تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – اٹھائیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-07-09


محاذ پر زندگی بہت تھکا دینے والی اور بورنگ تھی۔  مجھے لگ رہا تھا جیسے میری گھڑی کی سوئیاں آہستہ آہستہ چل رہی ہیں۔ ان دنوں میری روزمرہ کی سرگرمیاں اپنی خندق، آرام کی خندق، افسروں کے ساتھ کھانا کھانے اور دوسری خندقوں میں آنے جانے تک محدود تھیں۔  عام طور پر میں اپنے فارغ اوقات دوسروں سے گفتگو کرنے، مطالعہ کرنے اور ریڈیو پروگرامز سننے میں گزارتا تھا۔  میرے دو خوش مزاج، کرد زبان پڑوسی تھے۔ ان میں سے ایک آپریشن آفیسر، میجر جنرل "نوری" کا ڈرائیور اور دوسرا اس کا ملازم تھا۔  دونوں کا تعلق سلیمانیہ سے تھا اور وه اپنے آپ کو واپس لوٹے ہوئے کرد کہتے تھے۔  یہ دونوں مرکزی حکومت کے خلاف شمال کی 1974ء  میں ہونے والی جنگ میں شریک تھے اور ایران کے نابود شدہ شاہ کی صدام سے مصالحت کے بعد ایران سے عراق واپس آ گئے تھے۔  اس وقت کردوں کے اس گروہ کی سروس بک میں لکھا گیا:  "فوجی اور احتیاطی سروس سے مستثنیٰ اور قومی صفوں میں شامل۔" لیکن جنگ سے چند ماہ قبل انہیں سروس کے لیے طلب کیا گیا،  جو ہمارے خیال میں بالکل عام بات تھی۔  جب ان کردوں کو فوج میں شامل کیا گیا تو عدم اعتماد کی وجہ سے نہ انہیں اسلحہ اور گولا بارود دیا گیا اور نہ ہی انہیں اہم اور حساس مقامات پر تعینات کیا گیا،  بلکہ ان سے کہا گیا کہ فوج میں صرف مقرر کردہ سروسز انجام دیں۔  اسی وجہ سے میرے ان دونوں پڑوسیوں کے دلوں میں حکومت کے لیے کینہ تھا۔ وہ دونوں اپنا دل ان خوبصورت کبوتروں سے بہلاتے تھے جو پڑوس کے گاؤں سے لائے گئے تھے اور ایک پنجرے میں ان کی خندق کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔  جب بھی میں ان کبوتروں کو دیکھتا تو مجھے اپنے حالات یاد آجاتے اور میں اپنے آپ سے کہتا: مجھے ایک ڈاکٹر کو جو دوستی اور محبت کی علامت ہوتا ہے زبردستی محاذ پر لایا گیا ہے اور یہ کبوتر بھی جو امن اور صلح کی علامت ہوتے ہیں،  اپنی مرضی کے خلاف میدان جنگ میں لائے گئے ہیں۔ وہ دونوں کرد ان خوبصورت پرندوں پر حد سے زیادہ توجہ دیتے اور ان کا خیال رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود مجھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی قید اور محاذ پر موجودگی سے خوش نہیں ہیں۔ 

کچھ دن بعد میں نے اپنے ہمیشہ کے رجوع کرنے والوں یعنی بیماری کی چھٹیوں کے طلبگار اور سکون اور نیند کی گولیوں کے عادی افراد سے ملاقات کی۔  سب لوگ اس ڈیپارٹمنٹ سے مسلسل رجوع کرتے رہتے تھے سوائے ایک پچاس سالہ وارنٹ آفیسر کے جو عام طور پر راتوں کو میرے پاس آتا تھا۔  پچاس سالہ وارنٹ آفیسر اندرونی اضطراب اور کبھی کبھار پاگل پن کی مشکل میں مبتلا تھا۔ وہ ایک دن اس وقت میرے پاس آیا جب ان دو کردوں میں سے ایک میرے پاس کھڑا تھا۔  وہ اپنی ہمیشہ کی دوا لے کر چلا گیا۔  میرے دوست نے میری طرف منہ کرکے کہا: " اس بے چارے کی بیماری لاعلاج ہے۔"

