ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، تیرہواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2020-07-09


ہندوستان قیام کے پہلے ہی ماہ مہدی شدید بیمار ہو گیا۔ اس کی بیماری تو سادہ نوعیت کی تھی لیکن اس نے اتنا طول پکڑا کہ زچ ہو گئی۔ مہدی روز بروز کمزور ہوتا جاتا تھا میں اس کی زرد رنگت دیکھ کر کڑھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتی تھی۔ علی روز اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتامگر مرض بڑھتا جاتا تھا اور دوا اثر نہ کرتی تھی۔ مہدی میری آنکھوں کے سامنے گھلا جا تا تھا۔ بچپنے کی شرارتیں  کرنے اور باتیں بنانے کے بجائے بے حال ایک کونے میں پڑا رہتا۔ کمزوری اور مسلسل لیٹنے رہنے  کے باعث اس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں  کے پاس کھال پر زخم پڑ گئے تھے جن کے نشان مہدی کے صحت یاب ہونے بعد بھی کافی عرصہ تک اس کے جسم پر رہے۔ میرا کام صرف رونا اور دعا کرنا رہ گیا تھا۔ علی کی حالت بھی مجھ سے بہتر نہ تھی وہ بھی ہر وقت پریشان رہتا  اور اندر ہی اندر گھلتا رہتا تھا منہ سے کچھ نہ بولتا اور مجھے بھی تسلیاں دیتا رہتا۔ میں صبح سے رات تک مہدی کے تپتے بدن کو سینے سے لگائے آنسو بہاتی رہتی تھی۔ جیسے ہی بچہ میں کوئی حرکت پیدا ہوتی میں اس کی جانب دوڑ پڑتی کیونکہ مہدی میں رونے یا چلانے کی سکت باقی نہ تھی۔  علی بھی بہت کمزور ہوگیا تھا اور میں تو رو رو کر ہلکان ہو ہی چکی تھی  میں تو آنسو بہا لیتی تھی مگر علی خاموش رہتا تھا۔ ہمارے گرد و نواح کے لوگ بھی پریشان تھے  اور ہم پر ترس کھاتے تھے۔ ان کی تچ تچ، پچ پچ کی آوازیں صاف بتاتی تھیں کہ وہ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔ میرے بار بار پوچھنے پر اور قسمیں دینے پر انہوں نے بتایا کہ مہدی کوڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے  اور اب مہدی کے بچنے کی امید باقی نہیں رہی ہے۔ میرا سر منوں وزنی ہو گیا اور جسم ٹھنڈا پڑ گیا مجھے کہاں یقین تھا کہ ایک معمولی سی بیماری مہدی کو ہم سے چھین سکتی ہے۔ میں نے چادر سر پر ڈالی اور سیدھی علی کے دفتر جا پہنچی۔ علی دوسرے ملازمین سے علیحدہ ایک کونے میں افسردہ و پژمردہ بیٹھا تھا۔ وہ اشتیاق اور وہ قوت جو اس میں مہدی کی بیماری سے قبل تھی اب باقی نہ تھی۔ میں اطراف و جوانب سے بے خبر گریہ و زاری کرتے ہوئے ایک ٹانگ پر کھڑی علی سے التماس کر رہی تھی کہ ایک بار مجھے خود ڈاکٹر سے ملنے دے۔ میرا ڈاکٹر سے ملنا تھا کہ مہدی کی بیماری کا سرا مل گیا۔ جب ڈاکٹر نے مجھ سے سوالات کئے تو معلوم ہوا کہ مہدی کے لئے غلط دوا تجویز ہوئی تھی اور یہ اسی دوا کا ردِ عمل[1] تھا جو مہدی کی الٹیاں اور دست نہ رکتے تھے اور یوں مہدی کا علاج نئے سرے سے شروع ہوا۔

کچھ دن بعد علی کے ساتھی علی سے  کہتے تھے:

-جب مہدی مریض تھا اور تم مسلسل ڈاکٹر کے چکر کاٹ رہے تھے اوار مہدی کے بچنے کی امید نہ تھی تو ہم یہی سوچتے تھے کہ خدا نخواستہ مہدی کو کچھ ہو گیا تو ہم تمہیں ایران واپس کس منہ سے بھیجیں گے۔

