تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – اُنتیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی
مترجم: ضمیر رضوی

2020-08-09


ایمبولینس رکی اور ہم پانی کے کنویں کے پاس اترے۔  ہم نے ڈول  کو پانی سے نکالا اور ہاتھ منہ دھویا۔ ڈرائیور نے ریڈی ایٹر میں بھی تھوڑا پانی ڈالا۔ چند لمحوں کے لئے ہم اس گاؤں میں چہل قدمی کرنے میں مشغول ہو گئے۔  میں نے اپنے پاس موجود چھوٹے کیمرے سے کچھ یادگار تصویریں کھینچیں۔  اس کے بعد  میں نے مزار کا رخ کیا۔ 


 میں نے اپنے جوتے اتارے اور مزار میں داخل ہوگیا۔ کچھ شاندار قالین ایک بڑا ٹیلی ویژن سیٹ اور اس کے اوپر ایک سبز علم اور کچھ قرآن نظر آ رہے تھے۔  میں نے صاحب قبر کے لئے ایک فاتحہ پڑھی اور کچھ لمحوں بعد حرم سے باہر آگیا۔  مزار کے برابر میں ہی ایک گھر تھا جس کی دیواریں  اینٹوں کی تھیں۔  میں نے اس گھر کے صحن میں نگاہ ڈالی تو کچھ سامان دیکھا جس پر گرد جمی ہوئی تھی۔  یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔  بظاہر ہماری فورسز نے رہائشیوں کو اتنی بھی مہلت نہیں دی تھی کہ وہ اپنے ساتھ  ضروریات زندگی کا سامان لے جا سکیں۔ 


واضح تھا کہ قالین اور بڑا ٹیلی ویژن سیٹ، ضریح میں امانت کے طور پر رکھوائے گئے تھے، لیکن ان لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ بعثیوں کے دل میں ذرہ برابر بھی رحم اور مروت نہیں ہے۔  میں نے ضریح اور گاؤں کی کچھ یادگار تصویریں لیں۔ میں نے وہاں سے چلنا چاہا تو ڈرائیور کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا، میں حرم کے اندر واپس گیا۔


میں نے دیکھا کہ ڈرائیور قالینوں کو الٹ پلٹ کر رہا ہے۔ 


میں نے اس سے پوچھا: "کیا کر رہے ہو؟"


اس نے جواب دیا: "ڈاکٹر! کیوں نہ اس سامان کو ہم اپنے ساتھ لے چلیں؟"


میں نے کہا: "تم مذاق کر رہے ہو ناں؟" 


اس نے کہا: "نہیں! میں سنجیدہ ہوں۔۔۔"


میں نے کہا: "خدا تمہیں موت دے دے! یہ سامان کچھ مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں کا ہے۔ کیا تمہیں ضریح کے برابر میں پرچم حضرت عباس (ع) اور قرآن شریف نظر نہیں آتا۔ یہ سامان یہاں امانت کے طور پر رکھوایا گیا ہے۔ کیا تمہیں خوف خدا نہیں ہے؟" 


 اس نے جواب دیا: " اگر ہم یہ سامان لے کر نہ گئے تو دوسرے لوگ لے جائیں گے۔"


مجھے اس شیطانی منطق سے حیرت ہوئی۔ اس کا جواب اور جواز سن کر مجھے عاشور کے دن  "شمر" ملعون کا غیر انسانی عمل یاد آگیا کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے بچوں کے کانوں سے گوشوارے اتار رہا تھا اور جب ایک خاتون نے شدید اعتراض کیا تو اس نے کہا: " اگر میں نے یہ گوشوارے نہ چھینے تو یقیناً عمر سعد کے سپاہی انہیں لے لیں گے۔"


میں نے اسے بہت ڈانٹا اور کہا خدا کی قسم میں ہرگز اپنے آپ کو جہنمی نہیں بناؤں گا۔ پھر میں نے دھمکی آمیز لہجے میں اس سے کہا: " اب تمہیں اس جگہ قدم رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔"


وہ سر جھکائے ہوئے مزار سے باہر آگیا۔ ہم نے سفر کو جاری رکھا اور بریگیڈ کے "پ" کیمپ پہنچے۔  ضرور وہ ڈرائیور عراقی فوج کے افسران سے متاثر تھا۔ اس فوج کے افسران سے جو نجات دہندہ کے بجائے چور کی حیثیت سے خطے میں داخل ہوئی تھی اور خوزستان کے عربوں کی املاک اور اثاثے لوٹ رہی تھی۔ وہ بھی ان افسران کی پیروی کرتے ہوئے چاہتا تھا کہ اس برے کام کو انجام دے۔