 میں نے پوچھا: "کیسے؟"

اس نے کہا: "جنگ کے اوائل میں وہ ایک گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پچھتاوے اور ندامت کے عذاب میں مبتلا ہے۔"  

 میں نے کہا: " صحیح سے بتاؤ کیا ہوا تھا۔"

 اس نے کہا: "ٹھیک ہے میں مختصر طور پر بتاتا ہوں۔  جنگ کے اوائل میں جب ہماری بریگیڈ  نے اہواز-خرم شہر ہائی وے پر قبضہ کرلیا اور اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا،  ایرانی اس بات سے بے خبر اسی ہائی وے کے ذریعے خرم شہر سے اہواز فرار ہو رہے تھے۔   لیفٹیننٹ کرنل "محمد جواد شیتنہ" نے کچھ افراد کو اس ہائی وے پر تعینات کیا تاکہ وہ لوگ اسلحے اور فوجی اہلکاروں کو ڈھونڈنے کے لیے خرم شہر سے اہواز کی جانب فرار ہونے والی نجی گاڑیوں کی تلاشی لیں۔  یہ آدمی تلاشی  لینے والی ٹیم میں شامل تھا۔  اس دن ایک نجی "ولوو" گاڑی پہنچی۔ اس گاڑی کو ایک خاتون چلا رہی تھی اور اس کے برابر میں ایک چھوٹا بچہ اور ایک چھوٹی بچی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔  خاتون نے بھی روکنے کے لئے گاڑی کی رفتار آہستہ آہستہ کم کرنا شروع کی۔  گاڑی رکنے سے پہلے ہی ڈگی کھلی اور اس میں سے دو مسلح افراد باہر کودے، ان میں سے ایک کے ہاتھ میں جی تھری  اور دوسرے کے ہاتھ میں آر پی جی-7 تھا۔  اسی وارنٹ آفیسر نے گاڑی کی جانب اندھادھن فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ دو بے گناہ بچے مارے گئے اور فائرنگ کے تبادلے کے دوران وہ دو مسلح افراد دریائے کارون کی جانب فرار ہو گئے۔  ہمارے دو آدمی بھی زخمی ہوئے۔  مشکل اس وقت پیش آئی جب گولیاں گاڑی کی دیواروں کو چیر کر ڈرائیور اور اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بچوں کے جسموں میں پیوست ہوگئیں۔  ایک دم سے ان کے جسم سے خون کے فوارے نکلے اور وہ سرکٹی مرغی کی طرح پھڑپھڑانے لگے۔  یہ ایک بہت زیادہ تکلیف دہ اور رقت آمیز منظر تھا۔  یہاں تک کہ ہمارے لوگ حواس باختہ ہوگئے اور انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ اس علاقے کی خواتین اس حادثے کو دیکھ کر سخت گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے سینوں اور چہروں کو پیٹنے لگیں اور انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔  اس منظر نے حادثے کی شدت کو اور بڑھا دیا۔  یہ خبر کمانڈر تک پہنچی۔  کمانڈر فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا اور اس نے بچوں کی لاشوں کو گاڑی سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔ شدید غمگین خواتین نے لاشوں کے ہاتھ پاؤں پکڑ لیے تاکہ انہیں لاشیں نہ لے جانے دیں لیکن فوجیوں نے زبردستی انہیں لے لیا۔  اسی دوران کمانڈر نے ان خواتین کو اہواز جانے کی دھمکی دی۔ وہ خواتین ٹوٹے ہوئے دلوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ  اس علاقے کو چھوڑ کر چلی گئیں۔  کمانڈر نے ہمیں لاشوں کو دفن کرنے اور کسی سے اس واقعے کا ذکر نہ کرنے کا حکم دیا۔"