مہدی اس قدر کمزور ہو گیا تھا چند لمحے بھی کھڑا نہ ہو سکتا تھا حتیٰ کہ اس کو کپڑے بدلنے کے لئے بھی کھڑا کرتی وہ پیلا پڑ جاتا  اور میری گود میں گر پڑتا اور میں اپنے آنسو نہ روک پاتی ۔ شب و روز کی اس گریہ زاری سے میری آنکھیں سوج گئیں تھیں اور ہر وقت لال رہتی تھیں۔ دوسرے لوگ بھی میری حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے ۔ مہمان خانہ ہمیں سونپ دیا گیا تھا تاکہ مہدی کی بہتر دیکھ بھال ہو سکے۔ باغیچے کے عقب میں  نماز خانہ تھا اس کے اوپر مہمانوں کا کمرہ بنا ہوا تھا۔ نماز خانہ کے ساتھ ہی ایک گول زینہ تھا جس پر  آہنی جالیاں نصب تھیں یہ زینہ مہمان خانہ کو جاتا تھا۔ کمروں کے سامنے ایک مہین سی راہ داری تھی جو اس زینہ سے ملی ہوئی تھی۔  ایک دن مہدی کو حمام لے کر جارہی تھی بے دھیانی میں کمرے کا دروازہ بند کرنا بھول گئی اب جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو فہمیہ گھٹنیوں چلتی چلتی  سیٹرھیوں تک پہنچ گئی اور جالی سے سر باہر نکال کر نیچے جھانکتی ہے۔ میں سرپٹ دوڑی اور اس کو کمر سے پکڑ اٹھایا، ایک لمحے کی دیر ہو جاتی تو موصوفہ نیچے گر چکی ہوتیں۔ شدید اعصابی تناو نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی اور میں نے آو دیکھا نہ تاو بچوں کو کمرے میں بند کرکے  علی کی آفس چلی گئی  اور یہ دیکھے بغیر کہ وہ آفس میں ہے اور کیا کر رہا ہے مہدی کی بیماری سے لے کر اب تک تمام سختیاں جن کو میں برداشت کر چکی تھی ایک سانس کہہ ڈالیں اور واپس آ گئی۔ میں فہیمہ کو گو د میں  لئے آنسو بہا رہی تھی اور اس کے نیچے گر جانے کا سوچ سوچ کر میری روح تک کانپ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد علی بھی آ گیا مگر وہ خاموش تھا، شاید اس لئے کہ میں اپنے حال میں واپس آ جاوں۔

-میں ہر چیز برداشت کر سکتی ہوں مگر بچوں کو ضرر پہنچے یہ میری برداشت سے باہر ہے۔

میں نے شکایتوں کا پنڈورا کھول دیا اور اپنی خستگی کا رونا رونے لگی اور علی کی غیر موجودگی میں اپنے تنہا رہ جانے کا تذکرہ کرنے لگی۔ میں نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا

-اگر میری نظر نہ پڑتی تو آج فہیمہ سیڑھیوں سے نیچے گر گئی ہوتی۔

علی سر جھکائے سب باتیں سنے جا رہا تھا۔

-میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ روزانہ کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو بچوں کی دیکھ بھال میں میرا ہاتھ بٹاو تاکہ آئندہ ایسا کوئی دلخراش واقعہ رونما نہ ہو۔ مہدی کی بیماری کے بعد اب مجھ میں طاقت نہیں ہے  کہ اکیلے سب کام کر سکوں۔

علی کو بھی ہر بات کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے وہ چپ چاپ سب کچھ سن رہا تھا اس نے ایک حرف تک نہ کہا تاکہ میں اپنے دل کی

بھڑاس نکال کر ٹھنڈی پڑ جاوں۔

انہی دنوں ادارہ کے افسروں میں سے کوئی ہندوستان آیا تاکہ تحصیل علم کے مراحل کا جائزہ لے سکے۔ ہندوستان کی فضا ان کو متاثر نہ کر سکی یہ بات الگ مگر وہ ہماری دگرگوں حالت دیکھ کر کافی شرمندہ ہوئے۔

دو تین ماہ بعد علی خانہ فرہنگ کا باقاعدہ ملازم ہوگیا۔ شاید علی کی تنخواہ دوسے ملازمین سے کافی کم تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ روز مرہ کی ضروریات پوری ہو سکیں اور ہم اس قابل ہوئے کہ ایک گھر کرایہ پر لے سکیں ۔ میں نے اٹیچی اٹھائی یعنی اپنا تمام مال و متاع اکھٹا کیا اور مال برداری کرکے نئے گھر آ گئے۔ ہمارے نئے گھر کا صحن گلابی پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ دوپہر کے وقت درختوں کے پتے ہمارے آنگن کی گرم ہوا میں اڑتے پھرتے تھے۔ عام طور پر ہندوستانی گھروں میں باغیچہ ضرور ہوتا تھا۔ مالک مکان پہلی منزل پر رہتے تھے وہ شام کے وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ صحن میں آجاتے تھے اور سب ساتھ بیٹھ کر گپیں لگاتے تھے۔ ان آوازیں سن کر مجھے ایران کی شامیں یاد آجاتیں اور میں تصور میں ایران چلی جاتی

 

[1] Side effect



 
صارفین کی تعداد: 2725



http://oral-history.ir/?page=post&id=9326