اپریل کے اواخر میں ہم نے بورنگ دن گزارے اور  اسی دوران ایسے حادثات اور واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے چیزیں اپنے معمول سے ہٹ گئیں۔ 


مجھے یاد ہے کہ بریگیڈ کی انجینئرنگ کمپنی نے پانی کے بہاؤ پر کامیاب کنٹرول اور مٹی کے ڈیموں کی تکمیل کے موقع پر ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا،  یہاں تک کہ بصرہ سے پانچویں ڈویژن کے افسران کو بھی اس دعوت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ 


 دعوت کی خصوصی جگہ کو عراقی دیہاتیوں کے طریقے کے مطابق بانس اور چٹائیوں سے بنایا گیا تھا۔ اس تقریب میں درجنوں افسران شریک تھے۔


کھانے منجھے ہوئے اور ماہر باورچیوں نے بنائے تھے۔  کھانے میں مختلف قسم کے چاولوں سےبھرے تین تھال تھے اور ان کے اوپر بھنے ہوئے دنبے رکھے تھے اور دنبے کے پیٹ میں کچھ اخروٹ، بادام اور کشمش رکھے گئے تھے جو سب کی بھوک کو بڑھا رہے تھے۔ کھانے کے برتنوں کے اردگرد بڑی بڑی ڈشز رکھی گئی تھیں جن میں پھل اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں بھری ہوئی تھیں۔  مختصر یہ کہ انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، ایک بڑے تھال میں جس میں ایک دنبہ اور چاول تھے پانچ آدمی کھانا کھارہے تھے۔ 


 بریگیڈ کمانڈر نے تھالوں پر حملے کی اجازت دی۔  لوگوں کے ہاتھ ایک دوسرے میں الجھ گئے۔ اس کے بعد باتیں بند ہوگئیں اور صرف کھانا چبانے اور کولڈ ڈرنگ کی بوتلوں کے ڈھکن کھلنے کی آوازیں آنے لگیں۔

بدقسمتی سے ہمارے برابر میں دوسری ریجمنٹ کا ایک کیپٹن بیٹھا ہوا تھا جو بظاہر "رمادی" کے قدیمی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ وہ ایک عجیب ہوس سے کھانا کھا رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مدد لے رہا تھا۔  اس کے اس کام سے مجھے اس سے نفرت ہوگئی۔  میجر جنرل "عبدالقادر" نے اسے بدتمیزی سے کھاتا ہوا دیکھ کر کہا: " اس بےچارے دنبے کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔ خدا کی قسم! اگر اس کی زبان ہوتی تو تمہیں گالیاں دیتا اور چاہتا کہ تم کسی میزائل سے مارے جاؤ۔"
ہم سب ہنسنے لگے لیکن اس نے ہماری تنقیدوں کی پرواہ کیے بغیر کھانا کھانا جاری رکھا۔ 
میں نے کیپٹن "حازم" سے پوچھا: " اس دعوت کے پیسے کہاں سے آئے ہیں؟" 


اس نے جواب دیا: "یونٹ کے بجٹ سے!"


یونٹ کا بجٹ عام طور پر ان دکانوں کے پروفٹ سے فراہم کیا جاتا ہے جہاں سے سپاہی خریداری کرتے ہیں، تو معلوم ہو گیا کہ یہ دعوت بدقسمت سپاہیوں کے خون سے منعقد کی گئی ہے نہ کہ افسروں اور کمانڈروں کی جیبوں سے۔


کچھ دنوں بعد بریگیڈ کمانڈر نے مجھ سے  "کرخہ کور" کے پانی اور اس کے پینے کے قابل ہونے کا جائزہ لینے کے لئے لیفٹیننٹ "مظہر" کے ساتھ تعاون کرنے کو کہا۔  ایسا لگ رہا تھا کے فوجی کمانڈرز پانی کی صفائی کے لیے اس دریا پر ایک مشین لگانا چاہتے تھے تاکہ فورسز کیلئے بصرہ سے پانی لانے میں جو وقت صرف ہوتا ہے اسے بچایا جا سکے۔ 


