حکومت کے بائیکاٹ کے لئے دعائے توسل کا اہتمام

مترجم: سید مقدس حسین نقوی

2020-07-16


امام خمینی ؒ کے ملک بدری کے زمانے میں، میں جمعرات اور جمعہ کے دن مرحوم آیت اللہ صدر کے فرزند آقا رضا صدر اور حاج سید حسن قمی کے درس اخلاق میں شرکت کرتا تھا۔

آقا رضا صدر کے دروس میں سے ایک درس میں شرکت کی تو وہ تاریخ صدر اسلام ، حضرت علی علیہ السلام کی خانہ نشینی اور واقعہ فدک کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے۔ جب وہ اس مقام پر پہنچے که جس وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اپنے حق کے خاطر لڑنا دشوار ہوچکا تو انھوں نے حکومت کا ایک نئے انداز سے مقابلہ کیا، آپ ہر روز بیٹھ کر گریہ فرماتیں۔ ان کی یہ گفتگو، باعث بنی کہ ہم بھی اس کام کو انجام دیں؛ کیونکہ امام کے ملک بدر کیے جانے پر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے تھے لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم لڑ نہیں سکتے تو حکومت کا کسی اور انداز میں مقابلہ کریں۔ہم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی طرح بیٹھ کر گریہ نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا دوستوں سے مشورہ کیا اور فیصلہ کیا گیا کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم میں  مسجد بالاسر میں دعائے توسل کا اهتمام کیا جائے۔

 دعائے توسل کے انعقاد کے لئے میں کچھ دیر پہلے ہی مسجد بالاسر پہنچ گیا۔ جب باقی لوگ بھی آگئےتو دعائے توسل شروع کر دی۔ جب دعا ختم ہوئی تو کچھ دعائیں مانگیں اور یوں پہلی رات کا دعائیہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ دوسری رات دعائے توسل کے اختتام پر عربی زبان مین اپنی مرتب کی ہوئی کچھ دعائیں مانگیں جن میں امام کا نام بھی شامل تھا  اور اسی طریقے سے تیسری اور چوتھی رات بھی ۔۔۔ یہ سلسلہ اسی طریقے سے جاری رہا۔اور اب ایسا ہوتا کہ آقا نجفی کی نماز جماعت کے بعد تمام طالب علم اس مقام پر جمع ہو جاتے اور دعا کا آغاز کر دیا جاتا۔آہستہ آہستہ کچھ بڑی شخصیات بھی جلسے میں شرکت کرنے لگیں۔ اب دعا کا طریقہ کار بھی اس طرح ہو چکا تھا کہ پہلے میں دعا شروع کرتا جب دعا میں موسی بن جعفر علیہ السلام کا ذکر ہوتا ایک شخص امام علیہ السلام کے مصائب پڑھتا اور اس کے بعد دعا کا اختتام کیا جاتا۔ اور آخر میں عربی زبان میں دعا مانگتا اور جن افراد نے امام کو گرفتار کیا تھا ان پر لعنت کرتا۔ اس کے بعد کچھ یوں ہوا کہ اس کی خبر حکومت کے خفیہ اداروں تک پہنچ گئی۔ کیونکہ اعلانیہ طور پر دعا کے جلسے کو ختم نہیں کر سکتے تھے، لہذا جو افراد دعا میں شرکت کے لئے آتے ان کو گرفتار کیا جاتا۔ اور میں جو دعا کا آغاز اور اختتام کرتا تھا۔ اس غرض سے کہ میں  پہچانا نہ جاؤں،دعا کے دوران ایک بلب کے نیچے کھڑا ہوتا تاکہ اس کی روشنی میری عینک پر پڑے اور میرا چہرہ مشخص نہ ہو پائے۔ اور جب دعا اختتام پذیر ہوتی اور امام زمانہ (عج) کا نام آتا تو تمام لوگ امام علیہ السلام  پر سلام بھیجنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور میں بیٹھ جاتا اور لوگوں کے ہجوم میں سے گزرتا ہوا فرار کر جاتا۔اس کے بعد جب مدرسے پہنچتا تو خبر پہنچتی کہ کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ پھر معمول بن گیا کہ دعا پڑھنے کے الزام میں، کچھ افراد کو گرفتار کر لیا جاتا اور ایک رات حراست میں رکھنے کے بعد جب مطمئن ہوجاتے کہ یہ ان افراد میں سے نہیں ہیں تو انھیں آزاد کردیا جاتا تھا ۔جب اس طریقے سے دعا پر پابندی لگانا ممکن نہ ہوا تو اس کو روکنے کے لیے حرم کے دروازے بند کر دیے گئے۔لہذا ہم حرم کے صحن میں وارد ہوئے اور حرم کے دروازے کے ساتھ بیٹھ گئے۔ جب طالب علموں  اور لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ دعا اس جگہ منعقد کی جا رہی ہے تو سب شامل ہوجاتے اور دعا شروع کر دی جاتی۔ ایک دو راتوں کے بعد پھر سے یہ لوگ آئے اور قالین بھی اٹھا کر لے گئے لیکن سردی کے باوجود ہم بغیر قالین کے دعا کا اهتمام کرتے. کچھ راتوں کے بعد دوبارہ آئے اور ہمارے بیٹھنے کی جگہ پر پانی گرادیا تاکہ کوئی نہ بیٹھ سکے اس کے باوجود بھی ہم کسی اور جگہ کا انتخاب کرتے جو خشک ہوتی وہاں بیٹھ جاتے۔ اس طرح اس دعا کا انعقاد حکومت کے خلاف ایک حربہ ثابت ہوا۔ جس جگہ بھی ہم بیٹھتے اور دعا کا اهتمام کرتے باقی لوگ بھی آجاتے، دعا شروع ہوجاتی اور ہوشیار رہتے کہ ہمیں گرفتار نہ کر لیں۔یہاں تک کہ ایک دفعہ میں نے عمامہ تبدیل کر کے، کالا عمامہ اپنے سر پر رکھا اور  وہاں سے چلا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد چھٹیوں کے دوران انھوں نے وہاں پر ایک دیوار بنا ڈالی جو بعد میں مناسب نہ لگنے کی بنا پر گرا دی۔ ہم پھر صحن میں آگئے اور اب تو سردیاں بھی ختم ہو چکیں تھی۔


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 2425



http://oral-history.ir/?page=post&id=9343