایک  بجے شروع کرتے اور شام ۵ بجے تک عسکری کاروائی مکمل کرکے سپاہیوں کو اسیر کرلیتے یا شہید کردیتے تھے۔ بہرحال ہم میدان جنگ میں داخل ہوئے اور ہمارے ساتھ شام کے سنی برادران بھی شام تھے۔ شام کے سنی مجاہدین کے تین دستے تھے ایک کمانڈر کا نام عمر دوسرے کا ابوبکر اور تیسرے کا نام خالد بن ولید تھا۔ دوسری جانب شیعہ دستوں میں فاطمیون اور امام رضا (علیہ السلام) بریگیڈ کے دستے شامل تھے۔ امام رضا  علیہ السلام بریگیڈ کی کمانڈ ایرانی جوانوں کے ہاتھ میں تھی۔ جن میں محمد امین کریمیان، جوکہ گرگان کے ایک دینی طالبعلم تھے جب شہید ہوئے تو ان کی عمر صرف ۲۱ سال ۱۰ مہینے تھی۔ اسد اللہ ابراہیمی جنہوں نے خان طومان کے آپریشن میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے تک وتنہا ایک دستے کا راستہ روکا جبکہ تمام دوست شہید ہوچکے تھے انہوں نے اس قدر گولیاں برسائی کہ دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔

آج کے زمانے میں سوشل میڈیا کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ خبر فوراً منتشر ہوجاتی ہے اور بغیر کسی ڈھنگ اور آمادگی کے شہید کے اہل خانہ شہادت کی خبر سنتے ہیں۔ دفاع مقدس کے زمانے میں امام جماعت اپنے محلے کے ہر جوان کی شہادت کی خبر سناتے تھے اور بہت ہی آرام اور مقدمات کے ساتھ خبر دیا کرتے تھے۔ کرج کے مہدی عسگری جب شہید ہوئے تو ان کی زوجہ کا کہنا ہے کہ میں یونیورسٹی میں تھی اور استاد نے کلاس کے دوران بریک لینے کا کہا تو میں نے موبائل پر مدافعین حرم کے چینل پر جاکر چیک کیا تو دیکھا میرے شوہر کی شہادت کی خبر لگ چکی تھی۔ میں یہ دیکھتے ہی سکتے میں آگئی۔

مجاہدین نے آپریشن شروع کیا اور دشمن سے جنگ شروع ہوگئی۔ دشمن مسلسل گولیاں برسا رہا تھا اور جبھۃ النصرہ کے دہشت گرد "اللہُ اکبر" کی صدائے بلند کرنے لگے۔ محمد امین کریمیان دشمن سے ۳۰ میٹر کے فاصلے پر تھے،فاطمیون کے جوانوں سے کہنے لگے "لبیک یا علی کی صدا بلند کریں" ہم بھی لبیک یا علی کی صدائے بلند کرنے لگے اور دشمن کی جانب گولیاں چلاتے ہوئے بڑھنے لگے۔ اسی دوران ایک گولی محمد امین کریمیان کے سینے میں لگتی ہے جس کے باعث وہ شہید ہوگئے۔اس کے بعد اسد اللہ ابراہیمیان بھی شہید ہوجاتے ہیں۔ میں نے وائر لیس سے شہید مہدی عسگری کی آوز سنی جو کہہ رہے تھے کہ مجھے تین گولیاں لگی ہیں امدادی ٹیم کو بھیجیں۔ لیکن کمانڈر دقیق نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں ہیں۔ خان طومان میں جب اصفہان کے جوان کاروائی کر رہے تھے تو دشمن نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ۲۵-۳۰ جوان شہید ہوگئے۔ ہمارے ۴ دوست شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ شہید رضا زادہ کا بدن کمر سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا لیکن وہ ۳۰ جوانوں کو محاصرے سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ حسن اکبری جن کا تعلق تہران سے تھا "تدمُر" کی کاروائی میں ہیوی مشین گن پر بیٹھے گولیاں برساتے رہے ان کو بھی دشمن نے کورنیٹ میزائیل سے نشانہ بنایا اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ حسن اکبری کی ایک بیٹی تھی جس کی اُسی ہفتے شادی تھی۔ ہم نے اُن سے کہا " آپ تہران کی فلائٹ لے اور بیٹی کی شادی میں شرکت کرکے واپس آجائیں، بیٹی کی بھی خواہش ہوگی کہ آپ ضرور شرکت کریں"۔ حسن اکبری کہنے لگے " ڈرتا ہوں کہ جاؤں اور گھر والے مجھے واپس نہ آنے دیں اور مجھ سے جہاد اور شہادت کی توفیق چھن جائے۔ انشاء  اللہ نکاح کے وقت ٹیلیفون کے ذریعے نکاح پڑھنے کی اجازت دے دوں گا"۔

شہید مہدی نظری" کا تعلق اندیمشک شہر سے تھا وہ جب شہید ہوئے تو ان کا شکم پارہ ہوچکا تھا۔ جب وہ زخمی ہوئے تو ہم ان کو عقب نشینی نہیں کروا سکے۔ ان کی آنتیں باہر آچکی تھی اور انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کو تھاما ہوا تھا۔ خود ہی اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے" آپ لوگ واپس چلے جائیں میں واپس نہیں جاسکتا، جتنے بھی میگزین آپ لوگوں کے پاس موجود ہیں میرے پاس چھوڑے جائیں تاکہ میں دشمن کو آگے آنے سے روک سکوں اور آپ لوگ سلامتی کے ساتھ واپس پلٹ جائیں"۔ جوانوں نے ان کے ماتھے کا بوسہ لیا اور اپنے اضافی میگزین دے کر واپس پلٹ گئے۔ مہدی نظری آخری گولی تک لڑتے رہے اور پھر شہید ہوگئے۔

ایرانی تاریخ کی بیانگر ویب سائٹ کے مطابق دفاع مقدس کی داستان کا تین سو دسواں پروگرام جمعرات ۲۳ جنوری ۲۰۱۸ سورہ ھال میں منعقد کیا گیا۔اس پروگرام میں حجت السلام و المسلمین علی شیرازی، مرتضی سرھنگی اور مجید یوسف‌زاده نے سردار شہید حاج قاسم سلیمانی اور شام کے دفاع  کے دوران کی یادگار واقعات بیان کیے۔

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2304



http://oral-history.ir/?page=post&id=9426