میں اور یہ جنگی- انجینئرنگ آفیسر ایک جیپ میں دریائے کرخہ کے لیے روانہ ہوئے۔  "احمد آباد" گاؤں کے قریب ہم نے بہت سارا پانی دیکھا جو دریا کے کنارے جمع تھا۔ پانی بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور اس نے ہماری اور سوسنگرد کا دفاع کرنے والی ایرانی فورسز کے بیچ ایک رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔  دریا کا پانی بظاہر شفاف، لذیذ اور پینے کے قابل تھا اور اسے صرف سادہ سی صفائی کی ضرورت تھی۔ ہم نے ایک سپاہی کو دریا کے بیچ بھیجا،  دریا کا عرض پانچ سے چھ میٹر تھا۔  وہ ہمارے لیے تھوڑا پانی لایا اور ہم اس پانی کو ایک بوتل میں ڈال کر ضروری ٹیسٹ کے لئے اپنے ساتھ لے آئے۔  ہم نے دریا کے آس پاس خالی گھروں کا بھی دورہ کیا۔  اسی دوران ہم نے ایک روسی M-25  ہیلی کاپٹر کا ملبہ دیکھا جو 5 جنوری 1981 ء کی لڑائیوں کے دوران گرا تھا۔ 


بظاہر یہ ہیلی کاپٹر پیادہ اور بکتربند یونٹس کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔  ہیلی کاپٹر کے ٹکڑے اس کے گرنے کی جگہ سے 10 میٹر کے فاصلے تک بکھرے ہوئے تھے۔ تباہ شدہ ٹکڑوں میں سے بعض میں ابھی بھی گولہ بارود، اینٹی آرمر اور اینٹی پرسنل میزائلز موجود تھے۔  میں نے لیفٹیننٹ "مظہر" سے پوچھا کہ یہ ہیلی کاپٹر کیسے گرا؟


  اس نے کہا: "وہ درخت دیکھ رہے ہو؟" 


 میں نے کہا: "ہاں! وہ بیری کا درخت ہے جو دریا کے کنارے ہے۔" 


 اس نے کہا: "سوسنگرد کی 5 جنوری کی لڑائی کے دوران ایک ایرانی فوجی اس درخت کے نیچے چھپ گیا تھا اور جب اس نے دیکھا کہ یہ ہیلی کاپٹر ایک دوسرے ہیلی کاپٹر کے ساتھ ایرانی فورسز کا پیچھا کر رہا ہے تو اس نے آر-پی-جی فائر کر کے اسے تباہ کر دیا، لیکن وہ خود اور دوسرے کچھ فوجی، دوسرے ہیلی کاپٹر کی فائرنگ سے مارے گئے۔ 


میں اس درخت کے قریب گیا اور ایرانی فوجیوں کی قبریں دیکھیں۔  تقریباً دوپہر کا وقت تھا، لیفٹیننٹ "مظہر" نے مچھلیوں کے شکار کے لئے کچھ ڈائنامائیٹ دریا میں پھینکے مگر کچھ  چھوٹی مچھلیوں کے علاوہ کوئی بڑا شکار اس کے ہاتھ نہ آیا۔ 


ہم بریگیڈ کیمپ واپس آگئے۔  انہوں نے پانی کا نمونہ لے کر ایک سرکاری خط کے ساتھ الرشید ملٹری اسپتال کی لیبارٹری بھجوا دیا۔ دو ہفتے بعد انہوں نے رپورٹ دی کہ پانی آلودہ ہے اور پینے کے قابل نہیں ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ انہیں اس پانی پر بھروسہ نہیں تھا جس کا منبع ایرانی فورسز کے کنٹرول میں تھا اور وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں یہ پانی زہر یا جان لیوا جراثیموں سے آلودہ نہ ہو۔  کچھ ہفتوں بعد فوجیوں کے لیے ایک حکم جاری کیا گیا جس میں اس پانی کو پینے، اس میں نہانے اور کپڑے دھونے کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔  اس کے علاوہ  لیفٹیننٹ "مظہر" نے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی اور فوری طور پر بریگیڈ کمانڈر نے ہیلی کاپٹر کے ملبے سے کارآمد آلات اور کام کے گولہ بارود کو نکالنے کا حکم دیا۔  ان آلات اور گولہ بارود کو بریگیڈ کی انجینئرنگ کمپنی نے تین دن بعد بصرہ منتقل کر دیا۔ 


جاری ہے۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2265



http://oral-history.ir/?page=post&id=9377