میرے دوست نے اپنی گفتگو میں مزید کہا: " میں نے اور کچھ فوجیوں نے لاشوں کو رضاکارانہ طور پر اہواز جانے والے ہائی وے کے کنارے دفنا دیا۔  یہ وارنٹ آفیسر اسی دن سے اپنے حواس کھو بیٹھا کیونکہ ان بچوں کا بھوت اسی وقت سے اس کا پیچھا کررہا ہے۔"

میں نے اپنے دوست کی طرف منہ کرکے کہا: " خدا کی قسم میں اس کا علاج نہیں کرسکتا مگر یہ کہ خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو۔  صرف خدا ہی اسے معاف کر کے شفا دے سکتا ہے۔"

اس دن کے بعد سے میں نے کئی مرتبہ طبی اور مذہبی امور کے بارے میں اس سے گفتگو کی اور بارگاہ الٰہی  میں استغفار کرنے کی تشویق دلائی تاکہ وہ ٹھیک ہو سکے، لیکن میں کامیاب نہ ہوسکا۔  اسے ایک نیورولوجسٹ کے پاس بھیجنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

بریگیڈ کیمپ میں دو ہفتے کے قیام کے بعد میں نے دوائیاں اور طبی سازوسامان لانے کے لیے فیلڈ میڈیکل یونٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم صبح سویرے روانہ ہوئے اور ساز و سامان لاد کر شام کے وقت بریگیڈ کے "پ" کیمپ واپس پہنچے۔   سارجنٹ "یوسف"ایمبولینس چلا رہا تھا۔   ہم نے بریگیڈ کیمپ پر ختم ہونے والے روڈ پر سفر کیا جو ریگستان کے بیچ میں مٹی کا ایک روڈ تھا۔ ہم وقتا فوقتا گاؤں کے خالی گھروں کے پاس سے گزر رہے تھے. یہاں تک کہ ہم تین مٹی کے گھروں تک پہنچے۔  مویشیوں، کتوں اور کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اب بھی وہاں کچھ لوگ آباد ہیں۔   ہم رکے۔ انہوں نے ہم سے کھانا، سگریٹ اور پیٹرول طلب کیا۔  درد اور حیرت ان کے چہروں سے عیاں تھے۔  وہاں کچھ بچے تھے جو ننگے پاؤں اور پھٹے ہوئے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔  ان کی آنکھوں کی حالت سے غربت، بھوک اور بیماری کا احساس ہوتا تھا۔ میں نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو سگریٹ، کھانا اور کھانے کے کچھ ٹن دے دے۔ اسی وقت تین خواتین باہر آئیں اور بچوں کے ساتھ شامل ہو گئیں اور دوبارہ وہی چیزیں طلب کرنے لگیں۔ وہ لوگ خوزستان کے عرب تھے جنہوں نے بعثیوں سے دھوکا کھایا تھا اور وہ عراق کے فوجی یونٹس کے پیچھے آباد تھے۔ جنگ کے طولانی ہونے اور پانی کے منقطع ہوجانے کی وجہ سے ان کے مویشی کمزور سے کمزور تر ہوچکے تھے اور اس بیابان میں ان کا اناج بھی ختم ہو چکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے افسران حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے مویشی کم ترین قیمت پر خریدتے تھے۔ اس طرح سے کہ ہر دنبہ  پانچ دینار میں خریدتے تھے اور بصرہ کے بازاروں میں پچاس دینار میں بیچا کرتے تھے۔  ان لوگوں کی ضرورتوں کو ایک حد تک پورا کرنے کے بعد ہم تیزی سے اپنے منزل کی جانب روانہ ہوئے اور گاؤں "سید خلف" پہنچے۔

جاری ہے۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2326



http://oral-history.ir/?page=post&id=9325